السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
طلاق سکران
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بخدمت فیض درجت مولانا ابو طاہر صاحب بہاری عم فیضہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ عرض ہے کہ ایک استفسار حضور کی خدمت شریف میں ارسال ہے۔ اس کا جواب تحریر فرماکر اور موامیر سے مزین فرما کرکے بذریعہ اخبار اہلحدیث کے شائع فرمایئں غایت ممنون ہوگا امید ہے کہ اس عرض کو میرے ضرور قبول فرمایئں گے۔
سوال۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں ایک شخص تاڑی پی کر اس قدر بے ہوش وبے خبر ہوگیا کہ بلاسبب اثنائے کلام میں اپنی بیوی کو کہا کہ تو میری ماں کے برابر ہے۔ تجھے میں نے طلاق دیا۔ اس مضمون کو تین بار بلکہ زائد کہا اور جب ہوش ہو ا اور لوگوں نے کہا کہ تونے طلاق دیا ہے۔ یہ سن کر اس نے سخت انکار کیا۔ اور کہا کہ ہم نے ہر گز طلاق نہیں دیاہے۔ پس فقہائے حنفیہ کی تحقیق کے موافق ایسے شخص کی طلاق واقع ہوگی۔ یا نہیں۔ اور ظہار بھی واقع ہوگا یا نہیں بینوا بالدلیل توجروا عند الجلیل ۔ السائل۔ غلام رسول بھینسا سوری بہاری عفی عنہ
الجواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاۃ!
سکران یعنی نشہ والے کی طلاق کے وقوع میں علمائے حنفیہ میں اختلاف ہے ایک گروہ قائل ہے کہ سکران کی طلاق واقع ہوگی۔ اور ایک گروہ کا یہ مذہب ہے۔ کہ سکران کی طلاق واقع نہ ہوگی۔ امام طحاوی اور امام کرخی جو اکابر علمائے احناف سے ہیں۔ ان دونوں نے عدم وقوع طلاق کو اخیتار کیا ہے۔ در مختار میں ہے۔
ولم يرفع الشافعي طلاق سكران واختاره الطحاوي والكرخي
ترجمہ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ کہ نشہ والے کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ اور امام کرخیرحمۃ اللہ علیہ نے اور فتاویٰ تار تار خانیہ میں تفرید سے نقل کیا ہے کہ اسی قول پر احناف کا فتویٰ ہے اسی قول مختار کے تحت میں علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ وکذا محمد بن سلمۃ وھو قول زفر یعنی محمد بن سلمہ حنفی نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید امام زفر کا بھی یہی قول ہے ۔ اور کفایہ شرح ہدایہ میں لکھا ہے۔
ولو شربه من الاشربة التي تتخذ من الحبوب او من العسل وسكر وطلق امراته لا يقع طلاقه عنه ابي حنيفه وابي يوسف رحمها الله تعاليٰ
ترجمہ۔ اگر کوئی شخص اس قسم کی شراب پئے جو حبوبات اورشہد سے بنائی جاتی ہے۔ اور نشہ ہوجائے۔ پھر اپنی عورت کو طلاق دے اس کی طلاق امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک واقع نہ ہوگی۔ اورباتفاق احناف تاڑی اقسام خمر سے نہیں ہے۔ اسی واسطے اس کے قلیل اور کثیر پر ایک حکم نہیں ہے۔ ااورہدایہ کی شرح فتح القدیر میں ہے۔
قال بعدم وقوعه القاسم بن محمد وطائوس وربيعة بن عبد الرحمٰن ولليث واسحاق بن راهويه وابو ثوروزفر وقد زكرنا ه عن عثمان رضي الله عنه وروي ابن عباس رضي الله عنه وهو المختار الكرخي والطحاوي محمد بن سلمة من مشائخنا ووجهه ان اقل ما يصح التصرف معه وان كان حكمه مما يتعلق بمجرد لفظه القصد الصحيح او مظنة وليس له ذالك وهو اسوا حالا من النائم لانه اذا ادقظ يستقيظ بخلاف السكران وصار كزواله بالبنج والد هوا لا فيون وكون زواله عقله بسبب هو معصية لا اثرله والا صحت ردته انتهي
ترجمہ۔ اورسکران کی طلاق واقع نہ ہونے قائل ہوئے ہیں قاسم بن محمد اور طائوس اور ربعیہ بن عبد لرحمان اور لیث اور اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابو ثور اور امام زفر اور ہم نے اسی قول کونقل کیاہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی مروی ہے۔ اور اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ ہمارے مشائخ میں سے امام کرخیرحمۃ اللہ علیہ اور امام طحاویرحمۃ اللہ علیہ اور محمد بن مسلمہ نے اس کا سبب یہ ہے کہ اقل درجہ اس کا یہ ہے کہ صحیح ہو تصرف ساتھ اس کے اگرچہ ہے۔ حکم اس قسم میں ہے کہ ج تعلق رکھتا ہے۔ ساتھ مجرد لفظ قصد صحیح کے یا گمان کے اور حال یہ ہے کہ سکران کو یہ وصف حاصل نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا حال تائم سے برا ہے کیونکہ تائم جب جگایا جانا ہے تو جاگتا ہے بخلاف سکران کے پس یہ صورت ہوگئی مثل اس صورت کے کہ ذائل ہو۔ عقل بھنگ اوردوسری قسم کی دوا سے جیسے افیون وغیرہ اور ا س کی عقل کا ذوال ایسے سبب سے ہوا ہے جو عین معصیت ہے۔ جس کا کوئی اثر نہیں اور اگر طلاق صحیح ہو تو مرتد ہونا بھی صحیح ہوگا۔ حالانکہ سکران کا اتداد معتبر نہیں ہے۔ یہ سب روایتیں کتب فقہ میں ہیں۔ اور انہیں روایتوں کی تایئد کرتی ہے درایت۔
حدیث صحیح میں ہے۔ رفع القلم عن ثلث الخ۔ یعنی تین شخصوں سے احکام شرع مرتفع ہیں ایک سونے والا۔ دوسرا نابالغ۔ تیسرا مغلوب العقل اور یہ ظاہر ہے کہ سکر کامل سالب عقل ومزیل حواس ہے۔ پس مرفوع القلم میں محسوب ہوگا۔ او ر طلاق تو بقول شارع المباحات میں سے ہے۔ پس اس کے ارتفاع کی صورت کو عدم ارتفاع پر ترجیح ہوگی۔ علاوہ برین سکران کے وقوع طلاق اور عدم وقوع طلاق کا مسئلہ اجتہادی ہے۔ کہ مجتہدوں نے اس امر میں اختلاف کیا ہے۔ اور اجتہادی مسائل کی نسبت حضرت مخدوم شرف الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ خوان پر نعمت کی مجلس ششم میں فرماتے ہیں اما نا چیز ہے درحڈ مجتہد فیہ است وخلق در آں مبتلا اشدہ اندر برخلق اندراں دشوار نہ گیز ند چنانچہآسان خلق باشد رودراں چیز حکم بدال کنند پھر چند سطر کے بعد فرماتے ہیں۔ ہرچہ اجتہاد اوراں مدخل ست نقوی بروجھے نیو پسند کہ خلق را آسان باشد وحربے بدیشاں نرسد واین حکم ازقرآن ثابت است
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ ﴿٧٨﴾سورة الحج....
پس حسب تحقیق حضرت مخدوم بہاری بخیال سہولت ودفع حرج فتوی عدم وقوع طلاق پردینا چاہیے۔ جیسا کہ امام کرخیرحمۃ اللہ علیہ اور امام طحاویرحمۃ اللہ علیہ اور اما م زفر وغیرہ کا مسلک ہے۔ اور جب طلاق واقع نہ ہوئی تو ظہار کا لفظ بھی لغو دلائل ہے۔
یہ تو ان عزیز کے سوال کاجواب ہے۔ اس پر مہر دستخط کرکے تمہارے لکھنے کے موافق اخبار اہلحدیث میں روانہ کردیتا ہوں۔ شائع کرنا فاضل امرت سری ایڈیٹر اخبار اہلحدیث کے اختیار میں ہے۔ میرا کام جو تھا میں نے کردیا۔ فقط۔ حررہ محمد ابو طاہر مدرس اول مدرسہ احمدیہ آرہ(10 جولائی 1914 ء اہلحدیث امرتسر)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب