السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فتویٰ بابت نکاح بیوگان
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پید ا کیا۔ اور زمین پر اپنا خلیفہ بنایا اور ان کی اولاد سے زمین کو آباد فرمایا جیسا کہ آیت شریفہ میں ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ ﴿١﴾سورة النساء...
ترجمہ۔ ’’(تمہارے رب نے) تم کو ایک شخص سے پیدا کیا۔ (اول ) اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے بہت مرد اور عورت (پیدا کرکے زمین پر) پھیلادیا۔‘‘
دوسرے مقام میں فرمایا۔
وَاللَّـهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً ﴿٧٢﴾سورة النحل....
ترجمہ۔ اور اللہ نے تمہارے لئے تم میں سے بیبیاں بنایئں اور تمہارے لئے تمہاری بیبیوں سے بیٹے اور پوتے بنائے۔ ''
اور نسل انسانی کے بڑھتے رہنے کو بغیر زوجہ والے مردوں ااور بغیر شوہر والی عورتوں کا نکاح اور بیان کردینے کا حکم فرمایا۔
وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ ﴿٣٢﴾سورة النور....
اور اپنی قوم کے بے زوجہ والے مردوں اور بے شوہر والی عورتوں کا نکاح کردو۔ اور اپنے نیک غلام اور لونڈیوں کانکاح کردو۔ اگرچہ یہ حکم وجوب کےلئے نہیں ہے۔ استحبابی حکم ہے۔ لیکن جوانی کی حالت میں مرد اور عورت دونوں ہی کے حق میں مجرد رہنا بہت فتنوں کا باعث ہوتاہے۔ عرض یہ کہ جوان کا مجرد مفید نہیں ہے۔ بلکہ مضر ہے۔ اس لئے بہت ضروری ہے۔ کہ جوان عورت بے شوہر کے نہ رہے اور مرد بھی مجرد نہ رہے۔
کنواری عورتوں کا سن جب زیادہ ہوجاتا ہے۔ تو ا س کے ولی اور اہل قرابت اس کی شادی میں توقف ہونے کے سبب سے بے چین رہتے ہیں۔ لیکن جوان بیوہ کی شادی کردینے کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوتی۔ حالانکہ کنواری جوان عورت کے اعتبار سے جوان بیوہ کو بے نکاح ثانی کے اٹھائے رکھنا زیادہ خطرناک ہے ناجائز تعلق سے بچے رہنے کے ساتھ دوسرے بُرے افعال میں پڑے رہنے کا اندیشہ اور خطرہ ہی نہیں ہے۔ بلکہ اکثر واقع ہوتاہے۔ جس سے صحت خراب ہوجاتی ہے۔ اس لئے جوان بیوہ عورتوں کے ولیوں کوچاہیے کہ اس کا نکاح کردیں۔
چونکہ ہندوں کے رسم ورواج کودیکھ کر مسلمانوں کی عورتوں اور جاہل مردوں نے بھی بیوہ کے عقد ثانی کو برا اور معیوب سمجھ لیا ہے۔ بیوہ کو عقد ثانی پر رضا مندکرنا تھوڑا مشکل ہوگیا ہے۔ ولیوں کوچاہیے کہ نکاح ثانی کی مصلحت اور ضرورت کو عام فہم اور نرم الفاظ میں سمجھایئں اور سختی اور در سختی نہ کریں۔ معقول طرح سے مکرر سہ کرسمجانے پر رضا مند ہوجانے کی امید ہے۔
بیوہ عورتوں میں جو مالدار یا کھانے پینے میں خوش ہیں۔ اکثرآذادی اور خوشحالی کے سبب ہے گناہوں میں پڑ جاتی ہیں۔ اگر یہ نکاح کرلیں۔ تو آذادی کے بُرے نتائج سے حفظ وامان میں رہ کر نہایت خوش زندگی بسر کریں۔ اور جن کی معاش کی صورت نہیں ہے۔ وہ نوکری کر کے اپنی روزی حاصل کرتی ہیں۔ جس کے گھر نوکری کرتی ہیں۔ وہاں صاحب خانہ اور اس کے عزیزوں کے بار بار مکان کے اندر آنے کی وجہ سے مصیبت ذدہ بیوہ نوکرہونے کی حیثیت سے صاحب خانہ پر اعتراض کرکے اپنے پردے کو برقرار نہیں رکھ سکتیں۔ پھر بے پردہ بکثرت رو برو ہونے اور محل بے محل کی آمدو رفت کی ملاقات کا نتیجہ بُرا ہوتا ہے اور رسوائی تک پہنچاتا ہے۔ بے معاش عورتیں اگردایہ گری کی قسم کی نوکری یا در بدر سائلی کے عوض کسی صاحب روزگار خوشحال مرد سے نکاح کرلیں تو نوکری کی ذلت اور بے پردگی کے بُرے نتائج سے حفظ وامان میں رہیں۔ اور ان کی تنگدستی دور ہوجائے اور خوش حالی ہوجائے۔
اللہ تعالیٰ نے جس آیت شریفہ میں وانكحوا الاياميٰ فرمايا ہے۔ ا س کے آخر میں اس کی مصلحت کو بھی فرمادیا ہے۔ ان يكونوا فقراء يغنهم الله من فضله(ترجمہ۔ اگر وہ مفلس ہوں گے تو خدا ن کو اپنے فضل سے خوشحال کردے گا۔
اگر کسی مرد یا بیوہ کی غربت اور محتاجی سے لوگ اس سے نکاح کرنے کی خواہش مندنہ ہوں نکاح کا سامان نہ ہو تو وہ پاکدامنی کے ساتھ صبرکرے۔ اللہ تعالیٰ اس کا سامان کردے گا۔ اور اس کی غربت اور محتاجی کودور کردے گا۔ جیسا کہ فرمایا۔
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ﴿٣٣﴾سورة النور...
ترجمہ۔ ’’کہ پاکدامنی کریں جو نکاح کا سامان نہیں پاتے۔ یہاں تک کہ ان کو خوشحال کردے اللہ اپنے فضل وکرم سے۔‘‘
اوپر کے بیان سے ظاہر اور واضح ہے۔ کہ نکاح بہترین مصلحت ہے۔ اور جب تک نکاح کا سامان نہ ہو پاکدامنی برقرار رکھناچاہیے۔ یہی صورت فلاح اور خوش حالی کی ہے۔
جس بیوہ کا سن زیادہ ہوگیا ہو۔ او راولاد کی امید نہ رکھتی ہو۔ وہ عقد ثانی اگر نہ کرے۔ تو اس سے کسی طرح کا اندیشہ نہیں ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمادیا ہے۔
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۗ ﴿٦٠﴾....
ترجمہ۔ ’’اور بیٹھ رہنے والی عورتیں جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں۔ ان پر حرج نہیں کہ اپنے کپڑے اتاردیں۔ (یعنی چادر وغیرہ ذائد کپڑے۔ اگر مردوں کے رو برو بھی اتاردیں تو کوئی حرج نہیں۔ ظاہر نہ کرنے والی ہوں زینت کوا اور یہ کہ عفت چاہیں تو ان کے لئے بہتر ہے‘‘
(محمد بدر الدین پھلواری امیرشریعت صوبہ بہار داڑیسہ ) (اہلحدیث 14 ر بیع الاول 1341ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب