السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص باوجود مستطیع ہونے کے ماما نہیں رکھتا اپنی بیوی کو مجبور کرتا ہے۔ کہ وہ گھر کا کام کرے۔ اور اپنی عورت کو جبراً ظلم سے اپنے بھائی بہن کے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ حالانکہ اس عورت کا ایک ذاتی مکان موجود ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میرے مکان میں چل کررہو۔ مگر وہ ظلم سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ براہ کرام جناب والا شرع شریف سے جواب عنایت فرمایئں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مرد کو کمانا اورعورت کو گھر کے کام سپرد ہیں۔
ولمراة راعية في بيت زوجها مرد کو ایک طرح کی عورت پر افسری ہے۔ الرجال قوامون علي النساءاس لئے مرد جہاں عورت کو رکھے۔ عورت وہاں رہے تا وقت یہ کہ کوئی شرع عذر نہ ہو۔ انکار نہ کرے۔ ہاں گھر والوں پر خرچ حسب حیثیت کرنے کا حکم لينفق ذو سعة من سعته اس لئے اگر ماما رکھنے کی توفیق ہے۔ تو رکھے۔ (اہلحدیث 24 جمادی الثانی 1342ہجری)
(از مولوی ابوالقاسم صاحب سیف بنارسی)
اخبار اہلحدیث مورخہ یکم فروری ص10 فتاویٰ کالم سوال نمبر 76 ایک شخص اپنی بیوی کو مجبور کرتا ہے۔ کہ گھر کا کام کرے۔ کے جواب میں آپ نے ارقام فرمایا ہے۔ کہ مرد کو کمانا اور عورت کو گھر کے کام سپرد ہیں۔ اس میں مجھے کچھ کلا م ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح میں اس مسئلے کے متعلق دو حدیثیں لائے ہیں۔ ایک آپﷺ کی بیویوں کے بیان میں ہے۔ کہ ارسلت ذينب فيها طعام بيد الخادم (پ11) دوسری حدیث ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قصہ میں زکرفرمائی۔
قالت اسماء ارسل الی ابو بکر بعد ذلک بخادم تکفيني الخ (ب٢١)
ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتاہے کہ شوہر کو گھر کے کام کےلئے ایک نوکر رکھنا ضروری ہے۔ اگر شوہر غیر مستطیع ہو تو لڑکی کا والد کادم بھیج دے اسی لیے امام بخاریرحمۃ اللہ علیہ ''کتاب النفقات'' میں ابواب منعقد فرماتے ہیں۔
باب خادم ال مراه وباب خدمة الرجل في اهله
ان دونوں کے ماتحت علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں لکھتے ہیں۔
اما ان تجبرالمراة علي شي من الخدمة فلا اصل له بل الاجماع منعقد علي ان الذوج مونة الزوجه كلها (ص ٢٨٨ ب٢٢)
یعنی بیوی کو کسی خدمت پر مجبور نہیں کیا جاسکتا بلکہ شوہر کے زمہ بیوی کی تمام خدمتیں ہیں ہاں اگر شوہر تنگ دست ہو اور بیوی اپنی خوشی سے گھر کا کام کاج کرے تو جائز ہے۔ اس کےلئے امام بخاریرحمۃ اللہ علیہ نے علیحدہ بات منعقد فرمایا ہے۔
باب عمل المراة في زوجها امام مالك رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ اذا كان الزوج معسر اتلزم المراة (فتح ٢٣٧ ب٢٢) لیکن ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ انها تطوعت ولم يكن لا زما (فتح الباري ص ١٤١ پ21)فقط
بنا ء نکاح یہ ہے۔ کہ میاں بیوی زندگی کی کشتی کو مل کر کنارے تک پہنچایئں ۔ هن لباس لكم وانتم لباس لهن کامفہوم یہی ہے۔ خاوند اگر فرا خدست ہے تو حسب حیثیت اور تنگ دست ہے۔ توحسب حیثیت خرچ کرے۔
لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّـهُ ۚ ﴿٧﴾سورة الطلاق....
یعنی دونوں حسب حیثیت خرچ کریں۔ اسی لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ باب عمل المراۃ فی بیت زوجھا'' میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث لائے ہیں۔ جس میں موصوفہ کی گھر کے کاموں میں تکلیف پانے اور حضور ﷺکی خدمت میں شکایت اور درخواست خادم کا ذکر ہے۔ مگر جواب میں حضور ﷺ نے ان کے خاوند کو خادم رکھنے کا حکم دیا نہ آپ نے خادم دیا بلکہ صبر کے ساتھ تسبیح تکبیر وغیرہ پڑھنے کا ارشاد فرمایا۔ معلوم ہوا کہ تنگی کی حالت میں خادم رکھنا نہ خاوند پرفرض ہے۔ نہ کسی وارث پرواللہ تعالیٰ اعلم۔
از مولوی نور محمد صاحب حیدر آبادی وغیرہ
اہلحدیث 17 جمادی الثانی میں بجواب نمبر 28 لکھا گیا ہے۔ کہ حنفیہ کرام کے نزدیک نکاح حلالہ میں ملاپ شرط نہیں ۔ صحیح نہیں۔
اس جواب میں بے شک سہو ہوگیا ہے۔ لکھتے وقت کتب اصول کا مبحث خاص ذہن میں تھا جو حتی تنکح سے متعلق ہے۔ اس لئے بصد شکریہ تعاقب تسلیم حنفیہ بھی حدیث عسیلہ کو مشہور دیا۔ یا بمنزلہ مشہور تسلیم کرکے ملاپ کوشرط قرار دیتے ہیں۔ (اہلحدیث امرتسر 9 رجب 1343ہجری)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب