السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک بندہ حج تمتع کرنا چاہتا ہے۔ اس نے شوال کے مہینے میں حج تمتع کی نیت سے عمرہ کیا تا کہ اس کو حج کا عمرہ نہ کرنا پڑے۔ جبکہ وہ بندہ مکہ مکرمہ سے دوردراز اپنے شہر میں واپس آگیا ہے۔ کیا اس کا یہ عمرہ حج کے لیے کافی ہو گا، یااس کو دوبارہ عمرہ کرنا پڑے گا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔ ؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!حج تمتع کا مطلب ہے کہ آپ حج کے سفر میں ہی عمرہ کرنے کا بھی فائدہ اٹھا لیں۔ اگر کوئی شخص عمرہ کرنے کے بعد اپنے وطن واپس لوٹ آتا ہے تو گویا اس نے اپنے اس ایک سفرمیں دو چیزوں سے استفادہ نہیں کیا۔ لہذا اس کی پہلی نیت منقطع ہوگئی۔ اب اگر وہ حج پر جانا چاہتا ہے تو اسے اختیار ہے کہ وہ (مفرد،قران اور تمتع سمیت) حج کی جس قسم کو پسند کرتا ہے ،اسے ادا کر لے۔ پہلے سفر والا اس کا عمرہ ایک مستقل عمرہ اپنی جگہ قائم رہے گا۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتاویٰ ثنائیہجلد 2 |