السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرح متین مسئلہ مندرجہ زیل میں۔ کہ ہندہ کی عمر چار برس کی ہے۔ ہندہ کی ماں ہے۔ اور علاقائی بھائی ہیں۔ اور ایک حقیقی بھائی ہے۔ جو کہ ہندہ سے بھی عمر میں چھوٹا ہے۔ ہندہ کے علاقائی بھائی ہندہ سے کسی طرح کا کینہ اور بغض نہیں رکھتے۔ بلکہ ہندہ سے بحرحال برتائو سلوک محبت کا رکھتے ہیں۔ ہندہ کی ماں نے اپنی ذاتی غرض ومطلب حاصل کرنے کےلئے ہندہ کو اس کے علاقی بھایئوں کی اطلاع کے بغیر کسی دوسری بستی میں جو کہ چار میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اپنے بھائی کے مکان پر لے جاکر بکر نامی ایک لڑکے سے شادی یعنی نکاح کرادیا۔ نکاح ہوجانے کے بعد ہند ہ کے علاقی بھائیوں کواطلاع ہوئی۔ ہندہ کے بھائی لوگ بکر سے نکاح ہونے پر راضی نہیں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ علاقی بھایئوں کی موجودگی میں ماں کا خود ولی بن کر ہندہ کا نکاح کرادینا یا کہ ماں کا کسی اجنبی شخص کو ولی قرار دے کر ہندہ کا نکاح کرادینا ازروئے شریعت محمدیہ جائز ہے یا نہیں۔ ؟بینوا توجروا
المستفتی عبد العزیز موضع پیکوڑا۔ ضلع مرشد آباد
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وھوالموفق للصدق والصواب۔ نکاح بغیر ولی کے غیر صحیح ہے۔
قال الله تعالي ولا تنكحوا المشركين حتي يومنوا
۔ ترجمہ۔ اے اولیا ء مومنہ عورتوں کا نکاح مشرکوں سے مت کرو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجایئں۔ اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے۔ کہ نکاح کے لئے ولایت کی ضرورت ہوتی ہے۔
وفي حديث عائشه ان النبي صلي الله عليه وسلم قال ايما امراه نكحت بغير اذن وليها فنكاحها طاطل ثلث مرات
’’یعنی جو عورت اپنا نکاح خود کرلے۔ تو نکاح اس کا باطل ہے۔ تین مرتبہ تاکیدا فرمایا۔‘‘
امام محمد اسماعیل بخاریرحمۃ اللہ علیہ نے ایک باب منعقد کیا ہے۔ اور آیات واحادیث سے اس امر کو ثابت کیا ہے کہ بغیر ولی کے نکاح درست نہیں ہے۔ کتاب النکاح ص 169 مطبوعہ
مصر باب من قال لا نكاح الا بولي لقول الله تعاليٰ فلاتضلوهن فدخل فيه الشيب وكذالك البكر وقال لا تنكحوا المشركين حتي يومنو ا وقال وانكحوا الايامي منكم
اس باب کے متعلق ارشاد الساری صحیح بخاری معروف بہ قسطلانی میں ہے۔
فلا تعضلوهن اي لا تحبسوهن ولی کو خظاب ہے۔ کہ اپنے مولیا کو نکاح س نہ روکے۔
وفيه ايضا قال امامنا الشافعي ان هذه الاية اصرح دليل علي اعتبار الولي والا بما كان لعضله
یعنی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ آیت اعتبار ولی کے لئے واضح دلیل ہے۔ ورنہ عضل کے معنی بے کار ہوگا۔ اس سے واضح ہوا کہ اگر ولی کوئی شے نہیں ہوتا۔ تو پھر نکاح سے روکنے کا اس کو اختیار کیونکر ہوتا۔ اس لئے نکاح کےلئے ولایت لابدی قرار پائی ہے۔
وفي حديث ابن ماجه المرفوع لاتزوج للمراه المراه ولا المراة نفسها
ابن ماجہ کی مرفوع حدیث کہ عورت کا نکاح عورت نہ کرےاور عورت اپنا نکاح خود بھی نہ کرے۔وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ اور فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ
میں اولیاء کی طرف خطاب ہے۔ جیساکہ اس آیت کا شان نزول ہے۔ معقل بن یسار کی بہن جمیلہ کو ان کے شوہر (ابی البراح بن عاصم) نے طلاق دیا تھا۔ جب عدت پوری ہوگئی۔ تو پھر ان کے شوہر نے تجدید نکاح کرانا چاہا اور جمیلہ بھی راضی ہوگیئں۔ مگر معقل بن یسا رنے جو جمیلہ کے ولی تھے۔ تجدید نکاح سے منع کیا۔ کہ اب اور نکاح نہیں کریں گے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا ۔ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ۔ اس بنا پرآیت دلیل ہے۔ کہ عورت اپنا نکاح خود نہیں کرسکتی۔ کیونکہ اگر اپنے نکاح پر قادر ہوتی تو عضل کا معنے لغو ہوجاتا الحاصل ہندہ کی ماں ہندہ کا نکاح بلا اجازت ہندہ کے علاقائی بھائی کے ازروئے شریعت کے نہیں کر سکتی۔ کیونکہ حق ولایت بھائی کو ہے۔ ماں توشرعاً ولایت ووکالت کا حق نہیں رکھتی۔ کما تقدم فی حدیث ابن ماجہ۔ اور اگر ہندہ کی ماں نے کسی دوسرے اجنبی شخص کو ولی قرار دے کر ہندہ کا نکاح پڑھوایا ہے۔ تو بھی یہ نکاح شرعا ً صحیح نہیں بلکہ باطل ہے۔ کیونکہ حدیث میں آیا ہے۔ السلطان ولی من الاولی لہ ۔ یعنی ولی محرومی کی صورت دوسرے شخص کو ولی کیا جاسکتا ہے۔
صورت مسئولہ میں تو ہندہ کا ولی ہندہ کے علاقی بھائی زندہ موجود ہیں۔ اور مانع از نکاح بھی نہیں۔ ہر مسلمان متبع شریعت پرواجب ہے۔ کہ حقدار کو حق سپرد کرے۔ چنانچہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے۔ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا ۔ اور حق دار ہوتے ہوئے حقدار کو حق نہ دینا یہ شیوہ اخیار کا نہیں اشرار کا ہے۔ چنانچہ فرمایا رسول اللہﷺنے
اذا اصعيت الامانات وفي رواية اذا سدا الامرالي غير اهله فانتظر المساعة هذا ماعندي والله اعلم وعلمه اتم
(کتبہ ابو نوراالدین محمد شمس الدین احمد مدرس مدرسہ اسلامیہ (المرقوم 13 پھاگن۔ 1347بنگلہ) نیا جیرا مپور جنگی پور مرشد آباد۔
1۔ نکاح مذکور صحیح نہیں ہواہے۔ راقم ابو الفضل محمد عباس عفی عنہ موضع ایچھا خالی۔
2۔ الجواب۔ صحیح۔ والرای نجیح ابو الفضل محمد امید اللہ عفی عنہ ساکن را مدراس ٹولی
3۔ ہذا الجواب صحیح محمد تمیز الدین مالدھی
4۔ الجواب الصحیح۔ محمد انیس الرحمٰن جنگی پوری
5۔ ھذ النکاح لیس بصحیح۔ بحکم قرآن وحدیث (راقم محمد زین الدین عفی عنہ۔ مدرس مدرسہ شیشہ رمضان پور)
7۔ ما قالہ المجیب فھو حری بالقبول وخلافہ حلاف الشرع محمد سلیمان عفی عنہ۔ چکلہ لال گولہ۔ مرشدآباد مورخہ 3 مئی 41ء)
8۔ مجیب نے جو کچھ لکھا ہے۔ کہ بغیر ولی کے نکاح صحیح نہیں یہ جواب صحیح ہے۔ (محمد عبد الروف عفی عن چکلہ لال گولہ مرشد آباد 3 مئی 41ء)
9۔ من اجاب فقد اصاب۔ محمد منیرالدین الوزی کان لالہ لہ۔
10۔ من اجاب فقد اصاب ۔ محمد ادریس عفی عنہ قاضل پوری۔ مدرس مدرسہ نور الھدی بھگوان مرشد آباد 3 مئی 41ء)
11۔ حذ الجوا ب صحیح ولمجیب نجیح۔ محمد انیس الرحمان انوری وقاص جنگی پوری
13۔ جواب صحیح ہے۔ محمد یسٰ دولیح پوری۔
14۔ مجیب کا جواب بالصواب ہے محمد مظہر حسین مدرسہ نجم الدین شیخ علی پور لال گولہ مرشد آباد)
15۔ مجیب کی تحقیق بہت صحیح ہے۔ محمد عین الدین دولیھ پوری
16۔ یہ جواب موئد بالسنۃ والکتاب ہے۔ ابو خلیل محمد اسماعیل دیبی نگری مالدہی۔
17۔ یہ مسئلہ کتاب وسنت سے ثابت اور مبرہن ہے محمد رفعت اللہ دیبی نگری مالدہی
18۔ مجیب کاجواب قابل تسلیم ہے۔ محمد عزیز الرحمٰن عفی عنہ مدرس مدرسہ ڈانگا پاڑا مرشد آباد
19۔ الجواب صحیح لاشک فیہ۔ (محمد مدرس مدرسہ چکلہ)
20۔ مجیب نے جواب صحیح لکھا ہے۔ محمد سمیر الدین عفا للہ عنہ پیکوڑا دی۔
21۔ یہ جواب بہت صحیح ہے۔ ابو نجم الدین محمد سیف اللہ فی الحال مقیم باگڈانگا۔
22۔ مجیب کا جواب موافق قرآن وحدیث ہے محمد ایوب عفا للہ عنہ لشکر ہاٹی۔
23۔ مجیب نے جواب ٹھیک لکھا ہے۔ محمد سمیر رام نگری۔
24۔ جواب۔ صحیح ہے۔ محمد انیس الرحمٰن رام نگری۔
25۔ یہ جواب صحیح ہے۔ محمد نصیر الدین شاہ آبادی۔
26۔ ھذ الجواب صحیح حسن محمد۔ ۔ ۔ ساکن جوڑ گچھا
27۔ جو جواب مجیب نے دیا ہے۔ بہت صحیح ہے۔ ابو المحمدود محمد دائود ہر ی پوری۔
28۔ مجیب کا جواب کتاب وسنت سے ثابت اور مدلل ہے۔ (کتبہ ابو القاسم محمد مظفر حسین فی عنہ رام نگری۔
29۔ جواب صحیح ہے۔ ازروئے حدیث عورت نکاح کی ولی نہیں ہوسکتی۔ (ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری۔ )
30۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ لا تزوج المراۃ المراہ (ابن ماجہ) العبد المجانی محمد عبد اللہ فانی ۔ امرتسری۔ )
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب