السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اہلحدیث دو اگست کے پرچے میں بصفھۃ فتویٰ ایک سوال نمبر 301 تھا۔ جس کا خلاصہ مطلب تھا کہ ایک شخص نے سخت غصہ کی حالت میں اپنی عورت کو یہ کہا۔ ''تو میری ماں بہن ہے۔ اگر میں تم کو رکھو تو جیسا اپنی بہن کو رکھوں گا۔ زیور وغیرہ اتار لئے اس کے بعد پھر عورت کو لاناچاہتا ہے۔ کیاعورت مذکورہ اس کے گھر جاسکتی ہے۔ ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جواب دیا تھا کہ حالت مذکورہ غصہ کی حالت ہے۔ اس میں طلاق(1) ہوگی چونکہ مغلظ نہیں۔ اس لئے نکاح جدید سے رہ سکتی ہے۔ امرت سرکے ایک حنفی اخبار میں اس پر سوال کیا گیا ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں۔
’’مہربانی فرما کر اس جواب کی سند قرآن وحدیث سے بیان کریں فقہاء نے اس کو مکروہ سمجھا ہے۔ اور ابو دائود کی حدیث میں بھی کراہیت آئی ہے۔ لیکن طلاق کا واقع ہونا معلوم نہیں آپ نے کس دلیل سے اخذ کیا ہے۔ ‘‘ہدایہ میں ہے۔
ولو قال انت علي مثل امي يرجع الي نيته ان قال اردت الطلاق فهو طلاق بائن
یعنی جو کوئی بیوی کو ماں کی طرح کہہ کر طلاق کی نیت کرے۔ تو وہ طلاق بائن ہوگی۔ اس سے تھوڑا پہلے صاحب ہدایہ نے ماں کے ساتھ بہن پھوپھی خالہ وغیرہ کو بھی شامل کیا ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ عورت کوماں بہن کی طرح کہہ کر پکارنے سے طلاق ہو سکتی ہے۔
لانه تشبيه بالام في الحرمة فكانه قال انت علي حرام ونووي به الطلاق
اب رہا نیت کا ثبوت تو حالت غیض وغضب ہی سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ کہ ہر مرد کو عورت کی علحدگی منظور ہے۔ یعنی معنی طلاق کے ہیں۔ ابو دائود کی حدیث نقل کریں گے تو غور کیا جائے گا۔
---------------------------------------
1۔ سوال کے الفاظ مذکورہ مجمل ہیں تصریح کسی قسم کی بنیں ہاں معنوی لہاظ سے اقرب الی الظہار ہیں اور نیت طلاق کی بھی ہوسکتی ہے مگر نیت کو متلکلم کے سوا اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ہاں غیظ وغضب میں قرینہ طلاق کا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ظہار سے بے خبری کی حالت میں طلاق ہی ظاہر ہے (ابوسعید شرف الدین)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب