السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص نے تنہائی میں محض اپنی زوجہ کے روبرو قسم کھائی کہ میں تجھ سے آئندہ ہم صحبت نہ ہوں گا۔ بعدہ ایک ضروری سفر کے واسطے شوہر کو جانا پڑا اور بعد عرصہ کے واپس آیا اور بددستور ظن وشوہر کے تعلقات جاری ہوگئے۔ بروقت قسم کھانے کے مسئلہ ایلاء اور ظہار سے شوہر اور نیز زوجہ ناواقف محض تھے۔ زوجہ کو جب اس مسئلے سے آگاہی ہوئی۔ تو اس نے شوہر سے کل حال بیان کیا۔ اب شوہر قسم کھانے سے منکر ہے۔ اور اس کا قول یہ ہے کہ اگر بفرض محال کھائی بھی تھی۔ تو فورا رجعت کرلی تھی۔ شوہر مذکور کی اکثر جھوٹی قسم کھانے کی عادت ہے۔ زوجہ اگر علیحدہ ہوناچاہتی ہے۔ تو وہ بازو کادعویٰ کر کے وصو ل کرلیتا ہے۔ زمانہ حال میں کوئی قاضی وقت نہیں جو اس مسئلے کوطے کرے۔ اور حقیقت میں خاوند کی نیت کسی طور پر طلاق دینے کی نہ تھی۔ مذید براآں کوئی دیگر شخص ایسی عورت سے نکاح نہیں کرتا۔ کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ اس کا شوہر موجود ہے۔ اب جناب سے یہ مسئلہ دریافت کیا جاتا ہے۔ کہ اب ایسی حالت میں شرع کا کیاحکم ہے۔ آیا طلاق قابل رجعت ہوگئی ہے یا نہیں اور اگر ہوگئی تو عورت گناہ گار ہوتی ہے یا نہیں؟چونکہ اس کا خاوند اس کو کسی طرح سے نہیں چھوڑتا۔ اور اگر گناہ گار بھی ہوتی ہے تو اس کو کیاکرنا چاہیے کہ وہ گناہ گار نہ ہو۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مرقومہ ایلا ہے۔ قرآن مجید میں ایلا کا حکم یوں آیا ہے۔
لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ فَإِن فَاءُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٢٢٦﴾ سورة البقرة......
اس آیت کے مطابق چار ماہ کے اندر اندر خاوند رجوع کرسکتا ہے۔ قسم کا کفارہ مرد پر ہے۔ عورت پرنہیں چار ماہ گزرجانے پر عورت علیحدہ ہوجائے گی۔ عورت مقدمہ سے ڈرتی ہے۔ تواپنے ضلع کے جج صاحب کے پاس درخواست فسخ نکاح کی دیوے جج صاحب شرعی فتوے کے مطابق نکاح فسخ کردیں گے۔ تو بے خطر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب