سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(269) زید بحالت غربت اٹھایئس سال ہوئے تین بھائی چھوڑ کر مفقود الخبر ہے..الخ

  • 6861
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1202

سوال

(269) زید بحالت غربت اٹھایئس سال ہوئے تین بھائی چھوڑ کر مفقود الخبر ہے..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید بحالت غربت اٹھایئس سال ہوئے تین بھائی چھوڑ کر مفقود الخبر ہے۔ صورت اس کی مفقودی کی یہ ہوئی۔ کے بغیر کسی لڑائی جھگڑے یا فساد کے یا کسی طرح کے ناراضگی کے گھر سے سفر پر چلاگیا۔ پھر باوجود تلاش کے کوئی پتہ نہ ملا۔ اس کے نو سال نکلنے کے بعد زید کا ایک بھائی ایک بیٹا۔ بیٹیاں چھوڑ کرمرگیا۔ پھر دوسرا بھائی بھی گیاراں سال کے بعد اولاد نرینہ ادنیہ چھوڑ کر مرگیا۔ اس وقت زید کاایک بھائی اور دو بھایئوں کی اولاد موجود ہے۔ اور زید اسی طرح مفقود الخبر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا زید کا مال تقسیم ہوسکتا ہے یا نہیں؟اگر ہوسکتا ہے تو کس طرح بینواتوجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اقول لا حول ولا قوة الا بالله العزيز الحكيم مفقود الخبر کی زوجہ کے متعلق خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بیتے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ ہاں یہ ہے کہ چار سال انتظار کرنے کے بعد بحکم قاضی دوسری جگہ (عدت متوفاۃ کی گزارکر)نکاح کرے۔ نیز تابعین امام نخعیرحمۃ اللہ علیہ  وعطائ مکحول وشعبی وزہری رحم اللہ کے نزدیک بھی فتویٰ ہے اوران حضرات کا مفقود کی بیوی کو عدت وفات کا فتویٰ دینا بتلانا ہے۔ کے مفقود کوچار سال کے بعد متوفی مقرر کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ چار سال کے بعد اس کا میراث بھی تقسیم کیا جاوے۔ لیکن فقہائے حنفیہ کا فتویٰ ان کی بیوی اور میراث دونوں کی نسبت مختلف ہے۔ فتاویٰ بزازیہ کتاب الفرائض میں ہے۔

وقت ابو حنيفه بروايه الحسن عنه مائة وعشرين سنة وقال بعضهم بتسعين وبعضهم بسبعين وقال بعضهم مركولالي راي القاضي فاذا مضت المدة ورنه من كان حيا من ورثه

یعنی حسن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت کرتے ہیں۔ کے انھوں نے مفقود کےلئے اس کی ولادت سے ایک سو بیس سال مقرر کئے اور ابو یوسف نے سو سال روایت کئے۔ اور بعض فقہاء نے نوے سال کا فتویٰ دیا۔ اور بعض نے ستر سال کا اورفقہائے حنفیہ نے کہاکہ قاضی کی رائے پر سپرد ہے۔ سو جب یہ مدت ختم ہوگی۔ اس وقت اس کے وارثوں میں سے جو زندہ ہوں گے وہی وارث ہوں گے۔

اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  نے جو بہت سے مسائل میں سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے موافق ہوا کرتے ہیں۔ اس مسئلہ میں تفصیل کی ہے۔ فقہائے حنابلہ کے ہاں جس طرح مقنع لابن قدامہ میں ہے۔

اذا انقطع خبره الغيبة ظاهرها السلامة كالتجارة ونحوها انتظربها تمم تسعين سنة من يوم ولد وعنه ينظر به ابدا وان كان ظاهرها هكذا كالذي يفقد من بين اهله اوفي مفازة مهلكه او في البحرا اذا اغرفت سفينه انتظر به تمام اربع سنين ثم تقسم ماله

یعنی جب آدمی کی خبر کسی ایسی غیبو بت سے نہ ملے۔ کہ جس کاظاہر سلامتی ہے جیسے تجارت وغیرہ میں جانا تو اس کی ولادت سے نوے سال انتظار کی جاوے اور ایک روایتج میں یہ ہے۔ کہ ہمیشہ انتظار کرتے رہیں گے۔ اور اگر طاہر ھر جانا ہو جیسے وہ شخص کہ اپنے گھر میں سے ہی گم ہوجاوے (جیسے ہماری مسئولہ صورت ہے)یاکسی مہلک جنگل کوگیا ہویادریاپرسوار ہوا ہے۔ اور اس کی کشتی غرق ہوگئی ہے تو ان تمام صورتوں میں ) پورے چار سال انتظار کریں گے پھر اس کا مال تقسیم کیا جائے گا۔

خلاصۃ المرام۔ نکہ زید مفقود الخبر ہذا کو اس کے نکلنے کے وقت سے چار سالل بعد متوفی مقرر کیا جاوے گا۔ جس طرح کی مقنع فقہ حنبلی میں مسئلہ کی ت تفصیل بتلائی ہے اور فتاوی بزازیہ فقہ حنفی میں بعض فقہائے حنفیہ کا قول بیان کیا ہے۔ اور اس کے متروکہ کو اس کے ہرسہ بھایئوں پر برابر تقسیم کیاجائے گا۔ پھر زید کے دو متوفی بھایئوں کی طرف سے دونوں کی نرینہ مادینہ کو ''للذكر مثل حظ الانثيين’’دیاجائے گا۔ کنز الحقائق فی فقہ خبر الخلائق میں ہے۔

وتقسم ماله بعد اربع سنين فان قدم بعدالقسمه اخذ ماوجده بعينه ورجع بالباقي علي من اخذه

یعنی چار سال بعد اس کا مال تقسیم کردیا جائے گا۔ پھر اگر بانٹے جانے کے بعد آجاوے۔ تو جو اس کے متروکہ میں اس کی خاص چیز موجود ہوگی۔ وہ لے لے گا اور باقی لینے والے سے واپس لے لے گا۔ ہذا واللہ اعلم۔

نیز مولوی عبد الحئی صاحب لکھنوی حنفی المذہب نے جو قریب زمانہ کے اجل علماء میں سے ہیں۔ اپنے فتاویٰ میں ایک صاحب کے سوال کےجواب میں لکھتے ہیں۔

وزهب جمع منهم الي جواز الزوج بعد اربع سنين وتربص اربعه اشهر وعشرا اخرج ابن ابي شيبة وعبدالرازاق والدار قطني ومالك في الموطا بطرق متعدده عن عمر بن الخطاب وروي عبدالرزاق عن ابن عمر وابن عباس مثله وبه قالت المالكيه وغيرهم وهو قوي من حديث الدليل واصول الحنفية الهينا تقضي الافتاء به فان قول الصحابي في ما لا يعقل بالراي في حكم المرفوع عندهم فان جزم جواز الحنفيه ايضا الافتاء به في موضع الضرورة كمافي جامع الرموز بعد زكر مذهب مالك فلو افتي به في موضع الضروره ينبغي ان لاباس به في ما اظن وزكر ابن وهبان في منظومة انه لو اختي بي في موضع الضرورة انتهي ومثله في ردا المختار وغيره

خلاصہ ترجمہ اس کا یہ ہے۔ کہ علمائے حنفیہ کے قواعد کا متقضی یہ ہے کہ بحالت ضرورت غیر مذہب کا جو دلیل میں قوی ہوا س پر فتویٰ دیناجائز ہے۔ کیونکہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول اس مسئلے میں جو کہ رائے سے نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ آپﷺ کے فرمان کے حکم میں ہے۔ پس بے شک ضرورت کے مقام میں اس پرحنفیہ نے فتویٰ دینا جائز رکھا ہے۔ جس طرح کے مالک رحمۃ اللہ علیہ  کا زکر کرنے کے بعد جامع الرموز میں زکرکیا ہے۔ سو میرے گمان میں بھی مقام ضرورت ہیں۔ اس پر فتویٰ دینادرست ہے۔ اور ابن حبان فقیہ حنفی نے بھی اپنے منظومہ قصیدے میں اس طرح کا ذکر کیا ہے۔ اور شامی رد المختار وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے انتھی۔

اور اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ مفقود کی عورت کو عدت وفات گزارنے کے بعد نکاح ثانی کرنے کا حکم بھی بتلاتا ہے۔ کہ چار سال کے بعد مفقود کو فوت شدہ مقرر کرنا ہے۔ جس کا اثر یہ ہے کہ اس کا ترکہ تقسیم کرنا درست ہوگا۔ اورچار سال گزارنے کے بعد جتنے وارث اس کے زندہ ہوں گے۔ وہی وارث ہوں گے۔ واللہ اعلم

(حررہ عبد التواب ملتانی ۔ الجواب صحیح عبدالغفار ۔ المجیب مصیب عبد الرشید عفاللہ عنہ)

نقل فتویٰ مولوی عبدا لحق صاحب ملتانی

جو شخص مفقود الخبر ہے۔ جس کو عرصہ اٹھایئس سال کا گزر گیا اس کی خبر نہیں کہ وہ زندہ ہے یامردہ تو اس کے مال کے متعلق فیصلہ شرعیہ یہ ہے کہ جومال اس کے ضائع ہونے کا محتمل ہے اس میں تو بطور ضمانت جیسے لقطہ (پائی ہوئی چیز میں)ہوتا ہے تصرف کرناجائز ہے۔ یعنی جوشخص اسے اپنے تصور میں لادے۔ بعد اس کے پھر آجانے کے ادا کرنا پڑے گا۔ اور جو مال ضائع ہونے کا محتمل نہ ہو۔ اس کو جوں کا توں رکھناچاہیے تقسیم کرنا رواہ نہیں بخاری شریف کے باب حکم المفقود فی احلہ ومالہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ نقل فرمایا۔ کہ انہوں نے ایک جاریہ (لونڈی) جس کا مالک مفقود الخبر تھا۔ سال بھر اس کے مال کی تلاش فرمائی بعد اس کے جب اس کا کوئی پتہ نہ ملا۔ تو اس جاریہ کی قیمت سات سو درہم مقرر کرکے مجمع مساکین میں جا کر نقود مذکورہ جو قیمت میں مقرر ٹھرائی۔ ان مسکینوں پرتقسیم فرمائی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں۔ اللھم ان فلان فان اتی فلی دعلی یعنی اس رقم کو اس کے حق میں قبول فرما۔ اور اس کا ثواب اس کو پہنچااور اگر یہ آگیا تو یہ دراہم میرے حق میں قبول فرما اور اس کو میں اپنی طرف سے رقم مذکور بھر دوں گا۔ آگے فرمایا وقال ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نحوہ آگے امام زہری رحمۃ اللہ علیہ  کا قول نقل فرمایا

قال الذهري في الاسير مكانه لا تزوج امراته ولا يقسم ما له فاذا انتقطع خبره فسنة سنة المفقود

 یعنی قیدی کا جب تک محل قید میں ہونامعلوم ہے۔ تو اس کی عورت اوراس کا مال محفوظ رہے۔ جب ا س کی خبر منقطع ہوجائے۔ تو اس کے مفقود کے حکم میں داخل سمجھا جاوے۔ یعنی اس کی عورت کو بعدچارسال کے انتقطاع خبر سے عدت وفات گزار کر نکاح کرنا چاہیے۔ اورامال کو اس قانون پر (جو پہلے مذکور ہوا)رکھناچاہیے۔ فتح الباری میں اس کے ذیل لکھا ہے یعنی کہ جس مال کی ضیاعت کا خوف ہو۔ اس کو تو استعمال کرنا چاہیے۔ اور جس کو ضیاعت کا خوف نہیں اس کو محفوظ رکھناچاہیے۔ مگر کسی امین کے پاس ہاں جب اس پر کسی کے قابض ہونے یاضائع ہونے کا خطرہ ہو۔ تو اس کو اس کے مفقود موجودہ رشتہ داروں پر جو استحقاق وراثت رکھتے ہوں۔ تقسیم کردیاجائے بایں طور کے جو منافع حاصل کریں اس کا حساب یاد رکھیں جب وہ اصل مالک مفقود الخبر آجاوے۔ واپس کرنا پڑے گا۔ ورنہ ان کو پہنچا واللہ اعلم بالصواب

اہلحدیث

میرے نذدیک دوسرا جو اتنا صحیح ہے۔ کہ بعد تقسیم اصل جب کبھی آجائے۔ اس کا حق ساقط نہیں ہوگا۔ حدیث شریف میں ہے ۔

ليس علي مال مسلم توي

مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوناچاہیے۔ ہاں مفقعود الخبر کی عورت بعد نکاح ثانی واپس نہیں ملے گی۔ کیونکہ نکاح قابل فسخ ہے۔ مگر مال کی ملکیت زندگی میں قابل زوال نہیں۔ اس لئے فسخ نکاح پر مال کا قیاس جائز نہیں۔ مگر منافع کی زمہ داری نہیں ہے۔ کیونکہ اس شخص نے بااجازت شرع قبضہ کرکے ااستعمال کیا ہے۔ اس لئے منافع اسی کے ہوں گے واللہ اعلم۔ (اہلحدیث 14شعبان المکرم 1343ہجری)

شرفیہ

یہ صحیح ہے اور جو یہ لکھا گیا ہے۔ کہ چار سال کے بعد عدت گزارکر دوسرا نکاح کرے۔ تو ا س میں اتنا بیان رہ گیا کہ چار سال کب سے شمار ہوں گے۔ یہ جب سے شمار ہوں گے۔ کہ عورت نے مراقعہ بامقدمہ حاکم کی عدالت میں پیش کیا ہے۔ چنانچہ عبد الرزاق اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہسے اس کی تصریح موجود ہے۔ دیکھو تلخیص الجیر صفحہ 239۔ جلد 3 اورچارسال کے بعد بوجہ فتویٰ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ احکام موت کا اجرا ء بھی صحیح ہے۔ (ابوسعید شرف الدین دھلوی)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 269

محدث فتویٰ

تبصرے