السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت کسی دنیاوی غرض کےلئے یا محض نکاح فسخ کرانے کےلئے اپنی رضا مندی یا والدین مجبور کرنے سے عدالت میں جا کر اپنی زبان سے کہہ دے۔ کہ میں عیسائن یا سکھنی ہوں۔ یا اسلام کے ماسوا کسی اور مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے درواں حالیکہ اسلام سے متنفر نہیں اور جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ وہ غیر از اسلام کسی اورمذہب کے لوگوں سے کسی قسم کا تعلق پید نہیں کرتی۔ اور نہ ان میں شمولیت حاصل کرتی ہے۔ کیا اس کا کلمہ کفر کہنے سے اس کا نکاح شرعا ً فسق ہوجاتا ہے۔ یا نہیں کیا اس کا کلمہ کفر۔ ان آیات پر محمول ہے یا نہیں۔
1..... إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ
2.....وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِي
3.....قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ
4.....مَن كَفَرَ بِاللَّـهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ
حالانکہ آیت مذکورہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فقط امنا واسلمنا وکفرنا وعصینا کہنے سے مومن یا کافر نہیں ہوسکتا۔ باوجود زبان سے مومن ہونے کا وعدہ کرے۔ اوردل میں کفر ہو۔ اوردل میں ایمان ہو اور زبان پر کفر برخلاف اس کے قائل کی علامات اور ا س کی علامات ظاہر ہی سے پورا پتہ چل جاتا ہے۔ جیسا کہ
فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّـهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ
سے واضح ہے۔ کہ اگر مہاجرات امتحان میں آکر مومنہ ثابت ہوجایئں تو کفار سے ان کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں کفار کی طرف لوٹانا منع ہے۔ لیکن اگر وہ امتحان میں ناکام رہیں اور مومنہ ثابت نہ ہوسکیں۔ تو انہیں کفار کی طرف لوٹادینے کا حکم دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس صورت ان کا نکاح کفار سے نہیں ٹوٹتا۔ ظاہر ہےکہ جب محض زبان سے امنا کہنے پر کفار کا نکاح نہیں ٹوٹتا تو مسلمہ کا نکاح طوعا وکرھا محض زبانی ارتداد سے کیسے ٹوٹ سکتا ہے۔ جب کہ اس کے دل میں ایمان موجود ہو۔ حدیث شریف میں بھی آیا ہے۔ کہ
لا طلاق ولاعتاق في اغلاق رواه ابوداود وابن ماجه
ان آیات واحادیث کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا نکاح کیسے فسخ ہوسکتا ہے۔ اور تعجب یہ ہے کہ وہ اسلام ہی میں رہتی ہے۔ اور اس میں کفر کا کوئی اور کام نہیں پایا جاتا۔ سوائے اس کلمہ کے جو عدالت کے رو برو کہہ کر نکاح فسخ کراتی ہے۔ اس کے بعد اپنے مسلم خاوند کے سوا کسی اور مسلم سے نکاح کرلیتی ہے۔ حالانکہ حدیث وارد ہے۔
عن ابن عباس قال اسلمت امراة علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم فتزوجت فجاء زوجها الي النبي صلي الله عليه وسلم فقال يا رسول الله صلي الله عليه وسلم اني قد كنت اسلمت وعلمت باسلامي فانتوعها رسول الله صلي الله عليه وسلم من زوجها الاخر وردها الي زوجها الاول رواه ابوداود
علماء کو اس بارے میں اظہار خیالات کا حق حاصل ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قلبی کیفیت کو سوائے خدائے عالم الغیب کے کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے ہم ظاہر پر حکم لگانے کے مامور ہیں۔ چنانچہ قرآن پاک میں فرمایا۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا
یعنی بظاہر جو سلام کہے۔ تم اسے مت کہو کہ تو مومن نہیں ہے۔ اسی موقع پر رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا۔ هلاشققت فلبه کیا تو نے اس کا دل چیر کردیکھ لیا۔ اور جو روایات آپ نے لکھی ہیں۔ ان میں علم خدواندی کا زکر اور اسی کا حکم ہے۔ پس نتیجہ صاف ہے۔ کہ ہم لوگ کسی کے دل پر حکم نہیں لگاسکتے دل پرخدا کا حکم ہے۔ (اہلحدیث امرتسر ص 15 اپریل 1938ء)
یہ صحیح ہے اور بحکم
ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُن
بعد تکلم باختیار کلمہ کفر ارتداد ثابت اور نکاح فسخ پھر اگر اسلامی قانون جاری ہو تو بعد ارتداد بحکم حدیث نبوی مشکواۃ جلد 2 ص 307 مرتد کے لئے تو توبہ جان بخشی نہیں پھر دوسرا نکاح کیسا؟(ابوسعید شرف الدین)
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ وَاسْأَلُوا اللَّـهَ مِن فَضْلِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (النساء)
پچھلے دنوں اکثر اخبارات میں یہ تحریک جناب ناظم جمعیۃ العلماء ہند یہ چرچا عام ہوا کہ آج کل اکثر عورتیں اپنے خاندان کے ناروا سلوک سے تنگ آکر مجبور ہوجاتی ہیں۔ کہ کسی نہ کسی طریق سے ان کے ظلم وستم سے رہائی حاصل کریں۔ اور وہ اسی صورت میں اپنے ناحق شناس خاوند کے پنچہ استبداد سے نکلنے کےلئے کسی اور مذہب کی پناہ لینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اور غیر مذاہب والے نہایت خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔ گویا یہ ظاہر ہو کہ مسلمان کمزور ہوگئے۔ سست۔ بے ہمت۔ اور بے غیر ت ہوگئے۔ اور یہ کہ مذہب اسلام میں ایسی عورت کےلئے ارتداد کے سوا اور کوئی نجات کی صورت ہی نہیں ہے۔ ایسے ہزاروں واقعات ہورہے ہیں۔ کہ بے شمار بھولی بھالی اور باعصمت عورتیں جن کے دل میں اسلام کی حمیت ہے۔ اور وہ مسلمان گھرانوں کی ہیں۔ قرآن واحکام اسلام کی عظمت ووقار ان کے دلوں میں جاگزیں ہے۔ وہ صالحات قانتا ت ہیں۔ وہ خاندان کے عزت وناموس کی حافظات ہیں۔ لیکن بے انصاف خاوند کے سلوک سے تنگ آکر اس کے بے جا تشدد سے مجبور ہوکر اور اس کا اپنے ساتھ انسانیت سے گرا ہوا سلوک دیکھ کر نہایت حسرت ویاس کے عالم میں جرات کر بیٹھی ہے۔ کہ آغوش عیسایئت یا آریت میں پنا گزین ہوں۔ جب دیکھتی ہے کہ ا س کے تمام حقوق نظر انداز ہورہے ہیں۔ اور ان کے ساتھ خاوند کی طرف سے وحشیانہ برتائو ہوریا ہے۔ تو ناچار یہ سمجھ کر کہ اسلام میں رہ کر انکے پا س رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اپنا مذہب تبدیل کرلیتی ہیں۔ آہ کہ مسلمان بچی جس کے کان میں عمر بھر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدائے جاں نواز سے اکثر آشنا رہے ہیں۔ جو محمد رسول اللہ ﷺ کے نام پر قربان ہو۔ اور جس کے سینہ میں کلام اللہ شریف کی سی متبرک کتاب محفوظ ہوجو زبان سے کوئی کلمہ کفر اٹھاتے ہوئے کانپ اٹھتی ہو۔ جو بات بات پر خدائے لا یزال کا خوف رکھنے والی ہو۔ عالم یاس میں پنجہ عیسایئت میں گرفتار ہوکر ایک خدا کے بجائے تین ماننے پرمجبور ہوتی ہے۔ بے ادب ہوتی ہے گستاخ بن جاتی ہے۔ وہ لعل جو ایک مسلم گھرانے کےلئے باعث زینت اور آرائش تھا۔ خانہ تثلیث میں جا کر باعث زیبائش بنتا اور بد قسمت قوم مسلمان کی بے شمار مصائب میں ایک اور کا اضافہ ہوجاتا ہے۔
أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ
یہ سب کچھ ہماری غفلت اور جہالت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ان تمام باتوں کا الزام سراسر ہمارے اوپر عائد ہوتا ہے۔ ان جملہ نتائج کے حقیقی زمہ دار ہمارے علمائے کرام ہیں۔ جو عمر یک طرفہ ڈگری ہی دیتے رہے۔ اورحقوق نسواں کی طرف سے عوام کو یکسر غافل رکھا۔ حالانکہ قرآن کریم کا صاف ارشاد ہے۔
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ
ترجمہ’’عورتوں سے عمدہ سلوک کیا کرو‘‘
فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ
ترجمہ’’نیک لوگوں پر حق ہے کہ عورتوں سے اچھا سلوک کریں۔ اچھی طرح رکھو یا اچھی طرح چھوڑدو۔ اور ان کو تنگ کرنے کےلئے نہ روکو۔ اور جو ایسا کرے اس نے اپنے آپ پرظلم کیا۔‘‘
فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ
ترجمہ۔’’روکنا ہے اچھی طرح یا چھوڑ دینا ہے احسان کرکے‘‘
کاش مسلمان اپنے گھروں میں کم از کم اسلامی تعلیم ضروری مسائل تو ضرور سکھادیتے۔ آج مسلمانوں کےلئے ایک مصیبت نہیں کہ اس پررویئں ۔ ایک تکلیف نہیں کہ اس پررنج کریں۔ ایک ذخم نہیں کہ اس کے اندمال کی تجویز ہو۔ ع
تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا بہم
ہزاروں مصیبتیں ہیں۔ ڈر ہے بھوک ہے۔ اموال کی بربادی ہے۔ مسلمان من حیث القوم تباہ ہورہے ہیں۔ اپنے امیدوں کے درخت کٹے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ حکومت ان سے بدظن برادران وطن ان کےلئے بغلی گھونسہ اور تمام سختیوں سے بڑھ کر یہ آپس میں ایک دوسرے سے بدظن بدگمان۔ ایک دوسرے کے حاسد اور خون کے پیاسے ایک وقت تھاکہ جب بنگال پر انگریزوں کا تسلط ہواعلی دیروی خان۔ اور نواب سراج الدولہ جیسے غیور مسلمانوں کا دور دورا ختم ہوا۔ امیر جعفر جیسے محسن کش اور ملت فروش نواب برسر مسند آئے۔ تو گو اس وقت یہ نواب برائے نام ہی تھے۔ اور اصل اقتدار اس وقت انگریزوں ہی کاتھا۔ لیکن تاہم دارن ہیسٹنگز کے عہد تک تمام فیصلے اور تمام مقدمات مسلمان قضاہ ہی کے سپرد تھے۔ لیکن جوں جوں مسلمان اخلاقا اور ایمانا کمزور ہوتے گئے۔ شریعت کی بجائے دفعات قوانین ہند قبول کرتے گئے۔
اگر آج مسلمان ہمت کرکے کم از کم معاملات نکاح اور طلاق ہی اپنے ہاتھ میں لے لیں اور ایسے معاملات کو عدالت تک پہنچنے کی نوبت ہی نہ آئے تو ایک گو نہ اس آئے دن کی مصیبت ارتداد سے نجات ہوجاتی۔
بھلا بتائو کہ اس کا کیا علاج ہوسکتا ہے۔ کہ ایک عورت اپنے خاوند کے برے سلو ک سے تنگ آکر چاہتی ہے کہ اس سے رہائی حاصل کرے۔ اسے خلع کا مسئلہ معلوم ہے۔ وہ کچھ رقم پیش کرتی ہے۔ لیکن وہ ناخدا ترس قبول نہیں کرتا۔ اور نہ ہی رہائی دیتا ہے۔ اور نہ ہی گھر لا کر سلوک کرتا ہے۔ اور نہ ہی سلو ک سے رکھتا ہے۔ اب اس کا علاج سوائے ڈنڈے اور طاقت کے اور کیا ہوسکتا ہے۔ یا یہ کہ برادری والے یا محلہ دار خدا ترس ہوں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد سے واقف ہوں۔ اور اس پراخلاقی دبائو ڈالیں۔ تاکہ وہ اس طریقہ سے ہی عمل کرے۔ شریعت نے مردوں پر بھی مساویانہ زمہ داریاں عائد کی ہیں۔ اگر ایک مرد ایک عورت کو بے جا تنگ کرتا ہے۔ اور وہ عورت اس کے پاس رہنا پسند نہیں کرتی۔ تو اس صورت میں شریعت مطہرہ نے اس کےلئے بھی قانون بنا رکھا ہے۔ کہ وہ کچھ رقم دے کر یا مہر واپس کرکے خاوند سے علیحدہ ہوجائے اور ایک طہر کے بعد کسی اور جگہ اپنے سینگ سمالے۔ اس طریق کو شریعت مطہرہ میں خلع کہتے ہیں۔ خلع میں ضروری نہیں کہ زوجین میں رضا مندی ہو۔ جیسے کہ میرے مکرم دوست منشی ہدایت اللہ صاحب نے اخبار اہلحدیث مورخہ یکم شعبان میں تحریرکیاہے۔ بلکہ تفریق تک تو نوبت تب ہی جاتی ہے جب کہ زوجین کی باہمی رنجشیں اور کدورتیں بڑھیں۔ اور صفائی نا ممکن ہو۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کہاں سے لیا گیا ہے۔ کہ خلع بلارضامندی خاوند کے نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ خلع کی صورت ہی تب پیدا ہوتی ہے۔ کہ جب جانبین میں مناقشات اس حد تک ہوجایئں کہ اصلاح نہ ہوسکے ملاحظہ ہو۔
اذا كوهت المراة زوجها لقبح منظر ها اوسوء عشرتها وخافت ان لا تودي حقه جاز ان تخالعه عل عرض لقوله تعالي فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ وروي ان جميله بنت سهل كانت تحت ثابت بن قيس بن التعاس وكان يضر بها فاتت الي النبي صلي الله عليه وسلم وقلت لاانا اولا ثابت وما اعطاني فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم خذ منها فاخذ منها فقعدت في بيتها
(کتاب المہذب وفقہ شافعی جلد 2 ص 75)
یعنی جب عورت کا خاوند بدشکل اور کریہہ منظر ہو۔ یا اس کے حقوق زوجیت سے غافل ہو جائے۔ اوراسے یہ ڈر ہو کہ یہ بناہ مشکل ہوگا۔ تو اس حالت میں وہ کچھ عوض دے کر خاوند سے اپنا فیصلہ کراسکتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں جمیلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضورﷺ کے پا س صبح صبح ہی شکایت لے کر آئی کہ ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے مارا ہے۔ میں اس کے پاس نہیں رہوں گی۔ اپنا سب کچھ (مہر) مجھ سے لے لے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا۔ اور ان میں تفریق کرادی دوسری جگہ ہے۔
والخلع والمباح بلاكراهية ان تكره المراة صبحة الزوج ولا يمكها القيام باداء حقوقه فتخرج فتختاح نفسها لقوله تعالي فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ فَلَا جُنَاحَ الاية
(الدارالبہدۃ روضۃ الندیۃ ص 145)
یعنی اگر عورت مرد کے پاس رہنا نہ چاہے تو خلع کرالے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ اگر زوجین باہمی حقوق کی نگہداشت نہ رکھ سکیں۔ توعورت فدیہ دے کرعلیحدہ ہوجائے۔ بلکہ عورت کو یہاں تک آذادی دی گئی ہے۔
ولو امتلعت نفسها بلاسبب فجا ئز مع الكراهية لان النبي صلي الله عليه وسلم اصحابه لم يفتشوا عن سبب الا ختلاع من جانبها وروضة الندية
یعنی اگر عورت بلاوجہ بھی خلع پر مصر ہو۔ تو مع الکراہیت جائز ہے۔ کیونکہ نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے جمیلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بہت زیادہ نہیں پوچھا۔ محض اس کے سرسری بیانات ہی پر فیصلہ دے دیا۔ ابودائود میں ہے۔
عن جميله بنت سهل الانصارية انها كانت تحت ثابت بن قيس وان رسول الله صلي الله عليه وسلم خرج الي الصبح فوجد جميلة بنت سهل عنه بابه في الغلس فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم من هذه قالت انا حبيبة بنت سهل فذكرت ما شاء الله ان تذكر وقالت يا رسول الله صلي الله عليه وسلم كلما اعطاني عندي فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم لثابت خذ منها وجلست في اهلها
عن عائشة ان حبيبة بنت سهل كانت عند ثابت بن قيس بن شماس حضر يها فكر بعضها فاتت النبي صلي الله عليه وسلم بعد الصبح فاشتكته اليه فدعا النبي صلي الله عليه وسلم ثابتا فقال خذ بعض ما لها وفارتها فقال ويصلح ذلك يا رسول الله صلي الله عليه وسلم قال نعم قال فاني اصدقتها حديقتين وهما بيدها فقال النبي صلي الله عليه وسلم خذها وفارتها
(ابودائود مع عون المعبود)
خلاصہ مطلب یہ ہے کہ آپﷺ کے زمانے میں ایک عورت حبیبہ یا جمیلہ صبح صبح ہی جب کہ آپﷺ نماز صبح کو نکلے آپ ﷺ کے دروازے پر آن کھڑی ہوئی آپﷺنے پوچھا تو کون ہے۔ تو عرض کرنے لگی کہ میں ہوں حبیبہ بنت سھل اور اپنا تمام واقعہ سنادیا۔ اور کہا کہ میں اپنے خاوند ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پا س رہنا نہیں چاہتی ہوں۔ اس نے مجھے مارا بھی ہے۔ دیکھئے میری ہڈی ٹوٹ گئی۔ اور میں اس کا سب کچھ (مہر) دینے کو تیار ہوں۔ آنحضرتﷺ نے ثابت کو بلا کر فرمایا کہ بھائی اس سے کچھ مال لے لو۔ اور اسے چھوڑ دو۔ ثابت بے چارے کی کیا مجال تھی کہ دم مارتا وہاں دبی زبان میں یوں کہا کہ یہ مناسب اور درست ہے۔ (کہ مجھ سے کچھ پوچھا بھی نہیں گیا)آپﷺ نے جواب دیا کہ ہاں بالکل ٹھیک ہے۔ پھر کہا آپ نے تو نے اسے مہر میں د و باغ دیئے ہوئے ہیں۔ اور وہ اسی کی ملکیت میں ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اپنے باغ لے لے۔ لیکن اسے چھوڑ دے۔ چنانچہ ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا ہی کیا۔
اور دوسری جگہ امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ عطا رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں۔ کہ جب اسنے آکر رسول اللہ ﷺ سے اپنا تمام حال سنایا تو آپ ﷺنے وہیں بغیر ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بلائے فیصلہ کردیا۔ اور ان کی تفریق کردی۔ لیکن جب یہ خبر ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوملی۔ کہ میرے ساتھ تو یہ معاملہ ہوا ہے۔ تو کہا
قد قبلت قضاء رسول الله صلي الله عليه وسلم
(تنقید الہدایہ 2 للمولوی وحیدالزمان)
اب ہم ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل کی کیفیت نہیں جانتے کہ یک طرفہ فیصلہ سن کر کس دل سے کہا لیکن کہا ضرور کہ''میں نے رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کو منظور کیا''غور فرمایئے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا جلیل القدر صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس کی شان میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ کہ
اما ترضي ان تعيش حيد اوتموت شهيد اوتدخل الجنة
ان کی بیوی آپﷺ کے پاس آکر اظہار کراہت کرتی ہے۔ کہ میں ثابت کے پا س رہنا نہیں چاہتی۔ تو رسول اللہ ﷺ عورت کو فیصلہ دے دیتے ہیں۔ اب ان حالات وواقعات کو دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ''خلع بلارضامندی خاوند کے نہیں ہوسکتا''نہیں بلکہ جیسے مرد کو طلاق دینے میں آذادی ہے۔ ایسے ہی عورت جب اپنے مرد کے سلوک سے تنگ ہو اور اس کے پاس رہنا نہ چاہے تو اس سے خلع کرواسکتی ہے۔ آذادی حاصل کرسکتی ہے۔ تو پھر کیا ضرورت کہ ارتداد کے دروازے پر دسکت دیوے۔ (عبداالرحمٰن خلیل قریشی منشی فاضل حکیم حاذق از نظام آباد ضلع گوجرانوالہ۔ اخبار اہلحدیث امرتسر 22 اپریل 1937ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب