سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(218) حقوق زوجیت

  • 6771
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1478

سوال

(218) حقوق زوجیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حقوق زوجیت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حقوق زوجیت

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ خاوند اور بیوی کے مابین جو میل جول ہوتا ہے وہ تمام ارتباتات منزلہ سے بڑھ کر ہے۔ اور نفع بھی زیادہ ہے۔  حاجت بھی بہت ہے۔ کیونکہ تمام عرب وعجم کے قبائل کا یہی دستور ہے۔ کہ ارتفاقات پورا اور کامل کرنے میں بیوی خاوند کی معاونت کرے۔ ااور  اس کے کھانے پینے اور لباس تیار کرنے کی متکفل ہو۔  اور  اس کے مال کو محفوظ اور اس کی اولاد کو حفاظت سے رکھے۔ اور بعد اس کے چلے جانے کے اس مکان میں اس کی قائم مقام رہے۔ اسی واسطے اکثر توجہ شرائع کی اسی طرف ہوئی۔ کہ حتی الامکان اس کا باقی رکھنا اور اس کے مقاصد کا بڑھانااور اس کے مکدر کرنے اور باطل کرنے سے بیزاری چاہنا کسی ارتباط کے مقاصد کا پورا کرنابدوں الفت کے مسکن نہیں ہوسکتا۔ اورالفت بغیرخصلت کے جس پر وہ خاوند بیوی اپنے آپ کو مجبور نہ کریں۔ نہیں حاصل ہوسکتی۔ لہذا حکمت کا متقضی ہوا کہ اس خصلت کی طرف توجہ اوررغبت کی جائے۔ (حجۃ اللہ نمبر 505)

میں کہتا ہوں کہ ایماندار عورتوں کو چاہیے کہ امور شرعیہ میں اپنی شوہروں کی اطاعت  کریں۔ اور ان کو خوب راضی رکھیں۔ خاوندوں کی ناخوشی اور خلاف ورزی والی باتوں سے  بچیں اس لئے کہ خدا اور رسولﷺ کی تابعداری کے بعد عورت کوخاوند ہی کی تابعدار ی کا حکم ہے۔ اس بارے میں بہت سی حدیثیں ہیں۔ ایک حدیث یہ ہے۔

قال النبي صلي الله عليه وسلم لوكنت امرا احدان يسجد لاحد لامرت المراة ان تسجد لزوجها (رواه ترمذي)

’’محمد رسول اللہ ﷺ کا ارشاد پا ک ہے۔ کہ میں اگر کسی کو حکم کرتا سوائے  اللہ کے کسی اور کو سجد ہ کرنے کا تو بے شک عورت کو ھکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔‘‘

عورت پر شوہر کا یہ حق ہے۔

کہ جب وہ اپنے بستر پر اس کو بلاوے تو انکار نہ کرے۔ ورنہ شوہر اسی ناراضگی میں سو گیا  تو عورت ملعون ہوگی۔ (بخاری ومسلم)

یہ بھی حق ہے کہ وہ گھر میں بیٹھے خاوند کے حکم کے بغیر باہر نہ جاوے۔ دریچہ میں نہ آئے چھت پر  نہ چڑھے۔  پڑوسیوں سے دوستی اور باتیں بہت نہ کرے۔ بلاضرورت ان کے گھر نہ جائے۔ خاوند کی رازدانہ چیز کاخیال رکھے۔ کسی سے نہ کہے۔ شوہرکے مال میں خیانت نہ  کرے۔ جوکچھ میسر ہو اسی پر قناعت کرے۔ زیادہ مطالبہ نہ کرے۔ اپنے عزیزوں سے زیادہ خاوند کا حق نہ سمجھے احسان کی ناشکری نہ کرے۔  اور یہ نا کہے کہ تو نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ہروقت خریدوفروخت اور  طلاق کا سوال  بے سبب نہ کرے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے دوزخ میں نگاہ کی تو  بہت سی عورتوں کو دیکھا۔  اس کا سبب پوچھا تو فرمایا کہ خاوندوں پر لعن طعن اور ناشکری کرنے سے  ان کا یہ حال ہے۔

شوہروں پر حقوق یہ ہیں۔

ستوصوا بلنساء  خير ا فانهم خلقن من ضلم خان ذهبت تقيم كسرته وان ترك لم يزل اعوج ذا ستوصوا بالنساء (بخاري ومسلم)

یعنی ’’عورتوں کے معاملے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔ اس لئے کہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں۔ پھر تو اس کو اگر سیدھا کرنے کا قصد کرو گے تو اس کو توڑ ڈالو گے اور اگر اسی حالت میں چھوڑ دو تو وہی پہلی کجی کی حالت باقی رہے گی۔ پس قبول کرو وصیت کو عورتوں کے معاملے میں۔‘‘

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات مثل امر  لازم کے ہوگئی ہے۔ اور بمنزلہ اس چیز کے ہوگئی کہ جو ایک شے کے مادہ میں ہمیشہ سے چلی آتی ہے۔ اور  انسان جب مقاصد منزل کے پورا کرنے کا اس عورت سے قصد کرے۔ تو ا س کی یہ بات ضروری ہے۔  کہ ادنیٰ ادنیٰ امور سے درگزرکرے۔ اور جو بات اپنی خلاف ورزی کی دیکھے اس پر اپنے غصے کو دابے مگر ہاں جو نیک غیرت کے قبیل سے ہویا کسی ظلم وغیرہ کا بدلہ لینا ہو  تو کچھ مضائقہ نہیں (حجۃ اللہ)

حدیث میں ہے عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو۔ کیونکہ خدا کی امان پر تم نے ان کو اپنے قبضے میں لیا ہے۔ اور خدا  کے حکم سے تم نے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لئے حلال کیا ہے۔ اور تمہارا  ان پر یہ حق ہے۔ کہ تمہارے فرشوں پر کسی ایسے کوجگہ نہ دیں۔ جس سے تم بیزار ہو۔ پھر اگر وہ ایساکریں تو ان کو مارو مگرتھوڑا۔ اور  تم ان پر کھانا اور پہننا حسب دستور واجب ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے۔ وعاشروھن بالمعروف ۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ  فر ماتے ہیں۔  کہ جب وہ اصلی معاشرت بالمعروف ہے۔ کہ جس کی تفصیل آپﷺ نے کھانا اور کھلانے اوراچھا برتائو کرنے کے ساتھ بیان کی ہے۔ اور جوشرائع مستند الی الوحی ہیں ان میں ممکن نہیں کہ قوت کی جنس اور اس کی تعداد مقرر کردی جائے۔ کیونکہ یہ  بات نا ممکنات سے ہے کہ  تمام جہان کے  لوگ ایک ہی چیز پر اتفاق کرلیں۔ اس لئے مطلق حکم کیا گیا ہے (حجۃ للہ)

غرض یہ ہے کہ مردوں کو عورتوں کے حقوق کا خیال کرنا  چاہیے۔ اور چاہیے کہ ان کے ساتھ حلم وبردباری سے زندگی بسر کریں۔ مفلسی دل لگی اور خوش طبعی کے ساتھ پیش آیا کریں۔ حدیث میں بھی ہے۔ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں تھیں۔ انہو ں نے کہا کہ میں آپﷺ کے ساتھ دوڑی اور  آپ ﷺ سے آگے نکل گئی مگرجب میں موٹی ہوگئی تو پھر ہماری دوڑ ہوئی مگر اب کے بار حضورﷺ مجھ سے آگے نکل گئے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا میرا یہ آگے بڑھ جانا بدلے اس آگے نکل جانے کے ہے۔ (ابو داؤد)

اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کا ازواج مطہرات کے ساتھ بڑا سچا برتاؤ تھا۔ حسن خلق اور مہربانی کرنا حدیث سے صاف ظاہر ہے  پس جو امور خلاف شرع نہ ہوں اور ان میں کسی طرح کے رسوائی وبدنامی اور گناہ عائد نہ ہوتا ہو تو  پھر انہیں کی خوشی کو مقدم سمجھیں اور جہاں تک ممکن ہو ان کو راحت وآرام سے رکھیں۔ زندگی بھر نرمی وخوش خلقی کے ساتھ برتائو کیسا کریں۔ کہ دن بدن آپس میں محبت والفت بڑھتی رہے اور کیس طرح کی رنجش    وبے لطفی درمیان میں نہ آئے پائے اور باآرام زندگی بسر ہوجائے۔

یہ ہیں مختصر مسسائل نکاح لیکن حقیقت یہ ہے کہ زمانہ حاضرہ میں نکاح کرنے سے پیشمانی وحیرانی کے سوا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوتا۔ اولاد جس کو عامہ نتیجہ سمجھتے ہیں وہ ایک منتر بےطعم اور فاکہہ بے رائحہ ہے چاہے اولاد زکور ہو یا اناث الا ماشاء اللہ اس زمانے میں اولاد کا صاحب علم وعمل ہونا اور  پابند سعادت رہتا۔ والدین کے حقوق کا عارف ہونا محالات سے ہوگیا ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 171

محدث فتویٰ

 

تبصرے