السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سورہ فاطر میں فرشتوں کے پروں سے مراد اظہار واقعی ہے۔ یا صرف تمثیل مقصود ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل حق کے نزدیک اظہار واقعہ ہے اہل نیچر کے نزدیک تمثیل ہے۔
افراد اہل حدیث کا کچھ ایسا خیا ل ہے۔ کہ ہاتھ میں عقیق البحر وغیرہ کی تسبیح رکھنا بدعت ہے۔ اور اکثر احمد وترمذی وابودائود کی اس روایت کو پڑھ دیتے ہیں۔
واعقدن بالا نامل فافهن مسولات مستنطقات
یعنی انگلیوں کی پوروں پرشمار کیا کرو۔ گو یہ طریق اولیٰ وافضل ہے۔ لیکن دھاگے میں دانوں کو جمع کرکے تسبیح پڑھنا اور ان پر شمار کرنا بھی بحکم حدیث جائز ہے۔ سنن اربعہ وابن حبان وحاکم میں سعد بن ابی وقاص کی یہ روایت مذکور ہے۔
انه دخل مع رسول الله صلي الله عليه وسلم علي امراةوبين يديها نوي اوحصي تسبح به الحديث
یعنی رسول اللہ ﷺ ایک عورت کے ہاں تشریف لے گئے۔ وہ اپنے آگے کنکریوں یا گھٹلیوں کورکھ کرتسبیح پڑھتی تھی۔ حضرت نے اس کو بالکل نہیں روکا بلکہ اور دعا بتلادی کہ اس کو پڑھ۔ ترمذی نے اسے حسن اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ ایک دوسری روایت حاکم وترمذی میں ہے۔
عن صفية قال دخل رسول الله صلي الله عليه وسلم وبين يدي اربعة الاف نواة اسبح بها الخ
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں۔ کہ حضور پر نورﷺ میرے پاس تشریف لائے۔ حالانکہ میرے آگے چار ہزار گھٹلیاں تھیں۔ میں ان پر تسبیح پڑھتی تھی۔ تو آپ نے مجھے سبحان اللہ۔ عدد خلقہ والی دعابتلادی۔ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو صحیح بتلایا۔ قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نیل میں فرماتے ہیں۔
ولحديثان الامر ان يد لان علي جواو عقد التببيح بانوي والحصي وكزابا لسبحة لعدم الفارق لتقر يره صلعم للمراتين علي ذلك وعدم انكاره
یعنی دونوں حدیثوں سے کنکری اور گھٹلی اور تسبیح مروجہ پر شمار تسبیح کرنا جائز معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں عورتوں کو منع نہیں فرمایا بلکہ ان کے اس فعل پر ان کوثابت رکھا۔ رسالہ جز ہلال الحفار میں بہت سے آثار اس طور سے تسبیح پڑھنے کے منقول ہیں۔ ابن سعد نے طبقات میں فرمایا ہے۔
اخبرنا عبد الله بن موسي اخبرنا اسرائيل عن جابر عن امراة خدمة عن فاطمة بنت الحسين بن علي بن ابي طالب انها كانت تسبح بخيط معقود فيها
یعنی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دھاگے والی تسبیح پر تسبیح پڑھا کرتی تھیں۔ اورزواہد امزید میں ہے۔
عن ابي هريره انه كان له خيط فيه الفاعقد فلا ينا م حتي يسبح
یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس دوہزار دانے والی ایک تسبیح تھی۔ سوتے وقت ہمیشہ اسے پڑھتے۔ غرض آثار کہاں تک نقل کیے جایئں۔ علامہ سیوطی کا اس مسئلے میں ایک مستقل رسالہ ہے جس کا نام ہے۔ المنحۃ فی السبحۃ اس میں انھوں نے بڑے زوروں سے تسبیح دانہ والی کو پڑھنے کا ثبوت دیا ہے۔ آخر میں فرماتے ہیں۔
ولم يعقل عن احد من السلف ولامن الخلف المنع من جواز عد ا لذكر بالسبحة بل كان اكثؤهم يعدونه بها ولايرون ذلك مكروها انتهي
یعنی دانے والی تسبیح پر تسبیح پڑھنے کی ممانعت سلف وخلف کسی سے بھی منقول نہیں بلکہ وہ لوگ خود اسی تسبیح پرشمار کیاکرتے تھے۔ اس میں کوئی کراہت نہیں دیکھتے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب