سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(174) خاوندبیوی ایک بسترپر!مسئلہ احتلام

  • 674
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2833

سوال

(174) خاوندبیوی ایک بسترپر!مسئلہ احتلام

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

خاونداورعورت رات کے وقت ایک بسترپرآرام پذیرہوئے مگردونوں نے مجامعت اورمباشرت آپس میں نہ کی ۔صبح کواٹھے توبسترپرطراوت پائی۔ طراوت دیکھتے وقت دونوں ہی انکارکرتے ہیں کہ ہمیں احتلام نہیں ہوا۔اب وہ طراوت کس کے ذمے لگائی جاوے کہ ان کوغسل کرنے کاحکم دیاجائے۔ اب قرآن شریف وحدیث شریف کی نص سے حکم فرمایاجائے آیت ،سپارہ  یا حدیث صحیح  کاحوالہ کتاب وباب وفصل تحریرکی جائے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

مشکوۃ میں ہے :

«عن عائشة رضی الله عنهاقالت سئل رسول الله صلی الله علیه وسلم عن الرجل یجدالبلل ولایذکراحتلاماقال یغتسل وعن الرجل الذی یری انه قداحتلم ولا یجدبللا قال لاغسل علیه قالت ام سلیم هل علی المرأة تری ذلک غسل قال نعم ان النساء شقائق الرجال ۔رواہ الترمذی وابوداؤدوروی الدارمی وابن ماجة الی قوله لاغسل علیه» (مشکوة باب الغسل فصل 2فصل 40)

’’یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مردکی بابت سوال ہوا۔جوتری دیکھے اوراس کواحتلام یاد نہ ہو۔فرمایاغسل کرے اور یہ بھی سوال ہواکہ جس کوخواب میں احتلام ہواورتری نہ پائے۔توفرمایااس پرغسل نہیں ۔ ام سلیم رضی اللہ عنہانے پوچھا۔کیاعورت پربھی غسل ہے جب عورت دیکھے توفرمایا عورتیں بھی اسی حکم میں ہیں ۔‘‘

اس حدیث سے اتنامعلوم ہواکہ تری دیکھنے کی صورت میں غسل ضروری ہے ۔خواہ  احتلام یاد ہویا نہ ۔رہی یہ بات کہ  شک کی صورت میں غسل کس پرہے۔سو اس کاجواب مندرجہ ذیل حدیث میں ہے :۔

«وزادمسلم بروایة  ام سلیم رضی الله عنها ان ماء الرجل غلیظ ابیض وماہ المرأة رقیق اصفر»(مشکوة باب الغسل فصل اول ص 40)

’’یعنی مسلم میں ہے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ مردکاپانی گاڑھاسفیدہوتاہے اورعورت کاپانی پتلازردہوتاہے ۔‘‘

اس حدیث میں ہرایک پانی کی علامت بتلا دی ہے پانی کو دیکھ کراس کے مطابق عمل درآمدہوناچاہیے اگرپانی گاڑھا سفید ہو تو مردغسل کرے اور اگرپتلا زرد ہوتوعورت غسل کرے۔

اگربالفرض تمیزنہ ہوسکے توپھرشک ہےاس حالت میں دونوں کوغسل کرناچاہیے ۔کیونکہ معاملہ مشتبہ ہوگیااورمشتبہ سے بچنے کا حکم ہے۔چنانچہ مشکوۃ کتاب البیوع میں ہے :

«فمن اتقی الشبهات الحدیث »

اور اس سوال کی صورت میں جب تمیزنہ ہوسکے ۔توشبہ سے تب ہی نکل سکتےہیں جب کہ دونوں غسل کریں ۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الطہارت، غسل کا بیان، ج1ص255 

محدث فتویٰ

 

تبصرے