سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(166) حضرت رسول اللہ ﷺ کا داڑھی رکھنا کہاں تک ثابت ہے؟

  • 6719
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1188

سوال

(166) حضرت رسول اللہ ﷺ کا داڑھی رکھنا کہاں تک ثابت ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضرت رسول اللہ ﷺ کا داڑھی رکھنا کہاں تک ثابت ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ داڑھی بالکل کٹانی یعنی قینچی لگانی بھی منع ہے۔  بعض فرماتے ہیں کہ چھوٹے بڑے سب ایک برابر کرانے کی کوئی مخالفت نہیں۔ براہ مہربانی صحیح حدیث درج فرمایئں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ کے متعلق بار ہا مذاکرات علمیہ لکھے گئے ہیں۔ اس بارے میں دو حدیثیں مختلف آئی ہیں۔ ایک میں تو فرمایا داڑھی بڑھاو۔ دوسری میں حضرت کا اپنا فعل ہے۔ کہ داڑھی کے ارد گرد سے بڑھے ہوئے بال کٹالیا کرتے تھے۔ اس لئے تطبیق یہ  ہے کہ ساری رکھنی مستحب ہے۔  اور ایک مشت کے برابر رکھ کر باقی کٹا لینا جائز ہے۔ (22 جمادی الاول 45 ہجری)

تشریح

عن ابن عمر عن النبي صلي الله عليه وسلم قال خالفوا المشركين ووفروا النحي وانهكوا الشوارب وكان ابن عمر اذا حج اواعتمر قبض علي  لحية  فما فضل اخذه انتهي

موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  احرام کی حالت میں قصر یا اصلاح شعر لحیۃ وغیرہ نہ کرتے تھے۔ الا یوم النحر ورنہ ویسے بعد ضرورت یہ حصر نہ تھا۔

مالك عن نافع ان عبدالله بن عمر كان اذا افطر من رمضان وهو يريد الحج لم ياخذ من راسه ولحيته شيا حتي يحج انتهي ص 155

پس ثابت ہو کہ یہ عدم قصر وحصر صرف شوال وزی قعدہ و9یوم زی الحجہ کا بسسبب احرام ہوتا تھا نہ کہ  عام طور پر سال بھر تک پس حسب ضرورت سال بھر تک عدم قصر نہ تھا۔ اور چونکہ اکثر لوگ بعد رمضان حج کےلئے محرم ہوجاتے ہیں۔ اور وہ احرام میں ریش بروت وغیرہ کی اصلاح جائز نہیں۔ الایوم النحر اس لئے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں حج وعمرہ کا زکر ہے۔ ورنہ ویسے حسب ضرورت شرعی اصلاح کے ترک کرنے کی کوئی وجہ نہیں اور نیل الاوطار میں ہے۔

قال القاضي عياض يكره حلق اللحية وقصها وتحريفها واما الاخذ من طولها وعرضها في حسن وتكره الشهرة في تعظيمها كما تكره قصها وحلقها وقد اختلف السلف في ذلك فمنهم من لم يجد بل قال لايتركها الي حد الشهرة وياخذ منها وكره ما لك حلولها جدا ومنهم من حد بما زاد عليالقبضة فيزال ومنهم من كره الاخذ منها الا في حج اوعتمره انتهي ج1 ص97)

حاصل یہ کہ سلف صالح جمہور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  وتابعین وائمہ محدثین کے نزدیک ایک مشت تک داڑھی کوبڑھنے دیناحلق وقصر وغیرہ سے اس کا تعارض نہ کرنا واجب ہے۔ کہ اس میں اتباع سنت اور مشرکوں کی مخالفت ہے۔ اور ایک مشت سے زائد کی اصلاح جائز ہے۔  اور بافراط شعر لحیہ وتشوہ وجہ وصورت وتشبہ بہ بعض اقوام مشرکین ہندو سادھو وسکھ وغیرہ جن کا شعار باوجود افراط شعر لحیۃ عدم اخذ ہے۔ قبضہ سے زائد کی اصلاح واجب ہے ورنہ  مشرکوں کی موافقت سے خلاف سنت بلکہ بدعت ثابت ہوگی۔ جس کا سلف صالحین میں سے کوئی بھی قائل نہیں۔  اور یہ بھی واضح ہوکہ حدیث نبوی ﷺ

انْهَكُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَو خالفوالمشركين

جب تک حدیث کے تینوں جملوں  پر پوری طرح عمل نہ کیاجائے گا۔ اتباع سنت اور مشرکین کی مخالفت نہ ہوگی۔ مثلا اگر کوئی مونچھوں کو حذف کردے۔ اور اعفاء لحیہ نہ کرے۔ یاکرے۔  مگر باوجود افراط شعر لحیہ وتشوہ وجہ وتشبہ بہ بعض مشرکین مذکورہ بالا اس کی اصلاح نہ کرے تو حدیث کے جملہ خالفو ا المشرکین پرعمل نہ ہوگا۔ اسلئے کہ خالفوا المشرکین کا الف لام استغراقی ہے۔ کہ مشرکوں کے ہرنوع کی ہرنوع وہر حیثیت سے مخالفت کا ملہ واجب ہے۔ اور وہ مخالفت قطع شوارب سے ہو یا اعفاء لحیہ سے ہو یا باوجود  افراط شعر لحیہ عدم اصلاح شعر لحیہ سے ہو اور اگر ان شقوق میں سے کوئی شق باقی یا ناقص رہ گئی تو مخالفت کاملہ نہ ہوگی۔ لہذا اتباع سنت بھی نہ ہوگا۔ ورنہ داڑھی مونچھیں منڈوانے والے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔  کہ انھکوا الشوارب پر عمل ہوکر اتباع سنت ومخالفت مشرکوں کی ہوگئی۔ ولا قائل به احد من علماء الاسلام  پس افراط شعر کی صورت  میں قبضہ سے زائد کی اصلاح واجب ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 136

محدث فتویٰ

تبصرے