سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(153) داڑھی مسلمان کو کس قدر لمبی رکھنے کا حکم ہے؟

  • 6706
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2748

سوال

(153) داڑھی مسلمان کو کس قدر لمبی رکھنے کا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

داڑھی مسلمان کو کس قدر لمبی رکھنے کا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث میں آیا ہے۔ داڑھی کوبڑھائو جس قدر خود بڑھے۔ ہاتھ کے ایک قبضے کے برابر رکھ کر زائد کٹوادینا جائز ہے۔ آپﷺ کی داڑھی مبارک قدرتی گول تھی۔ تاہم اطراف وجوانب طول وعرض سے کس قدر کانٹ چھانٹ کردیتے تھے۔ (2زی قعدہ 31ہجری)

تشریح

(از حضرت العلام مولانا عبدالوہاب صاحب آروی)

واضح ہوکہ اس میں تو شک نہیں کہ داڑھی کا بڑھانا  اور مونچھوں کا کٹوانا حضرات انبیاء علیھم السلام کی سنت قدیمہ  سےہے۔ اور اس کی بڑی فضیلت  آئی ہے۔ صحیحین میں روایت ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ

ترجمہ۔ ’’عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے۔ کہ آپﷺ نے فرمایا کہ مشرکوں کا خلاف کرو۔ داڑھی کو بڑھائو۔ اور مونچھوں کو خوب کٹواؤ‘‘۔  اور بخاری شریف کی دوسری روایت ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْهَكُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى

اور ترمذی شریف کی روایت میں ہے۔

عن عائشة قال عشر من الفطرة قص الشارب واعفاء اللحية والسواك والاستنشاق وقص الاظفار وغسل الراجم ونتف الابط وحلق العانة واقتناص الماء قال ذكريا قال مصعب ونسيت العاشرة الاان تكون المضمضة  (ترمذی جلد ثانی صفحہ 100)

ترجمہ۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  سے روایت ہے۔ فرمایا رسول اللہ ﷺنے فطرۃ (انبیاء علیہ السلام  کی سنت  سے دس چیزیں ہیں۔ 1۔ مونچھ کٹوانا۔ 2۔ داڑھی کا بڑھانا۔ 3۔ مسواک کرنا۔ 4۔ ناک میں پانی لینا۔ 5۔ ناخنوں کوتراشنا 6۔ انگلیوں کی گرہوں کو دھونا۔ 7۔ بغل سے بال اکھاڑنا۔ 8۔ زیر ناف کے بال مونڈھنا۔ 9۔ پانی سے استنجا کرنا۔ 10۔ راوی حدیث مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں کہ میں دسویں چیز بھول گیا۔  غالبا ً 10 وہ کلی کرنا ہے۔  ان چند سطروں کی تحریر سے اس بات کی بخوبی وضاحت استدلالی صورت میں ہوگئی۔ کہ داڑھی کا بڑھانا۔ حضرات انبیاء علیہ السلام  کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔ جس کی آپ ﷺنے صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کومخاطب  فرما کر وجوبی (1) صورت میں ترغیب دی۔  اور اس کے لئے آپ نے کوئی حد اور وقت بھی معین نہیں فرمایا۔  لیکن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے ملاحظہ ہو۔

واخرج ابوداود من حديث جابر حسن قال كنا نعفي السبال الافي حجة او عمرة 

’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ ہم لوگ (صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین ) داڑھی کے بالوں کوچھوڑ دیا کرتے تھے۔ مگر حج یا عمرہ میں کٹوایا کرتے تھے۔‘‘  اور شرح نخبہ میں شیخ الاسلام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  عسقلانی تحریر فرماتے ہیں۔

ومثا ل المرفوع من الفعل حكما ان يفعل الصحابي ما لا مجال فيه للاجتهاد فينزلعلي ان ذلك عنده عن البي صلي الله عليه وسلم كماقال الشافعي في صلوة علي في الكسوف في كل ركعة اكثر  من ركوعين انتهي

وقال السيوطي من المرفوع ايضا ما جاء عن الصحابي ومثله لايقال من قبل الراي ولا مجال للا جتهاد فيه فيحمل علي السماع جزم به الرازي في المحصول وغيره من ائمة الحديث وترجم علي ذلك الحاكم في كتابه معرفة الاسانيد التي لايذكزمسند ها الخ (تدریب الراوی ص 63)

دونوں عبارتوں کا خلاصہ ترجمہ یہ ہے۔ کہ جب کسی صحابی سے کوئی ایسا امر ثابت ہو جس کی بنا  عموما صرف عقل ہی پر نہ ہوا کرتی ہو۔  اور نہ اس میں اجتہاد کو دخل ہے۔ اوراس صحابی کی عادت اسرائلیات روایت کرنے  کی بھی نہیں ہے۔ تو وہ امر حدیث مرفوع کے حکم میں آتا ہے۔ اور موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں ہے۔

مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ ، كَانَ إِذَا أَفْطَرَ مِنْ رَمَضَانَ ، وَهُوَ يُرِيدُ الْحَجَّ ، لَمْ يَأْخُذْ مِنْ رَأْسِهِ وَلَا مِنْ لِحْيَتِهِ شَيْئًا ، حَتَّى يَحُجَّ

(ترجمہ۔ ’’عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب رمضان سے فارغ ہوتے اور ان کا حج کا ارادہ ہوتو اپنا سر اور داڑھی نہ کٹواتے یہاں تک کہ حج کرتے اور دوسری روایت میں ہے۔‘‘

 أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ ، كَانَ إِذَا حَلَقَ فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ ، أَخَذَ مِنْ لِحْيَتِهِ وَشَارِبِهِ

ترجمہ۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب حج یا عمرہ کےلئے سر منڈاتے اور اپنی داڑھی اور مونچھوں سے بھی کم کراتے۔‘‘

اور یہ اثر تعلیقا بخاری شریف میں ان لفظوں میں مروی ہے۔

وكان ابن عمر اذا حج اواعتمر قيض علي لحيته فما فضل اخذه

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب حج یا عمرہ کرتےتو اپنی داڑھی کو مٹھی سے پکڑتے اور جو مٹھی سے زیادہ ہوتی اسے کٹوادیتے اور اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی ثابت ہے۔ (حوالہ عنقریب آجائےگا)

یہ دونوں جلیل القدر صحابی  رضوان اللہ عنہم اجمعین  داڑھی کو کٹوایا کرتے تھے۔ اور  داڑھی بڑھانے کی حدیث بھی ان دونوں حضرات سے منقول  ہے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے جو حدیث بخاری شریف میں مروی ہے۔ وہ تو اوپر تحریر ہوچکی ہے۔ اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مسلم شریف میں مروی ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا کہ مونچھوں کو خوب  کٹوایا کرو۔ اورداڑھی کوبڑھائو۔ بہرحال ان حضرات کے فعل اور روایت میں تعارض واقع ہورہا ہے۔ اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ان حضرات نے دیدہ دانستہ حدیث کے خلاف کیا نعوذ باللہ اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کو ر سول للہ ﷺ کی حدیث نہیں پہنچی تھی۔ (کیونکہ وہ تو خود ہی روایت کرتے ہیں)اس صورت میں سوائے اس کے کہ ان کے فعل او ر روایت میں تطبیق دی جائے۔  اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ چنانچہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے جو تطبیق دی ہے۔ اس کو اس جگہ نقل کردینا مناسب ہے۔

ابوداود والنسائي من طريق مروان بن سالم رايت ابن عمر يقبض علي لحيته ليقطع مازادعلي الكف وفي البخاري كان ابن عمر اذا حج اواعتمر قبض علي لحية فما فضل اخذه واخرجه ابن ابي شيبة وابن سعد ومحمد بن الحسن وروي ابن ابي شيبة عن ابي هريرة نحوه وهذا من فعل هذين الصحابيين بعارضة حديث ابي هريره مرفوعا احفوا الشوارب واعفوا اللحي خرجه مسلم وفي صحيين عن ابن عمر مرفوعا احفوالشوارب واعفوا اللحي ويمكن الجمع بحمل النهي علي الاستيصال اوماقاربه بخلاف المذكور ولاسما ان الذي فعل ذلك هوالذي رواه تخريج ص 176

خلاصہ مطلب اس عبارت کا یہ ہے کہ  ان دونوں جلیل القدر صحابیوں  رضوان اللہ عنہم اجمعین  کے فعل اور روایت میں یوں تطبیق ممکن ہے۔ کہ آپﷺ کی حدیث میں جو داڑھی کٹوانے کی ممانعت ہے۔ تو وہ جڑ سے کٹوانے کی ممانعت ہے۔ (جیسا کہ آجکل عام رواج ہے۔ )اور مطلقا ً کٹوانے کی ممانعت نہیں ہے۔ جیس کہ راویان حدیث سے ثابت ہے۔ اور فتح الباری شرح صحیح بخار ی میں لکھا ہے۔  کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بھی ایک شخص کی داڑھی کم کرائی تھی (پارہ 24)

تنبیہ

اس مسئلہ میں حضرات محدثین کرام میں اختلاف ہے۔  فریق اول کے نزدیک کسی حالت میں کٹوانا جائز نہیں ہے۔ اور اس کے بہت تھوڑے لوگ قائل ہیں۔ انہیں میں سے اما م غزالی رحمۃ اللہ علیہ  ہیں اور امام نووی  رحمۃ اللہ علیہ  کارجحان بھی یہی ہے۔  فریق ثانی کے نزدیک حج یا  عمرہ کے زمانہ میں  کٹوانا مستحب ہے۔ اس کے قائل امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ ہیں۔

فریق ثالث۔ جب کبھی داڑھی کے بال بکھر جاویں اور داڑھی ایک مٹھی سے بڑی ہو اس وقت داڑھی کو مٹھی سے پکڑ کر زیادہ کو کٹوانا جائز ہے۔ اس کے قائل حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ  عطارحمۃ اللہ علیہ ۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ ۔ اورحافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ اور یہی مذہب اکثر علماء کا ہے۔ بموجب تحریر استاد الہند حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ  صاحب  محدث دہلوی کے چنانچہ شاہ صاحب ممدوح شرح موطا کے حاشیہ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اثر مزکور کے تحت فرماتے ہیں۔ وعلیہ اھل العلم الخ(اہلحدیث امرتسر 7 جنوری 1921ء)

داڑھی کے بڑھانے اور کٹانے کی بحث حضرت الامام مولنا عب الجبار صاحب غزنوی رحمۃ اللہ علیہ  کا فتویٰ مولانا محمد علی صاحب لکھنوی مدنی کا ایک علمی مضمون جو داڑٖھی کے بڑھانے اور کٹانے کے مسئلے کے متعلق الاعتصام کی کسی گزشتہ اشاعت میں شائع ہوا تھا۔ اس پرمولوی عبدالقادر صاحب حصاروی نے تعاقب کیا۔  جس کے بعض الفاظ فی الحقیقہ نامناسب تھے۔ اس تعاقب کے جواب میں الاعتصام کی گزشتہ اشاعت میں مولانا محمد علی لکھنوی کا ایک مختصر سا نوٹ شائع ہوچکا ہے۔  آج ہم اس مسئلہ پرحضرت الامام مولانا عبد الجبار صاحب غزنوی رحمۃ اللہ علیہ  کا ایک فتویٰ ان کے مطبوعہ مجموعۃ الفتاویٰ ص 241 مولانا محمد دائود راز صاحب غزنوی کے توجہ دلانے سے شایع کر رہے ہیں۔  اُمید ہے کہ حضرت امام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کا یہ فتویٰ اس مسئلہ میں قول فیصل کی حیثیت سے دیکھا جائے گا۔

مٹھی سےزائد داڑھی کٹوانے کا جواز

استفتاء کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیاں شرح متین اس مسئلے میں کہ داڑھی کو ایک مشت سے کم کرنے والا تارک سنت ہے یا نہیں؟ بنیوا توجروا

الجواب وھو الموفق للصواب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ۔

داڑھی اگر قبضہ سے زائد ہو تو اس کا کٹوانا جائز ہے۔ صحیح بخاری میں ہے۔

وكان ابن عمر اذا حج او اعتمر قبض علي لحينة فما فضل اخذها

اور فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے۔

ثم ساق الطبري بسنده الي ابن عمر انه  فعل ذلك برجل ومن طريق ابي هريره انه قعل

اور موطا امام مالک میں ہے۔

ان سالم بن عبد الله كان اذا اراد ان يحرم دعابالجملين فقص شاربه واخذ من لحيته ايضا

موطا میں ہے۔

ان عبد الله بن عمر كان اذا افطر من رمضان وهو يريد الجمع لم ياخذ من راسه ولا من لحيته شيا حتي يحج

ترجمہ۔ اور عبد  اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب حج یا عمرہ کا  ارادہ کرتے تو اپنی داڑھی مبارک مٹھی میں لیتے جو مٹھی سے زیادہ ہوتی تو اس کو کاٹ ڈالتے ۔ اور فتح الباری شرح بخاری میں ہے۔ کہ پھر طبری نے اس حدیث کی سند کو عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو پہنچایا کہ انہوں نے خود یہ فعل کیا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے انھوں نے کسی اور شخص سے یہ فعل کیا۔ اورابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےطریق سے مروی ہے۔ کہ انہوں نے بھی یہ فعل کیا۔ اور موطا  امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  میں ہے۔ کہ سالم بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب احرام باندھنے کا ارادہ کرتے تو قینچی منگواکر اپنی مونچھیں کاٹ ڈالتے۔ اور اپنی داڑھی سے بھی کچھ بال لیتے۔ ایضاً موطا میں ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب  رمضان المبارک سےفارغ ہوتے۔ اور حج کا ارادہ بھی ہوتا تو اپنی داڑھی اور سر کے بال نہ کاٹتے۔ یہاں تک کہ حج مبارک سے فارغ ہوتے۔

اس  سے معلوم ہوا کہ شوال اور زی قعدہ اور عشرہ زی الحج تک نہیں کتراتے تھے باقی مہینوں میں قبضے سے اگر زائد ہوجاتی تھی۔ تو کتراتے اور سبب کترانے کا طول داڑھی کا ہے نہ نسک (اعمال حج) کیونکہ اخذ من اللحۃ (داڑھی کا کٹانا)کسی اہل علم کے نزدیک نسک سے نہیں ہے۔ سر کے بالوں  کا حلق او رقصر بلاشک نسک سے ہے۔ زیادہ طول  لحیہ بعض علماء مکروہ  لکھتے ہیں۔  کا لقاضی عیاض وغیرہ مگر حدیث صحیح اعفوا اللحی سے ثابت ہے کہ مکروہ نہیں اور قبضہ سے زائد کترانا منافی اعفاء کا نہیں ہے۔ اگرچہ کامل اعفاء طول میں ہے۔ حافظ ابن  عبد البر رحمۃ اللہ علیہ  استذکار میں لکھتے ہیں۔

وفي اخذ ابن عمر في الحج من مقدم لحيته دليل علي جواز اخذ من اللحية في غير الحج لانه لوكان ذلك غير جائز في سائر الزمان ما جاز في الحد لانهم انما امروان يحلقوا اويقصروا اذا حلوا من حجهم ما نهوا عنه في احرامهم وابن عمر روي عن النبي صلي الله عليه وسلم  اعفوا اللحي وهو اعلم بعني ما روي وكان المعني عنده وعند جمهو العلماء الاخذ من اللحية ما نظا ئر وتفاحش وسمج والله اعلم وروي عن علي انه كان ياخذ من لحية مما يلي وجهه وقال ابراهيم كانوا ياخذون من عوارض لحام وكان ابراهيم ياخذ من عوارض لحية وعن الي هريره انه كان ياخذ من اللحية ما فضل من القبضة وعن ابن عمرمثل ذلك ومن الحسن مثله وقال قتادة ما كانوا ياخذون من طولها الافي حج اوعمرة وكانوا ياخذون من العارضين كل هذا من كتاب ابي بكر بم ابي شيبة بالاسانيد اخبرنا عبد الوارث ثنا قاسم ثنا الحسيني ثنا محمد بن ابي نجيع عن مجاهد قال رايت ابن عمر قبض علي لحينة بيده ثم قال للحجام خذ ما تحت القبضة انتهي

ترجمہ۔ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا ایام حج میں اپنی داڑھی کے آگے سے بال لینا اس بات پر دلیل ہے۔ کہ غیر ایام حج میں بھی یہ فعل جائز ہے۔ کیونکہ اگر یہ فعل تمام ازمنہ میں ناجائز ہو تو حج میں بھی جائز نہ ہوتا۔  کیونکہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کو تو یہ حکم تھا کہ جب وہ حج سے فارغ ہوں۔ تو وہ اپنے بال منڈوادیں۔ یا کتروادیں جس سے ان کو احرام کی حالت میں روکا گیا تھا۔ اورعبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے۔  اعفوا اللحی (داڑھیوں کو بڑھائو) اور خود مٹھی سے بال زیادہ لیتے تھے۔ ا س حدیث کا مطلب عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ  خوب جانتے ہیں۔  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور جمہور علماء کے نزدیک یہ جائز ہے کہ وہ بال لئے جایئں جو زائد اور پراگندہ ہوں۔ اور بُرے معلوم ہوں۔ واللہ اعلم۔ اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ وہ اپنی داڑھی کے دایئں بایئں سے  بال لیتے تھے۔  اور ابراہیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  دایئں بایئں کے بال لیتے تھے۔ اور ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ  خود بھی اپنی داڑھی کے دایئں بایئں بال لیتے تھے۔

اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ وہ اپنی داڑھی کے طول کی طرف سے وہ بال لیتے تھے جو مٹھی سے زیادہ ہوتے۔ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی اسی طرح ثابت ہے۔ اورحسن رحمۃ اللہ علیہ  سے اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا کہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین   ایام حج او ر عمرہ کے سوا اور دنوں میں داڑھی کے لنبان کی  طرف سے بال کبھی  نہ کاٹتے تھے۔ اور داڑھی کے دایئں بایئں طرف سے بال لیتے تھے۔ یہ سب مضمون مذکورہ بالا ابو بکر بن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب میں باسناد ثابت ہے۔  کہا خبر دی ہم کو عبد الوارث  رحمۃ اللہ علیہ نے کہا حدیث سنائی ہم کو قاسم رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا حدیث سنائی ہم کو حسن رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا حدیث سنائی ہم کو محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا حدیث سنائی ہم کو سفیان رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا حدیث سنائی ہم کو ابن ابی الجیح نے مجاہد رحمۃ اللہ علیہ  سے کہا میں نے عبد للہ  عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو دیکھا کہ اس نے اپنی داڑھی کی مٹھی بھری پھر حجام کو کہا کہ جو مٹھی سے نیچے ہے کاٹ ڈال اور قبضہ سے  کم رکھنا داڑھی کا ناجائز ہے۔ کیونکہ اعفاء کا خلاف ہے۔ اوراعفاء کے خلاف شارع کی طرف سے امر وارد ہے۔ اور امر جب تک قرینہ صارفہ نہ ہو۔ وجوب پر محمول ہوتا ہے۔  اور یہاں قرینہ صارفہ کوئی نہیں۔  تو اس امر وجوب کے واسطے ہے۔  اور وجوب کے خلاف کرنا گناہ ہے۔  اورحدیث

كان  رسول الله صلي الله عليه وسلم ياخذ من لحيته ن طولها وعرضها رواه الترمذي

اہل حدیث کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ (حررہ الراجی رحمۃ ربہ القوی ابوداوئود عبدا لجبار بن عبد للہ الغزنوی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ (27مارچ 1953ء۔ الاعتصام گوجرانوالہ)

----------------------------------------------------------

1۔ کیونکہ صیغہ امر سے مخاطب فرمایا اور امر وجوب کےلئے آتا ہے۔ جیسا کہ اصول سے ثابت ہے

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 123

محدث فتویٰ

تبصرے