السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شرکیہ منتر پڑھنا اور فائدہ پہنچانا جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرکیہ منتر سے دم کرنا حرام ہے۔ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ لاتشرك بالله ان قتلت اوحرقت الخ(11 جمادی الاول 58ہجری)
(بقلم مولوی الکارم ظفر صاحب مدرس مدرسہ اشاعت القرآن کھنڈیلہ )
گزارش ہے کہ شرکیہ الفاظ کے ساتھ دم کرنا یا کرانا شرعا ً ممنوع اور حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا۔ ان الله لم يجعل شفاء كم في حرام (ابو حاتم فی صیححہ)چونکہ شرک خبیث ہے اور خبیث کے ساتھ تداوی منع ہے۔ اس لئے ضرورت ہو یا غیر ضرورت ہر طرح حرام اور ناروا ہے۔ ابو اؤد میں ہے۔
ان النبي صلي الله عليه وسلم نهي عن الدواء الخبيث
اور دوسری جگہ مذکور ہے کہ عمرو بن حزم حضور رسالت مآب ﷺ کے پا س حاضر ہوئے اور عرض کیا۔
يارسول الله صلي الله عليه وسلم انه كانت عند فارقية نرقي بها من العقرب وانك نهيت عن الرقي قال اعرضو ها علي فقال ما اري باسا من استطاع منكم ان ينفع اخاه فلينفعه
جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے اس واسطے حکم دیا کہ اس رقیہ کو اس دم کو میرے سامنے پیش کرو۔ تاکہ اس کے درمیان شائبہ شرک ہو تو آپ ﷺمنع فرمادیں۔ جب آپﷺ نے سن لیا تب فرمایا۔ ما اري باسا اور اجازت دے دی کہ یہ دم کرلیا کرو۔ رسول اللہ ﷺ تو شرک سے بچانے کو نا معلوم دم سے بھی اجازت نہیں دیتے تھے۔ فكيف يبح الرقي بالكلمات الشركية نیز اسی حدیث سے معلوم ہوگیا کہ من استطاع منكم ان ينفع اخاه فلينفعه عموم پر ہرگز نہیں۔ اگر ہوتی تو آپ ﷺ کیوں فرماتے؟ کہ اس کو سامنے لائو اور سن کر کیوں فرماتے۔ '' ما اري باسا اس کے علاوہ عوف اشجعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
كنا نرقي في الجاهلية يا رسول الله كيف تري فقال اعرضوا علي رقاكم لا باس بالرقي ما لم يكن فيه شرك عوف کی حدیث سے معلوم ہوا لا باس بالرقي ما لم يكن فيه شرك عام ہے۔ اور من استطاع منكم ان ينفع اخاه فلينفعه آپ کا کلام بے سود ہوجائےگا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ او ر یہی تو موقعہ تعاویز کا تھا۔ آپﷺفرمادیتے کہ بوقت ضرورت شرکیہ کلمات کے ساتھ دم کرلیاکرو۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ کتاب لتوحید میں باب النشرہ زکرکرکے ایک حدیث حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زکر فرماتے ہیں۔
ان رسول الله صلي الله عليه وسلم سئل عن النشرة فقال هي من عمل الشيطان (رواہ احمد بسند جید وابوداؤد)
اس مختصر کے بعد معلوم کرنا چاہیے کہ شرکیہ کلمات کےساتھ شفا ہرگز نہیں۔ اس لئے کہ اس فعل سے اللہ رب العالمین کی عزت میں دست اندازی ہوتی ہے۔ جس کے ہاتھ میں نفع اور نقصان ہے۔ جب دست اندازہ ہوئی توشفا ء کہاں سےخواہ ضرورت ہو یا غیر ضرورت ضرورت کے وقت اگر حرام حلال ہوجائے۔ تو ضرورت کے وقت مزارات پرجانا اور ان سے شفاء مریضاں وحل مشکلات طلب کرنا جائز ہوگا۔ اور ضرورت کے وقت جائز ہوگا۔ کہ زنا اور لواطت کرلیا کریں۔ ضرورت کے وقت چوری راہزنی اور دیگر محرمات جائز ہوں گے۔ ضرورت کے وقت جائز ہوگا۔ کہ کسی عورت کے ساتھ تعلق کر کے دعویٰ کرلیں کہ اس کے ساتھ میرا نکاح ہوا ہے۔ اور گواہ جعلی پیش کردیں۔ خاوند والی عورت کو جیت کرلے جایئں۔ جب شرک کرنا کرانا جائز ومباح ٹھرا تو منہیات ومحرمات بطریق اولیٰ جائز ہوں گے۔ جوشخص قوت رجویت میں کمزو ر ہو ۔ اس پر رحم کر کے ا س کی عورت کے ساتھ حرام کاری شروع کردیں تاکہ رب العالمین اس کو اولاد دے۔ اوردلیل یہ پیش کریں۔ من استطاع منكم ان ينفع اخاه فلينفعه بس پھر تو دنیا میں لطف آجائے۔ نعوذ باللہ من ھذا
معلوم ہوا کہ حدیث میں من استطاع منكم ان ينفع اخاه فلينفعه عموم پر ہرگز نہیں۔ اور جب عموم پر نہیں تو شرکیہ کلمات سے جھاڑ پھونک کس طرح جائز ہوگا۔ جبکہ صراحتہ ادلہ حرمت موجود ہوں۔ (اہلحدیث 6 محرم 1351ہجری)
حضرت زینت رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے۔ کہ میرے گلے میں ایک یہودی کا تعویز بندھا ہوا تھا۔ جسے میرے شوہر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھ کر توڑ پھینکا اور فرمایا کے اس قسم کے بے ہودہ اور شرکیہ تعویزات عبد اللہ کے اہل وعیال کو ہرگز مناسب نہیں۔ میں نے عرض کیا ''مجھے سے فائد ہ معلوم ہوتا ہے'' فرمایا کہ یہ شیطانی عمل ہے۔ کیا رسول اللہ ﷺ کا تجویز کردہ تعویز
اذهب الباس رب الناس واشف انت الشافي لاشفاء الا شفاءك شفاء لا يغادر سقما
تیرے لئے مفید اور کافی نہیں۔ (احمد ابو دائود ابن ماجہ۔ ابن حبان مستدرک) جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے جھاڑ پھونک سے بالکل روک دیاتھا۔ پھر منتروں سے اس کے الفاظ سن کر اس شرط پر اجازت دی کہ اس میں شرکیہ الفاظ ہرگز نہ ہوں۔
لا باس بالرقي ما لم يكن فيه شرك
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب