السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بزریعہ فوٹوگراف کسی قاری کی قراءت قرآن پا کو سننا جائز ہے یا نہیں؟ مثلا سلطان ابن سعود کے خطبے یا عرب وعجم کے کسی قاری کی قراءت قرآن پاک وغیرہ
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جائز ہے۔ منع کی کوئی دلیل نہیں۔ (8اگست۔ 1930ء)
قراءت کی تشریح از قاری احمد سعید بنارسی
جاننا چاہیے کہ تجوید کہتے ہیں۔ خوبی ولطافت سے ہر حرف کو اپنے مخرج اور صفت کے ساتھ ادا کرنے کو اور ترتیل کہتے ہیں۔ آہستگی کے ساتھ مد اور تشدید وغیرہ صاف صاف اور ٹھر ٹھر کر پڑھنے کواس کا موضوع لہ حروف تہجی ہے۔ اور غایت تصیح حروف ہے۔ علم قراءت وہ علم ہے کہ جس کے اختلاف الفاظ وحی کے معلوم ہوتےہیں۔ اور قراءت تین قسم ہے ایک قراءت متواترہ دوم قراءت مشہور ہ سوم قراءت شازۃ قراءت متواترہ جن کے تواتر پراجماع واتفاق سے او ر منقول ہے۔ سات آئمہ سے ہر ایک امام کے دو رواوی مشہور ہے۔
حروف کے ادا کرنے میں جس جگہ آواز ٹھرتی ہے۔ اس کو مخرج کہتے ہیں۔ جس حرف کاجو مخرج ہے۔ اگر وہ وہیں سے ادا ہو تو حرف صحیح ہوگا۔ ورنہ غلط مخرج کے پہنچاننے کاطریقہ یہ ہے کہ جس کا مخرج معلوم کرنا ہو اس کو ساکن کر کے اس کے پہلےہمزہ مفتوحہ لا کرادا کریں۔ جیسے ب کی باء۔ اع کی ع۔ اخ کی خ۔ پس جگہ آواز ٹھیرے وہی اس کا مخرج ہے۔ کل حرف 19 اور مخرج 17 ہیں۔ کیونکہ بعض بعض مخرج سے کئی کئی حرف ادا ہوتے ہیں۔ حلق میں تین مخرج ہیں۔ 1۔ شروع حلق سینہ کی طرف مخرج ہمزہ وباء کا ہے۔ 2۔ بیچ حلق مخرج عین وحائ مھلہ کا ہے۔ 3۔ آخر حلق مخرج خین وخاء کا ہے۔
حرف حلقی شش بووائے نورعین ہمزہ ہاء وحاء وخاء وعین وغین
1۔ جڑ زبان حلق کی طرف معہ اوپر کے تالو کے مخرج قاف کا ہے۔ 2۔ مخرج قاف سے منہ کی طرف زرا ہٹ کر مخرج کاف کا ہے۔ 3۔ بیچ زبان معہ اوپر کے تالو کے مخرج جیم شین یا ی غیر مدہ کا ہے۔ 4۔ کنارہ زبان معہ داڑھ کے مخرج ضاد کا دونوں جانب سے ہے۔ مگر بایئں سے آسان ہے۔ 5۔ کنارہ زبان اور ضاحک نار رباعی ثنیہ کےمسوڑے مخرج نون کا ہے۔ 7۔ نون کے مخرج سے زرا اندر مخرج راء کا ہے۔ 8۔ سرا زبان مع جڑ ثنا یا علیا مخرج تار دال طاء کا9۔ سرازبان معہ سر ثناء یا علیا مخرج ثاء ذال ظاء کا۔ 10۔ نوک زبان مع درمیان سرا ثنایا علیا وسفلی مخرج ذاء وسین وصاد کا ہے۔
1۔ صفیر اس کے حروف کو صفیرہ کہتے ہیں۔ جو ص ز س ہیں۔ ان کےادا میں آواز مثل سیٹی کے ہونا چاہیے۔ جیسے مس کی س۔ 2۔ قلقلہ ا س کے حروف ساکن ہوں تو ایک آواز ٹوٹتی ہوئی نکلنی چاہیے۔ نہ مثل تشدید کے ہونہ کوئی حرکت جیسے خلق کا قاف 3۔ لین اس کے دونوں حرف کو ان کے مخرج سے بلا تکلف نرم ادا کرنا چاہیے۔ اس طرح پر کہ ان میں مدکرنا چاہیں۔ تو ہوسکے۔ جیسے یا صیف اور وائو خوف کے۔ 4۔ انحراف اس کے حرف کو منحرف کہتے ہیں۔ جو لام اور راء ہیں۔ لام کے ادا میں آواز سر زبان کی اور راء کی ادا میں آواز پیٹھ زبان کی طرف پھیرے اس طرح کے بجائے لام کے راء اور بجائے راء کے لام نہ ہونے پائے۔ 5۔ تفشی یہ صفت تین کی ہے۔ اس کے ادا میں آواز پھیلی ہوئی ہوناچاہیے۔ لیکن آواز پر نہ چڑھنا چاہیے ۔ نہیں تو شین پر ہوجائےگی۔ جیسے شئ کی شین استطالت یہ صفت ض کی ہے۔ اس کے ادا میں اس کے شروع مخرج سے اخر مخرج تک بتدریج آواز نکلنی چاہیے۔ یعنی آواز یکایک فورا ایک دفعہ نہ نکلے تاکہ کیفیت درازی مدہ کی سی ظاہر ہو۔ جیسے ولاالضالین کا ض۔ 7 تکریر یہ صفت راء کی ہے۔ اس کے ادا کرنے کے وقت اس کے مخرج میں زبان کو پورے طور پرقرار اور جمائو نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اگر بالکل ہی جڑ سے ادا نہ کی جائے۔ تو بجائے ایک رائ کے کئی ایک راء ہوجایئں۔ اس وجہ سے راء میں ایک قسم کی قوت ہوتی ہے۔ جیسے ر ب کی راء۔ اگر یہ صفت راء کی نہ ادا کی جائے۔ تو راء مثل وائو ہوجائے۔ لیکن تکریر حد سے زیادہ نہ کرنی چاہیے۔ کہ بجائے ایک راء کے کئی راء ادا ہوجایئں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب