السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں ریاست کی طرف سے دسہرے کے موقع پر پندرہ روز مسلسل بازارلگتا ہے۔ جس میں زیادہ تر جانوروں کی خرید وفروخت ہوتی ہے۔ صرف دو روز دسہرے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ باقی دنوں میں وہی خریدو فروخت بعض لوگ کہتے ہیں۔ کے صرف دو روز کے علاوہ اور دنوں میں شریک ہوسکتا ہے۔ بعض نوجوان رضاکاروں میں نام لکھوا کر انتظام کرتے ہیں۔ بعض مولوی صاحب بھی اس میلے میں شریک ہوتے ہیں۔ جس روز رسم ادا کی جاتی ہے۔ اس روز بھی رہتے ہیں۔ لوگ ان کو خطیب وامام بناتے ہیں۔ حالانکہ دوسرے مولوی بھی موجود رہتےہیں۔ جو ان تمام باتوں سے متنفر اور بیزار ہیں۔ خالد کہتا ہے کہ اس میلے میں شریکک ہونا حرام ہے۔ رضا کار بننا شرک کی اعانت ہے ایسے مولوی کو قطعاً امام یا خطیب نہ بنانا چاہیے۔ شرعی حیثیت سے اس کا جواب دیں۔ (شاہد بنارسی)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس قسم کی منڈیاں اسواق جاہلیت کی طرح ہیں۔ جن کی بابت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک باب کا عنوان یوں لکھا ہے۔
باب الاسواق التي كانت في الجاهلية فلما كان الاسلام فاتموا من التجارة فيها فانزل الله ليس عليكم جناح
جب اسلام آیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ان بازاروں میں تجارت کرنے کو گناہ سمجھا تو یہ آیت شریفہ نازل ہوئی کہ ان میں تجارت کرنا گنا ہ نہیں ہے۔ میرے ناقص علم میں یہی حکم منڈیوں کا ہے۔ جن کی بابت سائل نےسوال کیاہے۔ ہمارے امرتسر میں اس کی مثال بیساکھی اور دیوالی کی منڈیاں ہیں۔ جو کئی دن تک رہتی ہیں۔ جن میں لوگ ہر قسم کے مویشی کی خریدوفروخت کرتے ہیں۔ ہاں ایسے بازاروں میں ناجائز اشیاء فروخت نہ کرے۔ اور نہ فروخت کرنے پرمدد کرے۔ ایسا ہی مسلم رضا کار دسہرے کے کام میں بھی مدد نہ کرے۔ بحکم قولہ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب