السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کسی شخص کے مرجانے کے بعد چوتھے یا چالیسویں دن یا اس کے علاوہ متعین یا غیر متعین دنوں میں کسی مردے کے نام پر قرآن خوانی کرکے اورغرباء کو کھانا کھلا کے ایصال ثواب کرنا جائز ہے۔ یا ناجائز ؟(حکیم عبد المنان از ڈمراوں ضلع آرہ)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید پڑھ کر یا صدقہ خیرات کرکے میت کےلئے استغفار کرنا جائز بلکہ احسن طریقہ ہے۔ رسمی طور پر دن مقرر نہ کرنا چاہیے۔ (18 زی الحجہ 1362ہجری)
مردے کے واسطے ختم قرآن شریف پڑھ کر بخشنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب۔ اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ کہ قراءت قرآن کا ثواب مردہ کو پہنچتا ہے۔ یا نہیں۔ علماء حنفیہ کے نزدیک اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اور بعض اصحاب شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پہنچتا ہے۔ اور اکثر علماء شافعیہ کے نزدیک نہیں پہنچتا ہے۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مذہب یہی ہے کہ نہیں پہنچتا ہے۔ پس جن لوگوں کے نزدیک پہنچتا ہے۔ ان کے نزدیک سروے کے واسطے ختم قرآن پڑھ کر بخشنا جائز ہے۔ اور جن کے نزدیک نہیں پہنچتا ہے۔ ان کے نزدیک نہیں جائز ہے۔ شرح کنز میں ہے۔
ان للانسان ان يجعل ثواب عمله لغيره صلوة كان اوصوما اوحجا او صدقة اوقراءة قران او غير ذلك من جميع انواع البر ويصل ذلك الي الميت وينفعه عند اهل السنة
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مقدمہ مسلم میں لکھتے ہیں۔
واما قراءة القران فالمشهور من مذهب الشافعي انه لا يصل ثوابها الي الميت وقال بعض اصحاب يصل الي الميت وثواب جميع العبادات من الصلوات والصوم والقراءة وغير ذلك
اور ازکار میں لکھتے ہیں۔
وذهب احمد بن حنبل وجماعة من العلماء وجماعة من اصحاب الشافعي الي انه يصل والله اعلم بالصواب
(حررہ علی محمد عفی عنہ۔ (سید محمد نزیر حسین)
متاخرین علمائے اہل حدیث سے علامہ محمد بن اسماعیل امیر رحمۃ اللہ علیہ نے سبل السلام میں مسلک حنفیہ کو دلیلا بتایا ہے ۔ یعنی یہ کہا ہے کہ قراءت قرآن اور تمام عبادات بدنیہ کا ثواب میت کو پہنچنا ازروئے دلیل کے زیادہ قوی ہے۔ اور علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نیل الاوطار میں اس کو حق کہا ہے۔ مگر اولاد کے ساتھ خاص کیا ہے۔ یعنی یہ کہا ہے کہ اولاداپنے والدین کےلئے قراءت قرآن یا جس عبادت بدنی کا ثواب پہنچانا چاہے تو جائز ہے۔ کیونکہ اولاد کا تمام عملی خیر مالی ہویابدنی اور بدنی قراءت قرآن ہویانماز یا روزہ یا کچھ اور سب والدین کوپہنچتا ہے۔ ان دونوں علامہ کی عبارتوں کو معہ ترجمہ نقل کردینا یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے۔ سبل السلام شرح بلوغ المرام جلد اول صفحہ 206 میں ہے۔
ان هذه الادعية ونحوها نافعة للميت بلا خلاف واما غيرها من قراة القران له فاشافعي يقول لا يصل ذلك اليه وذهب احمد وجماعة من االعلما ء الي وصول ذلك اليه وذهب جماعة من اهل السنة والحنفية الي ان للانسان ان يجعل ثواب عمله لغيره صلوةكان اوصوما او حجا اوصدقة اوقراة قران اوذكر اقري نوع من انواع القرب وهذا هو القول الارجع دليلا وقد اخرج دار قطني ان رجلا سال النبي صلي الله عليه وسلم ان كيف يبرابيويه بعد موتهما فاجا به باانه يصلي لهما مع صلوته ويصوم لهما مع صيامه واخرج ابوداود من حديث معقل بن يسار عنه صلي الله عليه وسلم اقرا واعلي موتاكم سورة يس وهو شامل للميت بل هوا الحقيقة فيه واخرج الشيخان انه صلي الله عليه وسلم كان يضحي عن نفسه بكبش وعن امته بكبش وفيه اشارة الي ان الا نسان ينفعه عمل غيره وقد بسطنا اكلام في حواشي ضوء النهار بما يتضح منه قوة هذا المذهب انتهي
یعنی یہ زیارت قبر کی دعایئں اور مثل ان کے اور دعایئں میت کو نافع ہیں۔ بلااختلاف اور میت کے لئے قران پڑھنا سو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ کہ اس کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ہے۔ اور امام احمد اورعلمائ کی ایک جماعت کا یہ مذہب ہے۔ کہ قرآن پڑھنے کا یہ ثواب میت کو پہنچتاہے۔ اور علمائے اہل سنت سے ایک جماعت کا اور حنفیہ کا یہ مذہب ہے کہ انسان کو جائز ہے کہ اپنے عمل کا ثواب غیر کو بخشے۔ نماز ہو یا روزہ یا صدقہ یا قراءت قرآن یا کوئی اور زکر یا کسی قسم کی کوئی اور عبادت اور یہی قول دلیل کی رو سے زیادہ راحج ہے۔ اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ کہ ایک مرد نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ان کے مرنے کے بعد کیونکر نیکی واحسان کرے۔ آپﷺنے فرمایا کہ اپنی نماز کے ساتھ ان دونوں کےلئے نماز پڑھے۔ اور اپنے روزے کے ساتھ ان دونوں کےلئے روزہ رکھے اور ابودئود میں معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے مردوں پریٰس پڑھو۔ اور یہ حکم میت کو بھی شامل ہے۔ فی الحقیقت میت ہی کےلئے ہے۔ اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ ر سول اللہ ﷺ ایک بھیڑا اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے۔ اور ایک اپنی امت کی طرف سے اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی کو غیر کا عمل نفع دیتا ہے۔ اور ہم نے حواشی ضوء النہار میں اس مسئلہ پرمبسوط کلام کیا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہی مذہب قوی ہے۔ نیل الاوطار میں ہے۔ صفحہ 335 جلد 3۔
والحق انه يخصص عموم الاية بالصدقة من الولد كما في احاديث الباب وبالج من الولد كما في خبرا الخشعمية ومن غير الولد ايضا كما في حديث المحرم عن اخيه شيرمة ولم يستفصله صلي الله عليه وسلم هل اوصي شبرمة ام لا وبالعتق من الولد كما وقع في البخاري في حديث سعد خلا فاللمالكية علي المشهور عندهم وبالصلوة من الولد ايضا لما روي الدارقطني ان رجلا قال يارسول الله انه كان لي ابوان ابرهما في حال ديا تهما فكيف لي ببرهما بعد موتها فقال صلي الله عليه وسلم ان من البر بعد البر ان تصلي لهما مع صلاتك وان تصوم لهما مع صيامك وبالصيام من الولد لهذا الحديث ولحديث ابن عباس عند البخاري ومسلم ان امراة قالت يارسولم الله انامي ما تت وعليها صوم نزر فقال ارايت لوكان دين علي امك فقضيته اكان يودي ذلك عنها قالت تعم قال فصومي عن امك واخرج مسلم وابوداود والترمذي من حديث يريدة ان امراة قالت انه كان علي امي صون شهر فاصوم عنها قال صومي عنها ومن غير الولد ايضا لحديث من مات وعليه صيام صام عنه وليه ومتفق عليه وبقراءة يس من الولد وغيره لحديث اقر وا علي موتاكم يس وبالدعا من الولد لحديث او ولد صالح يدعوله ومن غيره لحديث استففروا لاخيكم وسلواله التثبيت ولقوله تعالي ۔ وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ ولما ثبت من الدعاء للميت عند الزيارة الخ وبجميع ما يفعله الولد لوالديه من اعمال البر لحديث ولد الانسان من سعيه (1)انتهي
حاصل وخلاصہ ترجمہ اس عبارت کا بقدر ضرورت یہ ہے کہ حق یہ ہے کہ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ اپنے عموم پر نہیں ہے۔ اور اس کے عموم سے اولاد کا صدقہ خارج ہے یعنی اولاد اپنے مرے ہوئے والدین کے لئے جو صدقہ کرے اس کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے۔ اور اولاد اور غیر اولاد کا حج بھی خارج ہے۔ اس واسطے کہ حثعمیہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد جو اپنے والدین کے لئے حج کرے۔ اس کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے۔ اور شبرمہ کے بھائی کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ کہ حج کا ثواب میت کو غیر اولاد کی طرف سے بھی پہنچتا ہے۔ اور اولاد جو ا پنے والدین کے لئے غلام آذاد کرے۔ تو اس کا بھی ثواب والدین کو پہنچتا ہے۔ جیسا کہ بخاری میں سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے۔ اوراولاد جو اپنے والدین کےلئے نماز پڑھے یا روزہ رکھے۔ سو اس کا ثواب بھی والدین کو پہنچتا ہے۔ اس واسطے کے دارقطنی میں ہے کہ ایک مرد نے کہا کہ یا رسول اللہ میرے ماں باپ تھے ان کی زندگی میں ان کے ساتھ نیکی اور احسان کرتا تھا۔ پس ان کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ کیونکر نیکی کروں۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ مرنے کے بعد نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کےلئے بھی نماز پڑھ اور اپنے روزہ کے ساتھ اپنے والدین کے لئے بھی روزہ رکھ اور صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میری ماںمرگئی۔ اور ا س کے زمہ نزر کے روزے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ بتا اگر تیری ماں کے ذمہ قرض (2)ہوتا۔ اور اس کی طرف سے تو ادا کرتی تو ادا ہوجاتا یانہیں۔ ''اس نے کہا ہاں ادا ہوجاتا آپﷺنے فرمایا روزہ رکھ اپنی ماں کی طرف سے اور صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک عورت نے کہا کہ میر ی ماں کے زمہ ایک مہینے کے روزے ہیں۔ تو کیا میں اس کی طرف سےروزہ رکھوں۔ آپ نے فرمایا کہ اپنی ماں کی طرف سے روزہ رکھ اور غیر اولاد کے روزہ کا بھی ثواب میت کو ملتا ہے۔ اس واسطے کے حدیث متفق علیہ میں آیا ہے۔ کہ جو شخص مرجائے اور ا س کے زمہ روزے ہوں۔ تو ا س کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے۔ اورسورۃ یٰس کا ثواب بھی میت کو ملتا ہے۔ اولاد کی طرف سے بھی اور غیر اولاد کی طرف سے بھی اس واسطے کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے مردوں پرسورہ یٰس پڑھو۔ اوردعا کا نفع بھی میت کو پہنچتاہے۔ اولاد دعا کرے یا کوئی اور اور جو جو کارخیراولاد اپنے والدین کےلئے کرے۔ سب کا ثواب والدین کو پہنچتاہے۔ اس واسطے کے حدیث میں آیا ہے کہ انسان کی اولاد اس کی سعی سے ہے۔ جب علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اور محمد بن اسماعیل امیر کی تحقیق ایصال ثواب اور قراءت قرآن وعبادات بدنیہ کے متعلق سن چکے تو اب آخر میں علامہ ابن النحوی کی تحقیق بھی سن لینا خالی از فائدہ نہیں آ پ شرح المنہاج میں فرماتے ہیں۔
لا يصل عندنا ثواب القراة علي المشهور والمختار الوصول اذا سال اللهايصال ثواب قراءت وينبغي الجزم به لا نه دعاء فاذا جازالدعاء للميت بماليس للداعي فلان يجوز بما هوله اولي ويبفي الامر فيهموقوفا علي استجابة الدعا ء وهذا المعني لا يختص بالقراءة بل يجرة في سائر الاعمال والظاهر ان الدعا ء متفق عليه انه ينفع الميت والحي والقريب والبعيد بوصية وغيرها وعلي ذلك احاديث كثيرة بل كان افضل ان يدعو لا خيه بظهر الغيب انتهي ذكره في نيل الاوطار
یعنی ہمارے نذدیک مشہور قول پرقراءت قرآن کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا اور مختار یہ ہے کہ پہنچتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ سے قراءت قرآن پہنچنے کے ثواب کا سوال کرے۔ (یعنی قرآن پڑھ کردعا کرے۔ اور یہ سوال کرے کہ یا اللہ اس قراءت کا ثواب فلاں میت کو تو پہنچادے)اور دعا کے قبول ہونے پر امر موقوف رہے گا۔ (یعنی دعا اگر اس کی قبول ہوئی تو قراءت کا ثواب میت کو پہنچے گا۔ اور اگردعا نہ قبول ہوئی تو نہیں پہنچے گا۔ )
اور اس طرح پر قراءت کے ثواب پہنچنے کا جزم کرنا لایق ہے۔ اس واسطے کے یہ دعا ہے پس جبکہ میت کےلئے ایسی چیز کی دعا کرناجائز ہے۔ جو داعی کے اختیار میں نہیں ہے۔ تو اس کےلئے ایسی چیز کی دعا کرنا بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا۔ جو آدمی کے اختیار میں ہے۔ اوریہ بات ظاہرہے کہ دعا کا نفع میت کو بالاتفاق پہنچتا ہے۔ اور زندہ کو بھی پہنچتا ہے۔ نزدیک ہوخواہ دور ہو۔ اور اس بارے میں بہت سی احادیث آئی ہیں۔ بلکہ افضل یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کےلئے غائبانہ دعا کرے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (کتبہ محمد عبد الرحمٰن المبارک فوری عفا اللہ عنہ۔ فتاویٰ نزیریہ ج1 ص 441۔ 444)
اہدائے ثواب قراءت قرآن للمیت میرے نزدیک صراحتہ کسی مرفوع صحیح احادیث سے ثابت نہیں۔ نیز صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ثابت نہیں۔ اس لئے مجھے ا س ک مشروعیت میں تامل ہے۔ لوگ اہدا ثواب ونیابت وبدل میں فرق نہیں کرتے۔ اقراء علي موتاكم یٰس میں موتیٰ کو ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے مختصر پر محمول کیا ہے۔ ونیز یہاں اہداء ثواب کی صورت بھی نہیں(3) ہے۔ واللہ اعلم۔ (حضرت مولانا ) عبید اللہ رحمانی مبارکپوری 19 مئی 53ء)
------------------------------------------------
1۔ نیل الاوطار طبع جدید مصری الجزالرابع ص80 ۔ راز
2۔ ان احادیث پر قیاس کرکے اگر کوئی میت کی طرف سے قضا نماز ادا کرے تو ثواب پہنچنے کی امید قوی ہے۔ والعلم عند اللہ۔ (از مولانا ثناء اللہ 9جولائی 37ء)
1۔ قراءت قرآن سے ایصال ثواب کے متعلق بعد تحقیق یہی فتویٰ ہے۔ اگر کوئی شخص قرآن مجید کی تلاوت کرکے ثواب میت کو بخشے تو اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔ بشرط یہ کہ پڑھنے والا خود بغرض ثواب بغیر کسی رسم ورواج کی پابندی کے پڑھے۔ (از مولانا ثناء اللہ رحمۃ اللہ علیہ )( 9 جولائی 37ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب