السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حلال جانوراگرمرجائے ،مردہ ہوجائے۔اس کاکچاچمڑہ تازہ بتازہ جواسی وقت اتاراگیا ہے اس کوخریدنایا اس کوبیچنایا کچا خریدکرکے کچا ہی نفع پربیچ دینایاکچاخریدکرکے بعدازدباغت نفع پربیچناجائز ہے یانہیں؟اس کوبالوضاحت حدیث سے حلال حرام تحریرفرمادیں ۔اوردلائل واضحہ اورلائحہ ہوں یاکچاچمڑا ترنہ ہوسوکھاہوا ہووہ جائز ہے یانہیں۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مشکوۃ میں ہے :
تصدق علی مولاة لموتة بشاة فماتت فمربهارسول الله صلی الله علیه وسلم فقال هلااخذتم اهابهافدبغتموه فانتفعتم به فقالواانهامیتة فقال انماحرم اکلها۔ (باب تطهیرالنجاسات ص 44)
’’میمونہ رضی اللہ عنہاکی آزادکردہ پرایک بکری صدقہ کی گئی ۔وہ مرگئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے۔ فرمایا: تم نے اس کاچمڑاکیوں نہ لیا؟دباغت دیکراس سےفائدہ اٹھالیتے ۔لوگوں نے کہایہ مردارہے فرمایاصرف اس کاکھاناحرام ہے۔‘‘
اس حدیث میں چمڑے کے لینے کا ذکرہے اور دباغت کے بعداس سے فائدہ اٹھانے کااور وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ دباغت سے پاک ہوجاتاہے ۔چنانچہ دوسری احادیث میں تصریح ہے ۔دباغهاطهورها یعنی چمڑے کا رنگنااس کی طہارت ہے۔ پس اس سے کچے چمڑے کی خریدوفروخت کا جوازبھی نکل آیا۔کیونکہ جب دباغت کے بعداس کااستعمال اس لیے جائزہوگیاکہ وہ دباغت سے پاک ہوگیا تواس کی ایسی مثال ہوگئی جیسے پلیدکپڑا۔اس کالینادینا،ہبہ کرنا،اس کی خریدوفروخت بالاتفاق جائز ہے۔ پس یہی مثال چمڑے کی ہے کیونکہ جیسے کپڑا دھونے سے پاک ہوجاتاہے اسی طرح چمڑا دباغت (رنگنے)سے پاک ہوجاتاہے۔ پس جیسے کپڑے کالینادیناخریدوفروخت دھونے سے پہلے درست ہے۔ایسے ہی چمڑابھی درست ہوگا۔کیونکہ دونوں میں اصل شئے پاک ہے اورپلیدی عارضی ہے ۔اوربیع اورلین دین میں مقصوداصل شئے ہے جوپاک ہے پلیدی کالینایاپلیدی کی بیع توہے نہیں جومنع ہو۔ ہاں جیسے پلیدکپڑے کوباندھ کرنماز نہیں پڑھ سکتا۔اسی طرح دباغت(رنگے)سے پہلے چمڑے سے بھی اس قسم کافائدہ نہیں اٹھاسکتا۔کیونکہ نماز کے لیے طہارت شرط ہے ۔اگرپلیدکپڑے سے سترڈھانک سکتاہے یاپر دہ کرسکتاہے تو پلیدچمڑے کابھی یہی حکم ہے۔اور اس کی تائیدموسیٰ علیہ السلام کے واقعہ سے بھی ہوتی ہے ۔جوقرآن مجیدمیں مذکورہے ـ7
﴿ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴾--سورة طه12
’’اے موسیٰ!اپناجوتااتارتوپاک وادی طوی میں ہے ۔‘‘
تفسیروں میں لکھاہےکہ آپ علیہ السلام کے پاؤں میں گدھے کے کچے چمڑے کاجوتاتھا۔اسی لیے فرمایاکہ توپاک وادی میں ہے اگرپاؤں میں پاک چمڑے کا جوتا ہوتا تواس کے اتارنے کی وجہ وادی کی طہارت نہ بتائی جاتی۔ بلکہ خدائی دربارکے آداب وغیرہ وجہ ہوتی ۔
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادانماحرم اکلها (صرف اس کاکھاناحرام ہے) اس سے معلوم ہواکہ چمڑا خواہ دباغت سے پاک ہوجائے مگرکھاناجائزنہیں۔ گویا یہ ضروری نہیں کہ ہرپاک شئے کوکھانابھی درست ہوبلکہ بہت دفعہ پاک شئے کا سرے سے استعمال ہی منع ہوتاہے جیسے درندہ (شیروغیرہ)کاچمڑادباغت (رنگنے)سے پاک ہوجاتاہے مگرحدیث میں استعمال منع آیاہے۔ ایسی شئے کی بیشک بیع بھی منع ہے کیونکہ بیع استعمال ہی کی خاطرہوتی ہے ۔جب اس کااستعمال ہی جائز نہیں نہ دباغت (رنگنے)سےپہلے نہ بعد،توپھربیع کا ہے کےلیے جائز ہوگی؟
خیریہ مسئلہ ذراتفصیل طلب ہے جس كی یہاں گنجائش نہیں نہ چنداں ضرورت ہے ۔اصل مقصدہمارایہاں اس چمڑے سے ہے جس کا استعمال کسی طریق سے درست ہے ،سواس کی بیع ہروقت درست ہے ۔خواہ کچاہویا رنگاہوا۔ اورخواہ پاک ہویاپلیداورخواہ ترہویاخشک ۔اورامام زہری تابعی رحمہ اللہ نے تواس پرزیادہ مبالغہ کرتے ہوئے بغیررنگے کے استعمال جائز قرار دیاہے اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں حدیثوں میں جودباغت کالفظ آیاہے اس پربحث کی ہے ۔کہاہے کہ اس لفظ کے ثبوت میں شبہ ہے توگویامردارکے چمڑے میں استعمال کے لیے دباغت کی بھی شرط نہ رہی ۔لیکن دباغت سے پہلے استعمال میں چونکہ اختلاف ہے امام زہری تابعی رحمہ اللہ ایک طرف ہیں اور دوسرے علماء ایک طرف ۔اس لیے اختلاف سے نکل جائے اوربغیردباغت کے عام طورپراستعمال نہ کرے ہاں لین دین ،ہبہ وراثت ،بیع شراء اس قسم کے احکام اس میں بے کھٹکہ جاری ہوں گے۔ اس سے نہ امام زہری رحمہ اللہ روکتے ہیں اورنہ دیگرسلف ؒ نے روکاہے ۔پس سوال میں جس صورت کا ذکرہے بلاشبہ درست ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب