السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کتاب الجنائز - تشریحات
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
از قلم حضرت مولانا مولوی عبد الرحمٰن صاحب محدث مبارکپوری المتوفی 10شوال 1353ہجری صاحب تحفۃ الاحوزی وابکار المنن وتحقیق الکلام وکتاب الجنائز وغیرہ)
جنائز کے احکام ومسائل اختصار کے وقت سے لے کر دفن تک اس کثرت سے ہیں۔ اوراس قابل ہیں کہ مستقل تصنیف میں جمع کئے جایئں۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے اس باب میں کتاب الجنائز کے نام سے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ ہمارے علم میں (واللہ تعالیٰ اعلم) محدثین میں سے اول اول جس نے اس باب میں مستقل کتاب لکھی وہ محدث عبد الوہاب ابن عطا الخفاف بصری نزیل بغداد ہیں۔ آپ بصرہ کے مشاہیر محدثین سے ہیں۔ فن حدیث میں خالد حزا۔ اور سلیمان تیمی۔ اورسعید بن ابی عروبہ وغیرہم کے شاگرد اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے استاذ ہیں۔ اور ابو عمرو بن علاء سے جو قراء سبعہ میں سے ایک مشہور قاری ہیں۔ فن قراءت حاصل کیاہے۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں اور ابو دائود ترمذی نسائی اور ابن ماجہ نے اپنے سنن میں آپ کی سند سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ محدث سعید بن ابی عروبہ کی صحبت میں ایک مدت تک تھے۔ 204 ہجری میں وفات پائی۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الجنائز سے فتح الباری میں بعض حدیثیں نقل کی ہیں۔ محدث عبد الوہاب بن عطا کے بعد علامہ مزنی نے کتاب الجنائز کے نام سے ایک مستقل کتاب تالیف کی ۔ عون المبود حاشیہ سنن ابی داوئود میں اس کتاب کی بعض روایتیں منقول ہیں۔ لیکن اصل کتاب سے نہیں۔ علامہ ممدوح امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے ماموں اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور شاگرد ہیں۔ نام اسماعیل بن یحیٰ ۔ کنیت ابو ابراہیم۔ وطن او مسکن مصر تھا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تایئد ونصرت میں بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے۔ المزني ناصر مذهبي جب آپ مختصر تصنیف کررہے تھے۔ تو جس مسئلہ کی تحقیق سے فارغ ہوتے۔ اور اس کو کتاب میں درج کرتے۔ تودو رکعت شکرانہ نما ز پڑھتے۔ نماز باجماعت کرنے کا اتنا التزام اور اہتمام رہتا تھا کہ جب کوئی نماز جماعت کے ساتھ نہیں ملتی۔ تو اس کو پچیس مرتبہ پڑھتے تاکہ جماعت کا ثواب حاصل ہو۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تجہیز وتکفین میں شریک تھے۔ اور آپ ہی نے ان کو غسل دیا تھا۔ 264 ہجری میں وفات پائی۔ اور قرافہ صغریٰ میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کے قریب دفن ہوئے۔ علامہ مزنی کے بعد محدث ابو بکر مروزی نے کتاب الجنائز کے نام سے ایک مستقل کتاب لکھی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی اس کتاب سے تلخیص الجیر میں بعض حدیثیں نقل کی ہیں۔ نام احمد بن علی ہے اور وطن ''مرو'' ہے۔ جو ملک خراسان کا ایک مشہور شہر ہے۔ فن حدیث میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور یحیٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ وغیرہما کے شاگرد امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اور ابوعوانہ اورطبرانی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کے استاذ ہیں۔ حافظ ذہبی تزکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں۔
كان من اوعية العلم وثفات المحدثين له تصانيف مفيدة ومسانيد
یعنی ابو بکر مروزی بہت بڑے عالم اور ثقات محدثین سے تھے۔ اور مفید کتابیں تصنیف کی ہیں۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سنن میں آپ کی سند سے کثرت سے روایت کی ہیں۔ شہر حمص کے عہد ہ قضا پر مامور تھے۔ پھر دمشق کے قاضی مقرر ہوئے اور دمشق ہی میں 292ہجری میں وفات کی۔
محدث ابو بکر کے بعد محدث ابن شاہین نے کتاب الجنائز کے نام سے ایک مستقل کتاب لکھی آپ کی اس کتاب کی نسبت حافظ زیلعی نصب الرایہ میں لکھتے ہیں۔ مجلد وسط یعنی اوسط درجہ کے حجم کی کتاب ہے۔ بہ بہت بڑی نہ بہت چھوٹی ابن شاہین عراق کے ایک مشہور محدث ہیں۔ نام عمر بن احمد کنیت ابو حفص ہے۔ دمشق شام فارس اور بصرہ میں بڑے بڑے آئمہ حدیث سےحدیث پڑھی ہے۔ ابن الفوارس کا بیان ہے کہ جس قدر کتابیں ابن شاہین نے تصنیف کی ہیں۔ کسی محدث نے تصنیف نہیں کیں۔ محمد بن عمر دائودی نے ابن شاہین سے سنا وہ کہتے تھے۔ کہ اس وقت تک جس قدر روشنائی میں نے خریدی ہے۔ اس کا حساب کیا تو وہ سات سو درہم کی ہوئی ہے۔ آپ کے سامنے جب مذہب کا تذکرہ ہوتا۔ تو آپ فرماتے انا محمدی المذہب۔ یعنی میرا مذہب محمدی ﷺ ہے۔ آپ کا سن ولادت 308 ہجری ہے ۔ اور سن وفات 385ہجری۔ حافظ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے نصب الرایہ میں ابن شاہین کی کتاب الجنائز سے متعدد حدیثیں نقل کی ہیں۔ (کتاب الجنائز ص 2تا4)
جب کوئی شخص مرنے کے قریب ہو تو سنت ہے کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف کردیں۔ اگر کسی وجہ سے اس کی طرف نہ لٹا سکیں۔ تو چت لٹایئں کہ اس کےپیر قبلہ کی طرف ہوں۔ اور سر نیچے تکیہ یا کوئی اور چیز رکھ کراونچا کردیں۔ کہ منہ قبلہ کی طرف متوجہ ہوجائے اس طرح لٹانے میں سنت بھی ادا ہوجائےگی۔ اگر قبلہ کی طرف متوجہ کرنے میں مریض کوتکلیف ہو تو جس حالت پر ہو اسی حالت پر اس کو چھوڑ دیں۔
اسی کوکلمہ لا الہ الا اللہ کی تلقین کریں۔ یعنی اس کے پاس بیٹھ کر یہ کلمہ باآواز بلند کہیں کہ وہ سنے اور یہ کلمہ اس کو یاد آجائے۔ اور اس کو کہے مگر ٹھر ٹھر کر اطمینان کے ساتھ کہیں لگاتار دیر تک نہ کہتے رہیں۔ اور نہ چلا کر شوروغل کے ساتھ کہیں کیونکہ مریض پر جانکنی کاوقت بہت نازک ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہوکہ آزردہ خاطر ہوکر کہیں زبان سے کوئی نا ملائم بات نکالے۔ یا اس کے دل کو اس سے نفرت ہو۔
مریض جب کہ ایک بار لا الہ الا اللہ کہے تو پھر تلقین کی ضرورت نہیں۔ ہاں اس کلمے کے بعد کوئی دوسری بات بولے تو پھر تلقین کرنی چاہیے۔ کہ وہ اس کلمہ کو پھر کہے اور اس کا آخری کلمہ لا الہ الا اللہ ہو۔
ابو دائود میں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔
قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من كان اخر كلامه لا اله الا الله دخل الجنة
یعنی ’’فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جس شخص کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘ اور مسلم میں ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ فرمایا رسول اللہ ﷺنے کہ جس بندے نے لا الہ الا اللہ کہا پھر اسی پر مرگیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ جامع ترمذی میں ہے کہ عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ جب قریب المرگ ہوئے تو ایک شخص ان کو کلمہ لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنے لگا اور اس کلمہ کوبار بار کہنے لگا عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب میں اس کلمے کو ایک بار کہہ لو تو میں اسی پر ہوں جب تک کہ میں کوئی اور بات نہ بولوں ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کہ مراد وہ حدیث ہے ۔ جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے۔ کہ جس شخص کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
یہاں مجھے ابو زرعہ محدث کا قصہ یاد آگیا۔ حافظ ابن حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جب ابو زرعہ قریب المرگ ہوئے تو لوگوں نے ان کو کلمہ لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنی چاہی اور باہم حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کا تزکرہ کرنے لگے۔ جو ابھی اوپر مذکور ہوچکی ہے۔ پس ابو زرعہ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو مع الاسناد پڑھنا اور سنانا شروع کیا۔ جب لا الہ الا للہ پر پہنچے اور اس کلمہ کو زبان سے کہہ چکے بس اسی وقت ان کی روح قبض ہوگئی سبحان اللہ کیسی اچھی موت ہوئی۔ اور کیسا اچھا خاتمہ ہوا۔
اللهم ارزقنا حسن لخاتمة واجعل اخر كلامنا لا اله الا الله امين
جانکنی کے وقت مریض کے پاس سورہ یٰسین پڑھنے کا بھی حکم ہے۔
جب روح قبض ہوجائے تو آنکھیں بند ہوجایئں۔ اور ہاتھ پیر سیدھے کردیئے جایئں ۔ اور تمام بدن کپڑے سے ڈھانک دیا جائے اور میت کےلئے اور اپنے لیے استغفار کریں۔ اور کوئی بُرا کلمہ زبان سے نہ نکالیں کیونکہ اس وقت جو کچھ کہا جاتا ہے فرشتے اس پرآمین کہتے ہیں۔ حضرت امہ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ر سول اللہ ﷺ ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرداخل ہوئے۔ اور ان کی آنکھیں کھلی تھیں تو ان کو بند کردیا۔ پس ان کے گھر کے بعض لوگ رونے چلانے لگے ۔ آپﷺ نے فرمایا اپنی جانوں کے واسطے بجز نیک دعا کے بددعا نہ کرو۔ اس واسطے کے تم لوگ کہتے ہو فرشتے آمین کہتے ہیں۔ پھر آپﷺ نے ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےلئے یوں دعا کی ۔
اللهم اغفر لابي سلمة وارفع درجته في امهد يين واخلفه في عقبه في الغابرين واغفر لنا وله يارب العلمين وافسح له في قبره ونور له فيه
یعنی ’’اے اللہ تو ابو سلمہرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بخش دے۔ اور ہدایت والوں میں سے تو اس کا درجہ بلند کر اور اس کے پسماندوں میں اس کا خلیفہ بن یعنی ان کا محافظ ونگہبان رہ ار ہم لوگوں کی اور اس کی مغفرت کریارب العالمین اور اس کے واسطے اس کی قبر میں کشادگی کر اور اس کے واسطے اس کی قبر میں روشنی کر‘‘ روایت کیا اس کو بخاری مسلم نے پس روح قبض ہوجانے کے بعد اہل میت کو یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ اور بجائے ابی سلمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے میت کا نام لیناچاہیے۔ مثلا میت کا نام عبد اللہ ہے۔ تو یوں کہنا چاہیے۔ اللهم اغفر لعبد لله وارفع درجته موت کے صدمے کے وقت صبر کرنا چاہیے۔ او ر یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
انا لله وانا اليه راجعون اللهم اجرني في مصيبتي واخلف لي خير ا منها
فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ یہ دعا پڑھے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بہتر بدلہ دیتا ہے۔ روایت کیا اس کو مسلم نے حضرت امہ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ جب (میرے شوہر اول) ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفات پائی تو میں نے اپنے جی میں کہا کہ ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر کون مسلمان ہوگا۔ یہ اس خاندان کے پہلے شخص تھے جس نے رسول اللہ ﷺ کیطرف پہلی ہجرت کی تھی۔ پھر میں نے اس دعا کو پڑھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں اس سے بہتر شخص (یعنی رسول اللہ ﷺ ) مجھ کو عطاز فرمایا۔ روایت کیا اس کو مسلم نے جو لوگ مصیبت کے وقت صبر کرتے ہیں۔ اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہیں۔ انکے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔
وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ﴿١٥٥﴾ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴿١٥٦﴾ أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ
''یعنی خوشخبری دے د ے ان صبر کرنے والوں کو جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں انا اللہ وانا الیہ ر اجعون یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے بخششیں اور ر حمت ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو راہ پائے ہوئے ہیں۔‘‘
میت پر نوحہ کرنا اور زور سے ر ونا بڑا گنا ہ ہے۔ آہستہ آہستہ رونا اور آنسو بہانا منع نہیں ۔ بخاری اور مسلم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میت والوں کے نوحہ کرنے اور زور زور سے رونے کی وجہ سے میت کو عذاب کیا جاتا ہے۔ اور بخاری مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺنے میں اس شخص سے بیزار ہوں۔ جو مصیبت کے وقت سر منڈائے اور چلا کر روئے اور کپڑوں کو پھاڑے۔ '' اور بخاری اور مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺنے ہم میں سے وہ نہیں جو اپنے گالوں کو پیٹے اور گریبانوں کو پھاڑے اور جاہلیت کی پکار پکارے'' یعنی رونے کے وقت زبان سے ایسی باتیں نکالے جو جاہلییت کے زمانے میں کافر لوگ کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو موت کے وقت صبر وجمیل کی توفیق بخشے۔ اور بے صبری کے تمام کاموں سے بچائے۔
تلقین کی حدیث سے ظاہر یہی ہوتا ہے۔ کہ تلقین کے وقت فقط لا الہ الا اللہ کہناچاہیے۔ مگر حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے لکھا ہے۔ کہ اس حدیث میں لا الہ الا اللہ سے مراد شہادت کے دونوں کلمے ہیں۔ یعنی الا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ دونوں کلموں کی تلقین کرنا چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
مرنے کے وقت ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن یعنی نیک گمان رکھنا چاہیے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت اور اس کے کرم وعام پر نظر کرکے یہ امید اور گمان رکھنا چاہیے کہ وہ میرے گناہوں کو بخشے گا۔ اور مجھ کو جنت میں داخل کرے گا۔ اور اپنے گناہوں پر نظر کرکے اللہ تعالیٰ پر ہرگز بدگمان نہیں رکھنا چاہیے۔ یعنی ہرگز یہ گمان نہیں رکھنا چاہیے کہ وہ میری مغفرت نہیں کرے گا۔ بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ انا عند ظن عبدي بي''یعنی میں اپنے بندے کے گمان کے بالکل نذدیک ہوں گا اور اس کے اسی گمان نیک یا بد کے مطابق اس کے ساتھ معامل کروں گا۔ اور مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا! رسول اللہ ﷺنے تم لوگوں میں سے ہر ایک شخص کو بس اسی حالت میں مرنا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن رکھے۔ ''ہاں پانے گناہوں سے نڈر بھی نہیں ہونا چاہیے۔ جامع ترمذی میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ حضرت ر سول اللہ ایک جوان شخص کے پا س تشریف لے گئے۔ اور وہ جان کنی کی حالت میں تھا۔ پسﷺ نے فرمایا تو اپنے آپ کو کیسا پاتا ہے؟ اس نے کہا میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ایسے وقت میں جس بندے کے دل میں یہ دونوں باتیں جمع ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز دیتا ہے۔ جس کی وہ امید رکھتا ہے۔ اور بے خوف کرتا ہے۔ اس چیز سے جس سے وہ ڈرتا ہے۔
موت کی سختی اور سکرات کی شد ت کو مکروہ سمجھنا اور نا پسند کرنا نہیں چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کو بھی موت کی سختی ہوئی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے میرے سینے پرٹیک دیے ہوئے انتقال فرمایا۔ پس میں آپ کے بعد کسی شخص کے واسطے موت کی سختی کو ناپسند نہیں کرتی۔ (بخاری) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ کی موت کی سختی دیکھنے کے بعد کسی شخص کی موت کی آسانی پر میں رشک نہیں کرتی۔ (جامع ترمذی)
ناگہانی موت کے بارے میں مختلف روایتیں آئی ہیں۔ بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھی نہیں۔ ابودائود میں عبید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ نے ناگہانی غضب کی پکڑ ہے۔ اور بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ناگہانی موت اچھی ہے۔ ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مصنف میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ہے۔ کہ ناگہانی موت مومن کے واسطے راحت ہے۔ اور فاجر کے واسطے غضب ہے۔ علمائے حدیث نے ان حدیثوں میں اس طرح جمع وتوفیق بیان کی ہے۔ کہ جوشخص موت سے غافل نہ ہو۔ اور مرنے کے لئے ہر وقت تیار ومستعد وآمادہ رہتا ہو اس کےلئے ناگہانی موت اچھی ہے۔ اور جو شخص ایسا نہ ہو کہ ا س کےلئے موت اچھی نہیں واللہ تعالیٰ اعلم۔
جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات کو موت بہت اچھی ہے۔ جامع ترمذی ص 180 میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺنے کہ جو شخص جمعے کے دن یا جمعہ کی رات کو مرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو قبر کے فتنے سے بچائے گا۔ ''یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کی تایئد متعدد حدیثوں سے ہوتی ہے۔ الحمد للہ میرے والد مرحوم نے جمعہ ہی کے دن بعد نماز جمعہ اس درار نا پایئدار سے دارلبقاء کو رحلت فرمائی ہے۔ اور وہ جمعہ بھی رمضان المبارک کے اخیر عشرے کا جمعہ تھا۔ غفرا للہ ورضی عنہ۔ دوشنبہ کے دن بھی موت اچھی ہے رسول اللہ نے دو شنبہ کے ہی دن انتقال فرمایا ہے۔ اسی وجہ سے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مرض الموت میں دو شنبہ کے دن اپنے مرنے کی تمنا ظاہر کی تھی۔ مگر ان کا انتقال منگل کی رات کو ہوا۔
قبر میں ہر ایک شخص سے سوال ہوگا مگر چندلوگ ایسے ہیں جن سے سوال نہیں ہوگا۔ از انجملہ ایک شہید فی سبیل اللہ ہے اور ایک مرابط یعنی وہ شخص جو سرحد اسلام کی حفاظت کرے۔ اور ایک وہ شخص جس کی موت جمعے کے دن یا جمعہ کی رات ہوئی ہوجیسا کہ اور ترمذی کی حدیث سے معلوم ہوا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بزل الماعون میں لکھا ہے۔ کہ جو شخص طاعون میں مبتلا ہوکرمرے۔ اس سے بھی قبر میں سوال نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ نظر شہید فی المعرکہ ہے۔ اور اسی طرح جوشخص طاعون میں صابراً محتسبا ً ٹھرا رہے۔ اور طاعونی مقام سے نہ بھاگے اس سے بھی قبر میں سوال نہیں ہوگا۔ اگرچہ وہ طاعون میں مبتلا ہوکر نہ مرا ہو کیونکہ وہ نظیر مرابط ہے۔
بعض موتیں شہادت کی موتیں ہوتی ہیں۔ ان موتوں سے مرنے والوں کو رسول اللہ ﷺنے شہید فرمایا ہے۔ موطا امام مالک اور ابودائود میں اور نسائی میں جابر بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا ر سول اللہ ﷺ نے کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے کے علاوہ یعنی جہاد میں شہید ہونے کے علاوہ شہادت کی سات قسمیں ہیں۔ جو طاعون سے مراد وہ شہید ہے۔ اور جو ڈوب کرمرا وہ شہید ہے۔ اور جو ذات الجنب سے مرا وہ شہید ہے۔ جو پیٹ کی بیماری سے مرا وہ شہید ہے۔ اور جو آگ میں جل کر مرا وہ شہید ہے۔ اور جو دیوار یا کسی اور چیز کے نیچے دب کر مرا وہ شہید ہے۔ اور جو عورت ولادت کے وقت مری وہ شہید ہے۔ 'اور ابن ماجہ اور دارقطنی کے ر وایت میں ہے۔ کہ مسافر کی موت شہادت سے اسی طرح پر اور بھی چند موتوں کا شہادت ہونا احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن ان موتوں سے مرنے والے حکمی شہید ہیں۔ اصل شہید اور ان حکمی شہیدوں کے درمیان احکام وجنائز کے متعلق کئی باتوں کافرق ہے۔ از اتجملہ ایک یہ کہ اصلی شہید بغیر غسل کے دفن کئے جاتے ہیں۔ اور ان حکمی شہیدوں کو غسل دینا چاہیے۔ اور از انجملہ ایک یہ کہ اصلی شہید پر جنازہ کی نماز پڑھنے کے بارے میں حدیثیں مختلف آئی ہیں۔ اسی وجہ سے اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ پڑھنی چاہیے۔ ار بعض کہتے ہیں کہ نہیں پرھنی چاہیے۔ اور ان حکمی شہیدوں پر جنازے کی نماز بالااتفاق پڑھنی ضروری ہے۔
اگر کوئی شخص کسی قریب المرگ سے کہے کہ رسول اللہ ﷺسے یا فلاں شخص سے میرا سلام کہہ دینا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بعض صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ایسا کیا ہے۔
کسی مصیبت اور تکلیف پہنچنے کی وجہ سے موت کی آرزو نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے تم لوگوں میں سے کوئی شخص کسی مصیبت پہنچنے کی وجہ سے ہرگز موت کی آرزو نہ کرے۔ اگراس کو آرزو کرنا ہی ہے تو یوں کہے۔
اللهم احيني ما كانت الحيوة خيرا لي وتوفني اذ كانت الوفاة خيرا لي (متفق علیہ)
''یعنی اے اللہ! مجھ کو زندہ رکھ جب تک میرے لئے زندگی بہتر ہو اور مجھ کو وفات دے جب میرے لئے وفات بہتر ہو۔‘‘
جب روح قبض ہوجائے تو فورا تجہیز وتکفین کا سامان کرنا چاہیے۔ حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن رجوح سے روایت ہے۔ کہ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن براء مریض ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کو تشریف لے گئے۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا تو بس یہی گمان ہے۔ کہ طلحہ کی موت آپہنچی تو ان کے مرنے کے بعد مجھے خبر دینا اور تجہیز وتکفین میں جلدی کرنا اس واسطے کے مسلمان کی لاش کو اس کے لوگوں میں روکنا مناسب وسزاوار نہیں۔ روایت کیااس کو ابودائود نے ۔
''اگر کوئی رات کو مرے اور رات ہی کو تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ ہوسکے تورات ہی دفن کردیں۔ دن کا انتطار نہ کریں۔ رات کو مردے کو دفن کرنا صحیح سے ثابت ہے۔ حضر ت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ر ات ہی کو دفن کیے گئے ہیں۔ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رات ہی کو دفن کی گئیں۔ اور اگر رات کے وقت تجہیزوتکفین اور نماز جنازہ نہ ہوسکے۔ تو البتہ دن کا انتظار کرنا چاہیے۔ اور جمعہ کے دن اگر نماز جمعہ کے قبل تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ سے فراغت ہوسکے تو قبل ہی فارغ ہوجانا چاہیے۔ اور نماز جنازہ میں زیاہ لوگوں کے شریک ہونے کے خیال سے نماز جمعہ کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ قرابت مند اور دوست احباب کو تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ میں شریک ہونے کے لئے موت کی خبر دینا جائزہے۔ رسول اللہ ﷺنے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو اور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے باہم ایک دوسرے کو موت کی خبر دی ہے۔ اورحدیث میں جو نعی کی ممانعت آئی ہے۔ سو نعی سے مطلق موت کی خبر دینا مراد نہیں ہے ۔ بلکہ اس طرح پرموت کی خبر دینا مراد ہے جس طرح پرزمانہ جاہلیت میں دستور تھا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے کہ جاہلیت کادستور تھا کہ جب کوئی مرتا تو کسی کے محلوں کے دروازوں پر اور بازاروں میں بھیجتے وہ گشت کرکے باآواز بلند اس کے مرنے کی خبر کرتا۔ ''اور نہای جزری وغیرہ میں لکھا ہے۔ کہ جب کوئی شریف آدمی مرتا یا قتل کیا جاتا تو قبیلوں میں ایک سوار کو بھیجتے جو چلا کر اس کی موت کی خبر کرتا۔ کہ فلاں شخص مرگیا۔ یا فلاں شخص کے مرنے سے عرب ہلاک ہوگیا۔ پس موت کی خبر جاہلیت کے اس طریقے پردینا ممنوع اور ناجائز ہے۔ اور مجرد موت کی خبر دینا جس طرح ر سول اللہ ﷺ نے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو اور صحابہ نے باہم ایک دوسرے کودی ہے منع نہیں۔ کوئی شخص مر گیا اور اس نے اپنی بیوی کا دین مہر ادا نہیں کیا۔ اور کچھ مال بھی نہیں چھوڑا تو اس صورت میں اس کی بیوی اگر اپنا دین مہر اگر خوشی سے معاف کردے تو بڑے ثواب کی بات ہے۔ اور اپنے شوہر متوفی پر بہت بڑا احسان کرنا ہے۔ اور اگر مال چھوڑ گیا ہے تو اس صورت میں اس کی بیوی سے خوامخواہ دین معاف کرانا جائز نہیں۔ بلکہ اس صورت میں ورثاء کولاز م ہے کہ اس کی بیوی کا دین مہر اور دوسرے قرض خواہوں کا قرض فورا ادا کردیں۔ جامع ترمذی میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے نفس المومن معلقة بدينه حتي يقضي عنه یعنی مومن کی روح اس کے قرض کے ساتھ معلق رہتی ہے یہاں تک کہ اس کا قرض اس کی طرف سے ادا کیاجائے۔ ''مومن قرضدار کی روح جنت میں داخل نہیں ہوتی جب تک اس کی طرف سے اس کا قرض ادا نہ کیا جائے۔ مسند احمد میں محمد بن عبد اللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاقسم سے اس ذات پاک کی کہ جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید کیاجائے پھر زندہ ہو پھر اللہ کی راہ میں شہید کیا جائے۔ اور اس پر قرض ہو تو وہ جنت میں نہیں داخل ہوگا۔ یہاں تک کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔ نیز مسند احمد میں سعد بن اطول سے روایت ہے وہ کہتے ہیں۔ کہ میرا بھائی مرگیا۔ اور تین سو اشرفیاں چھوڑ گیا۔ اورچھوٹے بچوں کوچھوڑا تو میں نے ارادہ کیا۔ کہ ان اشرفیوں کو ان بچوں پر خرچ کروں۔ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تیرا بھائی اپنے قرض کے ساتھ مقید ہے۔ سوتو اس کا قرض ادا کر سعد بن اطول کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی کا کل قرض ادا کردیا۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص قرضدار مرے اور مال چھوڑ جائے تو اس کے وارثوں کولازم ہے کہ اس کا قرض فورا ادا کردیں۔ اور اگر اس نے مال نہیں چھوڑا ہے تو اگر قرض خواہ قرض کو معاف کردیں۔ یا وارث لوگ یا اور کوئی اور صاحب اس کا قرض اپنی طرف سے ادا کردیں تو خود بھی بہت بڑے ثواب کے مستحق ہوں گے۔ اور میت قرضدار کو بھی قرض کی قید سے رہائی ہوجائے۔
مسلم میں ابو الیسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ فرمایا رسول اللہ ﷺنے !
من انظر معسرا اووضع عنه اظله الله في ظله ''یعنی جس شخص نے کسی محتاج قرضدار کومہلت دی یا اس کا قرضہ معاف کردیا۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ اور ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کی مصیبتوں سے اس کو نجات دے گا۔ رسول اللہ ﷺ پہلے ایسے شخص کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ جو قرضدار مرتا اور مال نہ چھوڑ جاتا۔ جس سے اس کا قرض ادا نہ کیا جاتا۔ بلکہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو فرماتے کہ تم لوگ اس کے جنازے کی نماز پڑھ لو۔ پھر جب فتوحات ہویئں اورغنیمت کے مال آئے تو رسول اللہ ﷺ ایسی قرض دار میت کا قرض خود اپنی طرف سے ادا فرماتے ۔ اور اس کے جنازے کی نماز پڑھتے۔ (کتاب الجنائز از ص 8 تا 31)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب