سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(95) باب فی من ادعی الصحبتہ بعدالماتین

  • 6553
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1596

سوال

(95) باب فی من ادعی الصحبتہ بعدالماتین

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

باب فی من ادعی الصحبتہ بعدالماتین


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حافظ ابن حجر درنخبتہ الفکر نوشتہ الصحابى من لقى النبى صلى الله عليه وسلم مومناومات على الاسلام ودرشرحش کہ ازماتن است نوشتہ ويعرف كونه صحابتيابالتواتراوالاستفاضة اوالشهرة اوباخباربعض الصحابة اوبعض ثقات التابعين اوباخباره عن نفسه اذاكانت دعواه ذلك تدخل تحت الامكان- ملاعلی قاری درشرح الشرح درتشریح تحت الامکان نوشتہ ای الامكان العادى والامكان الشرعى فمن ادعى صحبته عليه الصلوة والسلام بعدمضى مائة سنة من وفاته صلى الله عليه وسلم لاتقبل دعواه لما صح عنه عليه الصلوة والسلام انه قال لاصحابه فى اخرعمره ارايتكم ليلتكم هذه فانه على راس مائة سنة منها لايبقى على وجه الارض ممن هواليوم عليها احدواه البخارى ومسلم من حديث ابن عمر- وعلامہ جلال الدین سیوطی درتدریب الراوی شرح تقریب النووی نوشتہ فان ادعى بعدمائة سنة من وفاته صلى الله عليه وسلم فانه لا يقبل وان ثبت عدالته قبل ذلك لقوله صلى الله عليه وسلم

حافظ ابن حجرنے نخبتہ الفکر میں لکھاہے کہ صحابی وہ ہے جس نے حالت ایمان میں رسولؐ اللہ سے ملاقات کی ہو اورفوت بھی اسلام پر ہوا ہو، اوراس کی شرح میں جو کہ ماتن نے کی ہے لکھا ہے صحابی کا صحابی ہونا خبر متواتر سے معلوم ہوتا ہے یا شہرت سے یابعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے یا بعض ثقہ تابعین رحمہم اللہ کی خبروں سے یا وہ اپنے صحابی ہونے کی خود باخود خبر دیوے مگر جب کہ اس کا دعوی امکان میں  داخل ہو، ملا علی قاری رحمہ اللہ نے شرح الشرح میں تحت الامکان کی تشریح میں لکھا ہے کہ امکان سے امکان عادی ہے اورامکان شرعی مراد ہے پس جس شخص نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی وفات کے سوسال بعد صحابی ہونے کا دعوی کیا تو اس کا دعو ی نہ قبول کیا جاوے کیونکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم

فى الحديث ارايتكم ليلتكم هذه فانه على راس مائة سنة لم يبق احدعلى ظهرالارض يريدانخرام ذلك القران قال ذلك سنة وفاته صلى الله عليه وسلم-

علامہ جلال الدین سیوطی درتدریب الراوی شرح تقریب النووی میں لکھا ہے کہ اگر کوئی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی وفات کے سوسال بعد صحابی ہونے کا دعوی کرے تو اس کایہ دعو ی ہرگز قبول نہ کیا جاوےاگرچہ اس دعوے سے پہلے اس کا عادل ہونا بھی ثابت ہو  کیونکہ حدیث میں  ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو تمھاری اس رات سے خبر دوں کہ آج سے سو سال تک جو کوئی روئے زمین پر ہے کوئی زندہ نہیں رہے گا مراد رکھتے تھے آپ انقطاع اس قرن کا اور آپ نے اپنی وفات کے سو سال میں یہ فرمایا تھا،

وشیخ عبدالحیی الکھنوی درشرح مختصرسیدشریف جرجانی نوشتہ:۔

فلوادعى احدبعدمضيئى عشربعدالمائة من الهجرةلم تقبل وكذاقال الذهبى فى ميزان الاعتدال رتن الهندى وماادرك مارتن الهندى شيخ رجال ظهربعد ستمائة فادعى الصحبة  والصحابة لايكذبون

سےحدیث صیح میں ثابت ہوا ہے کہ آپ نے اپنی امیر عمر میں صحابہ کرام سے فرمایا کہ میں تم کو تمھاری اس رات کی خبر دیتا  ہوں کہ اس رات سے سوسال تک جو کوئی آج روئے زمین پر ہے کوئی باقی نہ رہے گااس حدیث کو ابن عمرؓ سے بخاری ارمسلم نے روایت کیا ہے، اورمولوی عبدالحیی الکھنوی درنےشرح مختصرمیں لکھا ہے کہ جو کوئی ہجرت سے ایک سودس سال بعد صحابی ہونے کا دعوی کرے تو اس کا یہ دعوی نہ قبول کیا جاوے اسی واسطے دہبی نے میزان الاعتدال میں کہا کہ میں تجھ کو رتن ہندی کی کیا خبر دوں وہ شیخ دجال ہے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے چھ سوسال بعد ظاہر ہوا پھر اس نے صحابی ہونے کا دعوی کیا اورصحابہ کرامؓ سے کذب نہیں صادرہوتا اس

وهذاجرى على الله ورسولهشیخ محمد طاہر مکی درمجمع البحارنوشتہنوع فيمن ادعى الصحبة من المعمرين كذبا فمنهم سرتابك ملك الهندفى بلد قنوج قال لى سبع مائة وخمس وعشرون مسنة و ادعى رويته صلى الله عليه وسلم ومات سنة ثلث وثلاثين وثلثمائة ومنهم جابربن عبدالله اليمامى حدث ببخارى بعدالماتين عن الحسن البصرى وقال حملونى الى النبى صلى الله عليه وسلم منهم جبيربن الحرب ومنهم رتن الهندى شيخ دجال ظهربعدالستة مائة فادعى الصحبة وحدث باحاديث رتنيات وتسمى بابى  الرضارتن بن نصرقال كنت فى زفاف فاطمة- وهوامامنى لم يخلق اوشيطان بدى فى صورة بشراوشيخ ضال  كذاب  وقداتفقواعلى ان  اخرمن مات فى جميع الارض من الصحابة ابوالطفيل عامربن  واثلة سنة مائة واثنين بمكة وقدثبت انه قال قبل موته  بشهراونحوه فان على راس مائة سنة لايبقى وجه الارض احدفانقطع المقال

نے اللہ اوراس کے رسول پر جرات کی ہے، شیخ محمد طاہر مکی نے مجمع البحارمیں لکھا ہے کہ یہ نوع ان شخصوں کے بیان میں ہے کہ معمرین میں سے جنہوں نے صحابی ہونے کا جھوٹا دعوی کیا ایک ان میں سے سرتابک ہے جوکہ ملک ہند کے شہر قنوج میں ہوا ہے اس نے کہا کہ میری سات سوپچیس سال کی عمر ہے اوررسول کریم صلی الله عليہ وسلم کی روایت کا بھی دعوی کیا اورتین سوتیتیس۳۳منہ ہجری میں فوت ہوگیا اورایک ان میں سے جابر بن عبداللہ یمامی ہے اس نے ہجرت کے دوسوسال بخاری میں حسن بصری سے حدیث سنائی کہ مجھ کو نبی صلی الله عليہ وسلم کے پاس اٹھاکرلے گئے اورایک ان میں سے جبیربن حرب ہے اورایک ان میں سے رتن ہندی ہے جو کہ شیخ دجال چھ سوسال کے بعد ظاہر ہوا اور صحابی ہونے کا دعوی کیا اوراحادیث رتنیات بیان کیں اوراپنا نام ابی الدضارتن بن نصر ظاہر کیا اور یہ بھی کہا کہ میں فاطمہ رضی اللہ عنہاکی شادی میں حاظر تھا اوروہ یا تو منی ہوگا، کہ ابھی پیدا نہ ہوا ہو یاشیطان ہوگا کہ انسان کی صورت میں ظاہر ہوا ہو یا برہاکذاب اورگمراہ ہے اوراس پر اتفاق کیا ہے کہ صحابہ کرام میں سے تمام روئے زمین پر سب سے پیچھے ابوالطفیل عامر بن واثلتہ ایک سودوہجری میں مکہ معظمہ میں فوت ہوئے اوریہ بھی ثابت ہوچکا  ہے کہ رسول اللہ صلی الله عليہ وسلم نے اپنی وفات سے ایک ماہ یا کچھ کم زیادہ پیشتر اس بات کی خبردی ہے کہ آج سے سوسال تک ان لوگوں میں سے کوئی روئے زمین پرنہ رہےگا، بس فیصلہ ہوگیا

قال ابن حجر وقدوقع نحوه فى المغرب اخبرنى ابوالبركات بن زيدمكاتبة قال صافحنى والدى وقدعاش مائة قال صافحنى ابوالحسن على بن الخطاب وعاش مائة وثلثين قال صافحنى ابوعبدالله معمروكان عمره اربعمائة سنة قال صافحنى النبى صلى الله عليه وسلم ودعالى فقال عمرك الله يامعمر ثلث عمرات فهذاكله لايفرح به من له عقل قال القاضى محمد الثوكانى ومنهم جعفربن نسطوراادعى ان النبى صلى الله عليه وسلم دعا له بطول العمروعاش ثلثمائة واربعين سنة قال فى الذيل لاوجودله وهو احدالكذابين الذين ادعواالصحبة بعدالمأتين انتهى-

ابن حجر نےکہا کہ ملک مغرب میں بھی ایسا ہی ظہورمیں آیا ہے، مجھ کو ابوالبرکات بن زید نے بذریعہ خط خبر دی اورکہا کہ میرے سے میرے والد نے مصافحہ کیا اور وہ سوسال زندہ رہے اس نے کہا کہ میرے سے ابوالحسن بن علی بن خطاب نے مصافحہ کیا ہے اوروہ ایک سوتیس سال زندہ رہے اس نے کہا کہ میرے سے ابوعبداللہ معمر نے مصافحہ کیا اوران کی عمر چارسوسال کی تھی اس نے کہا کہ میرے سےنبی صلی الله عليہ وسلم نے مصافحہ کیا اورمیرے لئے دعا کی پھر آپؐ نے تین دفعہ فرمایا، لہ اے معمر اللہ تیری عمر میں برکت کرے جس کو اللہ نے عقل عنایت فرمائی ہے وہ ایسی باتوں سے خوش نہیں ہوتا قاضی محمد شوکافی نے کہا ہے کہ ایک ان  (کذابین) میں سے جعفر بن نسطورا ہے کہ اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی الله عليہ وسلم نے میرے لیے طول عمر کی دعا کی اور وہ تین سو چالیس سال زندہ رہا ذیل میں کہا کہ اس کا کوئی وجود نہیں اور وہ ان کذابون میں سے ہے جنہوں نے دو سال کے بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ہے چونکہ اجماع اہل سنت است کہ ابوالطفیل عامر بن واثلتہ آخر جمیع صحابہ است ور وفات و بعد از و کہے ور اطراف و اکناف زمین از صحابہ نماندہ و حدیث صحیح متفق علیہ شاہد ایں معنی است کہ تا صد سال از سال وفات رسول اللہ صلی الله عليہ وسلم کسے بر روئے زمین نخواہد ماند پس حیوۃ ابو سعید معمر حنشی تا مائتہ ثامنہ کہ عصر امیر سید علی ہمدانی است جگو نہ ممکن است کہ وریں رو حدیث صحیح متفق علیہ و اجماع امت است جناب امیر کبیر ہمعصر مخدوم جہانیانِ جہان بودو لادت مخدوم صاحب در سنہ سبع و سبع مائتہ و وفات اور سنہ خمس

ومما يرفع دعادى هولاء اجماع اهل العلم على ان اخرالصحابة موتا فى جميع الاوطان ابوالطفيل عامربن واثلته الجهينى وكان موته سنة اثنين ومائة بمكة

وثمانین وسبعماتہ ور تقصار نوشتہ چنین شنین شدہ کہ امیر سید علی ہمدانی بدیدن مخدوم جہانیان جہان رفت وبرورحجرہ مخدوم نشست خادم خبر کرد سید علی ہمدانی نشستہ محدوم فرمود ہمدان غیر علام الغیوب کسے نیست ایں راگفت وایشانرادرون نطلبیدانتھی  جمیع اہل علم اس پر متفق ہیں کہ تمام روئے زمین پر صحابہ کرام میں سے سب سے بعد ایک سودوہجری میں ابوالطفیل عامر بن واثلتہ جہنیی مکہ میں فوت ہوئے ہیں اوراس اجماع سے ان کل کذابوں کے دعوی باطل ہوجاتے ہیں چونکہ اہل سنت کا اجماع ہے کہ ابوالطفیل عامر بن واثلتہ اخیر صحابہ میں سے ہیں ان کی وفات کے بعد روئے زمین کے اطرافوں میں کوئی صحابہ زندہ نہیں رہا اورانہی معنے کی متفق علیہ کی صیح حدیث شہادت دیتی ہے کہ رسول کریمؐ کی وفات سے سوسال بعد ان لوگوں میں سے جو اس وقت روئے زمین پر تھے کوئی باقی نہیں رہے گا، پس ابوسعید معمر حبشی کی حیات جو کہ امر سید علی ہمدانی کا ہم عصر ہے آٹھ سوسال تک کس طرح ممکن ہے کہ اس میں متفق علیہ کی صیح حدیث کا اوراجماع امت کا رد ہوتا ہے جناب امیر کبیر مخدوم جہانیان جہاں کے ہم عصر تھے، مخدوم صاحب سات سوسات ہجری میں پیدا ہوئے اور آپ نے سات سو پچاسی میں وفات پائی، تقصارمیں لکھا ہے، کہ سنا گیا ہے کہ ایک دفعہ امیر سید علی ہمدانی مخدوم جہانیان جہاں کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے اورمخدوم صاحب کے حجرہ کے دروازہ پر بیٹھ گئے خادم نے خبر کی کہ سید علی ہمدانی بیٹھے ہیں، مخدوم صاحب نے ارشاد فرمایا کہ ہمہ دان علام الغیوب کے سوا کوئی نہیں ہے یہ کہا اوران کو اندرنہ بلایا، وایضادرتقصارنوشتہ  میرسید اشرف سمنانی درسیاحت رفیق علی ہمدانی بودغرض کہ ایں ہم ازاکابربرمائتہ ثمانیہ اندیس نظر برحدیث صیح متفق علیہ واجماع امت صحابی بودن معمر حبشی کذاب است وزورہذا ماظہرلی واللہ اعلم بالصواب۔

 حرره عبدالجباربن عبدالله الغزنوى عفاالله عنهما  (فتاوى غزنويه نمبر۱۵۶)

اورتقصارمیں لکھا ہے کہ میر سید اشرف سمنانی سیاحت میں علی ہمدانی کا رفیق تھا غرضیکہ یہ سب آٹھویں صدی کے اکابروں میں سے ہیں پس متفق علیہ کی صیح حدیث اوراجماع امت پر نظر کرنے سے معمر حبشی کا صحابی ہونا باطل معلوم ہوتا  ہے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 293-298

محدث فتویٰ

تبصرے