سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(94) عرش مخلوق ہے اوراس کی مخلوقیت پر یہ حدیث دلیل صریح ہے

  • 6552
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1815

سوال

(94) عرش مخلوق ہے اوراس کی مخلوقیت پر یہ حدیث دلیل صریح ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عرش مخلوق ہے اوراس کی مخلوقیت پر یہ حدیث دلیل صریح ہے


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عن ابى رزين العقيلى قال قلت يارسول الله اين كان ربناقبل ان يخلق السموت والارض قال كان فى عماء مافوقه هواء وماتحته هواء ثم خلق العرش ثم استوى عليه رواه الترمذى وابن ماجة واسناده حسن كذاقال الامام الذهبى وعن مجاهد قال قال عبدالله بن عمرخلق الله اربعة اشياء بيده العرش والقلم وادم وجنة ثم قال لسائرخلقه كن فكان فال الامام الذهبى اسناد جيد-

اگرکوئی نہیں دیکھااورمیں اس شخص کوجاہل سمجھتا ہوں جو ان کو کافر نہ کہے میں پرواہ نہیں کرتا خواہ جہمی اور رافضی کے پیچھے نماز پڑہوں یا یہود اورنصاری کے اورنہ ان پر سلام ڈالاجاوےاور نہ ان کی بیمار پرسی کی جاوے اورنہ ان سے نکاح کیا جاوے اورنہ ان کا جنازہ پڑھا جاوے اورنہ ان کا ذبیحہ کھایا جاوے، امام ابواحمد کرجی نے اپنی کتاب بہ عقیدہ کرجی میں اہل اسلام کے عقائد میں سے یہ عقیدہ لکھا ہے:۔

نمبر۱:۔ ابورزين عقيلى سے روایت ہے، کہ میں نے عرض کی یارسولؐ اللہ ہمارارب زمین وآسمان کے پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھا آپؐ نے فرمایا عمائین، یعنی کوئی چیز ساتھ نہ تھی جس کے اوپر اور نیچے دونوں طرف خلوہے پھر عرش کو پیدا کیا اورپھر بلند ہوا عرش پراس کو ترمذی اورابن ماجہ نے روایت کیا اوراس کی اسناد حسن ہے، امام ذہبی نے ایسا ہی کہا اورمجاہد سے روایت ہے اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ  عنہ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے اپنے ہاتھ کے ساتھ چارچیزیں پیدا کیں، عرش، اورقلم، ادم، اورجنت پھر باقی مخلوق کو پیدا فرمایا کہ ہوجاپس ہوگئی امام ذھبی نے کہا اس کی اسناد کہری ہے۔

كان ربنا عزوجل وحده لاشئى معه ولامكان يحويه فخلق كل شئى بقدرته وخلق العرش لالحاجة اليه فاستوى عليه-

امیرالمومنین قادرباللہ کا بھی ایک معتقد مشہور ہے جوبغدادکےاماموں اورعالموں کےسامنےپڑھاگیااوروہ ہےعقیدہ اہل سنت اورجماعت کااس معتقدمیں لکھا ہے:۔  وانه خلق العرش لاالحاجة واستوى عليه كيف شاء لااستواء راحة-

نمبر۲:۔ ہمارا رب عزوجل اکیلا ہی تھا نہ کوئی چیز اس کے ساتھ تھی نہ کو مکان اس کا حاوی تھاپس اس نے ہر چیز کو قدرت سے پیدا کیا اورعرش کو پیدا کیا بغیر احتیاجی کے طرف اس کا پھر اس پربلند ہوا،

نمبر۳:۔ اللہ تعالی نے عرش کو باوجود عدم احتیاج کے پیدا کیا اوراس پر جس طرح چاہا بلند ہوا نہ  قرار پکڑنا راحت کا۔

تفسیر قرطی میں ہے:۔

ولم ينكراحدمن السلف الصالح ان استوى على عرشه  حقيقة وخص عرشه بذاك لانه اعظم مخلوقاته-

اللہ تعالے کےعرش پر قائم ہونے کا سلف صالح  سے کسی ایک نے انکارنہیں کیا اورعرش کو اس کے لئے اس واسطے خاص کیا کہ وہ اس کی سب سے بڑی مخلوق ہے، حافظ ابن ابی شیبہ کتاب العرش میں لکھتے ہیں:۔

تواترت الاخباران الله تعالى خلق العرش فاستوى عليه فهوفوق العرش-

متواترحدیثوں سے ثابت ہے کہ اللہ تعالے نے عرش کو پیدا کیا پھر اس پر بلند ہوا پس اللہ عزوجل عرش کے اوپر ہے، کل ابل اسلام کا اتفاق ہے، کہ اللہ عزوجل  قدیم ہے، جوشخص غیراللہ کے قدم  کا قائل ہوجاوے، وہ غیر اللہ عرش ہو یا آسمان وزمین یا غیرہ وہ شخص مشرک کافر ہے کیونکہ قدم صفت مختصر باری تعالے ہے اس کو غیر کے واسطے ثابت کرنا شرک اورکفر ہے تعجب ہے آج کل کے نوخیز مفسروں سے ایک  (چکڑالوی) توکہے کہ عرش صفت باری قدیم غیر مخلوق ہے اورایک  (تنوی) کہتا ہے، کہ عرش آسمان وزمین سے بھی پیچھے پیدا ہوا یہ دونوں حضرات بہت باتوں میں اہل اسلام سے علیحدہ چال چلتے ہیں، ہداہمااللہ تعالے الی صراط مستقیم۔

حرره عبدالجباربن عبدالله الغزنوى عفاالله عنهما  (فتاوى غزنويه نمبر۱۵۵)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 292

محدث فتویٰ

تبصرے