سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92) کتاب العقائد

  • 6550
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1216

سوال

(92) کتاب العقائد

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کتاب العقائد


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمدلله العلى الاعلى والصلوة والسلام على عباده الذين اصطفى امابعد فقدرايت بعض معاصرينارسائل ردفيهاقول اهل السنة ان الله بائن من خلقه على العرش بذاته فى كل مكان بعلمه قال انه معنافى الارض بذاته كما هو على العرش وهذا قول مخترع مبتدع مخالف لعقيدة اهل السنة والجماعة والباعث عليهم امران استنكاف عن اتباع السلف واعجاب بازائهم وهماداءان مهلكان قل من ايتلى بهما الاهلك ومنشأغلطهم قول من قال ان معينه تعالى فى قوله عزوجل﴿وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ﴾ وقربه فى قوله تعالى ﴿وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ‌يدِ﴾ ووجهه فى قوله تعالى فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ من المتشابهات وهذاالقول وان نقل

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سب تعریف اللہ بزرگ وبرتر کی ہے اور صلوۃ وسلام اس کے بندوں پر جن کو پسندکیا امابعد۔ ہم نے اپنے بعض ہمعصروں کے رسائل میں دیکھا کہ انہوں نے اہل سنت کے اس قول کو  (کہ اللہ مخلوق اپنی سے مجداہے اور عرش پر ہے ازروئے ذات اپنی کے اورہر جگہ ہے ازروئے علم اپنے کے ) ردکیا اور اس بات کے قائل ہوئے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے ازروئے ذات اپنی کےجیسا کہ عرش پر ہے اوریہ قول مخترع مخالف عقیدہ اہل سنت وجماعت کے ہے باعث ان کے اس قول پر دو امر ہیں، اتباع سلف سے ننگ رکھنا اوراپنی رائے کو پسند  کرنا اوریہ دوفرض ہیں ہلاک کرنے والے جو شخص ان میں مبتلا ہواہلاک اور خراب ہوا اوران کے اس غلط قول کا باعث یہ قول ہے جو بعض نے کہا ہے کہ معیت اللہ تعالی برتر کے اس قول میں وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ اورقرب ا س قول میں وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ‌يدِ اوروجہ اس قول میں فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ متشابہات میں سے ہیں اوریہ قول اگرچہ

عن بعض اهل العلم  لكن المستدلين به غفلواعن مرادهم وذهلواعن مطلبهم فان مقصودهم من ذلك المتشابه المحتمل للمعانى لا المتشابه الذى لا يوول ولايفسر والمحمل قسم من المتشابه عندهم كما صرح به الطيبى والقسطلانى والبغوى وغيرهم وحكم هذاالنوع من المتشابه الردالى  المحكم الذى لايحتمل الامعنى واحداوعلى هذاعدومعيته وقربه ووجهه فى هذا الايات من المتشابه ثم فسرواالمعية بالعلم والقرب بقرب المائكة او العلم والوجه بالجهة اوالمرضاة وتوضيح ذلك ان لفظ مع كما يستعمل فى قرب ذات الشئى بالشئى كذلك يستعمل فى غيره كما فى قوله عزوجل واذاخلواالى شيطينهم قالواانا معكم اى فى الدين والعقيدة وقوله عزوجل

ان الله مع الصابرين اى فى العون والنصر وقوله صلى الله عليه وسلم ان بالمدينة اقواما اسرتم مسيراولاقطعتم واديا الا كانوامعكم اى بالنصح والنية

بعض اہل علم سے منقول ہے لیکن اس قول کی دلیل لاینوالے اس قائل کے مطب ومراد سے غافل  وذہل رہے، ان کامقصود اس متشابہ کہنے سے یہ ہے کہ یہ آیتیں معانی کثیرہ کی محتمل ہیں، نہ یہ کہ یہ آیتیں متشابہ ہیں ان کی تاویل وتفسیر نہ کی جائے اورمحتمل ان کے نزدیک متشابہ کی ایک قسم ہے تصریح کی ہے اس کی طیبی اورقسطلانی اوربغوی وغیرہ نے اور حکم اس متشابہ محتمل المعانی کا یہ ہے کہ اس کو رد کیا جاوئے محکم کی طرف جو ایک معنی کے سوادوسرا احتمال نہ رکھے اسی بناء پر انہوں نے معیت اور قرب اور وجہ کو ان آیتوں میں متشابہ ٹھہرا کر  معیت علم اور قرب مالائکہ یا علم اور وجہ کی جہت یا خوشی کی تفسیر کی ہے تو ضیح یہی ہے کہ لفظ مع کا استعال جیسا قرب ذات الشئی بالشئی میں ہے غیر ذلک میں بکثرت مستعمل ہے جیسا خداوند عالم فرماتا ہے وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ یعنی جب منافق اپنے سرداروں کے پاس اکیلے جاویں کہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں یعنی دین اور عقیدہ میں اورقول اللہ تعالی کا إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ یعنی  اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے یعنی مددویاری میں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بالمدينة اقواما اسرتم مسيراولاقطعتم الخ یعنی مدینے میں کئی قومیں ہیں کہ نہیں سیر کرتے تم کو ئی سیر اورنہیں طے

والدعاءوقوله صلى الله عليه وسلم الماهربالقران مع السفرة الكرام اى فى الرتبة والثواب ويستعمل لمعان اخربحسب القرينة والمقام وايضا ضميرجمع المتكلم متصلاكان اومنفصلا كما يستعمله المعظلم المطاع لنفسه كذلك يستعمله فى من ارسله ويجرى حكمه كما فى قوله تعالى إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ‌ وَإِنَّا  لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ نَحْنُ  نَقُصُّ عَلَيْكَ  أَحْسَنَ الْقَصَصِ نَتْلُو عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَىٰ وَفِرْ‌عَوْنَ فَإِذَا قَرَ‌أْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْ‌آنَهُ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَ‌هُمْ  فالانزال والاحباءوالامانة والقصص والتلاوة والقرأة والكتابةوان كان فعل الملك لكن اسندالى نفسه لانه الامر الحاكم فكذلك فى قوله عزوجل وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ‌يدِ وان كان قرب المئكة الذين يكتبون الاعمال ويفسرها الايةالتى بعدها .إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ مايلفظ من قول الا لديه

کرتےتم کو جنگل مگر وہ تمہارے ساتھ ہیں یعنی ساتھ خیر خواہی اور نیت اور دعا کے اور قول آنحضرتؐ کا  الماهربالقران مع السفرة الكرام یعنی جو شخص قرآن سے ماہر وواقف ہو وہ سفرہ کرام کے سارتھ ہے یعنی رتبہ وثواب میں اور قرینہ اور مقام کے موافق دوسے معنی میں بھی مستعمل ہے اور بھی ضمیر جمع متکلم منفل ہویا منفصل بزرگ اور مطاع لوگ جیسا اپنے نفس کے واسطے استعمال کرتے ہیں اپنے قاصدوں کے واسطے بھی استعمال فرماتے ہیں جیسا اللہ تعالی وتقدس کے قول میں ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ تحقیق ہم نے ارتارا ہے ذکر کو، إِنَّا  لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ اور تحقیق البتہ ہم زندہ کرتے ہیں اور مارتے ہیں نَقُصُّ عَلَيْكَ  أَحْسَنَ الْقَصَصِہم بیان کرتے ہیں تیرے پاس اچھابیان نَتْلُو عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَىٰ وَفِرْ‌عَوْنَ ہم پڑھتے ہیں تیرے پاس موسی اور فرعون کی خبر سے فَإِذَا قَرَ‌أْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْ‌آنَهُ پھر جب پڑھنے لگیں ہم اس کو تو ساتھ رہ اس کے پڑھنے کے وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَ‌هُمْہم لکھتے ہیں جو آگے بھیج چکے اور ان کے پیچھے نشان رہے ان سب آیتوں اتدال اور احیاءاور امانت اور قصص اور تلاوت اورقرات اور کتابت اگرچہ فعل فرشتوں کا ہولیکن اللہ تعالے نے ان سب فعلوں کا استاداپنی ذات کی طر کیا ہے اس واسطے کہ وہ حاکم اور امر ان سب کام کا ہے اس طرح اللہ تعالے کے اس قول میں ہےوَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ‌يدِاورہم اس کے نزدیک ہیں ۔ دہڑکتی آگ سے مراد اس سے قرب ملائکہ ہے جو اعمال لکھتے ہیں اور مفسر ہیں اس کی وہ آیت جو بعد اس کے ہے یعنی  ِإِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ رقیب عتید جب لیتے

رقيب عتيد وفى قوله. وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُ‌ونَ وان كان قرب المئكة الموت كما يدل عليه سياق الاية وسباقها لكن اسنده الى نفسه لكونه الامر الحاكم وبه قال بعض اهل العلم انه القرب بالعلم والقول الاول اصح واماقربه مع الداعين والذاكرين فى قوله تعالى وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِ‌يبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ وقوله تعالى فَاسْتَغْفِرُ‌وهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَ‌بِّي قَرِ‌يبٌ مُّجِيبٌ وقوله عليه السلام ان الذى تدعونه اقرب الى احدكم من عنق راحلته وامثال ذلك فقرب خاص ذاتى فى بعض الاوقات كالنزول الى سماء الدنيا فانه ينزل كيف يشاء ويقرب من خلقه

جاتے ہیں وہ لینے والے راہنے بیٹھا نہیں بولتا کوئی بات مگر اس کے پاس ہے راہ دیکھتا تیار اور اسی طرح اللہ تعالے کے اس قول میں وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُ‌ونَ اورہم اس کے بہت نزدیک ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے اورمراد اس سے قرب ملائکہ موت ہے جیسا کہ آیت کے آگے پیچھے ملانے سے معلوم ہوتا ہے لیکن اس قرب کی نسبت اپنی ذات کی طرف اس واسطے کی کہ وہی آمر اور حکم ہے اس اک اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مراد اس قرب سے علم ہے اور صیح ترقول اول ہے اور قرب اللہ تعالی کا دعا کرنیوالوں اور یاد کرنے والوں کے ساتھ اللہ تعالی کے اس قول میں وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِ‌يبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ اورجب تجھ سے پوچھیں بندے میرے مجھ کو تو میں نزدیک ہوں پہنچتا ہوں پکارنے والے کی پکا ر کو جب مجھ کو پکارتا ہے اور اللہ کے اس قول میں فَاسْتَغْفِرُ‌وهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَ‌بِّي قَرِ‌يبٌ مُّجِيبٌ ۔ اور پیغمبر صلى الله عليه وسلم کے اس قول میں ۔ ان الذى تدعونه اقرب الى احدكم من عنق راحلته۔ تحقیق جس کو تم پکارتے ہو یعنے اللہ تمہارے بہت نزدیک ہے سواری کے اونٹ کی گردن سے اور ان کی امثال لیں، قرب خاص ذاتی ہے بعض وقتوں میں جیسا اترنا سماء دینا کی طرف پس اللہ تعالی اترتا ہے جیسا چاہئے اورنزدیک ہوتا  ہے اپنی خلق

كيف يشاء امنا به كل من عند ربنا وايضا الوجه يحبئي بمعنى مستقبل كل شئى ونفس الشئى وسيدالقوم والجاه يحبئي بمعنى الجهة كما القاموس والمختارة وبهذالمعنى فسراهل العلم فى تفاسيرهم قوله تعالى فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ اى جهة التى امربها قال العلامة التفتازانى فى فاضحة الماحدين ثم ان اولئك الملاحدةالذين هم اخوان ان الشيطين يخدعون الجاهلين بتمسلهم فى ذلك الضلال بقوله تعالى. وَلِلَّـهِ الْمَشْرِ‌قُ وَالْمَغْرِ‌بُ الايةبتفسيرهم وجه الله ههنا بذات الله موافقالرأيهم لابالجهة التى امربها ورضيها على ماهو الحق المبين والمطابق لقواعدالدين ولا جماع علماء المسلمين انتهى- ولما كانت هذه الايات محتملة للمعانى عدهاالبعض من المتشابه ثم فسرها هو وغيره من اهم السنة بالمعنى الذى لا يناقض النصوص التى لايحتمل الامعنى واحدولوكان هذا من المتشابه الذى لايفسرمافسره والنصوص التى لايحتمل الامعنى واحداقوله عزوجل إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ  تَعْرُ‌جُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّ‌وحُ إِلَيْهِ يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ مِنَ السَّمَاءِ

سےجیساچاہئے ہم کو اس کا ایمان ہے سب ہمارے رب کے پاس ہے اورنیز وجہ کا لفظ جیسا معنی میں سامنے ہر چیز کے اور ذات چیز کے اور سرادار قوم کے اور جاہ کے مستعمل ہے ویسا جہت کے معنے میں بھی آتا ہے، جیسا قاموس اور مختارہ میں ہے اور اس معنے سے تفسیر کیا  ہے اہل علم نے اپنی تفسیروں میں قول اللہ تعالی کو فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ وہین ہی ہے وجہ اللہ کا یعنے جہت جو اللہ نے فرمائی، علامہ تفتازانی نے فاضحتہ الملحدین میں کہا ہے کہ یہ ملحدسب جو شیطان کے بھائی ہیں فریب دیتے ہیں جاہلوں کو اپنی گمراہی میں اللہ کے اس قول سے تمسک کرکے وَلِلَّـهِ الْمَشْرِ‌قُ وَالْمَغْرِ‌بُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ یعنی وجہ اللہ کو ساتھ ذات اللہ کے تفسیر کرتے ہیں نہ ساتھ جہت کے جس کا اللہ نے حکم فرمایا اور پسند کیا جیسا کہ حق وظاہر ہے اور موافق قواعد دین کے اوراجماع علماء مسلمین کے ہے انتھی اور چونکہ یہ آیتیں کئی معنے کی محتمل تھیں لہذا بعض نے ان کو متشابہ کہا اور پھر انہوں ہی نے اور اوروں نے اہل سنت میں سے ان کی تفسیر ایسے معنے سے کی ہے جو مناقض نہیں ہے ان نصوص کے جن کے ایک ہی معنے ہیں اوریہ آیتیں اگر اس متشابہ سے ہوئیں جس کی تفسیر نہیں کی جاتی تو ان کی بھی تفسیر نہ کرتے اور نصوص جن کے ایک ہی معنے ہیں یہ ہیں إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ اسی کی طرف چڑھتا ہے کلام ستہرااورتَعْرُ‌جُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّ‌وحُ چڑھتے ہیں فرشتے اور روح اس کی طرف اور يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْ‌ضِ ثُمَّ يَعْرُ‌جُ إِلَيْهِ تدبیرسے اتارنا ہے کام

وقوله صلى الله عليه وسلم فى حديث المعراج فنزلت الى موسى فقال ما فرض ربك على امتك قلت خمسين صلوات فى كل يوم وليلة قال ارجع  الى ربك فسئل التحفيف فلم ازل ارجع بين ربى وبين موسى حتى قال يا محمدانهن خمس صلوات كل يوم وليلة الحديث-

وقوله صلى الله عليه وسلم ان الله لما خلق الخلق كتب فى كتب عنده فوق العرش ان رحمتى تغلب غضبى

آسمان سے زمین تک پھر چڑھتا ہے طرف اس کی اور إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَ‌افِعُكَ إِلَيَّ، میں تجھ کو پھیر لوں گا اپنی طرف اور بل رفعہ اللہ الیہ بلکہ اٹھالیا اس کو اللہ نے طرف اپنی اور . أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْ‌ضَ کیانڈر ہوئے تم اس سے  جو آسمان پر ہے دھسادے تم کو زمین میں اور فَالَّذِينَ عِندَ رَ‌بِّكَ  لَا يَسْتَكْبِرُ‌ونَ عَنْ عِبَادَتِهِ يَخَافُونَ رَ‌بَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ، جولوگ پاس ہیں تیرے رب کے بڑائی نہیں کرتے اس کی بندگی سے ڈر رکھتے ہیں اپنے رب کا اوپر سے اور وَقَالَ فِرْ‌عَوْنُ يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْ‌حًا لَّعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ  أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَىٰ إِلَـٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا، اوربولا فرعون کے اے ہامان بنا میرے واسطے ایک محل شاید میں پہنچوں رستوں میں رستوں میں آسمان کے پھر جہاں کے دیکھوں موسی کے معبود کو اور میری اٹکل میں تو وہ جھوٹا ہے اور الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ وہ بڑی مہر والا ہے تخت کے اوپر قائم ہوا اور قول آنحضرت ؐکا حدیث معراج میں کہ  پھر میں اتراموسی کی طر ف تو کہا کیا فرض کیا ہے تیرے رب نے تیری امت   پر میں نے کہا پچاس نمازیں ہر رات دن میں کہا پھر جااپنے رب کی طرف اور تخفیف چاہا سو میں اپنے رب اور  موسی کے درمیان آتا جاتا رہا یہاں تک کہ جب پانچ رہیں تو اللہ نے فرمایا کہ اے محمدیہ سب پانچ نمازیں ہیں رات دن میں یعنی اس سے کم نہ ہوں گی الخ قول: آنحضرتﷺکا جب اللہ تعالی نے مخلوق کو پیداکیا تو ایک کتاب میں جو عرش پر اس کے پاس ہے یہ لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے

وقوله صلى الله عليه وسلم يرفع اليه عمل الليل قبل عمل النهار عمل النهارقبل عمل الليل،  وقوله صلى الله عليه وسلم ثم يعرج الذين باتوافيكم فيسالهم ربهم كيف تركتم عبادى،  وقوله صلى الله عليه وسلم الاتامنوفى واناامين من فى السماء وقوله صلى الله عليه وسلم لجارية معاوية بن الحكم وجارية محمدبن الثريد وجارية عكاشة وجارية حاطب وجارية رجل اخر اين الله قلن فى السماء قال من انا قلن انت رسوالله قال لكل واحدمنهم اعتقها انها مومنة وكل هذاوقائع مختلفة فى محالس شتى وقوله صلى الله عليه وسلم ينزل ربنا كل ليلة الى السماء الدنيا- وقوله صلى الله عليه وسلم مامن رجل يدعواامرأته الى فراشك فتأبى عليه الاكان الذى فى السماء ماخطاعليها- وقوله صلى الله عليه وسلم فى حديث الاوعال بين اظلافهم وركبهم مثل مابين سماء الى سماء وفوق ظهورهم العرش اسفله واعلاه مثل مابين سماء الى سماء ثم الله فوق ذلك-

اورقول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ اٹھالیا جاتا ہے اللہ کی طرف رات کا کام دن کے کام سے پہلے اور دن کا کام رات کے کام سے پہلے اور قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ پھر چڑھتے ہیں وہ فرشتے جو رات کو تم میں رہے تھے تو ان سے رب ان کا پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا الخ  اور قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا تم مجھ کو امین نہیں جانتے حالانکہ مجھ کو امین جانتا ہے وہ جو آسمان پر ہے یعنی اللہ اور قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معاویہ بن حکم اور محمد بن بشریر اور عکاشہ اورحاطب اور ایک شخص اور کی لونڈیوں سے کہ اللہ کہاں ہے سب نے کہا کہ آسمان پر فرمایا کہ میں کو ن ہوں سب نے کہا کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں تو ان کے ہر ایک مالک کو کہا کہ اس کو آزاد کردے وہ مسلمان ہے اور یہ پوچھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامختلف واقعات اور متفرق مجلسوں میں تھا اور قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ ہمارا پروردگار ہررات آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے اور قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جوآدمی اپنی عورت کو اپنے بستر پر بلاوے اور وہ انکار کرے تو عورت پر غصہ ہوتا  ہے  وہ جو آسمان پر ہے یعنی اللہ اور قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اوعال یعنی حاملان عرش جو بزکوہی کی شکل میں ہیں ان کے کہرون اور زافووں کے درمیان اسقدر مسافت ہے جیسا ایک آسمان تک سے دوسرے آسمان تک اور ان کی پیٹھ پے عرش ہے اس کا نیچا اور اوپر یعنی مٹادجیسا آسمان سے آسمان تک پھر اللہ اوپر اس کے ہے۔

وقوله صلى الله عليه وسلم فى دعاء المريض ربنا الذى فى السماء وقوله صلى الله عليه وسلم فى روح المومن حين تقول لها الملئكة اخرجى حميدة والبشرى بروح وريحان ورب غير غضبان فلايزال يقال لها ذلك حتى ينتهى بها الى السماء التى فيه ماالله وامثال ذلك ممالايمكن ان يحصرفى هذه الوميقات وكل ماذكرنا من الاحاديث موجودفى الصحاح وغيرها

صححه ئمة الحديث وماذكرنا لك من تفسير الايات التى استدلوابها هوقول السلف اهل السنة وخلفهم فهذه تفاسير اهل السنة من لدن صحابة النبى صلى الله عليه وسلم الى يومنا هذا كلهم متفقون بلسان واحد معيته تعالى فى قوله عزوجل وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ معية علمية وقربه فى قوله تعالى وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ‌يدِ وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُ‌ونَ قرب ملئكتيه اوقرب علمى الا الشواذ النادرة من المتاخرين كالملاجنيون الهندى وامثاله وبعض الصوفية ممن لايعبأدلايحتج بهم فى مقابلة السلف قال العلامة التفتازانى فى فاضحته

اورقول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامریض کی دعا میں کہ پروردگار ہمارا اللہ ہے جو آسمان پر ہے اورقول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روح مومن کے بیان میں جب فرشتے اسے کہتے ہیں کہ نکل تواچھی ہے اورخوشخبری ہوتجھ کو ساتھ راحت اوررزق کے اور پروردگارغیر ناراض کے پس ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے اس کویہاں تک کہ پہنچایا جاتا ہے اس آسمان تک کہ جس پر اللہ ہے اورامثال ان کے اس قدر کہ حصران کا ان چند ورقوں میں نہیں ہوسکتا اورجتنی حدیثیں کہ ہم نے ذکر کیں سب صحاح میں اورغیران کے میں موجود ہیں اور ائمہ حدیث نے ان کی تصیح کی ہے اور جن آیتوں کو وہ دلیل لاتے ہیں ان کی تفسیر موافق سلف وخلف واہل سنت کے وہی ہے جوہم نے ذکر کی لیجئیے یہ تفسیریں ہیں اہل سنت کی زمانہ اصحاب نبیﷺسےآج تک کی سب متفق ہیں ایک زبان سے کہ معیت اللہ تعالی کی وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ میں معیت علمی ہے اورقرب اللہ تعالی کا وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ‌يدِ وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُ‌ونَ، ان دونوں آیتوں میں قرب ملائکہ ہےیاقرب علمی مگر شاذونادرمتاخرین جیسے ملاجیون ہندی اورمثل اس کے اوربعض صوفی جن کا اعتبار نہیں اورنہ سلف کے مقابلہ میں ان کا قول حجت ہوسکتا ہے، علامہ تفتازانی فاضتحہ

الملحدين المرادبالعية ههنا على ما اجمع عليه المفسرون المعية بالعلم لانفس الذات ولا تجدعن احدمن السلف- قال ان الله معنا بذاته فى الارض كما هو على العرش بل نقل كثيرمن حفاظ المحدثين كالحافظ ابى عمر الطلمكينى وابن عبدالبروابن بطه والحافظ ابى بكر الاجرى وغيرهم من المحدثين اجماع اهل السنة ان معنى قوله وهو معكم علمه كما سنذكراقاويلهم عنقريب، ومما استدلوابه ايضا قوله تعالى وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَوَاتِ وَفِي الْأَرْ‌ضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّ‌كُمْ وَجَهْرَ‌كُمْ وهذه ايضا محتملة للمعافى قال محمدبن جرير الطبرى وغيره ماحاصله الوقف على فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْ‌ضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّ‌كُمْ وَجَهْرَ‌كُمْ جملةعليحدة قال الدجاج فيه تقديم وتاخيره تقديره وَهُوَ اللَّـهُ يَعْلَمُ سِرَّ‌كُمْ وَجَهْرَ‌كُمْ فِي السَّمَوَاتِ وَفِي الْأَرْ‌ضِ وقال بعض المفسرين عامل الظرف محذوف وهو المدبراى وهوالله المدبر فِي السَّمَوَاتِ وَفِي الْأَرْ‌ضِ وقالالجمرنور قوله فِي السَّمَوَاتِ وَفِي الْأَرْ‌ضِ متعلق بالخبر من حيث

الملحدین میں فرماتے ہیں کہ موافق اجماع مفسرین کے یہاں معیت سے معیت بالعلم مراد ہے نہ معیت بالذات اور سلف سے کسی کو نہ پاوے گا، کہ اس نے کہا ہو کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے اپنی ذات سے زمین میں جیسا وہ عرش پر  ہے بلکہ بہت حفاظ محدثین مانند حافظ ابوبکر طلمکینی اور ابن عبدالبراورابن بطہ اورحافظ ابوبکر آجری وغیرہ محدثین نے اہل سنت کا اجماع نقل کیا ہے کہ معنے وهو معكم کےعلمہ ہیں یعنے معیت علمی ہے جیسا کہ ان سب کی تقریریں عنقریب ذکر ہوں گی اور وہ لوگ یعنی بعض متاخرین اس آیت سے بھی دلیل لاتے ہیں وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَوَاتِ وَفِي الْأَرْ‌ضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّ‌كُمْ وَجَهْرَ‌كُمْ اوریہ آیت بھی کئی معنے کے محتمل ہے محمد بن جریر طبری وغیرہ نے کہا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سموات پر وقف ہے اور وَفِي الْأَرْ‌ضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّ‌كُمْ وَجَهْرَ‌كُمْجملہ علیحدہ ہے زحاچ نے کہا اس میں تقدیم اورتاخیر ہے اصل یوں تھا وَهُوَ اللَّـهُ يَعْلَمُ سِرَّ‌كُمْ وَجَهْرَ‌كُمْ فِي السَّمَوَاتِ وَفِي الْأَرْ‌ضِاوربعض مفسرین نے کہا ہے کہ عامل ظرف کا محذوف ہے کہ وہ مدبر ہے یعنی وہ اللہ مدبر ہے آسمان میں اورزمین میں اور جمہور نے کہا کہ فِي السَّمَوَاتِ وَفِي الْأَرْ‌ضِ متعلق ہے ساتھ خبر کے کہ وہ لفظ

ملاحظة الوصف الذى تضمنه وهو كونه معبودا وهو الاولى لان العلم يعمل فى الظرف لما تضمنه من المعنى قال الرازى وكلمة هوانما تذكرههنالافادة الحصر وهذه الفائدة تحصيل اذا جعلنا لفظ الله اسمامشتقافامالوجعلناه اسم علم شخص قائم مقام التعين لم يصح ادخال هذه اللفظة عليه، و اذا جعلناقولناالله لفظا مفيداصارمعناه وهو المعبودفى السمآءوفى الارض انتهى وفيها وجوه اخر ذكرهاالمفسرون لكن مارايت قول احدمن سلف اهل السنة وخلفهم يوافق قول شواذاهل عصرنافى هذه الاية واستدلوايضا بقوله صلى الله عليه وسلم لوانكم دليتم بحبل الى الارض السفلى لهبط على الله قلت هذا الحديث لم يبلغ درجة الصحيح كما قال الترمذى هذا حديث غريب من هذا الوجه ويروى من ايوب ويونس بن عميدوعلى بن زيد قالوالم يسمع الحسن من ابى هريرة فكيف الاعتقاد على ظاهرهافى الاعتقاد خصوصا اذكان ظاهره

مبارک اللہ ہےباعتبارملاحظہ کرنے اس وصف کے جس کو خبر شامل ہے یعنی اس کا معبود ہونا اور یہی تقریر بہتر ہے اس لئے کہ علم ظرف میں عمل کرتا ہے کیونکہ وہ معنے کو شامل ہے امام رازی نے کہا کہ لفظ ھو کایہاں اس واسطے ذکر کیا گیا کہ ہر کا فائدہ دے اوریہ فائدہ جب حاصل ہوگا کہ لفظ اللہ کو اسم مشتق بناویں معبود کے معنے میں لیں اوراگر اس کو اسم علم شخصی قائم مقام تعین کے ٹھہراویں تو اس پر لفظ ھو کا داخل کرنا، صیح نہ ہوگا اور جب لفظ کا مفید معنے ٹھہراویں تو معنے اس آیت کے یہ ہوں گے کہ وهو المعبودفى السمآءوفى الارض انتهى اوراس میں وجہین اوربھی ہیں جو مفسرین نے ذکر کی ہیں لیکن ہم نے کسی سلف اورخلف اہل سنت کا قول نہیں دیکھا جو اس آیت میں ہمارے شواذ معاصرین کے قول کے موافق ہواوراس حدیث کو بھی دلیل لاتے ہیں کل آنحضرتؐ نے فرمایا اگر تم سب سے نیچے کی زمین تک رسی کو پھینکوتو اللہ پر گرے گی میں کہتا ہوں کہ یہ حدیث درجہ صیح کو نہیں پہنچتی جیسا کہ ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث غریب ہے اس وجہ سے اور مروی ہے ایوب اور یونس بن عبید اورعلی بن زید سے انہوں نے کہا کہ حسن ابوہریرہؓ سے نہیں سنا پس اعتقادیات میں اس حدیث کے ظاہر پر کیونکہ اعتقادکیا جاوے، خصوصا جب ظاہراسکو

مخالفاللايات القرانية والاحاديث الصحيحة مع ان هذا الحديث رواه الترمذى وقال قراءه رسول الله صلى الله عليه وسلم الاية تدل على انه ارادالهبط على علم الله وقدرته وسلطانه وعلم الله وقدرته وسلطانه فى كل مكان وهو على العرش كما وصف نفسه فى كتابه نقله عنه صاحب المشكوة وكذاثناءالله فى المظهرى عن الترمذى ولوطالعت رسائل معاصرين الذين ابتدعواهذه المقالة ماوجدت فيها عن احد من السلف قال فى هذه الايات ماقال هذه المخترعون مع انهم سودوااوراقا كثيرة-وجهدوافى اثبات ماادعواجهدابليغا واطنبوااطناباكثيرابمالامزيدعليه لكن مااتوابشئى يروى غليلا اويشفى عليلا بل كلها ارائهم العليلة وافكارهم السقيمة التى لاتسمن ولاتغنى من جوع كيف لاوحسن نبات الارض من كرم البذرواردت ان ابين للاخوة فى الدين مذهب اهل السنة والجماعة ناقلا عن ايئمة الحديث والفقه كيلاتعرهم رسائل والقوم ومزحزفاتهم-

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 257-267

محدث فتویٰ

تبصرے