السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس کا حکم جو اپنے مریدوں کو اپنے لئے سجدہ کا حکم کرے
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الحمدلله وكفى وسلام على عباده الذين اصطفى:- امابعد
فهذه نبذة من ادلة الكتاب والسنة واقوال اهل العم فى مسئلة عدل الله وحكمته وتسطه وتنزيهه تعالى عن الظلم والجور-قال ابن جرير الطبرى فى تفسيره وهو من اجل تفاسير اهل الاسلام تحت قوله تعالى وما كان ربك ليهلك القرى بظلم واهلها مصلحون- يقول تعالى ذكره وما كان ربك يا محمدليهلك القرى التى اعلكها التى قص عليك نبأتهاظلماواهلهامصلحون فى اعمالهم غير مسيئين فيكون اهلاكه اياهم مع اصلاحهم فى اعمالهم وطاعتهم ربهم ظلماوقال رحمه الله فى سورة ال عمران واماقوله ذلك بما قدمت ايديكم اى قولنالهم يوم القيمة ذوقواعذاب الحريق بما اسلفت ايديكم واكتسبها ايام حيوتكم فى الدنيا وان الله عدل لايحجور فيعاتب عبداله من غيراسحقاق- منه العقوبة وقال رحمه الله وخلق السموت والارض بالحق للعدل لالماحسب الجاهلون بالله من انه يجعل من اجترح السيئات، فعصاه وخالف امره كالذين امنواوعملوالصلحت فى المحياوالممات اذكان ذلك
امابعدیہ ایک حصہ ہے کتاب وسنت سے اور اہل علم کے اقوال سے اللہ عزوجل کے عدل وحکمت وانصاف کے مسئلہ میں اور اس کی تنزیہ وپاکی میں ظلم وجورسے تعالى الله عن ذلك علواكبيرا- علامہ ابن جریر طبری اپنی تفسیر میں جو تفاسیر اسلامیہ سے ایک اعلی درجہ کی معتبر تفسیر ہے آیہ کریمہ وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ کی تفسیر میں لکھتے ہیں، اے محمد ﷺتیرا رب ایسا نہیں کہ صالح بے گناہ لوگوں کو ہلاک کرے کیونکہ صالح بے گناہ بے قصور لوگوں کا ہلاک کرنا ظلم ہے (اور اللہ تعالی ظلم سے منزہ مبرا پاک ہے) اور سورہ ال عمران میں آیہ کریمہ.ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّـهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ کی تفسیر میں لکھتے ہیں قیامت کے دن اللہ عزوجل کافروں کو فرماوے گا کہ تم کو عذاب حریق میں رکھنا تمہارے اعمال کا بدلہ ہے اور اس واسطے کہ اللہ تعالی عزوجل عادل ہے ظلم نہیں کرتا اپنے بندوں کو بے قصور عذاب کر ےاور آیہ کریمہ وَخَلَقَ اللَّـهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ کی تفسیر میں لکھتے ہیں، اللہ تعالی نے آسمان وزمین کو حق وعدل کے واسطے بنایا ہے نہ اس واسطے کہ مومن اور کافر
من فعل غيراهل العدل والانصاف يقول جل ثناءه فلم يخلق الله السموت والارض للظلم والجورولكناخلقناهماللحق والعدل ومن الحق ان نخالف بين حكم المسيئى والمحسن فى العاجل والاخر اخرج ابن جرير عن ابن عباس فى قوله تعالى فلايخاف ظلماولا هضما قال لايخاف ابن ادم يوم القيمة ان يظلم فيزادعليه فى سياته ولايظلم فيهضم من حسناته وبجوه فسره مجاهدوقتادة والحسن يعنى لوزادعليه فى سياته او نقص من حسناته لكان ظلما والله تعالى منزه عن الظلم وقال ابن كثيرفى تفسيره تحت قوله فلايخاف ظلماولا هضما اى لايزادفى سياتهم ولاينقص من حساتهم قاله ابن عباس و مجاهدوالضحاك والحسن وقتادة وغير واحد فالظلم الزيادة بان يحمل عليه ذنب غيره والهضم النقص انتهى وقال تحت قوله تعالى ام حسب الذين اجترحواالسيات ان نجعلهم كالذين امنواوعملوالصلحت سواءمحياهم ومماتهم ساءمايحكمون اى ساءماظنوابناوبعدلناان نساوى بين الابراروالفجار فى الدارالاخرة –
کوحیوۃ، ممات میں برابر رکھے یہ جاہلوں کا گمان ہے کیونکہ یہ ظالم بےانصاف کاکام ہے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں نے آسمان وزمین کو ظلم اور بے انصافی کے واسطے نہیں بنایا بلکہ عدل وانصاف کے واسطے بنایا ہے اور عدل وانصاف سے ہے فرق کرنا درمیان نیکوکاروبدکار کے، ابن عباس سے آیہ کریمہفَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًاکی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ابن آدم قیامت کےدن اس سے نہیں ڈرے گا کہ میرے حسنات کی کمی یا سیئات کی زیادت کا ظلم اسپر کیا جاوے گا، اور مجاہد اور قتادہؓ اور حسن نے بھی اسکے قریب قریب تفسیر کی ہے غرض کہ اگر ان سیئات کی زیادت یا ان کے حسنات میں نقصان کیا جاوے تو ظلم لازم آوے گا اور اللہ عزوجل ظلم سے پاک اور منزہ ہے، حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں آیت مذکورہ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا کی تفسیر میں لکھتے ہیں سیئات کی زیادت اور حسنات میں نقصان ظلم اور ہضم ہے مومن اس ظلم ونقصان سے نہ ڈرے اوریہی تفسیر ہے ابن عباسؓ مجاہداورضحاکؓ اورحسنؓ اورقتادہؓ اور بہت مفسرین کی اور آیہ کریمہأَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَمیں لکھا ہے یعنی نیکوں اور بدکاروں کو یکساں رکھنا مجھ پر اور میری عدالت پر بدگمانی کرنی ہے،
قلت لوكان فى مساواتهم عدل لماحكم عليه بالحكم السيى واظن السيى وقال صاحب جامع البيان تحت قوله تعالى ذلك بما قدمت يداك وان الله ليس بظلام للعبيد ومن العدل تعذيب المسى، واثابة المحسن والظالم فديترك عقاب المسى للعصبيته كما يترك اثابته المحسن وقال رحمه الله فى قوله تعالى ذلك بما قدمت ايديكم وان الله ليس بظلام للعبيد اشارالى ان من عفى من هوءلاءالذين ظلمواانفسهم وظلموا عبادالله المومنين صارظالما كثيرالظلم بمعنى انه وضع السيى فى غير محله للائق وبهذانسر اهل اللغة وماوردفى كتاب الله الظلم الابهذا المعنى والعفوفى موضع لاتقتضيه الحكمة ظلم لامثك فيه وليس هذامن الاعتزال فى شئى الخ منه وقال رحمه الله تحت قوله تعالى ونقول ذوقوعذاب الحريق ذلك بما قدمت ايديكم وان الله ليس بظلام للعبيد اى عدلنا يقتضى تعذيبكم وقال رحمه الله تعالى تحت قوله تعالى ما يبدل القول لدى لاتبديل ولاحلاف لقولى وما انا بظلام للعبيد فاعذبهم بغير جرم و
میں کہتا ہوں اگر مساوات میں بھی عدل ہوتا تو اللہ عزوجل اسلوبدگمانی اوربراحکم کیوں فرماتا اور صاحب تفسیر جامع البیان سورۃ حج میں آیہ کریمہ ذَٰلِكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِکی تفسیر میں لکھتے ہیں بدکار کوعذاب دینا نیکوکارکونیک بدلہ دینا عدل سے ہے، اور ظالم کبھی بدکارکو بنابرعصیت سزانہیں دیا کرتا جس طرح کہ نیکوکارکو اس کی نیکی پر بدلہ نہیں دیتا اور سورۃ انفال میں آیہ کریمہذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّـهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِکی تفسیر میں لکھتے ہیں اس میں اشارہ فرمایا ہےکہ جس نے ان ظالموں سے درگزر کیا جنہوں نے اپنے نفسوں اور اللہ تعالی کے ایمانداربندوں پر ظلم کثیر الظلم ہوگیا بایں معنی کہ اس نے غیر محل لائق میں شئے کو استعمال کیا اور ظلم کی تفسیر اہل لغت یہی کرتے ہیں اور کتاب اللہ میں ظلم کا لفظ بجز اس معنی کے نہیں آیا اور معاف کرناایسے موضع میں جہاں حکمت مقتضی نہ ہوبلاریب ظلم ہے اور اس میں کچھ اغزال نہیں ہے اور آیہ کریمہ سورۃ ال عمران ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّـهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ کی تفسیر میں لکھتے ہیں یعنی ہماری عدالت تمہاری عذاب دینے کے مقتضی ہےاور سورۃ قمَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِکی تفسیر میں لکھتے ہیں کی تفسیر میں لکھتے ہیں (میں اپنےبندوں پر ظالم نہیں ہوں، کہ انکو بغیر جرم کے عذاب کروں اور سورۃ ال طہ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًاکی تفسیر میں
قال رحمه الله تعالى تحت قوله تعالى فلايخاف ظلما بان يزادعلى سياته ولاهضما بان ينقص من حسناته –وقال رحمه الله تعالى ام حسب الذين اجترحواالسيات ان نجعلهم كالذين امنواوعملوالصلحت سواءمحياهم ومماتهم ساءمايحكمون اى بئس حكمهم هذا وخلق السموات والارض بالحق اى كيف يستوى وقدخلقهما بالحق المقتضى للعدل ولتجزى كل نفس بما كسبت خلقهما للعدل والثواب لاللعبث وهم لايظلمون فاذااستوى المحسن والمسى فلايكون للعدل والجزاء ويكون المحسن مظلوما وقال تعالى افنجعل المسلمين كالمجرمين مالكم كيف تحكمون- وقال الله تعالى افنجعل الذين امنواوعملواالصلحت كالمفسدين- فى الارض ام نجعل المتقين كالفجاروقال رحمه الله تحت قوله تعالى وماكان ربك ليهلك القرى بظلم وهلها مصلحون اولااهلكهم بظلم وهم مصلحون لا عمالهم فانه سبحانه حرم الظلم على نفسه وجعله بينكم محرما وما ظلمنا هم
لکھتےہیں ظلم یہ ہے کہ اسکو (یعنی گنہگار کے ) سیئات میں زیادت کی جاوے اور ہضم یہ ہے کہ اسکی نیکیوں میں کچھ کمی کی جاوے اور آیہ کریمہأَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَکی تفسیر میں لکھتے ہیں کیا بدعمل لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ ہم ان کو ایماندار اور نیک عمل والوں کی طرح کردینگے باین طور کہ ان کے حیات اور ممات یکساں ہو، یہ انکار اللہ عزوجل کے بارے میں برا فتوی ہے وَخَلَقَ اللَّـهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ یعنی نیک اور برے کیونکر برابر ہوں کیونکہ اس نے آسمان وزمین کو ایسی تدبیر درست کے ساتھ پیدا کیا ہے جو وہ عدل کی مقتضی ہے، وَلِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ یعنی دونوں کو عدل اور ثواب کے لئے پیدا کیا ہے نہ عبث کے لئے وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (اور وہ ظلم نہیں کئے جائیں گے) جب نیک اور بد یکساں ہوگئے تو یہ عدل اور جزاء کے لئے نہ ہوئے اور نیکوکار مظلوم رہا اللہ تعالی فرماتا ہے کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کی طرح کرتے ہیں تم کوکیا ہوا کس طرح تم (یہ ناجائز) فتوی دیتے ہو اور فرماتا ہے کیا ہم ایماندار صالح عمل والوں کو زمین میں فسادمچانیوالوں کی طرح کرینگے اورکیا ہم متقیونکو فاجروں کی طرح کرینگے (ہرگزنہیں یہ میرے عدل وانصاف کے خلاف ہے) اورآیہ کریمہوَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ میں لکھتے ہیں آیت کا معنی یہ ہے کہ صالحون کو اللہ عزوجل ہلاک نہیں کرتا ہے کیونکہ
ولكن ظلمواانفسهم وهذاتوجيه وجيه لااعتزال فيه انتهى وفى التفسير الوجيز تحت قوله فلايخاف ظلما بان يزادعلى سياته ولاهضما بان ينقص من حسناته كذافسره ابن عباس و مجاهدوالضحاك وقتادة وغير واحد من السلف نقله المفسرون وصححه الشيخ الناقدعماالدين ابن كثيرفى تفسيره ومثل هذافى كتاب الله المجيد فى مواضع كثيرة –
وقال الرازى فى تفسيره الكبير تحت قوله تعالى وخلق السموت والارض بالحق ولولم يوجدالبعث لماكان ذلك بالحق بل كان بالباطل لانه تعالى لماخلق الظالم وسلطنه على المظلوم الضعيف ثم لاينتقم للمظلوم من الظالم كان ظالما ولوكاكان ظالما لبطل انه خلق السموت والارض بالحق وقال تحت قوله تعالى فلا يخاف ظلما ولاهضما والظلم هوان يعاقب لاعلى جريمة اويمنع من الثواب على الطاعة انتهى هذا
اللہ عزوجل نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا اور تم پر بھی حرام کیا ہے اور اللہ تعالی فرماتا ہے ہم نے مجرموں کوظلما ہلاک نہیں کیا بلکہ و ہ اپنے ظلم سے ہلاک ہوگئے اور یہ بہت عمدہ وجہ ہے اس میں کوئی اعتزال نہیں انتہی اور تفسیر وجیرنین آیہ کریمہفَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ظلم یہ ہے کہ اس کے گناہوں میں زیادت کی جاوے اور ہضم یہ کہ اس کی نیکیوں میں نقصان کیا جاوے اس طرح ابن عباسؓ مجاہدؓاورضحاکؓ اور قتادہؓ اور بہت سلف نے اس آیت کی تفسیر کی ہے اور مفسروں نے اس کی نقل کی اور عمادالدین ابن کثیر نے جو حدیث کا صراف ہے اس کی تصیح کی ہے، انتہی رازی تفسیر کبیر میں آیہ کریمہوَخَلَقَ اللَّـهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّکی تفسیر میں یوں لکھتے ہیں اگر یعث بعدالموت نہ ہو تو آسمان وزمین کی پیدائش بالحق نہ ہو بلکہ بالباطل ہوئی کیونکہ اللہ تعالی نے جب ظالم کوپیدا کیا اور مظلمول ضعیف پر مسلط کیا پھر ظالم سے مظلوم کے واسطے انتقام نہ لیا تو (عباٍذاباللہ) اللہ تعالی ظالم ہوا تو آسمان وزمین کی پیدائش بالحق باطل ہوگی اور آیہ کریمہ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا کی تفسیر میں یوں لکھتے ہیں بےقصور کو عذاب دینا یا عمل صالحہ کا بدلہ نہ دینا ظلم ہے انتہے قرآن مجید کی تفسیر میں یہ تفسیر شیخ رازی کی مختار ہے اگرچہ اپنے اصحاب اشاعرہ کے طرف سے مخالفوں کو جواب بھی دیتا ہے اور اس قسم کی آیتیں قرآن شریف میں
الذى اختاره الرازى فى تفسير القران المجيد وان ينقل اجوبة اصحابه الاشعرية فى مقابلة المخالفين – قلت والعجب من بعض تفاسير اهل السنته ياولون هذه الايات بان المرادفعل مالوفعله غيره لكان ظلما كماان المرادمن الابتلاءوالاختيارفعل مالوفعله غيره لكان ابتلاءواختياروهذاالتاويل اقرب بالتحريف من التفسيروفى الصيحين فقال اهل الكتابين اعطيت هولاءقيراطين قيراطين واعطيتنا قيراطا قال الله هل ظلمتكم من اجركم من شئى قالوالاقال فهو فضلى اويته من اشآءوفيهافى حق الجنة والنار قال الله عزوجل لكل واحد منهما فلاهمافاماالنارفلاتملى حتى يضع رب العزة فيها قدمه فتقول قط قط قط فهنا لك تمتلى ويزوى بعضها الى بعض ولايظلم الله عزوجل ينشئى لها خلقا – فان الله عزوجل ينشئى لها خلقا فعلم من هذين الحديثين ان الله لولم يعط اهل الكتابين قيراطهم او ينشئى لملاجهنم خلقا لكان ظلما تعالى الله عنه وفى الحديث
بکثرت موجود ہیں فہم اور بصارت درکار ہے میں کہتا ہوں کے اہل سنت کے ان بعض مفسرین سے تعجب ہے جو آیت مذکورہ کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس قسم کی آ یات سے مراد یہ ہے کہ اللہ عزوجل کا ایسا کام کرنا کہ اس کے سوا اگر کوئی اور ایسا کرے تو ظلم ہوگا جیسا کہ ابتلاوآزمائش جو منسوب الی اللہ تعالے قرآن شریف میں آتی ہے مراد اس سے کرنا اس کا کام ہے اگر غیر اللہ کرے تو اسکا نام ابتلاوامتحان ہوگا اور تاویل تفسیر سے تحریف کے قریب ہے صحیحین میں ہے کہ اہل کتاب جس وقت امت محمدیہ کے ثواب کی کثرت دیکھیں گے تو رب العالمین کے پاس عرض کریں گے کہ پروردگار ہماراعمل بہت اور اجر تھوڑا اور محمدیوں کا عمل تھوڑا اور اجر ہم سے دوچندملا اللہ تعالے فرمایگاکیامیں تم پر ظلم کیا اور اجرت مقررہ سے کم دیا کہیں گے نہیں تو اللہ عزوجل فرمایگا یہ میرا فضل ہے، جسکو چاہتا ہوں دیتا ہوں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اجرت مقررہ اگر نہ دیتا توظلم لازم آتا تعالی اللہ عنہ اور صحیحین میں ہے کہ جنت دوزخ کے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے کہ دونوں کو بھروں گا جنت کے بھرنے کے واسطے اللہ عزوجل اور لوگ پیدا کریگا اور دوزخ میں اللہ عزوجل اپنا قدم رکھیگا پس دوزخ سمٹ جاویگا اور کہے گا بس بس (میں بھر گیا یہ نہ ہوگا کہ دوزخ بھرنے کے واسطے بھی اور لوگ پیدا کرے جیسا کہ بہشت کے واسطے پیدا کئے کیونکہ بے قصور لوگوں کو
القدسى يقول الله عزوجل ياعبادى انى حرمت الظلم على نفسى وجعلته بينكم محرما فلاتظالموارواه مسلم – وقال الفاضل العلامة حبرالامة شيخ الاسلام ابن تيميه رحمه الله فى كتابه منهاج السنة فى اجزءالاول واماالمثبتون للقدروهم جمهور الامة وائمتها كالصحابة والتابعين لهم باحسان واهل البيت وغيرهم فهوءلاءتنازعو فى تفسير عدل الله وحكمته والظلم الذى يجب تنزيهه عنه وفى تعليل افعاله واحكامه ونحوذلك فقالت طائفة ان الظلم ممتنع منه غيرمقدوروهومحال لذاته كالجمع بين النقيضين وان كل ممكن مقدور فليس هو ظلما وهولاءهم الذين قصدوالردعليهم وهولاءيقولون انه لوعذب المطيعين ونعم العصاة لم يكن ظلما –
وقالو الظلم التصرف فيما ليس له والله له كل شئى اومخالفة الامروالله لاامرله
دوزخ میں ڈالنے سے ظلم لازم آتا ہے، اور اللہ عزوجل ظلم سے منزہ اور پاک ہے، اور صیح مسلم میں حدیث قدسی ہے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے اے میرے بندوں میں نے اپنے نفس پر ظلم کو حرام کیا ہےاور تمھارے آپس میں بھی ظلم حرام کیا پس آپس میں ظلم نہ کرو تعجب ہے کہ جب اللہ عزوجل کے ہاں کسی صورت میں ظلم لازم نہیں آتا اگرچہ وعدہ خلافی کر کے کل انبیاءواولیاءکو ہمیشہ دوزخ میں رکھے اور سب کفار وشیاطین اور مظلموں کے خونخواروں کو ہمیشہ جنت میں رکھے پس وہ کیا چیز ہے جو کہ اللہ عزوجل نے اپنے اوپر حرام کیا ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی اپنے کتاب منہاج السنہ جلد اول ص ۳۳میں لکھتے ہیں مثبتین قدرجوامت کے جمہور اور ائمہ امت یعنی صحابہ اور تابعین باحسان اور اہل بیت وغیرہ ہم ہیں ان لوگوں نے اللہ عزوجل کے عدل اور حکمت اور ظلم جس سے عزوجل کی تنزیہہ واجب ہے اور اللہ تعالےکے افعال اور احکام وغیرہ کے تعلیل میں اختلاف کیا ہے ایک طائفہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالی سے ظلم کو وقوع میں آنا ممتنع ہے اور اللہ تعالے اس کے کرنے پر قادر نہیں، اور جس طرح کہ جمع بین النقیتین محال لذاتہ ہے اور ہر وہ ممکن جو مقدورالہی ہو وہ ظلم نہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے منکرین قدر پر رد کرنا چاہا ہے کہتے ہیں اگر اللہ تعالے فرمانبرداروں کو عذاب کرے اور نافرمان کو انعام بخشے تو یہ ظلم نہیں ہوگا، کیونکہ ان کے نزدیک تصرف فی مال الغیر کو ہیں اور اللہ تعالی پر کو حکم کرنے والا نہیں ہے ظلم کہتے ہیں اور ہر چیز اللہ تعالی کی ہے یا حکم کی مخالفت کو ظلم بناتے، اور یہ بہت اہل کلام
وهذا قول كثيرمن اهل الكلام المثبتين للقدرومن وافقهم من الفقهاء اصحاب الائمة الاربعة وقالت طائفة بل الظلم مقدورممكن والله سبحانه لايفعله لعدله ولهذامدح نفسه حيث اخبرانه لايظلم الناس شيئاوالمدح انمايكون بترك المقدور عليه لا بترك الممتنع قالو وقدقال الله ومن يعمل من الصالحات وهومومن فلايخاف ظلماولاهضما قالو الظلم ان يحمل عليه سيئات غيره والهضم ان يهضم حسناته وقدقال ذلك من انباءالقرى نقصه عليك منها قالئم وحصيدوما ظلمناهم ولكن ظلمواانفسهم فاخبرانه لم يظلمهم لمااهلكهم بذنوبهم وقال تعالى وجئى بالنبيين والشهداءوقضى بينهم بالحق وهم لايظلمون فدل على ان القضاء بينهم بغيرالقسط ظلم والله منزه عنه - وقال تعالى ونضع الموازين القسط ميوم القيامة فلاتظلم نفس شيئا اى تنقص من حسناتها فلاتعاقب
مثبتین للقدر کا قول ہے اور جوموافق ہوا ان کے بعض فقہا سے جوائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے اصحاب ہیں اور ایک طائفہ نے کہا ظلم پر اللہ تعالی قادر ہے اور وہ ممکنات سے ہے اور اللہ سبحانہ وتعالی بسبب عدل اپنے کے ظلم نہیں کرنا اس واسطے اپنے نفس کی تعریف کرتے ہوئے اخبار فرمایا کہ وہ (اللہ تعالی) ذرہ بھر لوگوں پر ظلم نہیں کرتا اور تعریف مقدورکے ترک پر ہوتی ہے نہ ممتنع کے ترک پر کہتے ہیں، اللہ تعالے نے فرمایا جو نیک عمل کرے اس حال میں کہ وہ مومن ہو پس وہ ظلم اور نقصان سے خوف نہ کرے کہتے ہیں ظلم یہ ہے کہ اس پر غیر کی برائیاں ڈالدے اور ہضم یہ ہے کہ اس کی نیکیوں سے کچھ کم کردے اور فرمایا یہ بستیوں کی خبریں ہیں ہم تیرے آگے (اے محمد ؐ) بیان کرتے ہیں بعض ان میں قائم ہیں اور بعض کٹی ہوئی ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن انہوں نے اپنی جانوں پر خود ظلم کیا سواخبار فرمایا کہ ان کو ہلاک کرتے وقت ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ ان کو ان کے گناہوں کے سبب سے ہلاک کیا اور فرمایا انبیاءاور شہداءلائے جاویں گے اور ان میں حق کے ساتھ فیصلہ کیا جاوے گا اور ان پر کوئی ظلم نہ ہوگا پس اس سے برطریق دلالت معلوم ہوگیا کہ فیصلہ بین العباد بغیر عدل وانصاف کے ظلم ہے اور اللہ سبحانہ وتعالے اس سے پاک ہے اور اللہ تعالے فرماتا ہے اور ہم انصاف کے ترازو کو قیامت کے دن رکھ لیں گے پس کسی نفس پر ذرہ بھر ظلم نہ ہوگا یعنی اس کی نیکیوں سے کچھ بھی کم نہ کیا جاوے گا اور نہ بغیر برائیوں کے عذاب کیا جاویگا اس نے برطریق دلالت بتادیا کہ یہ
بغير سيئاتها فدل على ان ذلك ظلم تنزه الله عنه –
وقال تعالى لا تختصموالدى وقدقدمت اليكم بالوعيد مايبدل القول لدى وما انا بظلام للعبيد وانما نزه نفسه عن امريقدرعليه لاعن الممتنع لنفسه ومثل هذافى القران فى غير موضع مما يبين ان الله ينتصف من العبادويقضى بينهم بالعدل وان القضاء بينهم بغيرالعدل لظلم يتنزه الله عنه وانه لايحمل على احدذنب غيره وقدقال تعالى وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ فَإِنَّ ذَٰلِكَ يتنزه اللَّـهِ عَنْهُ بَل لِكُلِّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ وقدثبت فى الصحيح عن النبى صلى الله عليه وسلم ان الله تعالى يقول يا عبادى انى حرمت الظلم على نفسى وجعلته بينكم محرما فلاتظالموافقدحرم على نفسه الظلم كما كتب على نفسه الرحمة فى قوله تعالى كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ فى الحديث الصحيح لما قضى الله الخلق كتب كتابا فهوموضوع عنده فوق العرش ان رحمتى غلبت غضبى والامرالذى كتبه على نفسه او حرمه على نفسه لا يكون الا المقدورله سبحانه فالمممتنع لنفسه لايكتبه على نفسه ولا يحرمه على نفسه –
ظلم ہےجس سے حق تعالی نے اپنے نفس کو منزہ اور پاک گردانا اور فرمایا، اللہ تعالی فرماویگا، مت جھگڑومیرے پا س میں تم کو آگے عذاب کے وعدے سنا سنا کے سمجھا چکا ہوں کوئی بات میرے پا س بدلائی جاتی نہیں اور میں بندوں پر ظلم کرنیوالا نہیں ہوں بات یہی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نفس کو ایسے امر سے منزہ فرمایا جس پر وہ قادر ہے نہ ایسے امر سے جو فی ذاتہ وہ ممتنع ہے اور اس کی مثل قرآن مجید میں کئی جگہ ہے جس میں
بیا ن کرتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں میں انصاف فرماویگا اور ان میں فیصلہ عدل کے ساتھ کرے گا اور عدل کے سوا ان میں فیصلہ کرنا ظلم ہے جس سے اللہ تعالی اپنی پاکی بیان کرتا ہے اور یہ کہ وہ کسی پر غیر کے گناہ نہیں رکھے گا اور اللہ تعالی نے فرمایا اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اس سے اللہ تعالی نےاپنی پاکی بیان فرمائی ہے بلکہ ہر نفس کے لئے وہ ہے جو اس نے کمایا اور اس کے ذمے ہے جو کچھ کیا اور حدیث صیح میں نبیﷺسے روایت ہے اللہ تعالی فرماتا ہے اے میرے بندے میں نے ظلم کو اپنے نفس پر حرام گردانا ہے اور اس کو تمہارے درمیان (بھی) حرام گردانا ہےپس تم ایک دوسرے پر ظلم مت کرو (اللہ تعالی نے ) اپنے نفس پر ظلم کو حرام کرنا ہے چنانچہ لکھا ہے اپنے نفس پر رحم کو آیہ کریمہكَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ میں حدیث صیح میں ہے جب اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کیا تو
وهذاالقول قول اكثراهل السنة والمثبتين للقدر من اهل الحديث والتفسير والفقه والتصوف والكلام من اتباع ائمه الاربعة وغيرهم –
وقال العلامة المذكور ايضا فى منهاج السنة ص11 الجزء الثانى وقدقال الله تعالى أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ وهذااستفهام انكارى يقتضى الانكارعلى من يحسب ذلك ويظنه وانما يمكرعلى من ظن وحسب ماهوخطاء باطل يعلم بطلانه لامن ظن ظنا ليس يخطاء ولاباطل فعلم ان التسوية بين اهل الطاعة وبين اهل المعصية مما يعلم بطلانه وان ذلك من اظلم الشئى الذى ينزه الله عنه ومتله قوله تعالى أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِو قوله تعالى أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ وفى الجملة التسوية بين الابراروالفجاروالمحسنين والظالمين واهل الطاعة واهل المعصية حكم باطل يجب تنزيه الله عنه فانه ينافى عدله وحكمته –
ایک کتاب میں لکھا جو اس کے پاس فوق العرش رکھی ہے کہ میری رحمت غضب پر غالب آئی ہے وہ امر جس کو اپنے نفس پر لکھا ہے یا اس کو اپنے نفس پر حرام کیا ہے وہ بجزمقدور رب عزوجل کے اور کوئی نہیں بن سکتا، کیونکہ ممتنع لنفسہ امر کو نہ اپنے نفس پر لکھتا ہے اور نہ اس کو اپنے نفس پر حرام کرتا ہے اور یہ قول قول اکثر اہل سنت اور مثبتین للقدر اہل حدیث اہل تفسیر اہل فقہ اہل کلام اہل تصوف ائمہ اربعہ کے اتباع وغیرہ ہم کا ہے، یہ انکا بہت برا فتوی ہے اور یہ استفہام انکاری ایسے شخص پر جو یہ ظن وگمان رکھے مقتضی انکار ہے اور بات یہی ہے کہ یہ اس شخص پر انکار کرتاہے جو ایسی بات کا ظن وگمان کرے جووہ خطا اور باطل ہو جس کا بطلان (ظاہر) معلوم نہ ہو اس شخص پر جو ایسا ظن وگمان رکھے جو خطا اور باطل نہ ہو پس معلوم ہوگیا کہ اہل طاعت اور اہل معصیت کے درمیان تسویہ اور برابری کرنی معلوم البطلان اموراوراس بہت برے ظلم سے ہے جس سے اللہ تعالی اپنی پاکی بیان فرماتا ہے اور اس کی مثل اللہ تعالی کا یہ قول ہے کیا ہم ایماندار نیک چلن نیکوکاروں کو زمین میں فساد کرنے والوں کے برابر کرینگے
نمبر۱ انصاف کی نظرسے دیکھا اکثر اہل سنت ولجماعت کا یہی مذہب ہے پس جو کوئی اس کو خلاف مذہب اہل سنت ولجماعت کہے اس کے لئے علمی وکوتاہ نظری کسی عاقل کو شک نہ رہے گا۱۲
واما الحديث الذى رواه ابوداودمرفوعا ان الله لوعذب اهل سمواته واهل ارضه لعذبهم وهوغيرظلم ولورحمهم لكانت رحمته خيرالهم من اعمالهم ففى اسناده ابو سنان سعيدبن سنان قال احمد ليس بالقوى وقال مرة كان رجلاصالحاولم يكن يقيم الحديث قال ابن عدى له افرادوارجواانه من لايتعمدالكذب كذاقى الميزان وفى التقريب صدوق افرادوفى التهذيب قال احمد ليس بالقوى وفيه محمد بن كثير و محمدبن كثيراثنان من رجال ابى داود –
احدهما الثقفى الصنعانى وهو كثير الغلط كمافى التقريب وضعفه احد ابو داودكما فى التهذيب وقال البخارى لين جداكذافى الخلاصة وفى الميزان قال عبدالله ابن احمد ذكرابى محمدبن كثيرا المصيصى تصعفه حداوقال يروى
(یعنی ہرگز ہرگز نہیں کرنیگے) تم کو کیا ہوا تم یہ کس طرح (ناروا) فتوی دیتے ہوخلاصہ جملہ کا یہ ہے کہ نیکوکاراورفجاراور محسنین اور ظالمین اور اہل طاعت اوراہل معصیت میں برابری کرنا باطل حکم ہے جس سے اللہ تعالی کی پاکی واجب ہے کیونکہ وہ اس کے عدل وحکمت کے منافی ہے انتہی اور وہ حدیث جس کو ابوداود نے مرفوعا روایت کیا ہے کہ اللہ تعالی اگر اہل سموات اور اہل ارض کو عذاب کر ے تو انکو عذاب کریگا دراں حال کہ وہ ظالم نہ ہوگا اور اگر ان پر رحم کرے تو اسکی رحمت ان کے لئے ان کے اعمال سے بہتر ہوگی ضعیف ہے اس میں کنی ایک راوی مجروح ہیں ایک ابوسنان سعید بن سنان ہے جس کے حق میں امام احمد لکھتے ہیں وہ قوی نہیں اور ایک دفعہ کہ کہا آدمی تو صالح تھا مگر حدیث کو ٹھیک طور پر ادا نہیں کرتا تھا ابن عدی نے کہا اس کے تفردات ہیں مگر میرے گمان میں قصدجھوٹ نہیں بولتا تھا اس طرح میزان میں ہے اور تقریب میں ہے سچا ہے مگر حدیث میں اس کے تفردات ہیں اور تہذیب میں ہے کہ امام احمد فرماتے تھے کہ سعید بن سنان قوی نہیں اور اس حدیث کے اسناد میں محمد بن کثیر ہے اور ابوداود میں محمد بن کثیردو ہیں ایک ثقفی ضعانی ہے تقریب میں ہے کہ وہ کثیر الغلط ہے اور تہذیب میں ہے کہ امام احمد اور ابوداود نے اس کو ضعیف کہا ہے اور بخاری نے کہا کہ نہایت سست ہے خلاصہ اور میزان میں ہے کہ عبداللہ بن احمد نے فرمایا کہ میرے باپ نے محمد بن کثیر کو ذکرکیا پس نہایت ضعیف کہا، اور فرمایا بے اصل منکرات کی روایت کرتا ہے اور نسائی وغیرہ نے کہا کہ وہ قوی نہیں اور دوسرا عبدی
اشياء مناكيروقال حدث بمناكير ليس لها اصل وقال النسائى وغيره وليس بالقوى وثانيهما العبدى البصرى رحج الحافظ التقريب توثيقه لكن قال ابن معين لاتكتبواعنه لم يكن بالثقة كذافى التهذيب والميزان فردالايات القرانية والاحاديث الصحيحة النبوية بهذا الحديث الذى اختلف المحدثون فى صحبة كهدم الجبال بالابرة مع انه تقررفى اصول الحديث ان الجرح مقدم على النعديل ولوصح فلايخالف ماذكرته ولله الحمدلان معنى الحديث ان الله لوعذب اهل سمواته واهل ارضه لقدر لهم ما يعذبهم عليه فيكون غيرظالم لهم حينئذ كما بينه الحافظ ابن رجب وشيخ الاسلام ابن تيمية وقال العلامة المذكورفى منهاج السنة فى الجزء الاول ص130 تحت هذا الحديث والتحقيق انه اذاقدرات الله تعالى فعل ذلك فلايفعله الابحق لايفعله وهو ظالم لكن اذالم يفعله فقديكون ظلما تعالى عنه –
وقال ابن رجب الحنبلى فى كتاب جامع العلوم والحكم فى ص160 فقوله صلى الله عليه وسلم فيما يرويه عن ربه ياعبادى انى حرمت الظلم على نفسى يعنى انه
بصری ہے حافظ نے تقریب میں اس کی توثیق کوترجیح دی مگرامام ابن معین نے فرمایا ثقہ نہیں اس سے حدیث نہ لکھو اس طرح ہے میزان اور تہدیب میں اور یہ معلوم نہیں کہ اس اسناد میں جو محمد بن کثیر ہے ثقفی مصیصی ہے یا عبدی بصری ۔ اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے والجرح مقدم علی التعدیل اس حدیث ضعیف کے ساتھ آیات قرآنیہ واحادیث صیح کا رد کرنا سوئی کے ساتھ پہاڑوں کا گرانا ہے بغرض صحت اس حدیث کے بھی الحمد للہ ہمارے مدعا کے مخالف نہیں حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اگر اللہ عزوجل آسمان اورزمین والوں کو عذاب کرے تو البتہ مقدر کریگا ان کے واسطے وہ شئی جس کے سبب سے ان کو عذاب دے گا پس اس وقت اللہ پاک عادل ہوگا نہ ظالم جیساکہ ابن رجب نے جامع العلوم میں اس کے ساتھ تصریح کی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے منہاج میں، علامہ مذکور نے منہاج السنہ جلد اول ص۱۳۰ میں اس حدیث کے یہ معنی لکھے ہیں تحقیق یہ ہے کہ جب مقدر کیا جائے کہ اللہ تعالے نے یہ کام کیا تو اللہ تعالے بغیر حق کے نہیں کرتا پس اللہ تعالے اس کو نہیں کرتا درآں حال کہ وہ ظالم ہو لیکن جب اللہ تعالے نے یہ کام نہیں کیا پس یہ کبھی یہ ظلم ہوجاویگا جس جس سے اللہ تعالی بالاتر ہے یعنی پاک ہے اور علامہ ابن رجب حنبلیؒ اپنی کتاب جامع العلوم والحکم ص۱۶۰ میں لکھتے
منع نفسه من الظلم لعباده كما قال عزوجل وما انابظلام للعبيدوقال وماالله يريدظلما للعلمين وقال وماالله يريدظلما للعبادوقال وما ربك بظلام للعبيد وقال ان الله لايظلم الناس شيئا وقال ومن يعمل من الصلحت وهومومن فلا مومن فلايخاف ظلماولاهضماوالهضم ان ينقص من جزآء حسناته والظلم ان يعاقب بذنوب غيره ومثل هذا كثير فى القران وهو مما يدل على ان الله قادر على الظلم ولكن لايفعل فضلا منه وجودوكرما واحسانا الى عباده وقدفسر كثير من العلما الظلم بانه وضع الاشياء فى غيرموضعها وامامن فسره بالتصرف ملك الغير بغير اذنه وقدنقل نحوه عن اياس بن معاوية وغيره فانهم يقولون ان الظلم مستحيل عليه غير متصور فى ملكه وبنحوذلك اجاب ابوالاسودالدولى لعمران بن حصين حين سأله عن القدر واخرج ابوداودوابن ماجة من حديث ابى سنان سعدبن سنان عن وهب بن خالد الحمصى عن اين الديلمى انه سمع ابى بن كعب يقول
ہیں رسول ﷺکااپنے رب سے یہ روایت کرنا کہ اے میرے بندوں میں ظلم کو اپنے نفس پر حرام کردیا ہے ا س سے مراد یہ ہے کہ اس نے اپنے نفس کوبندوں کے ظلم سے بچایا ہے چنانچہ فرمایا ہے کہ میں بندوں پر ظلم نہیں کرتا ہوں اور فرمایا اور اللہ تعالے نہیں ارادہ کرتا جہانیوں پر ظلم کرنا اور فرمایا، تیرا رب بندو ں پر ظلم نہیں کرتا اور فرمایا اللہ لوگوں پرظلم نہیں کرتااور فرمایا اللہ تعالی ذرہ بھر ظلم نہیں کرتااور جو کوئی نیک عمل کرے درآن حال کہ وہ مومن بھی ہو پس وہ خوف نہ کرے ظلم اورہضم سے ظلم یہ ہے کہ غیرکے گناہوں کے سبب سے عذاب کیا جائے اور ہضم یہ ہے کہ اس کی نیکیوں کے ثواب میں کچھ نقص کیا جائے اور ان کی مثل قرآن مجید میں بہت آیتیں اسی پر دال ہیں کہ اللہ تعالے ظلم پر قادر ہے لیکن اپنے فضل اور کرم اور جودوعدل اوراپنے بندوں کے ساتھ احسان کرنے کی وجہ سے ظلم نہیں کرتا اور بہت علماءنے ظلم کی یہ تفسیر کی ہے کہ اشیاء کوان کے مواضع لائق کے سوااور جہگوں میں استعمال کرنے کو ظلم کہتے ہیں اور جنہوں نے کہا یہ ظلم غیر کے ملک میں بے اجازت تصرف کرنے کو کہتے ہیں چنانچہ اس کی مثال ایاس ابن معاویہ وغیرہ سے منقول ہے سووہ کہتے ہیں کہ ظلم کا اللہ تعالے سے وقوع میں آنا مستحیل اور اللہ تعالے کے حق میں غیر متصور ہے کیونکہ جوکچھ اللہ تعالے کرتا ہے وہ اس کی اپنی ملک میں تصرف ہوتا ہے
ان الله لوعذب اهل سمواته واهل ارضه لعذبهم وهو غير ظالم لهم ولورحمهم لكانت رحمته خيرالهم من اعمالهم وانه اتى ابن مسعود فقال له مثل ذلك ثم اتى زيد بن ثابت فحدثه عن النبى صلى الله عليه وسلم بمثل ذلك وفى هذا الحديث نظرووهب بن خالد ليس بذاك المشهوربالعلم وقديحمل انه لواراد تعذيبهم لقدرلهم مايعذبهم عليه فيكون غيرظالم لهم حينئذوكونه خلق افعال العبادوفيها الظلم لايقتضى وصفه بالظلم ستحانه كماانه لايوصف بسائر القبائح التى يفعلها العبادوهى خلقه وتقديره فانه لايوصف الابافعاله لايوصف بافعال عباده فان افعال عباده ةخلوقاة ومفعولاة وهولا يوصف بشئى فيها انما يوصف بما قام به من صفاة وافعاله والله اعلم –
وقال العلامة الحافظ ابن القيم الجوز يه رحمه الله تعالى فى كتابه طريق الهجرتين ص138 لان الظلم عندهم الممتنع الذى لايدخل فى المقدوروذلك لايمدح احد على
اوراس کی مانند ابوالاسودولی نے عمران بن حسین کو جواب دیا جب اس نے اس سے قدر کا مسئلہ پوچھا اور ابوداوداورابن ماجہ ابن الدیلمی سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے ابی بن کعب سے سنا وہ کہتا تھا اگر اللہ تعالے اپنے آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب کرے تو البتہ وہ ان کو عذاب کرے گا اور حال یہ کہ وہ ان پر ظالم نہ ہوگا اور اگر ان پر رحم کرے تو البتہ اس کی رحمت ان کے لئے ان کے اعمال سے بہتر ہوگی اور وہ (ابن الدیلمی) ابن مسعودکے پاس آیا اور اس کے مثل اس کو کہا پھر زید بن ثابت کے پاس گیا ان سے رسول اللہ ﷺسے اس کی مانند حدیث سنائی اور اس حدیث (کے صیح ہونے میں ) قابل ونظر ہے اور وہب بن خالد (جو اس حدیث کے اسناد میں ایک روای ہے) چنداں علم حدیث کے ساتھ مشہور نہیں اور یہ حدیث اس معنی پر محمول ہو سکتی ہے کہ اگر اللہ تعالے ان کو عذاب کرنے کا ارادہ کرتا تو ضرور ان کے لئے وہ مقدرکرتا جس کے سبب سے ان کو عذاب کرتا پس اس وقت وہ یعنی اللہ عزوجل ان پر غیر ظالم ہوتا انتہے، اور علامہ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ اپنی کتاب طریق الھجرتین کے صفہ۱۳۸ میں لکھتے ہیں کیونکہ ظلم ان کے نزدیک وہی امر ممتنع ہے جو قدرت کے نیچے داخل نہ ہو اور ایسے ممتنع غیر مقدرامر کے ترک پر کس کی تعریف نہیں کی جاسکتی اور ہور وہ امر جس کا وجود ممکن ہے، وہ ان کے نزدیک عدل ہے سوظلم کے نزدیک مستحیل ہے کیونکہ وہ اس ممتنع لذات
تركه وكل ماامكن وحوده فهوعندهم عدل فالظلم مستحيل عندهم اذهوعبارة عن الممتنع المستحيل لذاته الذى يدخل تحت امقدرولايتصورفيه ترك اختيارى فلايتعلق به واخباره تعالى عن نفسه بقيامه بالقسط حقيقة عندهم مجردكونه فاعلالاان هناك شيئاهوقسط فى نفسه يمكن وجودعنده وكذلك قوله وماربك بظلام للعبيد نفى عندهم هومستحيل فى نفسه لا حقيقة له كجعل الجسم فى مكانين فى ان واحد وجعله موجودامعدومافى ان واحد فهذا اونحوه عندهم هوالظلم الذى تنزه عنه وكذلك قوله ياعبادى انى حرمت الظلم على نفسى وجعلته بينكم محرمافلاتظالموافالذى حرمه على نفسه هومستحيل الممتنع لذايته كالجمع بين النقيضين وليس هناك ممكن يكون ظلما فى نفسه وقدحرمه على نفسه ومعلوم انه لايمدح الممدوح بترك مالواراده لم يقدرعليه وايضا فانه وجعلته محرمابينكم فالذى حرمه على نفسه هوالذى جعله محرما بين عباده وهوالظلم المقدورالذى يستحق تاركه الحمدوالثناء والذى اوجب لهم هذا
کانا م ہے جو مقدور میں داخل ہوتا ہےاور نہ اس میں ترک اختیاری متصورہے پس حمد اور تعریف کو اس سے کوئی تعلق نہیں اور اللہ عزوجل نے جو اپنے نفس کے حق میں برطریق اخبارفرمایا کہ وہ قائم یا لقسط ہے سو اس کی حقیقت ان کے نزدیک صرف یہ ہے کہ صرف اللہ تعالے اس کا فاعل ہے نہ یہ کہ وہاں کو ئی شئے ہےجو فی نفسہ مسط وانصاف ہے اور اس کا ضد ممکن الوجود ہواوراس طرح اللہ تعاے کا یہ قول کہ تیرا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا ان کے نزدیک ایسے امر کی نفی ہے جو فی نفسہ مستحیل اور اس کے لئے کو ئی حقیقت نہیں جیسا کہ ایک جسم کا ایک وقت میں دومکانوں کے اند رہونا او ر ایک جسم کو ایک ہی آن میں موجود ومعدوم گرداننافی نفسہ مستحیل اور بے حقیقت امر ہے پس یہ اور اس کی مثل ان کے نزدیک وہی ظلم ہے جس سے اللہ عزوجل نے اپنے آپ کو پاک فرمایا ہے اور اس طرح اللہ تعالے کے اس قول میں کہ میرے بندوں تحقیق میں ظلم کو اپنے نفس پر حرام کردیا ہے اور اس کو تمھارے درمیان ( بھی) حرام کیا ہے پس تم ایک دوسرے پر ظلم مت کرو جس ظلم کو اپنے نفس پر حرام کیا ہے وہ مستحیل اور جمع بین النقیضین کی طرح ممتنع لذاتہ ہے وہ وہاں کو ئی ایسا ممکن نہیں جو فی نفسہ ظلم ہواور اللہ تعالے نے اس کو اپنے نفس پر حرام گردانا ہواور امر معلوم ہے کہ گو ممدوح ایسے امر کے ترک پر تعریف نہیں کیا جاسکتا جس کی طرف اگر وہ ارادہ کرے
منا قضة القدرية المجوسية ورداصولهم وهدم قواعدهم ولكن ردواباطلابباطل وقابلوابدعة ببدعة وسلطواعليهم خصومهم بماالتزموامن الباطل فصارت العلبت بينهم وبين خصومهم سحالايغلبون ومرة يخلبون لم يستقرلهم نصرة وانما النصرة الثابتة لاهل السنة المحضة الذين لم يتحيزواالى فئتين غير رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يلتزمواغيرماجآءبه ولم يوصلوااصلاببدعة يسلطون عليهم به خصومهم بل اصلهم مادل عليه كتاب الله وكلام رسول الله وشهدت به الفطروالعقول –
وقال العلامة المذكورفى كتابه الجواب الكافى ص112 وكذلك لم يقدره حق قدره ممى قال انه يجوزان يعذب اولياءه ومن لم يعصه طرفة عين اويدخلهم دارالنعيم وان كلا الامرين بالنسبة اليه سواء وانما الخبرالمحض جاء عنه بخلاف ذالك فمنعناه للخير ولالمخالفة حكمته وعدله وقدانكرسبحانه فى كتابه على من جوز عليه ذلك غاية
تو اس پر قادر نہ ہوسکےاور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ میں نے اس کو تمھارے درمیان حرام گردانا پس جس کو اپنے نفس پر حرام کیا ہے اس کو اپنے بندوں کے درمیا ن حرام گردانا ہے اوریہ وہی ظلم ہے جس پر اس کو قدرت ہے جس کا تارک لائق حمدوثنا ہےاور ان کو مجوس قدریہ کے مناقضہ اور ان کے اصول وقواعد کے رد اور ہدم نے ان باتوں پر مجبور کردیا تھا لیکن انہوں نے باطل کو باطل کے ساتھ رد کیا اور بدعت کا بدعت کے ساتھ مقابلہ کیا اور اپنے حضم کو بسبب الزال ان اباطیل کے مسلط کیا پس ان میں اور ان کے حضم میں غلبہ ڈول کی طرح ہوگیا کبھی غالب ہوتے ہیں اورگاہے مغلوب ان کے لئے نصرت ثابت ودائم نہ رہی واقعہ بات یہ ہے کہ نصرت ثابت ودائم ان خالص اہل سنت کے لئے ہے جو رسول اللہ ﷺکے وہ ان دوفرقوں میں سے کسی کے ساتھ شامل نہیں ہوتے اور وہ سوااس کے جورسول اللہ ﷺلائے ہیں اورکسی امر کا الزام نہیں کرتے اور وہ کسی اصل کو ایسے بدعی اصل کے ساتھ رد نہیں کرتے جس کے سبب سے ان پر ان کے دشمن مسلط ہوں بلکہ ان کا وہ اصل ہے جس پر کتاب اللہ اور کلام رسول ؐاللہ دال ہوں اور فطرت اور عقل اس کے گواہ ہوں اور علامہ مذکوررحمہ اللہ اپنی کتاب الجواب الکافی کے صفہ۱۱۲ میں لکھتے ہیں اور اس طرح اللہ عزوجل کی قدردانی نہیں کی جس نے (یہ) کہا کہ اللہ عزوجل اگر اپنے اولیاء کوعذاب رکرے جنہوں نے ایک طرفتہ العین بھی گناہ نہیں کیا تو یہ جائز ہے یا ان کو دارالنعیم
الانكاروجعل الحكم به من اسوء الاحكام وقال العلامة ابن الهمام فى المسائرة وشارحه (ثم قال صاحب العمدة من الحنفية) وهو العلامة ابوالبركات النفى (تخليد المومنين فى النار والكافرين فى الجتة يجوزعقلاعندهم) يعنى الاشاعرة قالو (الاان السمع وردبخلافة) فيمتنع وقوعه لدليل السمع وعندنا) معشرالحنفية (لايجوزاه) كلام العمدة مع ايضاح وقوله لايجوز اى عقلا شيخنا المصنف (الاول) يعنى قول الاشعرية (احب الى الثانى) يعنى قول الحنفية فليس احب الى انتهى وردعلى ابن الهمام زين الدين قاسم الحنفى قوله هذااحب الى قلت هذابعض الى ثم قال الشيخ ابن الهمام وشارح كتابه (ونحن لانقول بامتناعه) هى امتناع العفوعن الكفر (عقلابل) نقول بامتناعه (سمعا) كا لا شعرى (وظنهم) اى الحنفية (انه) اى العفوعن الكفر (ضاف للحكمة لعدم المناسبة) اى لعدم مناسبة العفو لانه اعزاء بالكفر (غلط) منهم وردعليه العلامة الشيخ زين الدين قاسم الحنفى فى حاشية على المسائرة ص177
(بہشت) میں داخل کردےاور یہ دونوں امر اس کی نسبت یکساں ہیں مگر چونکہ دلیل نقلی اس کے خلاف واردہے اس واسطے ہم اس کو ممتنع جانتے ہیں نہ اس وجہ سے کہ یہ خلاف عدل وحکمت ہے اور اللہ سبحانہ نے اپنی کتاب مجید میں ایسے شخص پربہت سخت انکار کیا ہے جو اللہ تعالی کے لئے اس کو جائز جانے اور اللہ سبحانہ پر اس کا حکم کرنا بدترین احکام سے فرمایا ہے علامہ ابن ہمام اور اس کی کتاب (مسائرۃ) کے شارح لکھتے ہیں :ابوابرکات نستفی حنفی فرماتے ہیں ہمیشہ رہنا مومنوکا دوزخ میں اور کافروں کا بہشت میں اشاعرہ کے نزدیک عقلا جائز ہے مگر دلیل نقلی کے رو سے ممتنع ہے اور ہمارے حنفیہ کے نزدیک عقلا بھی نا جائز ہے ابن الہمام کہتے ہیں مجھ کو اشعریہ کا قول بہت پسند ہے نہ حنفیہ کا زین الدین قاسم حنفی اس پر لکھتے ہیں جو قول آپ کو بہت پسند ہے اس قول کو میں بہت برا سمجھتا ہوں پھر ابن الہمام لکھتے ہیں، کہ ہم اشعری کی طرح کافر کے عضوکو عقلا جائز جانتے ہیں نہ سمعااور حنفیہ کا یہ گمان کہ کافر کا عضو حکمت کے منافی ہے غلط علامہ زین الدین قاسم حنفی نے اپنے حاشیہ علی المسائرہ کے صفہ۱۷۷ میں اسکا رد کیا لکھتے ہیں ان کی کلام جس قدر میرے پاس حاضر ہے ذکر کرتا ہوں تاکہ معلوم ہوجاوے کہ کیا امر اس طرح ہے جس
قلت اذكرماحضرفى من كلامهم ليظهرهل الامركمازعم ام لا فاقول قال فى الكفاية قال اصحابنا رحمه الله لايجوز من الله تعالى ان يعفوعن الكافرين ويخلدهم فى الجنة ويخلدالمومنين فى النارلان الحكمة تقضى التفرقة بين المسئى والمحسن ومايكون على خلاف قضية الحكمة يكون سفها وانه يستحيل من الله تعالى كا لظلم والكذب فلايوصف الله تعالى بكونه قادراعليه ودلالة ذلك ان الله تعالى ردعلى من حكم بالتسوية بين المسلم والمجرم بقوله افنجعل المسلمين كالمجرمين مالكم كيف تحكمون وكذلك قال ام حسب الذين اجترحواالسيات ان نجعلهم كالذين امنواوعملوالصلحت سواءمحياهم ومماتهم ساءمايحكمون ثم لانفرقه بين هوءلاءفى الدنيا فلابدمن التفرقة فى الاخرة ولان تخلميدالمومن فى الناروتخلميدالكافر فى الجنة يكون ظلماوانه يستحميل من الله تعالى على ما نمبين ودلالة انه ظلم فان الظلم وضع الشئى فى غير محله والاساءة فى حق المحسن والاكرام –
طرح ابن ہمام کہتا ہے یا نہ سومیں کہتا ہوں کفایہ میں ہے ہمارے اصحاب (حنفیہ) نے کہا ہے کہ اللہ تعالے کے حق میں یہ جائز نہیں کہ وہ کافروں کو معاف کردے اور ان کو بہشت میں ہمیشہ رکھے اور مومنین کو ہمیشہ آگ میں رکھے کیونکہ حکمت اس (بات) کی مقتضی ہے کہ بدکار اور نیکوکار کے درمیا ن فرق ہو اور جو کام قضیہ حکمت کے خلاف ہو وہ سفہ (بے عقلی) ہے اور اللہ عزوجل سے اس کا صدورظلم اور کذب کی طرح مستحیل ہے پس اللہ تعالے کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اس پر قادر ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالے نے اس شخص پر ردفرمایا ہے جو مسلم اور مجرم کے درمیان تسویہ کا فتوی دیتا ہے اس آیہ کریمہ میں کیا مسلمانوں کو مجرموں کی طرح کرینگے (یعنی ہر گز نہیں کرینگے) تم کو کیا ہوا (یہ نا جائز ) حکم تم اللہ سبحانہ پر کس طرح کہا کرتے ہو اور اس طرح فرمایا ہے کیا ان لوگوں نے گمان کیا ہے جو برائی کرتے ہیں کہ ہم ان کو ایماندانیک پاک (تابعداروں ) کی طرح کردینگے ان کی حیات اور ممات یکساہوگی (یعنی ہرگز ایسا نہیں ہوگا کہ مجرم اور محسن برابرہو) برا ہے وہ جو (اللہ پر ایسا) فتوی دیتے ہیں پھر جب دنیا کے درمیان ان میں تفرقہ نہیں تو ضرور ہے کہ آخرت میں ان کے درمیان تفرقہ ہو اور اس لئے کہ مومن کا ہمیشہ آگ میں رکھنا اور کافر کا ہمیشہ جنت میں رکھنا ظلم ٹھہرتا ہے اور اللہ سبحانہ سے اس کا وقوع میں آنا مستحیل ہے چنانچہ
والانعام فى حق المسئى المعلن وضع الشئى فى غيرموضعه فيكون ظلما مستحيلا من الله ومثل هذا اسفها فى الشاهد فلايجوز نسبة ذلك الى الله تعالى عقلاوقوله تصرف فى ملكه قلنا التصرف فى الملك انما يجوز من الحكيم اذاكان على وجه الحكمة والصواب فاماالتصرف على خلاف قضية الحكمة يكون سفها وانه لا يجوز الخ وقال العلامة الحابظ ابن القيم الجوزيه رحمه الله فى كتابه شفاءالعليل فى مسائل القضاء والقدر والحكمة والتعليل فى الباب السبع والعشرون اماالقدرية والجبرية فعندهم الظلم لاحقيقة له بل هوالممتنع لذاته الذى لايدخل تحت القدرة فلايقدر الرب تعالى عندهم على مايسمى ظلما حتى يقال ترك الظلم وفعل العدك فعلى قولهم لافائدة فى قوله عدل فى قضائك بل هو بمنزلة ان يقال نافذفى قضائك ولابدوهومعنى قوله ماض فى حكمك فيكون تكريرالافائدة فيه وعلى قولهم فلا يكون ممدوحابترك الظلم اذلايمدح بترك المستحيل لذاته ولافائدة فى قولها فى حرمت الظلم على
ہم بیان کرینگے اور اس بات کی دلیل کہ یہ ظلم ہے یہ ہے کہ ظلم ایک شئی کو غیر موضع میں استعال کرنا اور نیکوکار کے ساتھ برا کرنا، اور بدکار معلن کے حق میں انعام واکرام کرنا وضع الشی فی غیر موضعہ ہے پس یہ ظلم ہے اور اللہ سبحانہ کے بارے میں مستحیل ہوگا اور عقل کی رو سے ایسا کام سفہ شمار کیا جاتا ہے پس اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف عقلا جائز نہیں اور اس کا یہ قول کہ تصرف اس کی اپنی ملک میں ہے ہم کہتے ہیں حکیم کاتصرف اپنی ملک میں اس وقت جائز ہے جب کہ حکمت اور صواب کے طور پر ہو اور خلاف قضیہ حکمت کے تصرف کرنا سفہ ہے اور یہ (اللہ تعالی کے واسطے) جائز نہیں ہے، حافظ ابن القیمؒ اپنی کتاب شفاء العلیل کے ستائیسویں باب میں لکھتے ہیں قدریہ اور جبریہ کے نزدیک ظلم کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ ممتنع لذاتہ ہے جو (خداکی) قدرت کے اندر داخل نہیں پس ان کے نزدیک رب تعالے اس پر قادر نہیں جس کو ظلم کہا جاتا ہے تاکہ کہا جاوے کہ اس نے ظلم کو چھوڑدیا اور عدل کو فعل میں لایا پس ان کے قاعدہ کے مطابق رسول اللہ ﷺکے کہنے میں کہ میرے حق میں تیرا حکم عدل ہے کوئی فائدہ نہیں بلکہ یہ کہنا اور یوں کہنا کہ میرے حق میں تیرا حکم نافذ ہے یکساں ہواور نفوذوالی معنے ماض فی حکمک میں ہوچکی تھی پس تکراربلافائدہ ہوگا اور ان کے قول کے مطابق اللہ تعالے ترک ظلم کے ساتھ ممدوح نہ ہوگا کیونکہ مستحیل لذاتہ کے ترک کے ساتھ مدح نہیں ہوتی ہے اور اس قول کہ میں نے ظلم کو اپنے نفس پر حرام کیا ہے کوئی فائدہ نہ ہوگا کیا یوں گمان کیا جاتا
نفسى اويضن معناه انى حرمت على نفسى مالايدخل تحت قدرتى وهو المستحيلات ولا فائدةفى قوله فلايخاف ظلماولاهضما فان كل احد لايخاف من المستحيل لذاته ان يقع ولا فائدة من قوله وما يريد ظلما للعباد-فنفوذحكمه فى عباده بملكيه وعدله فيهم بحمده وهو سبحانه له الملك وله الحمدوهو على كل شئى قديرونظيرهذاقوله سبحانه حكاية عن نبيه هودانه قال انى توكلت على الله ربى وربكم مامن دآبة الاهواخذبناصيتها ان ربى صراط مستقيم فقوله مامن دآبة الاهواخذبناصيتها مثل قوله ناصيتى بيدك ماض فى حكمك وقوله ان ربى صراط مستقيم مثل قوله عدل فى قضائك اى لا يتصرف فى تلك النواصى الابالعدل والحكمة والمصلحة زالرحمة لا يظلم اصحابها ولايعاقبهم بمالم يعملوه ولا يهضمهم حسنات ما عملوه فهوسبحانه على صراط مستقيم فى قوله وفعله يقول الحق ويفعل الخيروالرشدالخ انتهى-قال العلامة عبدالرحيم بن على الشهير بشيخ زاده فى كتابه نظم الفرائدذهب مشائخ الحنفية الى انه يمتنع تخالف الوعيد
ہےکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ میں نے اپنے نفس پر اس کو حرام گردانا ہے جو میری قدرت کے اندر داخل نہیں یعنے مستحیل چیزیں اور اس قول میں کہ نہ ڈرے ظلم اور نہ ہضم سے کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ مستحیل لذاتہ کے وقوع سے کوئی شخص نہیں ڈرتا اور اس قول میں کہ اللہ بندوں پر ظلم کا ارادہ نہیں کرتا اور نہ اس قول میں کہ بندوں پر ظلام نہیں ہوں کوئی فائدہ نہ ہوگا، سوبندوں کے درمیان اللہ کے حکم نفوذ اس کے مالک ہونے سبب سے ہے اور اللہ تعالے کا عدل ان کے درمیان بسبب حمید ہونے اسکےہے اور ملک اور حمد دونوں اس کے لئے خاص ہیں اور وہ ہرچیز پر قادر ہے اور اسکی نظیر وہ قول ہے جو اللہ سبحاانہ نے اپنے نبیؑ ہود کے بارے میں برطریق حکایت بیان کیا ہے کہ ہودؑ نے کہا میں نے اس اللہ پر توکل کیا جو میرا اور تمھارا رب ہے کوئی جاندار نہیں مگر اللہ اس کی پیشانی کو پکڑنیوالا ہے بیشک میرا رب راہ مستقیم پر ہے سو یہ کہنا کہ کو ئی جاندار نہیں مگر اللہ اس کی پیشانی کو پکڑنیوالا ہے اس کی مثل ہے جو رسولؐ اللہ نے کہا میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے میرے حق میں تیرا حکم گزر چکا ہے اور یہ قول کہ میرا رب راہ مستقیم پر ہے رسولؐ اللہ کے اس قول کے برابر ہے کہ میرے حق میں تیرا حکم عدل ہے یعنی وہ عزوجل ان پیشانیوں میں بجز عدل اور حکمت اور مصلحت اور رحمت کے تصرف نہیں کرتا نہ ان پیشانیوں پر ظلم کرتا ہے اور نہ بغیر کئے ان کو عذاب کرتا ہے اور نہ انکے
كما يمتنع تخلف الوعدكمافى العمدة للامام النسفى والشرح الكبير الامام اللقانى وشرح الفقه الاكبر للشيخ على القارى وذهب المشائخ من الاشاعرة الى ان العقاب عدل اوعدبه العاصى وله ان يعفوعنه لان الخلف فى الوعيد لايعدنقصاكما فى المواقف وشرحه الشريفى والتفسير الوسيط للامام الواحدى وشرح الجوهرة للامام اللقانى احتج مشائخ الحنفية بان الخلف فى الوعيد تبدبل للقول وقدقال الله تعالى.مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ ومايلزم جوازالكذب على الله تعالى فى وعيده وقدقام الاجماع على تنزه حيزه عنه وقال رحمه الله ايضا قال الامام فخرالدين الرازى اذاجازالخلف فى الوعيد لغرض الكرم فلم لايجوز الخلف فى القصص والاخبار لغرض المصلحة ومعلوم ان فتح هذا الباب يفضى الى الطعن فى القران وكل الشريعة انتهى بلفطه وقال رحمه الله ايضا ذهب ايضا ذهب مشائخ الحنفية الى ان الله تعالى لا يفعل القبيح ولوفعل لكان قبيحا فلايجوزعقلاعندناتخليدالمومنين فى الناروالكافرين فى الجنة وذهب الشيخ الاشعرى من تابعه الى ان افعاله تعالى لاتوصف بالقبح ولوفعله لايوصف به حتى لوخلدالانبيآءفى النار
کردہ حسنات میں نقصان دیتا ہے پس وہ سبحانہ اپنے قول اوراپنے فعل میں راہ مستقیم پر ہے اور حق کہتا ہے اور خیر اور رشد کرتا ہے انتہے علامہ عبدالرحیم بن علی معروف شیخ زادہ اپنے کتاب نظم الفرائد میں لکھتے ہیں کہ مشائخ حنفیہ کا یہ مذہب ہے کہ مخالفت وعید مثل مخالفت وعدہ کے ممتنع ہے ایسا ہی عمدہ میں امام نسفی نے اور شرح کبیر میں امام لقانی نے شرح فقہ اکبر میں ملاعلی قاری نے لکھا ہے اور مشائخ اشاعرہ کا یہ مذہب ہے کہ گنہگار کو عذاب کا وعید عدل ہے اور اللہ کو اختیار ہے کہ اس کو معاف کردے کیونکہ وعید کی مخالفت کو نقصان شمار نہیں کیا جاتا ایسا ہی مواقف اور اسکی شرح شریفی اور تفسیر وسیط امام واحد ی اور شرح جوہرہ امام لقانی میں ہے اور مشائخ حنفیہ اسبات کے ساتھ دلیل پکڑتے ہیں کہ مخالفت وعید قول کا بدل ڈالنا ہے اور اللہ تعالی فرماتا ہے.مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِیعنی میرا قول بالکل نہیں بدلا جاتا اور نہ میں بندوں پر ظلم کرتا ہوں اور یہ بھی وجہ ہے کہ (مخالفت وعیدسے) اللہ تعالی پر جواز کذاب لازم آتا ہے اور اجماع اسی بات پر قائم ہےکہ اللہ اس سے پاک ہے اور کہا رحمہ اللہ نے امام فخرالدین رازی کہتے ہیں کہ جب مہربانی کی غرض سے مخالفت وعید جائز ہوگئی تو قصص اور اخبار میں کسی مصلحت کے واسطے کیوں جائز نہیں ہوسکتی اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ اگر اس بات کا دروازہ کھول دیا جائےتو قرآن مجید اور کل شریعت پر طعن ہو
والكفار فى الجنة لايقبح عنده كما فى تعديل العلوم وشرحه للصدر العلامة والعمدة للامام النسفى والمسائرة للامام ابن الهمام استدل مشائخ الحنفية بان الحكمة الالهية تقضى التفرقدة بين المحسن والمسيئى ومايكون على خلاف قضية الحكمة يستحيل من الله تعالى ولان تخليد المومنين فى النار و تخليدالكفارفى الجتة وضع الشئى فى غير موضعه وهومستحيل على الله تعالى وقال رحمه الله ايضا ذهب مشائخ الحنفية الى ان العفو عن الكفر لايجوز عقلا كما فى التاويلات للشيخ علم الهدى ابى منصور الماتريدى و العمدة للامام النسفى وشرحه وذهب الشيخ الاشعرى ومن تابعه الى ان اعفو عن الكفر يجوز عقلا كما فى التفسير الكبير الامام فخرالدين الرازى وكشف الكشاف المسائرة للامام ابن الهمام استدل مشائخ الحنفية بان الحكمة الله تعالى توجب العقاب على من اعتقد الكفر والتزمه وان ليس فى الحكمة عفوعن ةمثله الخ وبالله العجب من قوم يستدلون بهذا
جائے گااور کہا رحمہ اللہ نے مشائخ حنفیہ کا یہ مذہب ہے کہ قبیح ہی ہوگا اس واسطے مومنوں کا ہمیشہ دوزخ میں رکھنا اور کفار کا ہمیشہ جنت میں رہنا ہمارے نزدیک عقلا بھی جائز نہیں ہے اور شیخ اشعری اور اس کے تابعداروں کا یہ مذہب ہے کہ اللہ تعالی کے افعال قبیح کے ساتھ وصف نہیں کئے جاتے اور اگر اللہ تعالے اس (فعل قبیح ) کو کرلے تو بھی اس کے ساتھ وصف نہیں کیا جائے گا یہاں تک کہ اگر انبیاء کو ہمیشہ دوزخ میں اور کفار کو ہمیشہ جنت میں رکھے تو اس کو بھی اشعری کے نزدیک فعل قبیح نہ کہا جائیگا جیسا کہ تعدیل العلوم اور اس کی شرح صدر العلامہ اور عمدہ امام نسفی اور مسائرہ امام ابن الہمام میں ہے مشائخ حنفیہ اس بات کے ساتھ دلیل پکڑتے ہیں کہ نیکوکار اور بدکارکے تفرقہ کو تو حکمت آلہی مقتضی ہے اور جو کچھ اقتضائے حکمت کے خلاف ہے وہ اللہ تعالے سے محال ہے اور یہ بھی وجہ ہے کہ مومنوں کا ہمیشہ دوزخ میں رکھنا اور کفار کا ہمیشہ جنت میں رکھنا وضع الشئی فی غیر موضعہ یعنی شئے کو اسکے اصل مقام پر نہ رکھنا ہے اوریہ بات اللہ تعالے پر مستحیل ہے، اور مشائخ حنفیہ کا یہ مذہب ہے کہ کفر سے معافی عقلا جائز نہیں ہے ایسا ہی تاویلات شیخ علم الہدی ابی منصور یاتریدی اور عمدہ امام نسفی اور اسکی شرح میں ہے اور شیخ اشعری اور اسکے اتباع کا یہ مذہب ہے کہ کفر سے معافی عقلا جائز ہے، جیسا کہ کبیر امام رازی، اور کشف الکشاف اور مسائرۃ ابن ہمام میں ہے مشائخ حنفیہ اس بات کے ساتھ دلیل پکڑتے ہیں کہ جو کوئی کفر کا اعتقاد اور اسکا التزام کرے اس پر حکمت آلہی عذاب کو واجب کرتی ہے اور ایسی باتوں سے معافی حکمت میں جائز نہیں ہے
الايات يفعل الله مايشآءويحكم عما يريدلايسئل مايفعل وهم يسئلون يعذب من يشاءويغفرلمن يشاء على ان الله عزوجل لوخالف وعده الذى وعدالمومنين بالجنة واسكنهم ابدافى النارلكان عدلاوتسطاوهذاغلط وغفلة منهم لانه ليس فى الايات المذكورة مايدل على هذابل المرادمن الايات ان الله يفعل مايشاءه ويحكم مايريده ولايسئل عما يفعله ومخالفة الوعدوادخال المومنين فى الناروالظلم لايشاه ولايريده كما قال وما الله يريدظلما للعلمين فلا يفعله ولا يحكم به ولايسئل عنه ففى الايات ذكر مايشاءه ويريده ويفعله ويحكم به وليس فيه ذكر مايشاءه ويريده ويفعله ويحكم به وهذا اختلاف فيه عنداحدمن المسلمين وهذاامراخرغيرالذى كنانصدده واما قوله تعالى يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ فتفسيره يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وهم الكفرة والمنافقون وَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وهم المومنون-لان الله عزوجل صرح فى كتابه إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ وقال سواءعليهم امتغفرث لهم ام لم تستغفرلهم
اورتعجب ہے اس قوم سے جو آیہ کریمہ يَفْعَلُ اللَّـهُ مَا يَشَاءُ و يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ اور آیہ کریمہلَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ اور آیہ کریمہ يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ سےاستدلال کرتے ہیں اس بات پر کہ اگر اللہ عزوجل اپنے وعدے سے مخالفت کر کے مومنوں کوہمیشہ دوزخ میں رکھے اور اپنے وعیدات واخبارات کے برخلاف کفرہ فجرہ کوہمیشہ کے واسطے بہشت دیوے یہ عین عدل وانصاف ہے اور یہ ان کی غلطی اور غفلت ہے کیونکہ آیات مذکورہ میں اسکا ذکرہی نہیں بلکہ آیات مذکورہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عزوجل جس چیز کو چاہتا ہے، اور ارادہ کرتا ہے اور اسکا حکم دیتا ہے اور جس چیز کو کرتا ہے اس سے پوچھا نہیں جاتا اور اپنے وعدوں اخبارات سے مخالفت اور ظلم اور مومنوں کو ہمیشہ دوزخ میں رکھنا اللہ عزوجل ان کو نہ چاہتا ہے اور نہ ان کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے (جیسا کہ آیہ کریمہ وَمَا اللَّـهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِّلْعَالَمِينَ میں ہے) کہ اس کو کرے یا اسکا حکم دیوے یا اس سے پوچھا جاوے یہاں تو اس چیز کا ذکر ہے جو اللہ عزوجل کرتا ہےیا اس کا حکم دیتا ہے اور جس چیز کو نہ چاہتا ہے اور نہ اس کا ارادہ کرتا ہے اس کے کرنے یا حکم دینے یا پوچھاجانے کا ذکر کہاں اوريُعَذِّبُ مَن يَشَاءُسے کفار مراد ہیں، اور َيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُسے مراد مومن ہیں، کیونکہ اللہ عزوجل نے قرآن شریف میں تصریح کے ساتھ فرمایا ہے إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ
لن يغفرالله لهم إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ وقال وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ فعلم ان المرادمن جملة وَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ المومنون واماحديث لن ينجواحدمنكم بعمله قالواولاانت يارسول الله قال ولااناالاان يتعمدنى الله برحمته فلايضرنالانالانقول بوجوب الاجروالتواب على الله تعالى بالاعمال الصالحة بل هواوجب على نفسه بفضله وكرمه الرحمة وحرم على نفسه الظلم كما نطق به الكتاب السنة فى مثل قوله تعالى كتب ربكم على نفسه الرحمة و قوله وكان حقاعلينا نصرالمومنين و قوله فى الحديث الا لهى الصحيح ياعبادى انى حرمت الظلم على نفسئى جعلته بينكم محرماوماان العباديوجبون عليه ويحرمون عليه ممتنع عنداهل السنة كلهم وفى هذا كفاية لمن له بصارة وارجومن الله ان ينفع به كثيرامن المسلمين والحمدلله رب العلمين الصلوة والسلام على حبيبه سيدالمرسلين واله واصحابه اجمعين برحمتك ياارحم الرحمين-
اورفرمایا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ اورفرمایاإِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْاورفرمایاوَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌاورفرمایاالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ
پس آیات مذکورہ سے صاف معلوم ہوگیا کہ جملہ يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ سےمراد مشرک ومنافق ہیں کیونکہ اللہ تعالے نے صاف فرمایا دیا کہ میں مشرک کو کبھی نہیں بخشوں گا اور َيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ سےمومن ہیں کیونکہ قرآن مجید میں مومنوں کی مغفرت کے واسطے اللہ پاک کا وعدہ ہے اور حدیث لن ينجواحدمنكم بعملهہ مارےمضرنہیں کیونکہ ہم اپنے اعمالوں سے اللہ عزوجل پر وجوب حق کے قائل نہیں بلکہ اللہ عزوجل نے اپنے فضل وکرم سے مومنوں کا حکم اپنے اوپر واجب کرلیا اور ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا جیسا کہ کتاب وسنت اسی پر ناطق ہے كتب ربكم على نفسه الرحمة تمھارے رب نے اپنے نفس پر رحمت کو فرض کرلیا وكان حقاعلينا نصرالمومنيننصرت مومنوں کی ہمارے اوپر حق ہے، ياعبادى انى حرمت الظلم على نفسئى جعلته بينكم محرما اے میرے بندوںمیں نے اپنے نفس پر ظلم کو حرام کردیا اور تمھارے درمیان بھی حرام گردانا اوریہ بات کہ بندے اللہ تعالی پر کوئی چیز واجب کریں یا حرام کریں یہ تما اہل سنت کے نزدیک ممتنع ہے والحمدلله رب العلمين والصلوة والسلام على حبيبه سيدالمرسلين واله وصحبه اجمعين برحمتك يا ارخم الرحمين
سوال:۔ (۳) انصارمدینہ کا پیشہ پارچہ بافی تھا اس لئے ہر مسلمان جس کا پیشہ پارچہ بافی ہے انصار کہلایا جاسکتا ہے دہلی جیسے مرکزی شہر میں جہاں تقریبا ہندوستان کے ہر صوبے کے اورہر قوم کے افراد آباد ہیں اور اسی طرح پارچہ باف برادری کے افراد بھی ہندوستان کے مختلف حصہ سے آکرآباد ہوگئے ہیں، (بعض راجپوت ہیں اور بعض جاٹ وغیرہ ہیں بہت سے ہندوپارچہ بافوں کی اولادمیں سےہیں جن کے آباواجداد کسی زمانے میں مسلمان ہوگئے تھے) اب سوال یہ ہے کہ کیا بغیر پور ے ثبوت کے یہ لوگ اپنے تئیں انصار کہلواسکتے ہیں؟ اور من نسب الى غير ابيهاورمن ادعى الى غير ابيه فالجنة عليه حراموغیرہ احادیث کا کیا مطلب ہے بينواتوجروا-
جواب:۔ (۳) جواب صیح ہے بے شک جو لوگ انصاری النسل سے نہیں ہیں ان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے کو انصاری ظاہر کریں اور یہ دعوی کے ہندوستان کے تمام پارچہ باف انصاری ہیں، بلادلیل ہونے کی وجہ سے مردود ہے فقط واللہ اعلم:،
الجواب:۔ (۴) صیح بلاشک وشعبہ نسب اور نسل کا بدلنا حرام ہے پارچہ بافی اسلام میں کوئی حقیرپیشہ نہیں نہ پارچہ بافوں کو اسلام کوئی ذلت ہے سب انسان اسلام کے نزدیک ایک ہی باپ کے بیٹے ہیں قرآن نے نسلی امتیاز اور پیشوں کی شرافت کا گلاگھونٹ دیا ہے ایک اصلی سید کا ایک جوتی گانٹھے والے مسلمان کا اسلام میں ایک ہی حکم ہے ذات پات پر فخریہ جاہلیت کا کام ہے پھر کسی برادری کو اپنا نصب نامہ گھڑنے کی کیا ضرورت ؟ سوال میں جو حدیثیں ہیں ان کی بنا پر نسب بدلنا حرام ہے واللہ اعلم،
صورت مرقومہ ومسئولہ بالا میں واضح ولائح ہوکہ محض پارچہ بافی انصارمدینہ کی اولاد ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی جو لوگ واقعی ان کی اولاد میں سے ہوں ان کے پاس اس کا ثبوت ہو وہ البتہ اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرسکتے ہیں اور جن لوگوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں محض پارچہ بافی کی بنا ءپر اپنے آپ کو ان کی اولاد میں محسوب کرتے ہیں یہ ان کی ڈبل غلطی ہے جو شرعا ہرگز جائز نہیں فقط حررہ العاجز: حررہ العاجزابو محمد عبدالستار غفرلہ الغفار
اس نسب نامہ کے گھڑنے کی وجہ دراصل ان مسلمانوں کی تعصب پرستی ہے جو ہندوں کی صحبت میں رہا کر بالکل ہندوہی بن چکے ہیں، جن کی نظر میں داعی اسلام کے اس فرمان لافضل لعربى على العجمىکےہوتے ہوئے بھی کسی سید کی شادی کسی دھوبی سقہ جلاہے وغیرہ سے نہیں ہوسکتی دہلی کے ان نوجوانوں کو اپنے ڈاکٹری وغیرہ پیشوں کو چلانا تھا مسلمانوں میں حقارت کےخوف سے انہوں نے اپنے نسب نامہ بدلے بہرحال ان مومن حضرات کو اپنا نسب نامہ نہیں بدلنا چاہئے کیونکہ یہ فعل شرعا گناہ ہے، واللہ اعلم: ابوالقاسم ایم اے رزاق منزل لال دروازہ دہلی۔ اخبارمحمدی دہلی جلد نمبر۱۸ ش نمبر۲۴
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب