سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(80) فی رد وحدۃ الوجود

  • 6538
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3881

سوال

(80) فی رد وحدۃ الوجود

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فی رد وحدۃ الوجود


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وقال رحمه الله تعالى فى جواب سوال وردعليه فى وحدة الوجودوغيرها-

بسم اللہ الرحمن الرحیم-الحمدلله اعلم ان جواب هذا السوال لابدفيه اولا من معرفة حقيقة التوحيد فاقول قال الحافظ ابن حجرفى فتح البارى شرح صحيح البخارى فى كتاب التوحيد قال الجنيد فيما حكاه ابوالقاسم التميمى فى كتاب الحجة التوجيد مصدر وحديوحد ومعنى وحدت الله اعتقدته منفردابذاته وصفاته لانظيرله ولاشبيه وقيل معنى وجدته علمته واحدا وقيل سلبت عنه الكيفية والكمية فهوواحد فى ذاته لاانقسام له وفى صفاته لاشبيه له وفى الهيته وملكه وتدبيره لاشريك له ولارب سواه ولاخالق غيره انتهى-اردومصنفؒ نے سائل کے وحدت الوجود وغیرہ کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا اللہ تعالی جوکہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے، کے نام سے شروع کرتا ہوں سب حمدیں اللہ کے لئے ہیں، جانو کہ اس  سوال کے جواب میں سب سے پہلی توحید کی حقیقت کو پہچان لینا ضروری ہے حافظ ابن حجرؒ فتح الباری شرح صیح البخاری کے کتاب التوحید میں فرماتے ہیں کہ ابوالقاسم تمیمی جنید کا قول کتاب الحجتہ میں نقل کرتے ہیں، التوحید، یہ باب تفصیل کا مصدر ہے اور وحدت اللہ کا معنی  ہے میں نے اللہ کے ذات وصفات میں یکتا وبیمثل وبےنظیر ہونیکا اعتقاد رکھا گیا ہے اس کا معنی میں نے اسے یکتا پایا اور جانا ہے اور کہا گیا  (اس کا معنی ہے ) کہ میں نے اس سے کیفیت وکمیت کو دور کردیا پس وہ اپنی ذات میں ایک ہے اس کی تقسیم نہیں ہے وہ صفات میں بے مثل ہے اور اس  کی ہیبت بادشاہی اور تدبیر میں اس کا کوئی شریک نہیں اس کے بغیر نہ کوئی پروردگار اور نہ ہی کوئی خالق ہے

وقال الحافظ ابن حجرفى باب ماجاء فى دعاء النبى صلى الله عليه وسلم امته الى توحيد الله تعالى المرادبتوحيدالله تعالى  بانه اله واحد وهذا الذى يسميه بعض غلاة الصوفية توحيد العامة وقد ادعى طائفتان فى تفسير التوحيدامرين اختر عوهما احدهما تفسير العتزلة وقدسمى  المعتزلة انفسهم اهل العدل والتوحيد وعنوابالتوجيد مااعتقدوه من نفى الصفات الالهية لاعتقادهم ان اتباتها يستلزم التشبيه ومن شبه الله تعالى بخلقه اشرك وهم فى النفى موافقون للجهميتة-

ثانيهما غلاة الصوفية فان اكابرهم لما تكلموافى مسالة المحووالفناء وكان مرادهم بذلك المبالغة فى الرضاوالتسليم وتفويض الامربالغ بعضهم حتى ضاهى المرجة فى نفى نسبة الفعل الى العبدوجدذلك بعضهم الى معذرة العصاة ثم غلابعضهم فعذرالكفار ثم غلابعضهم فزعم ان المرادبالتوحيد اعتقادوحدة الوجود وعظم الخطب حتى ساءظن كثير من اهل العلم بمتقدميهم وحاشاهم من ذلك وقدقدمت كلام شيخ الطائفة الجنيدوهوفى غاية الحسن والايجازوقدردعليه بعض من قال بالوحدة المطلقة فقال وهل من غير ولهم فى ذلك كلام طويل ينبواعنه سمع كل من كان على فطرة الاسلام والله المستعان التهى-

نمبر۱:۔ اور حافظ ابن حجررسولؐ اللہ کی امت کو توحید کی دعوت دینے کے باب میں فرماتے ہیں کہ خدا تعالی کی توحید سے مراد یہ ہے کہ وہ یکتا معبود ہے اسی کو بعض متشدد صوفی عام توحید کا نام دیتے ہیں توحید کی تفسیر میں دوگروہوں نے دونئےامروں کو ایجاد کیا ہے ان سے پہلی تفسیر معتزلہ کی ہے اور معتزلہ نے اپنا نام اہل العدل والتوحید وانصاف وتوحید والے۔ رکھا ہے اور وہ توحید سے مراد لیتے ہیں کہ خدا تعالی کی صفات نہیں ہیں، کیونکہ ان کا اعتقاد ہے کہ ان کے ثابت کرنے سے تشبیہ لازم آتی ہے اور جس نے خدا کو مخلوق سے تشبیہ دی اس نے شرک کیا یہ صفات کی نفی کرنے میں جھمیہ فرقہ کے موافق ہیں ، دوسراگر وہ متشددصوفیوں کا ہے، کیونکہ جب ان کے اکابر نے اپنے نفس کو ختم اور مٹادینے میں کلام کیا ان کی مراد اس سے خدا تعالی کی رضا اپنے نفس کو اس کی طرف سونپ دینے اور تمام امور کو خدا تعالی کی طرف منسوب کرنے میں مبالغہ تھی، بعض نے اتنا مبالغہ کیا کہ وہ کام کو انسان کی طرف منسوب کرتے ہیں، مرجئہ کے مشابہ ہوگئے اورجن کو مبالغہ نے گنہگاروں کو معذور خیال کرنے تک پہنچادیا، پھر بعض نے تو اتنا غلو کیا، کہ کافروں کو بھی معذور قراردےدیا اور بعض نے اس قدر زیادتی سے کام لیا کہ انہوں نے خیا ل کیا، کہ توحید سے مراد وحدت الوجود کااعتقاد ہے اس مسئلہ میں کلام بہت ہوئی حتی کہ بہت سے اہل علم کا اپنے متقدمین کے متعلق براظن ہوگیا حالانکہ وہ تو اس سے بالکل پاک ہیں میں نے صوفیوں کے گروہ کے شیخ جنید کا قول ذکر کردیا ہے وہ نہایت ہی اچھا اور مختصر ہے جو لوگ وحدت الوجود کے قائل ہیں اس میں سے بعض نے ان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کیا اس توحید کی اور تعریف نہیں ہے  (یعنی ہے اور ان  کا کلام اس مسئلہ میں بہت طویل ہے ہر مسلمان کے کان اس کے سننے سے پھٹ جائیں گے، خدا ہی مددگار ہے:۔

وقال الله تعالى الحمدلله رت العالمين قد قال الله تعالى ان كل من فى السموت والارض الااتى الرحمن عبدافالعالم ناطقه وجماده وعلوه وسفله ورفيعه ووضيعه كله حادت ومخلوق لله وكلام السائل كله جهل قبيح وكفر صريح فان فيه قسمين من الكفرفالاول كفرمطلق وهى الكلمات الكفرية الصريحة والثانى الكفر المقيد وهى القول بوحدة الوجود ومعنا ها عندجهال الصونية المتزندقة ان الله عين كل موجود تعالى الله عما يقول الظالمون علواكبيرااذكيف يكون الحادث عين القديم قال العلامة الشيبانى من ائمة الحنابلة المتقدمين فى منظومة فى وصف الله تعالى هوالاول المبدى بغير هداية واخرمايبقى مقيما مويداسميع بصير عالم متكلم قدير يعيدالعالمين كما بدااذالكون مخلوق وربى خالق- لقدكان قبل الكون رباوسيدا- وقال العلامة بن رسلان من ائمة الشافعية فى منظومته فى العقائد-فاقطع يقينا بالفوادواحزم-بحدث العالم بعدالعدم احدثه لالاحتياجه الاله-ولوارادتركه لما ابتداه-فهو لما يريده فعال- وليس فى الخلق له مثال- قدرته لكل مقدور جعل- وعلمه لكل معلوم شمل منفردبالخلق والتدبير-حل عن الشبيه والنظير- حى مويد قادر علام له البقار السمع والكالم-كلامه كوصفه القديم-لم يحدث المسموع للكليم-

ارشادآلہی ہے، سب تعریفیں جہانوں کے پروردگار ہی کے لئے ہیں نیز فرمان خدا ہے زمین وآسمان میں جو کچھ بھی ہے اسی رحمن کا مطیع وغلام ہوکر آئیگا، پس جہاں کی ہر ایک چیز بولنے والی، جامد، بلند، پست، معززاورذلیل حادث (نوپیدا) ہے اور اللہ کی پیدا کردہ ہے سائل کا کلام سارے کا سارا یعنی وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنا، قبیح جہالت اور کفر بواح پر مشتمل ہے کیونکہ اس عقیدہ میں کفر کی دوقسمیں ہیں، پہلی کفر مطلق، صریح کلمات کفر والے کفریہ کانام ہے، دسری :۔ کفر مقید وحدت کا عقیدہ رکھنا، وحد ت الوجود کا معنی، ملحد وجاہل صوفیوں کے نزدیک ہے کہ اللہ تعالی ہر موجود چیز کی ذات ہے، خدا تعالی ان ظالموں کے قول سے بہت بلند ہے  (سوچو تو سہی )  کہ حادث  قدیم چیز کا عین وذات کیسے ہوسکتا ہے، متقدمین حنبلیوں سے علامہ شیبانی نے اپنی نظم میں اللہ تعالی کی صفت بیان کی ہے، پہلا ایجاد کرنے والا (عالم کا) ہے بغیر کسی کی راہنمائی کے اور وہی مہربانی سے آخر ہمیشہ کے لئے مقیم ہے  (۲) وہ سننے والا ۔ دیکھنے والا۔ عالماور کلام کرنے والا ہے، قادر ہے جیسے جہاں کو ایجاد کیا ایسے ہی دوبارہ لوٹائے گا (بعث بعد الموت پر قادر ہے )  (۳) کیونکہ ہر موجود چیز مخلوق ہے، اور میرا پروردگار خالق ہے وہ تو موجود کے وجود سے بھی قبل پروردگاروآقا تھا، ۔ اور شافعیہ کے امام علامہ ابن رسلان اپنی عقائد والی نظلم میں فرماتے ہیں،  (۱) جہاں کے نہ ہونے کے بعد پیدا ہونے کے متعلق اپنے دل میں قطعی یقین اور پختگی کرے  (۲) خدا تعالی نے اسے اپنی ضرورت کے لئے نہیں پیدا کیا اور اگر خدا تعالی اس حادث کے ترک کا ارادہ کرلیتے تو اس کی ابتدا تک نہ ہوتی،  (۳) وہ جو چاہے کرنے والا ہے مخلوق میں اس کی مثال نہیں پائی جاتی  (۴) اس کی قدرت نے ہر چیز کو بنایا اور اس کا علم معلوم پر حاوی ومحیط ہے  (۵) وہ پیدا کرنے والا اور تدبیر میں یکتا ہے، اور مثیل و نظیر سے بلند وبرتر ہے  (۶) وہ زندہ مددکر نے والا قدرت رکھنے والا ہے اسی ہی کے لئے ہے باقی دینا اور سننا اور کلام کرنا ۔  (۷) اس کا کلام اس کی صفت کی طرح قدیم ہے سنی گئی بات متکلم کو حادث نہیں بنادیا کرتی :۔ (نورالعین فتاوی شیخ حسین)  قال العلامناعبدالروف المنادى فى شرحه عليها والعالم بفتح اللامه واصله ما يعلم به كالخاتم والغالب غلب عليه فيما يعلم به الصانع وهوماسوى ذاته سبحانه وتعالى وصفاته من الجواهر والاغراض سمى به لانه علم على وجود الصانع بعد العدم اى بعد ان لم يكن لانه امااعيان اواعراض لانه ان قام بذاته فعين والانعرض وكل منهما حادث اماالاعراض فبعضها يالمشاهدة كالحركة بعدالسكون والضوءبعدلاظلمة وبعضها بالدليل وهو طردالعدم كما فى اضدادذلك لان القدم بنانى العدم واماالاعيان فلانهالاتخلوعن الحوادث وان مالايخلوعن الحوادث حادث فثبت ان العالم حادث وكل حادث من الممكنات لابدله من محدث اوجده من العدم اذامتناع ترجح احدطرنى الممكن بلامرجح ضرورى و ذلك المحدث هوالله سبحانه اى الذات الواجب الوجود اذلوكان غيره

علامہ عبدالرروف منادی اسپر شرح کرتے ہوئے  فرماتے ہیں العالم لام کے فتح کے ساتھ اسکا اصل معنی یہ ہے،  کہ وہ چیز جس سے کوئی دوسری معلوم ہو (یعنی معلوم کرانے کا آلہ ہو ) جیسے خاتم ختم کا آلہ ہے اور عام طور پر اس کا غلبہ ہوگیا اس چیز پر جس سے کاریگر  (اللہ تعالی )  کا پتہ چلے اور عالم خدا کے علاوہ ہر ایک چیز ہے اور اسکی صفات بھی خواہ وہ قائم بالذات ہوں یا قائم بالغیر ہوں اسکی وجہ تسمیہ یہ ہے کیونکہ یہ خدا کے وجود پر نشانی ہیں وہ خدا جس نے ان کو عدم سے وجود میں کیا کیوں کے یا تو یہ جوہر ہوں گی یا عرض اگر قائم بالذات ہیں تو عین ورنہ عرض اور جوہروعرض دونوں حادث ہیں بعض عرضی اشیاء تو مشاھدہ سے حادث ہیں جیسے کہ حرکت، سکون کے بعد، روشنی اندھیرے کے بعد، اور بعض دلیل ان پر عدم کا طاری ہونا ہے جیسے کہ گزشتہ مثالوں کے عکس میں ہے  (حرکت کے بعد چیز کا ساکن ہوجانا، پہلے حرکت موجود تھی اب معدوم ہوگئی الخ)  کیونکہ قدیم ہونا عدم کے مخالف ہے تو ثابت ہوگیا کہ عالم حادث ہے اور ممکنات میں سے ہرایک حادث کے لئے پیداکرنیوالا ہونا ضروری ہے جو اسے عدم سے وجود میں لایا  کیونکہ ممکن کی دونوں طرفوں  (عدم ووجود ) میں سے ایک کو ترجیح بلا مرجح لازما ممتنع ہے اور وہ پیدا کرنے والا واجب الوجود اللہ تعالی ہے

يلزمركونه من جملة العالم وما هومن جملته لايصلح محدثا مما عرفت من انه بجميع اجزائه ممكن ومحدث فلوكان بعض اجزائه محدثا لكله للزم كونه محدثا لنفسه ايضا فاستنها انه لابدللممكنات من واجب وللمحدثات من قديم قطعا الدوروالتسلسل فقدشاع فى الكتاب الالهى الامرشادالى الاسدلال بالافاق وبالانفس ذواتها وصفاتها حددثها وامكانها سنريهم اياتنا فى الافاق وفى انفسهم والاستكثار من ذلك ربما يفنهى الى اليقين ولقد احس بعضهم حيث قال الحق موجود باتقناءذاته ووجوده وهو واجب الوجودوالعالم دليل عليه وهومدلوله والدليل على نوعين العالم الاكبر وهوهيأة صورة السموات العلى والمككرت الاعلى الى ماتحت الثرى و العالم الاصغروهوانواع العالم الكلية وهوالصورة الانسانية وهى اول عليه من جميع الدلائل القاطعة والايات الناطقة الى ان قال فذا تنادليل على ذاته وصفاتنا دليل على صفاته انتهى-

کیونکہ اگراس کےبغیر کوئی اورہوتولازمی طورپروہ بھی منجملہ عالم ہوگا اور آپ معلوم کرچکے ہیں کہ جو چیز وعالم ہے وہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی کیونکہ وہ چیز اپنے تمام اجزاءکے اعتبار سے محدث وممکن ہے پس اگر اسکے بعض اجزاءمحدث ہیں اسکے کل کے لئے  (عالم کےلئے، تولازماوہ اپنے نفس کا بھی پیدا کرنیوالا ہوگا اور اس صورت میں دوراور تسلسل لازم آتا ہے کیونکہ قطعی طور پر ممکنات کے لئے واجب اور محدثات کے لئے قدیم ہونا ضروری ہے ۔ اور کتاب اللہ میں آفاق نفوس اور ان کی صفات حدوث اور امکان سے خدا تعالی پر استدلال کیطرف بہت راہنمائی کی ہے  (ارشاد باری ہے) عنقریب ہم ان لوگوں کے نفسوں اور آفاق میں دکھائیں گے اور استدلال زیادہ کرنا انسان کو یقین تک پہنچادیتا ہے اور تحقیق بعض لوگ نے اس چیز کو پا بھی لیا ہے بعض نے کہا ہے اللہ تعالی اپنے وجود اور ذات کے تقاضاسے موجود ہے اور وہ واجب الوجود ہے اوریہ عالم اس پر دلیل دیتے ہیں اور خدا تعالی مدلول ہے اور دال کی دواقسام ہیں نمبر۱عالم کبیر۔ بلند آسمانوں کی شکل اور ملکوتی جانب سے لیکر نیچے کی انتہا ءتک کو کہتے ہیں ۔

نمبر۲عالم صغیر ۔ یہ تمام جہانوں سے عمدہ ہے اوریہ صورت انسانی کا نام ہے اور یہ تمام قطعی دلائل اور آیات ناطقہ سے خدا تعالی کی ذات پر زیادہ دلالت کرتا ہے اسی لئے تو بعض نے یہاں تک کہہ دیا ہے ۔ کہ ہمارا وجود خدا کے وجود کی دلیل ہے اور ہماری صفات اس کی صفات پر دال ہے۔

فاذا كان العالم كله محدثا فكيف يكون عين الحق سبحانه وتعالى كما زعمه غلاة الصوفية ومعنى وحدة الوجودان العالم ليس موجوداثانيا مستقلا بنفسبل باحداث الله تعالى له وايجاده فكيف يكون عين الحق قال الشيخ العلامة ابراهيم بن حسن الكورانى الكردى المدفى فى كتابه قصد لسبيل فى بحث الواجب وايس معنى وحدة الوجود ان العالم عين الحق حتى يتوهم من مقالات المحققين انهم خرجواعن دائرة الشرع وانما الرادان العالم ليس موجودثانيامستقلاكما تقررانتهى- والحاصل ان الكلام المدكورنى السوال كلام تبيح وكفر صريح فان لم يكن هذاكفر فليس فى الدنيا كفرفان القول بان ماسوى الله سبحانه هو عين الله هو قول يرده كل ذى عقل سليم و دين مستقيم والله سبحانه وتعالى اعلم وعلمه اتم واحكم وهوحسبناونعم الوكيل نعم المولى ونعم الكفيل ولاحول ولاقوة الابالله العلى العظيم واخردعوناان الحمدلله رب العلمين وصلى الله على خير خلقه محمدواله وصحبه وسلم تسليما كثيرا –

جب تمام عالم محدث ہواتویہ خدا تعالی کا عین کیسے ہوسکتا ہے جیسے کہ بعض سرکش صوفیوں کا خیال ہے اور معنی وحد ت الوجود کا یہ ہے کہ عالم مستقل بنفسہ ایک دوسرا موجود نہیں بلکہ خدا تعالی کے پیدا اور اختراع کے ساتھ ہے تو پھر عالم خدا کا عین کیسے ٹھہرا علامہ ابرہیم بن حسن کو رانی وکردی اور مدنی  اپنی کتاب قصد السبیل کی بحث الواجب میں فرماتے ہیں کہ معنی وحدث الوجود کا خدا تعالی کا عین نہیں ہے یہ معنی تسلیم کریں تو بہت سے محققین کی کلاموں سے ان کے شریعت کے دائرہ سے خارج ہونیکا وہم پڑتا ہے تحقیق مراد اس سے یہ ہے کہ عالم کوئی دوسرا مستقل موجود نہیں ہے (جیسے اللہ مستقل موجود ہے) جیسے پہلے ثابت ہوچکا ہے، تو نتیجہ یہ نکلا کہ سوال میں مذکور عقیدہ رکھنا، بہت ہی قبیح اور کفر صریح ہے اگر یہ کفر نہیں تودنیا میں کفر کی کوئی اور صورت نہیں ہے کیونکہ خد اکے ماسواکوخدا کاعین کہنا اس کی ہر ایک عقل سلیم والا تردیدکرے گا اوردین مستقیم، اور اللہ تعالی ہم سے زیادہ عالم ہے اس کا علم کامل ومحکم ہے وہی ہمیں کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز بہترین مددگار اور بہترین ضامن ہے اور گناہ سے پھرنا اور نیکی کی قوت اسی خدائے بلندوبرتر کی مدد سے ہوگی، ہماری آخری پکار ہے کہ تمام حمدین جہانوں کے پروردگار کے لئے ہیں خدا تعالی مخلوق سے بہترین محمد رسول اللہ ﷺان کی ال اور ساتھیوں پر بہت بہت رحمت وسلامتی کرے منصف کی دعا ہے کہ اللہ ان کو اور تمام مسلمانوں کو خدا اور رسول کے علوم سے فائدہ عطاکرے

جہان کو بتاناکہ اللہ تعالی ظالم نہیں ہے

بسم الله الرحمن الرحيم-الحمدلله رب العالمين والعاقبة للمتقين ولاعدوان الاعلى الظلمين اشهدان لااله الاالله وحده لاشريك له الملك الحق المبين واشهدان سيدنا محمدعبده ورسوله الصادق الامين وعلى اله وصحابه اجمعين وعلى التابعين لهم باحسان الى يوم الدين،  وبعدفانه وقع من بعض المعاصرين عفاالله عنهم موافقة المعتزلة الضالين القول بان الله سبحانه وتعالى لوعذب عباده المطيعين فربنا وانعم على العابين والكافرين ايضا فرضا لكان ذلك منه ظلما تعالى الله عزوجل عن ذلك وعما يقول الظالمون علوا كبيرا فانه سبحانه وتعالى مالك الامروكل العالمين ملك يده وتحت قهره بفعل فيهم مايشاءلايسال عما يفعل وهم يسالون ويفعل ما يشاءيعذب من يشاءويرحم من يشاء واليه تقباون ويرحم من يشاءويعذب من يشاء وهوعلى كل شى قدير-

اللہ رحمن ورحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں، سب تعریفیں پروردگار جہان کے لئے ہیں اور آخرت پر ہیزگاروں کے لئے ہے اور زیادتی صرف ظالموں پر ہی ہوگی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ خدائے وحدہ لاشریک کے بغیر کوئی معبود نہیں ہے حقیقی وروشن بادشاہی اسی کے لئے ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے آقا محمد ﷺاس کے بندے اور اس کے سچے اورا مین رسول ہیں خدا ان پر ان کی آل پر تمام صحابہ ؓپر اور ان لوگوں پر جوان کی اتباع کرنے والے ہیں  (نیکی کے ساتھ ) تا قیامت رحمتیں نازل فرمائے، حمد وصلوۃ کے بعد عرض ہوکہ بعض معاصرین نے اپنے اقوال میں معتزلہ  (گمراہ فرقہ) کی موافقت کی ہے کہ اگر بالفرض اللہ تعالی اپنے تابعدار بندوں کو عذادے یہ گنہگاروں پر انعا م کرے اور بالفرض کافروں پر بھی تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے ظلم ہوگا، اللہ تعالی ان کے قول اور ظالموں کے اقوال اسے بہت بلند وبرتر ہے کیونکہ اللہ سبحانہ، صاحب الحکم ہے سارے جہان اس کے قبضہ قدرت اور غلبہ کے تحت ہیں جو چاہے کرے اس سے کئے ہونے کا سوال نہیں ہوگا ان بندوں سے ہوگا جو چاہے کرے جس کو چاہے عذاب دے جس پر چاہے رحم کرے اور لوگ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے اور جس پر چاہے رحم کرے اورجس کو چاہے عذاب اوروہ ہر چیز پر قادر ہے

فالبحث فى هذه المسالة ونسيه الظلم فيها انى رب العالمين ممالايليق بالمومن الصادق فى ايمانه لانه بذلك يوقع فى قلوب الغوام الجهال مالايليق نسبة الى رب العالمين ولاشك ان القائل بذلك ماتدرالله حق قدره ومماتكادالسموت يتفطرن منه وتنشق الارض وتجزالجبال هذاعاناناالله من ذلك وجميع اخواننا الممومنين ورزقنا التسليم نقا قاله الله عزوجل فى كنابه الكريم وبماقالته رسله المكرمين والقيام له بما يحب علينا من التسليم نانه بيده ملكوت كل شى وكل العالمين ملك يده وتحت قهره وهوعلى كل شى قدير-وقداتفق علماءالاصول والعقامدواهل السنة المحققون على اسحالة وسفه سبحانه وتعالى بالظلم كمااخبربه عن نفسه بقوله تعالى ولايظلم ربك احداان الله لايظلم مثقال ذرة ان الله لايظلم الناس شيا قال الامام السبكى فى كتابه المسمى جمع الجوامع فى لاصول مع شرحه العلامة الخطيب الشربينى الشافعى رحمهم الله تعالى اجمعين-

اس مسئلہ میں بحث کرنا، اور ظلم کی نسبت خدا تعالی کی طرف کرنا ایک سچب مومن کیلئے تولائق نہیں کیونکہ اس کی وجہ سے عام جاہلوں کے دلوں میں وہ اوھام پڑتے ہیں جن کی نسبت پروردگار علم کی طر کرنا حرام ہے اس میں کو ئی شک وشبہ نہیں کہ اس کے معتقد نے خدا تعالی کی حقیقی قدر نہیں کی اور یہ اعتقاد تو اس قسم کا ہے کہ اس سے آسمانوں کے ٹوٹنے زمین کے پھٹنے اور پہاڑوں کے گرکر ریزہ ریزہ ہوجاینکا اندیشہ ہے خدا تعالی ہمیں اور ہمارے مومن بھائیوں کو اس سے بچائے اور خدا تعالی اپنے قرآن کریم اور معززرسولوں کے فرامین پر عمل پیرا ہونیکی توفیق عطا فرمائے کیونکہ ہم پر مان لینا لازم ہے کیونکہ ہر چیز پر تسلط وغلبہ خدا تعالی ہی کا ہے اور تمام جہان اس کے قبضہ قدرت اور غلبہ میں ہےاور وہ ہر چیز پر قادر ہے، تمام علمائے اصول وعقائد اور محققین اہل سنت کا اسپر اتفاق ہے کہ خدا تعالی کا ظلم کی صفت سے متعرف ہونا ممتنع ہے ۔ جیسے خدا تعالی نے خود اپنے متعلق ارشاد فرماتا ہے تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا بیشک اللہ تعالی ایک رائی کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا تحقیق اللہ تعالی لوگو ں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا امام سبکی اپنی جمع الجوامع فی الاصول میں فرماتے ہیں  (جسکی شرح علامہ خطیب شربینی شافعی نے کی ہے

خد اان پر رحم کرے۔

واعلم انه يكون اى يوجدماارادالله وجوده فارادته تعالى تابعة لعلمه هذامذهب اهل الحق وعندالمعتزلة الارادة تابعة للامر فقالو ان الله يريد ماامربه من خير آوطاعة سواء وقع ذلك املا ولايريدمانهى عنه من شراومعصية سواءوقع ذالك ام لاوتظهرفائدة الخلاف فى ايمان ابى جهل فعنداهل السنة ايمانه ماموريه وليس مراداله تعالى لقوله تعالى ولوشئنا لاتينا كل نفس هداهاوكفره سنهى عنه دمرادله تعالى لقوله تعالى يريد الله ان لايجعل لهم حظا فى الاخرة وعندالمتزلة بالعكس انتهى- وفيه ايضا مع شرحه المذكور ويثيب الله الطايع فضلا منه كما قاله اهل السنة لاوجوباكماقاله المعتزلة بل له سبحانه وتعالى اثابة العاصى وتعذيب المطيع لانهم سلكه يصرف فيهم كيف يشاء لكنه لايفعل ذلك لاخباره عزوجل باثابة المطيع وتعذيبالعاصى انتهى-

اوریقین کر و کہ جس چیز کے وجود کو خد اچاہے وہ ہوجاتی ہے پس خدا کارادہ اسکے علم کے تابع ہے یہ تو مذہب ہے اہل حق کا اور معتزلہ کے ہاں اللہ تعالی کا ارادہ اس کے حکم کا تابع وخادم ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالی جس بھلائی اور اطاعت کا حکم دیتا ہے اسکا ارادہ کرتا ہے خواہ وہ بھلائی وغیرہ واقع ہویا  نہ ہو اور اللہ تعالی نے جس برائی اور معصیت سے روکا ہے اسکا وہ ارادہ ہی نہیں کرتا خواہ برائی واقعہ ہویا نہ ہواور اختلا ف کا ثمرہ ابوجہل کے ایمان کی بحث میں حاصل ہوتا ہے  اہل سنت کے ہاں اسے ایمان کا حکم دیا گیا ہے لیکن اللہ تعالی کا یہ مقصد ومطلوب نہیں ہے کیونکہ ارشاد الہی ہے اور اگر ہم ہر نفس کی ہدایت کو چاہیں تو ضرور اسے ہدایت کردیتے اور اللہ تعالی نے ابو جہل کو کفر سے روکا ہے اوریہ اللہ کی مراد ہے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے اللہ ارادہ کرتا ہے کہ ان کافروں کے لئے آخرت میں کوئی حصہ بھلائی کانہ کرے اور معتزلہ کا مسلک اس کے بالکل برعکس ہے، اور اس سبکی کی مذکورہ کتاب اور اس کی شرح میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی مطیع کوثواب دیگا اپنے فضل وکرم کے لحاظ سے اس پر ثواب دینا لازم نہیں جیسے معتزلہ کہتے ہیں بلکہ اللہ تعالی اگر نافرمان کو ثواب اور تابعدار کو عذاب دے تو دے سکتا ہے کیونکہ یہ تمام اسی کے ملک میں ہیں جیسے چاہے ان میں تصرف کرے لیکن اللہ تعالی ایسے کریں گے نہیں کیونکہ انہوں نے خود مطیع کوثواب اور عاصی کو عذاب دینے کی اطلاع فرمائی ہے،

وفيه ايضامع شرحه المذكور ويستحيل عليه سبحانه وتعالى صفة الظلم لانه مالك الامرعلى الاطلاق يفعل مايشاءوفذقال تعالى ولايظلم ربك احداوقال تعالى ان الله لايظلم مثقال ذرة وقال تعالى ان الله لايظلم الناس شياوماربك بظلام للعبيدانتهى-

وقال شيخ الاسلام ابن تيميه رحمه الله تعالى فى منهاج السنة فى الجلد الاول فى صفحة مائة وتسعة وعشرين بعدكلام طويل ولكن لوقدران الله ان عذب من يشاءلم يكن لاحد منعه كما قال تعالى فمن يملك من الله شيا ان ارادان يهلك المسيح ابن مريم وامه ومن فى الارض جميعا وفى  الحديث الذى رواه ابوداودوغيره ان الله لوعذب اهل سموانه واهل ارضه لعذبهم وهوغيرظالم لهم ولورحمهم لكلنت رحمة خيرلهم من اعمالهم قال والمتحقيق انه اذا قدرانه يفعل ذلك فلايفعله الابحق وهوغيرظالم انتهى المقصودوقال تلميدالمحقق ابن القيم فى كتابه المسنى بالتبيان فى اقسام القران فى صفحة تسعة وعشرين-

اوراس مذکورہ کتاب اور اس کی شرح میں ہےکہ اللہ ظلم سے منصف ہونا ممتنع ہے کیونکہ وہ ہر ایک امر کا  مالک ہے مطلقا جو چاہے کرے فرمایا اللہ تعالی نے تیرا رب کسی پر بھی ظلم نہیں کرتا نیز فرمایا خدا وند کریم نے بیشک اللہ تعالی رائی برابر بھی ظلم نہیں کرے گا اور تحقیق اللہ تعالی نے فرمایا بیشک اللہ تعالی لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا اور اے (محمد ﷺ) تیرا پروردگار بندوں پر ظلم کرنیوالا نہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ منہاج اسنتہ ص ۱۲۹ج۱میں کلام طویل کے بعد فرماتے ہیں اور لیکن اگر بالفرض اگر اللہ تعالی عذاب دے جن کو چاہے تو کسی کو روکنے کی طاقت نہیں جیسے خود اللہ تعالی فرماتے ہیں کون اللہ کے عذاب سے بچانے کا مالک ہے اگر وہ عیسی بن مریم ان کی والدہ اورتمام اہل زمین کو ہلاک کردے اور اس حدیث میں ہے  (جسے امام ابوداوداور اسکے غیرنے روایت کیا  ہے) بیشک اللہ تعالی اگر آسمانوں اور دنیا والوں کو عذاب دے تو وہ ظالم نہ ہوگا اور اگر ان تمام پر رحم کر تو اسکی رحمت ان کے اعمال سے ان کے لئے زیادہ فائدہ مند ہوگی امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں تحقیق یہ ہے کہ اگر فرض کیا جائے کہ اللہ تعالی یہ کام کرے پھر وہ حق کی وجہ سے کرے گا اس حال میں کہ وہ ظالم نہ ہوگا ختم شد اس کا مقصد امام ابن تیمیہ کے شاگرد رشید محقق ابن قیم اپنی کتاب البیان فی اقسام القران ص۲۹ میں فرماتے ہیں،

وقدقال اعلم الخلق بالله عزوجل صلى الله عليه وعليه وسلم لن يدخل احدمنكم بعلمه الجنة قالو اولا انت يارسول الله قال ولااناالاان يتغمدنى فى الله برحمة منه وفضل فاخبر ان دخول الجنة برحمة الله وفضله وذلك محض سنته عليه صلى الله عليه وعليه وسلم وعلى سائرعباده وكماانه سبحانه وتعالى المان بارسال رسله وبالتوفيق لطاعته وبالاعانة عليها فهو المان باعطاءالجزاءوذلك كله محض منته وجوده لاحق لاحدعليه بحث اذ اوفاه اياه لم يكن له عليه منة فان كان فى الدنيا بار عدل فهذامنه فان قيل كيف تقولون هذا وقداخبررسول الله صلى الله عليه وعليه وسلم بان حق العبادعلى الله اذاوحدوه ان لايعذبهم وقداخبر سبحانه وتعالى وكان حقا علينا نصر المومنين وهذامن اعظم سنته على عباده ان جعل على نفسه حقا بحكم وعده الصادق ان لايعذبهم اذاعبدوه ودقدوة فهذا من تمام منته فانه لوعذب اهل سمواته واهل ارضه لعذبهم وهو غير ظالم

تحقیق فرمایا ہے تمام دنیا سے اللہ کو زیادہ جاننے والے  (محمد ﷺ) نے، اے صحابہ ؓ تم سے ایک بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں ہرگزداخل نہ ہو گا انہوں نے سوال کیا یارسول اللہ آپؐ بھی نہیں داخل ہوں گے فرمایا  نہ میں ہاں اگر اللہ تعالی کی رحمت اور اسکا فضل شامل حال ہوگیا  (توداخل ہوجاونگا) پس رسول کریمﷺنے فرمایا کہ دخول جنت اللہ کے فضل ورحمت سے ہوگا اور اللہ کا فضل وکرم رسول اللہ اور تمام دنیا پا احسان ہے اور جیسے اللہ تعالی اپنے رسول بھیج کردنیا کو اپنی اطاعت کی توفیق دیکر اور ان کی ا س معاملہ میں مددکرکے محسن ہے اسی طرح جزاءدینے میں بھی وہ محسن ہے اور یہ محض

اللہ تعالی کی سخاوت اور احسان ہے اس پر کسی کا حق نہیں ہے کیونکہ جب انسان نے اللہ سے وفا کی تو اللہ پر اس کا احسان نہیں بلکہ وہ انسان دنیا میں نیک اور منصف اللہ کی توفیق سے تھا  (بل الله يمن عليكم ان هذا كم للايمان) اگر خدا کو یکتا تسلیم کریں تو ان کا اللہ پریہ حق ہے کہ ان کو عذاب نہ کرے اور خود اللہ تعالی نے فرمایا ہے ہم پر مومنوں کی مددکرنا واجب ہے تو اسکا جواب یہ ہے اور یہ تو اللہ تعالی کا بندوں سے سب سے بڑا احسان ہوا کہ اس نے اپنے سچے وعدے سے، کہ اگر وہ اسکی توحید بیان کریں اور اسی کی عبادت کریں اپنے پر یہ حق ٹھہرا لیا کہ ان کو عذاب نہ  دے گا پس یہ تو اس کا کامل احسان ہا کیونکہ اگر وہ اپنے زمین وآسمان

لهم ولكن اقتضت منته ان احق على نفسه ثواب عابديه واجابة سائليه

ماللعبادعليه حق داجب   كلادلايسعى اليه ضايع

ان عذبوافبعدله اونعموا   فبفضله فهو الكريم الواسع

كلام ابن القيم فى كتابه المسمى بالاقسام من الله فى القران بافظه وقال العلامة الامام النودى فى شرح مسلم بعدايرادحديث لن يدخل احداعمله الجنة الحديث مالفظه مذهب اهل السنة انه لايجب على الله شى بل العالم ملكه والدنيا والاخرة تحت سلطانه يفعل فيهما مايشاء ويحكم مايريدفلوعذاب المطيعين والصالحين اجمعين وادخلهم الناركان ذلك عدلا منه واذااكرمهم ونعمهم وادخلهم الجنة فهو من فضله فاذاانعم على العالمين وادخلهم الجنة ففضل منه سبحانه وتعالى انتهى-

وقال الحافظ بن حجر فى فتح البارى فى كتاب الرقاق فى باب القصدبالمداومة على العمل قال ابن

والوںکو  عذاب کرے تو وہ ظالم نہ ہوگا لیکن اس کے احسان نے تقاضاکیا کہ اس نے اپنے پراپنے عابدین کا ثواب اور سائلین کے سوال کو قبول کرنا ضروری ٹھہرا لیا،  (۱) بندوں کا اللہ پر حق واجب نہیں ہے، خبرداراور نہیں کوشش کرتا اللہ کی اطاعت میں اپنے عمل کو ضائع کرنے والا  (۲) اگر ان کو عذاب دیا جائے تو اسکا انصاف ہوگا یا یہ نعمت دیئے جائیں تو اس کے فضل وکرم کیوجہ سے پس وہی واسع سخی ہے، ابن قیم کا کلام ان کی کتاب البیان فی اقسام القران والا انہی کے الفاظ میں ختم ہوگیا، امام نووی شرح مسلم میں کسی کو اسکا عمل ہرگز داخل نہیں کرے گا  (حدیث) نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ان کے الفاظ یہ ہیں اہل سنت کا یہ مذہب ہے کہ اللہ پر کوئی حق نہیں ہے بلکہ ساراجہان اس کے قبضہ قدرت میں اوردنیا وآخرت اس کے تسلط  وغلبہ میں ہے پس اگر وہ مطیع اور صالح لوگوں کو عذاب دے کر آگ میں داخل کردے تو یہ اسکا انصاف ہوگا اور جب ان کی عزت کرے اور نعمت ان کو دے کر جنت میں داخل کردے پس یہ اسکا فضل اورجب گنہگاروں پر انعام کر کے جنت میں داخل کردے پس یہ اسی سبحانہ تعالی کا فضل ہو گا ان کی کلام ختم ہوئی، اور حافظ ابن حجرفتح الباری کے کتاب الرقاق کے باب القصد بالمدادمتہ علی العمل میں فرماتے ہیں ابن جوزی نے فرمایا ہے اللہ تعالی کے اس قول اور یہ جنت وہ ہے

الجوذى يتحصل من مجموع قوله تعالى وتلك الجنة التى ادرثتموها بما كنتم تعملون-

الاول ان التوفيق للحمل من رحمة الله ولولا رحمة الله السابقه للعبد ماحصل الايمان ولاالطاعة التى تحصل بها النجاة-الثانى ان منافع العبدلسيده فعمله مستحق لمولاه فاذاانعم عليه بالجزاء فمن فضله-الثالث جاء فى بعض الاحاديث ان نفسدخول الجنة برحمة الله عزوجل وافتسشم المنازل والدرجات بالاعمال الرابع ان اعمال الطاعات كانت فى زمن يسير والثواب لاينفدفالاتمام الذى لاينفدفى جزاء ماينفدبالفضل لابمقابلة الاعمال-وقال الكرمانى فى قوله تعالى ادخلواالجنة بماكنتم تعملون ليست الباء للانصاق والمصاحبة اى اورثتموها ملابسة ارمصاحبة ارللمقابلة نحواشتريت الشاة بدرهم وبهذاالاخيرجزم الشيخ جمال الدين بن هشام فى المغنى وقدسبق اليه فقال تردالباء للمقابلة وهى الداخلة

جن کےتم وارث اپنے اعمال  کیوجہ سے کئے گئے ہو  (قرآن) کے مجموعے سے چار  دلائل حاصل ہوتے ہیں پہلی:۔ اگربندے پر خدا کی رحمت پہلے نہ ہوئی ہوتی تو اسے ایمان اور اطاعت نہ حاصل ہوسکتے جن کے ذریعہ سے نجات ہوتی ہے، دوسری:۔ بیشک غلام کے منافع اپنے آقا کے لئے ہوتے ہیں تو اس کے کام  کا مستحق اسکا آقا ہےپس جب آقا غلام کو اس کام پر جزاءدے تو اسکا فضل ہوگا، تیسری:۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ جنت نفس دخول یہ تو اللہ کی رحمت سے ہوگا اور درجات ومراتب کی اقسام اعمال کے لحاظ سے ہوں گی، چوتھی:۔ بیشک  اطاعت کے کام بہت تھوڑے زمانہ میں ہوتے ہیں اور ثواب تو ختم ہی نہ ہوگا پس ختم ہونے والی چیز کی جزاءپرنہ ختم ہونے والی چیز کا انعام کرنا خدا کے فضل سے ہوگا اعمال کے مقابلہ کیوجہ سے نہ ہوگا، اور کرمانی فرماتے ہیں اللہ تعالی کے قول، داخل ہوجاو جنت کے اس حال میں اپنے اعمال کے سبب میں بآءالصاق اور مصاحبت کے لئے نہیں ہے تو اس وقت معنی یہ ہوگا داخل ہوجاو تم وارث بنائے گئے جنت کے اس حال میں کہ وہ جنت ساتھی بننے والی اور تمہارے ساتھ ملنے والی ہے  (اوریہ معنی غیر درست ہے) اس طرح یہ بامقابلہ کے لئے بھی نہ ہوگا، مثال میں نے بکری کو دراہم  کے مقابلہ میں خریدا اس آخری

على الاعراض كاشتريته بالف دمنه ادخلواالجنة بماكنتم تعلمون وانما لم تقدرللسببية كماقالت المعتزلة وكما قال الجميع فى لن يدخل احدالجنة بعمله لان المعطى قديعطى مجانا بخلاف المسبب فلايوجدبدون السبلب قال وعلى هذا ينتفى التعارض بين الحديث والاية-وسبقه الى ذلك ابن القيم فى مفتاح دارالسعادة فقال الباء المقتضية للدخول غير الباء التى نفى معها الدخول فالمقتضية هى باء السببية الدالة على ان الاعمال سبب للدخول مقضية له كاقتضاء سائر الاعمال لمسياتها والباء التى نفى بهاالدخول هى باءالمعاوضة والمقابلة التى فى نحوقولهم اثتريت هذا بهذا فاخبرالنبى صلى الله عليه وعليه وسلم ان دخول الجنة ليس فى مقابلة عمل احد وانه لولاتغمدالله سبحانه وتعالى العبدبرحمته لما ادخله الجنة فليس عمل العبدوان تناها موجبا بمجردة لدخول الجنة ولاعوضا لها فان اعماله وان وقت

معنی کے ساتھ جزم کیا ہے شیخ جمال الدین ہشام نے المغنی میں اور وہ کرمانی سے سبقت لے گئے ہیں فرماتے ہیں باء مقابلہ کے لئے بھی وارد ہوتی ہے مقابلہ والی کی تعریف یہ ہے جو عوضوں پر داخل ہو۔ مثال میں نے اس چیز کو ہزا رکے بدلہ وعوض میں خریدا اور ادخلوالجنة بماكمتم تعملون (البدنیہ) والی باء بھی اس قسم سے ہے اور باء یہاں سببت کا معنی ہرگز نہیں دیتی جیسے کہ معتزلہ نے کہا اور کہ تمام علماءکا کہنا ہے لن يد خل الجنة احدبعلمه (الحدیث ) والی باء کے متعلق کیونکہ دینے والا کبھی کبھی بغیر عوض اور بدلہ کے بھی دیتا ہے بخلاف مسبب کے وہ سبب کے بغیر نہیں پایا جاتا شیخ صاحب فرماتے ہیں اس صورت میں آیت تِلْكَ الْجَنَّةُ اورحدیث (لن يد خل) میں تعارض ہے وہ ختم ہوجاتا ہے  (یعنی حدیث والی سبب کا معنی دیتی ہے اور قرآن کریم والی باءمقابلہ کا معنی دیتی ہے شیخ صاحب سے حافظ ابن قیم سبقت لے گئے اس بارے میں  تو حافظ صاحب اپنی کتاب مفتاح دار السعادۃ میں فرماتے ہیں جو باء دخول جنت کا تقاضا کرتی ہے یہ ا س باء کے مخالف ہے جو دخول جنت کے نفی کے مقام کے ساتھ آئی ہے دخول جنت کے مقام والی باء سبتبیت کے لئے ہے، آیت کا معنی یہ ہوگا کہ اعمال دخول جنت کا سبب اور اس کے متقضی ہیں جیسے تمام اعمال اپنے مسیات کو چاہتے ہیں اور وہ باء جس سے دخول جنت کی نفی کی گئی ہے عوض اور مقابلہ والی ہے جیسے اس قول میں ہے خریدا میں نے اس کو اس کے عوض وبدلہ میں، پس رسول کریمؐ نے فرمایا کہ دخول جنت کس کے اعمال کے

منه على الوجه المرضى الذى يحبه الله ويرضاه فهى لاتقادم نعمة الله التى انعم بها عليه فى دارالدنيا ولاتعادلها بل لو حاسبه اودقعت اعماله كلها فى مقابلة اليسير من نعمه وتبقى بقية النعم مقتضية لشكره فلوعذبه فى هذه الحالة لعذبه وهو غير ظالم له ولورحمه لكانت رحممته خيراله من عمله كما فى السنن من حديث زيدبن ثابت وحذيفة وغيرهما مرفوعا الى النبى صلى الله عليه وعليه وسلم انه قال ان الله لوعذب اهل سماواته و اهل ارضه لعذبهم وهو غير ظالم ولورحمهم لكانت رحمته خيرا لهم من اعمالهم قال وهذا فصل الخطاب بين المرجئة الذين انكرواان تكون الاعمال سببا فى دخول الجنة من كل وجه وبين الحدرية الذين يزعمون ان الجنة عوض عن الاعمال والحديث يبطل دعوى الطائفتين والله اعلم انتهى-

مقابلہ میں نہیں ہےاور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اللہ تعالی کی رحمت بندے کے شامل حال نہ ہو تو اللہ اسے جنت میں داخل نہیں کرے گا پس صرف بندے کا عمل اگر چہ وہ انتہائی کیوں نہ ہو دخول جنت کو واجب نہیں کرتا، اور نہ ہی جنت کا یہ بدلہ ہے کیونکہ بندے کے اعمال اللہ کے پسندیدہ طریقے پر واقع ہوں پھر بھی اللہ تعالی کی اس نعمت کی قیمت اور اس کے برابر نہیں ہوسکتےجو اس نے دنیا  میں بندے پر کی ہے بلکہ اگر خدا اس کا حساب کرے تو انسان کے تمام اعمال اللہ کی معمولی سی نعمت کے مقابلہ میں  ہوں گےاور اسکے دوسری باقی نعمتیں اللہ کے شکر کے لئے متقضی ہیں اگر اللہ اس حالت میں بندے کو عذاب کرے تو وہ اس کے لئے ظالم نہ ہوگا اور اگر اس پر رحم کرے تو اسکی رحمت بندے کے اعمال سے بہتر ہوگی، روایت ہے زید بن ثابت اورحذیفہ اور ان کے علاوہ سے مرفوعا طرف نبیﷺکی بیشک آپؐ نے فرمایا بیشک اللہ تعالی اگر عذاب کرے آسمان والوں اورزمین والوں کو البتہ عذاب دئے ان کو اور وہ نہیں ظلم کرنے والے اور اگر رحمت کرے ان پر البتہ ہوگی اس کی رحمت بہتر ان کے لئے ان کے اعمال سے حافظ ابن حجر صاحب فرماتے ہیں یہ مطلب قول فیصل ہے مرجئہ کے درمیان جن کا انکار ہے کہ اعما ل کسی طریق سے بھی دخول جنت کا سبب نہیں اور حدریہ فرقہ کے درمیان جنکازعم ہے کہ جنت بدلہ ہے اعمال کا اور حدیث ان دونوں گروہوں کے دعوی کو باطل کرتی ہے اور خدا ہم سے زیادہ عالم ہے

مانقله الحافظ فى فتح البارى وعن ابن القيم رحمه الله بلفظه مرتضياله وقال الحافظ فى فتح البارى ايضا وجوز الكرمانى ان يكون المرادان الدخول ليس بالعمل والادخال المستفاد من الارث بالعمل وهذاوان مشى فى الجواب فى قوله تعالى اورثتموها بما كنتم تعلمون لايتمشى فى الجواب بين الاية والحديث وعندى ان فى الحديث جوابش اخر وهو ان يحمل الحديث على ان العمذمن حيث هو عمل لايستفيد فيه العامل دخول الجنة مالم يكن مقبولافاذا كان كذلك فامرالقبول الى الله سبحانه وتعالى وانما يحصل برحمة الله تعالى لمن يقبل منه فعلى هذا فمعنى قوله تعالى ادخلواالجنة بما كنتم تعلمون اى تعلمونه من العمل المقبول ولايضربعد ذلك ان يكون الباء للمصاحبة اوللمقابلة اوللالصاق ولايلزم من ذلك ان يكون سببية ثم رايت النووى جزم بان ظاهر الايات ان دخول الجنة بسبب الاعمال والجمع بينها وبين الحديث بان التوفيق للاعمال-

حافظ صاحب نے جو کلام نقل کی ہے فتح الباری میں حافظ ابن قیم اور دیگر علماءسے وہ ختم ہوگئی یہی پسندیدہ ہے حافظ صاحب کا فتح الباری میں نیز فرماتے ہیں اور کرمانی نے جائز کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ ک خول جنت عمل کی وجہ سے نہیں ہے اور جنت میں داخل کرنا یہ عمل کے ساتھ وارث ہونے سے فائدہ حاصل کیا گیا ہے اور یہ جواب اگرچہ اللہ تعالی کے قول اورأُورِ‌ثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (قرآن) میں چل جاتا ہے لیکن آیت اور حدیث کے درمیان مطابق پیدا کرنے کے لئے نہیں چلیگا اور میرے نزدیک حدیث کا ایک اور جواب  ہے اور وہ یہ ہے کہ عمل میں حیث العمل ہونیکی وجہ سے عامل اس سے جنت میں داخل ہونیکا فائدہ نہیں حاصل ہوسکتا جب تک وہ عمل قبول نہ ہو پس جب معاملہ ایسے ہوگا تو قبول والا کام اللہ کے سپرد ہے اور بیشک جنت حاصل ہوگی اللہ کی رحمت کے ساتھ اس انسان کے لئے جس کا عمل قبول ہوا پس اس صورت پر فرمان خدا ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ۔ کہ جو تم مقبول اعمال کرتے تھےاور اس کے بعد باءمصاحبت، مقابلہ یا الصاق کے لئے بنانا کوئی تکلیف نہ دیگا اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ باء سببیت کے لئے ہے پھر میں امام نووی کو دیکھتا ہوں انہوں نے جزم کیا ہے کہ بیشک ظاہر آیات کا مطلب یہ ہے کہ دخول جنت اعمال کے سبب ہے اور دونوں آیت اور حدیث کے درمیان تطبیق ایسے ہے کہ بیشک اعمال

والعبادة وقبولها انماهوبفضل الله ورحمته فيصح انه لم يدخل بجردالعمل وهومرادالحديث ويصبح انه دخل الجنة بسبب العمل وهو من رحمة الله وردالكرمانى الا خير با انه خلاف صريح الحديث وقال المازرى ذهب اهل السنة الى ان اثابة الله فمن اطاعه بفضل الله وكذلك انتقامه ممن عصاه بعدل منه ولايثبت واحد منهما الا بالسمع وله سبحانه وتعالى ان يعذب المطيع وينعم العاصى ولكنه اخبلاانه لايفعل ذلك وخبره صدق لا خلف فيه وهذا الحديث يردمقالتهم ويردعلى المعتيزلة حيث اوجبوااعواض الاعمال ولهم فى ذلك ضبط كثير وتفصيل طويل انتهى كلام الحافظ بن حجر فى الفتح بلفظه – وقال الحافظ ايضا فى كتاب التوحيد باب فى المشية والارادة بعد ذكرالايات القرانيه الدالة على اثبات المشية لله عزوجل وان الله سبحانه وتعالى يفعل مايشاء وقال وحرف المتزلة المسألته وقاسوافعل الخالق على

اور عبادت کی توفیق اور ان کاقبول کرنا سوائے اس کے نہیں یہ اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوگاپس صیح ہوجایگا خالی اءؤعمال سے جنت میں دخول نہیں ہے اور یہی مطلب حدیث کا ہے اوریہ بھی درست ہے کہ عمل دخول جنت کا سبب ہو اور یہ اللہ کی رحمت سے ہوگا اور کرمانی نے نووی کے آخری معنی کی تردید کی ہے وہ صریح حدیث کے خلاف ہے مازری کہتے ہیں اہل سنت اس طرف گئے ہیں کہ بیشک اللہ کا اپنے مطیع کو ثواب دینا اس کے فضل سے ہے اور اسطرح اللہ تعالی کا گہنگار سے انتقام لینا اس کا انصاف ہے اور ثواب وانتقام میں سے کوئی ایک چیز بھی شارع علیہ االسلام سے سننے کے بغیر نہیں ثابت ہوتی اور اللہ کے لئے حق ہے کہ وہ مطیع کو عذاب دیدے اور عاصی کو نعمت دے دے اور لیکن اس نے خود خبر دیدی کہ وہ ایسے نہ کریگا اور اللہ کا خبر دینا سچا اس میں خلاف ہونا نہیں ہے اور کہ حدیث اہل سنت اور معتزلہ کی تردید کرتی ہے جبکہ معتزلہ نے اعمال کا بدلہ واجب ٹھہرایا اور ان لوگوں نے اس بحث میں ٹاوا ں ٹویاں ماری ہیں اوراس کی تفصیل بہت طویل ہے حافظ صاحب کا حکدم فتح الباری میں انہی کے الفاظ میں ختم ہوا حافظ ابن حجر نیز کتاب التوحید باب فی المشیتہ والا رادۃ میں خدا تعالی کے چلنے اور جو چاہے کرسکتا ہے پر آیات قرآنیہ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں اور معتزلہ نے مسئلہ کی تعریف کرکے خالق کے فعل پر قیا س کہا ہے  کیونکہ اگر مخلوق اپنے مطیعوں کو عذاب دیدے تو وہ ضرور ظالم ہوگا کیونکہ

المخلوق فان المخلوق لوعاقب من يطيعه من اتباعه فكان ظالما لكونهم ليس ملكه حقيقة والخالق سبحانه وتعالى لو عذب من يطيعه لم يكن ظالما لان الجميع ملكه يفعل مايشاءلايسئال عما يفعل وفى ذلك ولالة على ان الامور كلها موقوفة بمشية الله عزوجل وارادته-قال الراغب ويدل على ان الا مور متعلقة بمشية الله عزوجل ومرقوفة عليها مااجتمع الناس على تعليق الا ستثناءفى جميع الا فعال وقداخرج ابو نعيم فى الحلية من طريق بن اخى الزهرى عنه قال كان عمرابن الخطاب رضى الله  عنه يا مريرواية قصيدة لبيدالتى يقول فيها

ان تقوى ربنا خير نفل     وباذن الله ريشى وعجل

احمدالله فلاندل             بيديه الخير ماشاء نعل

من هداه سبل الخيراهتدى  ناعم البال ومن شاء اضل

والخلاف بين اهل السنة والمعتزلة ان الارادة تابعه للعلم وعندهم الارادة تابعة للامرويدلاهل السنة قوله تعالى يريدالله ان لايجعل لهم حظا فى الاخرة انتهى المقصود

وہ اس کا ملک حقیقی نہیں ہے اور خالق سبحانہ وتعالی اگر اپنے مطیع کو عذا ب دے تو وہ ظالم نہ ہوگا کیونکہ تما اس کے قبضہ ملک میں ہے جو چاہے کرے اس سے کام کا سوال نہ ہوگا اور اس میں دلیل ہے اس پر کہ تمام کا م اللہ کی مشیت اور ارادہ پر موقوف ہے راغب کہتے ہیں اور دلالت کرتی ہے یہ بات اس پر کہ تمام کا معلق ہیں خدا کی مشیت کے ساتھ اور موقوف ہیں اس پر جیسے کہ لوگوں کا اجتماع ہے اس پر کہ تمام افعال اششناءپر معلق ہیں  (ان شاءاللہ پر) ابو نعیم نے الحلیہ میں ابن اخی زہری کے طریق سے نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ بن خطاب لبید شاعر کے اس قصیدہ کو روایت کرنیکا حکم دیا کرتے تھے جس میں لبید نے مبدرجہ ذیل اشعار کہے ہیں  (۱) بیشک اللہ کا ڈر بہتر عطیہ ہے اور اللہ کے حکم سے ہے میرا دیر کرنا اور جلدی کرنا : (۲) میں اللہ کی تعریف کرتا ہوں پس نہیں ہم فخر کرتے اسی کے ہاتھ میں بھلائی اور جو وہ چاہے کرے (۳) جس کو بھلائی کے راستوں کی طرف راہنمائی کردے تو وہ ہدایت  پالیگا اور اچھے حال ہوگا اور جس کو وہ چاہے گمراہ کردے، معتزلہ اور اہل سنت کے درمیان اختلاف یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک اللہ کا ارادہ علم کے تابع ہے، لیکن معتزلہ کے ہاں تابع نہیں، اوراہل سنت کی تائید اللہ تعالی

من عباقة فتح البارى وفيه كلام طويل فانظره ان اردته ويويد ذلك مااخرجه الاماماحمدولبوداودوابن ماجة من حديث ابن الديلمى انه قال وقع فى نفسى شى من القدر فخشيت ان يفسد على دينى وامرى فاتيت ابى ابن كعب رضى الله  عنه فقلت يا اباالمنذر وقع فى نفسى شى من القدر فخشيت ان يفسد على دينى وامرى فاخبرنى بشى من ذلك لعل الله ان يذهبه عنى لو ان الله عذب اهل سموته واهل ارضه لعذبهم وهو غير ظالم لهم ولورحمهم لكانت رحمته خيرلهم من اعمالهم ولوكان ذلك مثل جبل احد ذهبا اومثل احد  ذهبا تنفقه فى سبيل الله ما قبله الله منك حتى تومن بالقدر فتعلم ان ماآخطاله لم يكن ليصيبك ومااصابك لم يكن ليخطئك وانك لومت على غير هذا دخلت النار ولاعليك ان تاتى اخى عبدالله ابن مسعود فتسأله عن ذلك فاتيت عبدالله ابن مسعود فذكر مثل ماقال ابى بن كعب وقال فلاعليك ان تاتى حذفة فتسأله

کےاس قول سے بھی ہوتی ہے اللہ تعالی ارادہ کرتا ہے اور آخرت میں ان کے لئے       کوئی حصہ نہ کرے، فتح کی عبارت سے مقصود ختم، اور اس میں کلام بہت طویل ہے اگرآپ چاہیں تو فتح الباری کو دیکھ لو، امام احمد امام ابعداوداورابن ماجہ جوابن دیلمی کی حدیث لاتے ہیں وہ بھی اسی کی تائید کرتی ہے  (حدیث یہ ہے) ابن دیلمی کہتے ہیں میرے دل میں تقدیر کے متعلق کوئی شبہ پیدا ہواجس سے مجھے یہ خطرہ پیدا ہواکہ کہیں میرا دین اور میرا معاملہ اسلام والا خراب نہ ہوجائے پس میں ابن بن کعب کے پاس گیا میں نے کہا  اے ابامنذر میرے  دل میں تقدیر کے متعلق کوئی شبہ ہے میں ڈرتا ہوں کہ وہ میرے دین اور میرے طریق اسلام کو خراب نہ کردے پس اس لئے تقدیر کے متعلق کچھ خبر دو شاید کہ اللہ مجھ سے یہ شبہ دور کردے پس اس نے کہا اگر اللہ تعالی زمین وآسمان کے اہل کو عذاب دے تو اس کا حق ہے دے سکتا ہے اور وہ ظالم نہ ہوگا، اور اگر رحمت کرے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے افضل ہے اور اگر تیرے پاس احد پہاڑجتنا سونا ہو جیسے تو اللہ  کی راہ میں خرچ کردے اللہ تجھ سے قبول نہیں کرے گا جب تک تیرا تقدیر پر ایمان نہ ہوگا اور تو نہ جان لے کہ جو مصیبت تجھے نہیں پہنچی وہ تجھے پہنچنے والی ہی نہ تھی اور جو تجھے پہنچ گئی وہ تجھ سے خطا نہیں کرسکتی تھی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر تو اس اعتقاد وایمان کے بغیرمرگیا تو آگ میں داخل

عن ذلك حذيفة فذلك مثل ماقالاوقال فلاعليك ان تاتى زيدبن ثابت فاتيته فقال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لو ان الله عذب اهل سمواته واهل ارضه لعذبهم وهوغيرظالم ولورحمهم لكانت رحمته خيرالهم من اعمالهم ولوكان مثل جبل احد ذهبااومثل احد ذهبا تنفقه فى سبيل الله ما قبله الله منك حتى تومن بالقدرفتعلم ان مااصابك لم يكن ليخطئك ومااخطاك لم يكن ليصيبك وانك ان مت على غير هذا دخلت النار-قال العلامة على القرى فى شرح المشكوة فصارالحديث مرفوعا من طريق زيدبن ثابت وقال ايضا قوله اى قول ابن الذيلمى وقع نفسى شى من القدر اى حزارة واضطراب عظيم من جهة ان القضاء والقدر باعتبار العقل لا بموجب المثقل

ہوگااور آپ کے لئے کوئی عار نہیں کہآپ میرے بھائی عبداللہ بن مسعود کے پاس جاکر اس کے متعلق دریافت کریں پس میں عبداللہ بن مسعود کے پاس آیا اس نے بھی وہی ذکر کیا جو ابی بن کعب نے کہا تھا اور اس نے کہا آپ کے لئے کوئی ڈرنہیں کہ آپ حذیفہ کے پاس جاکر اس کے متعلق سوال کریں اس نے بھی ان دونوں کی طرذکر کیا اور اس نے کہا آپ پر کوئی تنگی نہیں کہ آپ زید بن ثابت کے پاس جائیں میں اس کے پاس آیا پس اس نے کہا سنا میں نے رسول ﷺ سے فرماتے تھے اگر اللہ تعالی زمین وآسمان والوں کو عذاب کرے تو ان کو عذاب کرے گا اور ظالم نہ ہوگا اوراگر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے لئے ان کے اعمال سے بہتر ہوگی اور اگر تیرے لئے احدپہاڑ جتنا سونا ہو جسے تو اللہ کی راہ میں خرچ کردے اللہ تعالی تجھ سے قبول نہیں کرے گا جب تک کہ تقدیر پر ایمان نہ لائے گا پس جان لے تو جو مصیبت تجھے نہیں پہنچی وہ تجھے پہنچنے والی ہی نہ تھی اور جو تجھے پہنچ گئی وہ تجھ سے خطا نہیں کرسکتی تھی اور اسمیں کوئی شک نہیں اور اگر تو اس پر ایمان لانے کے علاوہ مرگیا تو آگ میں داخل ہوگا، علامہ ملاعلی قاری مشکوۃ کی شرح میں فرماتے ہیں پس ہوگئی حدیث مرفوع زید بن ثابت کے طریقے سے اور قاری نے یہ بھی کہا ہے کہ ابن دیلمی کا قول،  وقع فى نفسى شى من القدرکا معنی ہے میرے دل میں حرکت اور بڑا اضطراب واقع ہوگیا قضاءقدرکے متعلق عقل کے اعتبار سے یہ شبہ تھا نقل کے اعتبار سے نہ تھا اور حافظ ابن

وقال ابن حجراى من بعض شبه القدرالتى ربماتجرالشخص الى الشرك فيه كاعتقاداناالانسان يخلق فعل نفسه كما فاله المعتزلة وانه مجبر على الفعل كما قاله الجبرية فكيف يعذب وانااريد الخلاص من هذا البحث فحدثنى بحديث عن النبى صلى الله عليه وعليه وسلم لَعَل الله ان يذهبه عن قلبى اى رجاءان يزيل ذلك عنى وقال اولا فى نفسى وثانيا عن قلبى اشعارابان ذلك تمكن منه واخذبمجامعه وذاته ولذاقالماالطيبى والاظهران الحزارة عن الخطرات النفسية والثبات والاطمينان من الصفات القلبية-فقال له ابى بن كعب رضى الله عنه متحرياغاية البيان الشافى ونهاية الارشادالوانى لوان الله سبحانه وتعالى فرضا عذب اهل سموته اى الملئكة المقربين اهل ارضه اى الانبياءوالمرسلين لعذبهم وهو غير ظالم لهم الحديث قال الطيبى وفى سوال ابن الديلمى من الصحابة رضى الله عنهم واحدابعدواحدواتفاقهم فى

حجرفرماتے ہیں کہ تقدیر کے متعلق شبہات میں سے کوئی شبہ، وہ شبہات کہ اکثر دفعہ انسان کو اس میں شرک کی تعریف تک کھینچ لاتے ہیں جیسے یہ اعتقاد کہ انسان اپنے افعال کا خود خا لق ہے جیسے کہ معتزلہ نے کہا ہے اور یہ شبہ کے بیشک انسان کام پر مجبور ہے جیسے کہ جبریہ فرقہ نے کہا، پس اس وقت اسے کیسے عذاب دیا جائیگا اور میں اس بحث سے نکلنے کا ارادہ کرتا ہوں پس اس لئے آپ مجھے کوئی حدیث نبویؐ بتائیں شاید کے اللہ تعالی اسے میرے نفس سے دور کردے، یعنی اس امید پر کہ اللہ اسے مجھ سے دور کردے  ابن دیلمی نے پہلے فن نفس  (میری جان میں ) اوردوسری دفعہ عن قلبی (میرے دل سے) کے لفظ یہ معلوم  کرانے کے لئے کہے کہ بیشک یہ شبہ اس سے پختہ ہوگیا ہے اور اس کے دل کے تمام گوشوں کو اس نے پکڑلیا ہے اور اس کی ذات میں داخل ہوگیا ہے اور اسطرح طبیبی نے معنی کئے ہیں اور اظہر بات یہ ہے کہ اس کے نفس خطرات سےحرکت واضطراب پیدا ہوا اور دل کی صفت شبات وطمینان تھی ابی ابن کعب نے اسے انتہائی شافی بیان کو تلاش کرتے ہوئے اور انتہائی راہنمائی کرکے جواب دیا کہ اگر بیشک اللہ سبحانہ وتعالی بالفرض آسمان والوں مقرب فرشتے اور زمین والوں انبیاء ورسل کو عذاب دے تو ان کو عذاب دیگا اور وہ ظالم نہ ہوگا، الحدیث، طیبی نے کہا ہے کہ ابن دیلمی کے صحابہ میں سے ایک کے بعد دوسرے سے پوچھنے میں اور ان کے جواب میں متعلق ہونے میں بغیر کسی تغیر کے اور پھر آخری

الجواب من غير تغيير ثم انتهاء الجواب الى حديث رسول ا لله صلى الله عليه وعليه وسلم دليل على الاجماع المستندالى النص فمن خالف فى ذلك فقدعاتدالحق وقوله ولو عذبهم لعذبهم وهو غير ظالم لهم الوادفيه للحال اى لانه متصرف فى ملكه و ملكه فعذابه عدل وثوابه فضل-وفيه ارشادعظيم وبيان شان لازالة ماطلبه منه لانه يهدم قاعدة الحسن والقبح العقليين لانه مالك الجميع فله ان يتصرف كيف يشاء ولاظلم وفيه اشكال واحبيب عنه بان لوالشرطية غير لازمة الوقوع وفيه دليل الى ان الامور الكائنة كلها منه سبحانه وتعالى خيرها وشرها حلوها ومرها لفعلها وذرها تليلهاوكثيرها كبيرهاوصغيرهاكلهابقضاءالله سبحانه وتعالى وارادته واسره وانه ليس للعبد فبها الاالكسب ومباشرة الفعل والمرادهناكمال الايمان وسلب القبول مع فقد يوذن بان المبتدعة لاتقبل اعمالهم اى لايثابون عليها مادامواعلى بدعتهم ويويده حديث ابى الله ان يقبل عمل صاحب بدعة حتى يتوب وفيه بان المبتدعة ليسوامن المتقين لقوله تعالى انمايتقبل الله من التقين وانه لايحبهم فان الله

حدیث رسول اللہ ﷺسےہونے میں دلیل ہے کہ اس کے حدیث ہونے پر اجماع ہے پس جو اس میں خلاف کرے گا اس نے حق سے سرکشی کی اور حدیث کے یہ الفاظ لوعذبهم لعذبهم وهو ظالممیں واو حالیہ ہے معنی یہ ہوگا کیونکہ وہ اپنے ملک اور بادشاہی میں تصرف کرنیوالا ہے پس اس لئے اسکا عذاب عدل ہوا اور ثواب دینا فضل ٹھہرا اور ا س جواب میں بڑی رہنمائی ہے اور بیان شافی ہے اس کی طلب کی گئی چیز کے ازالہ کے لئے کیونکہ یہ جواب عقلی حسن وقبح کے قاعدے کو گرادیتا ہے کیونکہ اللہ تعالی ہر ایک  کا مالک ہے پس اس میں اس کا حق ہے، جیسے چاہے تصرف کرے اور ظلم نہ ہوگا اور اس میں ایک اشکا  ل ہے اور اس کا جواب دیا گیا ہے کہ لو شرطیہ چیز کے وقوع کو لازم نہیں ہے اور اسمیں دلیل ہے اس بات کی طرف کہ بیشک تمام ممکنات امور اللہ تعالی کی طرف سے ہیں خواہ بہتر ہوں یا برے ہوں شیریں ہوں کڑوے ہوں، نفع مند ہوں ان کی تکلیف کم یا زیادہ ہواور خواہ چھوٹے ہوں یابڑے ہوں تمام اللہ سبحانہ کی قضا ء قدرسے ہوئے ہیں اور بیشک اللہ ہی کے لئے ارادہ اور حکم ہے بندے کا تو کمانا اور فعل کو ملنا ہے اور یہاں مراد پورا ایمان ہے اور اسکی تائید یہ حدیث کرتی ہے خدا تعالی بدعتی کے قبول عمل سے انکار کرتے ہیں حتی کہ وہ اپنی بدعت سے توبہ نہ کرلے اور اس میں اس بات کو معلوم

يحب المتقين انتهى كلام العلامة على القارى فى شرح المشكوة بلفظه-وقال العلامة ابوالحسن السندى فى حاشيته على سنن ابن ماجة وقال الطيبى وفى الحديث ارشاد عظيم وبيان شاف لازالة ماطلبه منه لانه يقدم به قاعدة الحسن والقبح العقليين وبين فيه بانه تعالى مالك الملك فله ان يتصرف فى ملكه كيف يشاء ولايتصورمنه ظلم لان حقيقة الظلم التصرف فى ملك الغيرولاملك لغيرالله تعالى اصلا ثم بين بقوله ولورحمهم لكانت رحمته خيرالهم من اعمالهم بان النجاة من العذاب انما هى برحمة الله عزوجل لاباعمال فالرحمة خير منها وقوله ولو كان لك مثل جبل احد ذهبا اومثل احد ذهبا تنفقه فى سبيل الله ماقبله الله منك حتى تومن بالقدرفيه اشارة الى انه لاقبول لعمل المبتدع عندالله وهومبنى على القول بكفر منكره انتهى كلام ابوالحسن السندى فى حاشيته على ابن ماجة بلفظه-

کرانا ہے کہ بدعتی لوگ متقیوں میں سے نہیں ہیں،  (علامہ قاری ملا علی کا کلام شرح مشکاہ میں انہی کے الفاظ میں ختم ہوئی اور علامہ ابوالحسن سندھی سنن ابن ماجہ کے حاشیہ میں فرماتے ہیں اور طیبیؒ نے کہا ہے اور حدیث میں بڑی راہنمائی اور بیان شافی ہے ابن دیلمی کے طلب کردہ سوال کے ازالہ کے لئے کیونکہ اس سے عقلی حسن وقیح والا قاعدہ منھدم ہوجا تا ہے اور اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی تمام بادشاہی کا مالک ہے پس اس کا حق ہے  کہ اپنی بادشاہی میں جیسے چاہے تصرف کرے اور یہ اس کا ظلم نہ تصورکیا جائیگا کیونکہ ظلم کی حقیقی تعریف یہ ہے کہ وہ غیر کے ملک میں تصرف کرنا اور غیراللہ کے ملک میں قطعی طورپر کوئی چیز نہیں پھر آپؐ نے اپنے اس قول، کہ اور اگر اللہ تعالی ان پر رحمت کرے تو اسکی رحمت ان کے لئے اپنے اعمال سے زیادہ بہترہوگی یہ بیان  فرمایا کہ بیشک عذاب سے نجات اللہ کی رحمت سے ہے نہ کہ اعمال کا نتیجہ ۔ پس رحمت اعمال سے افضل ٹھہری اور آپؐ کے اس قول اور احد پہاڑجتنا سونا ہویا احد کی مثل ہے تو اللہ کی راہ میں خرچ کردے تب بھی اللہ تعالی اسے قبول نہ فرمائیں گے جب تک تو تقدیر پر ایمان نہ لائیگا اس کی طر ف کہ بدعتی کے عمل کا قبول کرنا اللہ کے ہاں نہیں ہےاس کی بنا پر اس پرہے تقدیر کا منکر کافر ہے ابوالحسن سندھی کا کلام ابن ماجہ کے حاشیہ والی انہی کے الفاظ میں ختم ہوا،

وفى الموطاللامام مالك رحمة الله تعالى عن يحيى بن سعيد الانصارى قال صليت وراء ابى هريرة على صيى لم يعلم خطيئة قال فشارحه العلامة الزرقانى اى لموته قبل البلوغ مأخوذمن رفع القلم عن ثلاثة فعدمنها وعن الصبى حتى يحتلم وقال عمررضى الله عنه تكتب له الحسنات ولا تكتب عليه السيات فسمعته يقول الهم اعذه من عذاب القبرغيرفتنة بدلائل من السنة الثاسئة ولو عذاب الله عباده اجمعين لم يظلمهم انتهى المقصودوقال العلامة حجة الاسلام الغزالى فى الاحياءفى الجزء الاول ولله سبحانه وتعالى ايلام الخلق وتعديهم من غير جرم سابق خلافا للمعتزلة لانه متصرف فى ملكه ولايتصور ان يعدو تصرفه ملكه الى اخرمااطال به وفيه ايضاوانه سبحانه وتعالى متفضل بالخلق والاختراع والتكليف لاعن جهة وجوب عليه ومتطول بالانعام والاصلاح لاعن لزوم فله الفضل والاحسان والنعمة والامتنان اذكان قادراعلى ان يصب على عباده انواع العذاب ويبتليهم بضروب الالام والاوصاب ولوفعل ذلك لكان منه عدلاولم يكن

موطا امام مالک میں یحیی بن سعید انصاری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو ہریرہؓ کی اقتداء میں نماز جنازہ پڑھی ایک معصوم بچے پر موطاشریف کے شارع علامہ زرقانی فرماتے ہیں کیونکہ وہ بلوغت سے پہلے مرگیا تھا یہ ماخوذ ہے حدیث قلم تین انسانوں سے اٹھالی گئی ہے پس آپ نے ان سے شمار کیا ہے بچہ محتلم ہونے سے پہلے، حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں اس کی نیکیاں  لکھی جاتی ہیں اور برائیاں نہیں لکھی جاتی پس میں نے حضرت ابی ہریرہ  سے سنا آپ یہ دعا پڑھتے تھے یا اللہ اے عذاب قبر سے پناہ دے ابن عبدابر فرماتے ہیں کہ عذاب قبر عذاب قبرکے فتنہ سے الگ ہے اسکے سنت سے بہت سے دلائل، ثابتہ ہیں اور اگر اللہ تعالی اپنے تمام بندوں کو عذاب دے تو ان پر ظلم نہ کرے گا مقصود ختم ہوا، حجتہ الاسلام علامہ غزالی احیاء العلوم جزءاول میں فرماتے ہیں اور اللہ سبحانہ کا حق ہے کہ مخلوق کو عذاب  اور درد پہنچائے بغیر کسی پہلے گناہ کے بدلہ میں معتزلہ کے مسلک کے برعکس یہ معاملہ ہے کیونکہ اللہ تعالی اپنے ملک میں تصرف ہے اور اس کا ملک ختم نہیں ہوتا اگرچہ اس کا تصرف کتنا ہی لمبا کیوں نہ ہوجائے اس کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اور اس میں سے اس کا بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ سبحانہ ہی پیدا کرنے ایجاد کرنے اور تکلیف کرنے کیوجہ سے فضیلت والا ہے یہ چیزیں اس پر واجب

منه قبيحا ولا ظلما وانه يثيب عباده الممومنين على الطاعة بحكم الكرم مالوعد بحكم الاستحقاق واللزدم ولايجب عليه حق لاحدوان حقه فى الطاعة واجب على الاخلق بايجابه على السن انبيائه صلوت الله عليهم وسلامه الى اخركلام الامام الغزالى فانظره فان فيه الشفاء لمن كان على شفاوايضاايلام الا طفال والدواب من غير جرم سابق منهم كما هو مشاهد فى الاطفال والدواب ولاينسب فى فعله سبحانه وتعالى ذلك بهم الى الظلم فالقائلون بان الله لوعذب عباده الطائعين وانعم على العامين يكون ذلك ظلما سبحانه وتعالى عما يقول الظالمون علواكبيراوليس لهم على ذلك دليل صريح من كتاب الله ولا من سنة رسول الله صلى الله عليه وآله واصحابه وسلم وانما نشأ ذلك من فهمهم و ذلك خلاف مااخبر به سبحانه وتعالى من اثابة المطيع وتعديب العاصى وهو صحيح-

نہیں ہیں اور وہ انعام واصلاح کو زیادہ کرنیوالا ہے یہ اس پر لازم نہیں بلکہ اسی کے لئے ہے فضل کرنا، احسان کرنا نعمت دینا اور نعمت کا جتلانا، کیونکہ وہ قادر ہے اس پر کہ اپنے بندوں کو قسم قسم کے عذاب پہنچائے اور ان کو ہر قسم کے داد اور دائمی بیماریوں سے آزمائے اور اگر وہ یہ کردے تواسکا عدل ہوگا اور یہ فعل اس سے قفیح اور ظلم کیوجہ سے صادر نہ ہوگا اور بیشک اللہ تعالی اپنے مومن بندوں کو ثواب دے گا اطاعت کرنے پر کرم کے لئے اور استحقاق والتزام کے وعدہ کے لئے اور اس پر کسی کا حق لازم نہیں ہے اور اس میں شک نہیں کہ اسکا حق مخلوق پر لازم ہے کہ اس کی اطاعت کریں جسے اللہ  تعالی نے انبیاءعلیہم الصلوۃ وسلام  کی زبان کے ساتھ لازم کیا ہے علامہ غزالی کے کلام اینفر تک پس آپ اس کلام کو دیکھیں اس میں اس انسان کے لئے شفا ہے جو گڑھے کے کنارے پرکھڑا ہو (گمراہی کے) اوریہ بھی یاد رکھو اللہ تعالی کا بچوں اور چارپاوں کو دردپہنچانا ان کے سابق جرم کی وجہ سے نہیں ہے  (کیونکہ وہ تو معصوم ہیں ) جیسے کہ آپ اسکا مشاہدہ بچوں اور چارپاوں میں کرتے ہیں اور اللہ تعالی یہ فعل ان کے ساتھ کرنا اسے ظلم کی طرف منسوب نہ کیا جائیگا پس جو لوگ اس کے قائل نہیں کہ اگر اللہ تعالی اپنے مطیع انسانوں کو عذاب دے اور نافرمانوں کو انعام دے تو یہ اسکا ظلم ہوگا اللہ بلندومنترۃ ہے اس سے جوظالم کہتے ہیں بہت برتر ہے اور انکی دلیل کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اللہ میں نہیں ہے اور یہ تو صرف ان کی اپنی سمجھ کا نتیجہ ہے اور یہ خلاف  ہے اسکے جو اللہ تعالی نے اطلاع دی ہے کہ وہ

ولكن ليس ذلك منه على جهة الوجوب عليه سبحانه وتعالى ولانهم يقولون ان ذلك من باب الحسن والقبح العقليين وهذا قاعدة باطلة لادليل على صحتها و هذه القاعدة هى التى بنا عليها المعتزلة وبعض الخفية ذلك المذهب وقد قال العلامة المحقق العينى انها قاعدة باطاة ليست بحجة شرعية يجب قبولها كما سياتى فالحاصل ان الذى فقلناه من كلام الائمة المحققين صريح فى بطلان ما قاله المعتزلة و بعض الحنفية من جواز نسبة الظلم الى الله تعالى وهو رب الارباب ومما يويد نفى وقوع ذلك منه سبحانه وتعالى ردا النصارى قوله تعالى لقد كفر الذين قالو ان الله هو المسيح بن مريم قال سبحانه وتعالى فى الردعليهم قل فمن يملك من الله شيا ان ارادالله ان يهلك المسيح بن مريم وامه ومن فى الارض جميعا قال العلامة سليمان الجمل فى حاشيته على الجلالين وتعميم ارادة الا هلاك للكل مع حصول المقصودبالاتتعبار عليه تهويلا للخطب

مطیع کو ثواب اور عاصی کو عذاب دیگا یہ تو درست ہے لیکن اس کا یہ خیروسزادینا وجوب کے لئے نہیں ہے اور چونکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ عقلی حسن وقبح کے قبیل سے ہے اور یہ تو قاعدہ ہی باطل ہے اس کی صحت پر کوئی دلیل ہی نہیں علامہ محقق عینی فرماتے ہیں یہ قاعدہ کو دلیل شرعی نہیں ہے جس کا قبول کرنا واجب ہے جیسے جہ ا سکی بحث عنقریب آئیگی پس حاصل کلام یہ ہے کہ ائمہ محققین کے کلام سے ہم نے جو کچھ نقل کیا ہے وہ معتزلہ کے قول کے بطلان کے لئے صریح ہے اور بعض احناف کے قول کے بطلان کے لئے بھی صریح ہے جو کہ نسبت ظلم اللہ کی طرف کرتے ہیں حالانکہ وہ رب الا رباب ہے اور اس کے وقوع کی نفی کے دلائل میں سے ایک دلیل اللہ تعالی کا وہ قول ہے جس میں اللہ تعالی نصاری کی تردیدفرمارہے ہیں تحقیق کفرکہا ان لوگوں نے جنھوں نے کہا کہ بیشک اللہ ہی مسیح بن مریم ہے  (الایتہ) ان کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتے ہیں اے محمد ﷺ کہہ دے اگر اللہ تعالی مسیح علیہ السلام اور اس کی والدہ اور تمام اہل ارض کو ہلاک کرنا چاہے تو کو ن انہیں چھڑانے کا مالک ہے اللہ تعالی کی سے  (الایتہ) علامہ سلیمان الجمل حلالین کے حاشیہ پر رقم طرازہیں اور عام کرنا ارادے کو تمام کے ہلاک کے لئے باوجود یکہ مقصودوتوصرف مسیح پر ہی اقتصارکرنے سے حاصل تھا اس لئے ہے کہ مخاطب کو ڈرانے کے لئے اور کمال عجیب کو ظاہر کرنے کے لئے ہے اس کے بیان کے ساتھ کہ

واظهار الكمال العجب ببيان ان الكل تحت قهره تعالى وتخصيص امه بالذكرمع اندراجهافى ضمن من فى الارض لزيادة  تاكيد عجزالمسيح انتهى-

وقال الامام الفخرالدين الرازى نحت قوله تعالى فمن يملك من الله شيا ان ارادان يهلك المسيح بن مريم وامه ومن فى الارض جميعا هذه جبلة شرطية قدفيها الجزاء على الشرط والتقدير ان اراد ان يهلك المسيح بن مريم وامه ومن فى الارض جميعا فمن ذالذى يقدر ان يدفعه عن مراده سبحانه وتعالى ومقدوره وقوله فمن يملك من الله شيا اى فمن يملك من افعال الله شيا والملك هو  القدرة والمعنى من ذالذى يقدر على دفع شى من افعال الله تعالى ومنعه عن مراده وتعالى وقوله ومن فى الارض جميعا يعنى ان عيسى عليه السلام مشاكل لمن فى الارض فى الصورة والجسمية والتركيب وتغييرالصفات والا حوال فلما سلمتم كونه تعالى الواحدالقاهر للكل مدبر الكل وجب ان يكون سبحانه وتعالى ايضا خالقا لعيسى عليه السلام انتهى كلام الامام الامام الفخرالدين الرازى بلفظه ففى هذه الاية الكريمة-

ہرچیز اس کے غلبہ میں ہے اور اس کی والدہ کے ذکر کی تخصیص کرنا مسیح کے عجز کی تاکید کے لئے ہے باوجودہ کہ وہ من لمن فى الارضمیں داخل تھا، اورامام فخرالدین رازی اللہ تعالی کے قول، پس کون مالک ہے اللہ تعالی سے چھڑانے کا اگر وہ مسیح علیہ السلام اور اس کی والدہ اور تمام زمین وا لوں کو ہلاک کردے کے تحت فرماتے ہیں جملہ یہ شرطیہ ہے اس میں جزاء شرطیہ پر مقدم ہے اور تقدیر یہ ہے اگر ارادہ کرے کہ مسیح علیہ السلام اور اس کی والدہ اور تمام اہل ارض کو ہلاک کرے پس کون ہے وہ انسان جو دفع کرے اللہ کے ارادہ کو اور اس کی مقدور کو اور اللہ تعالی کا قول فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا یعنی کون مالک ہے اللہ کے افعال میں سے کسی کا اور مالک کا معنی طاقت ہے اور معنی یہ ہے کون ہے جو اللہ کے افعال میں سے کسی کو فعل کو دفع کرنے اور اس کے مراد کو منع کرنے کی طاقت رکھتا ہواور اللہ تعالی کا قول اور جو کچھ بھی زمین میں ہے  اللہ کی مراد یہ ہے عیسی علیہ السلام اہل ارض کے ہم مثل ہیں، صورت،  جسمیت، ترکیب، اور صفات واحوال کے تغیر متبدل میں پس کیوں تم نے اس کو اللہ یکتا، غالب اورہر چیز کا مدبر تسلیم کہا ہے ضروری ٹھہرا کہ اللہ تعالی  عیسی علیہ السلام کا بھی خالق ہو ختم شد امام غزالی کا کلام انہی کے الفاظ ہیں،

وماقاله العلامة سليمان الجمل فى حاشيتة على الجلالين والامام الفخرالدين الرازى فى بيان معناها من ان الكل تحت قهره حتى من هو افضل خلقه عيسى عليه السلام وجميع من فى الارض فكيف لايقدر على فعل مايريده فيهم اجمعين من خيراومن مسندلان الجميع تحت قهره وفى قبضته وفى ملكه و ملكه يتصرف فيهم كيف يشاءلايسأل عما يفعل ويفعل الله مايشاءفلاظلم فيما يفعله سبحانه وتعالى من تعذيب المطيع واثابة العاصى ولكنه لايفعل ذلك بهم فضلا واحسانا وجوداعلى عباده لاانه لايقدر على ذلك فعلم من هذا انه سبحانه وتعالى اوجدالاشياءمرتبة ترتيبا بديعا محكمالايتحول عن ذلك الترتيب لعدم التحول والتبديل فى العلم لاانه لاتدوة له سبحانه وتعالى على التحويل و التبديل والالزم خروج بعض الممكنات عن حيز قدرته وذلك عجز تعالى الله عن ذلك علواكبيرا وعلى كل حال فتطويل الكلام والبحث فى هذه المسالة والمناقشة مع انها قضية فرضية لاوقوعية بالاتفاق ثبت على جوازها فرضا لا وقوعا من

پس اس آیت کریمہ کی تشریح میں جو کچھ علامہ سلیمان الجمل نے جلالین کے حاشیہ پر اور علامہ رازی نے فرمایا ہےکہ بیشک ہرچیز اس کے غلبہ کے تحت ہے حتی کہ اس کی مخلوق کا اشرف فردعیسی علیہ السلام بھی تابع ہے اور تمام اہل ارض مطیع ہیں پس وہ کیسے طاقت نہیں رکھتا ان تمام کے بارے میں خیروشرکےارادہ پر کیونکہ ہر چیز اکے تسلط، قبضہ اور ملک میں ہے اور اپنے ملک میں جیسے چاہے کرے اسکے کام کا اس سے سوال نہ کیا جائیگا اور اللہ جوچاہے کرے اس کاکام ظلم نہ ہوگا، خواہ وہ مطیع کو عذاب دے اور عاصی کو ثواب دینا ہی کیوں نہ ہو، اور لیکن وہ ان پر فضل احسان اور ان کے سخاوت کرنے کی غرض سے یہ کرے گا نہیں کہ وہ اس پر قادر نہیں ہے پس اس سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالی نے اشیاء کی ترتیب کوبڑا مضبوط ومستحکم ار عجیب بنایا ہے وہ اشیاترتیب سے پھرے گا نہیں کیونکہ اس کے علم میں پھرنا اور تبدیل نہیں ہے نہ کہ اس لئے کہ وہ اس پر قادر نہیں تحول اور تبدیل پر، ورنہ بعض ممکنا ت کا اس کے قبضہ لئے قدرت سے خروج لازل آئیگا اوریہ عجز کی بات ہے اللہ تعالی عجز سے بہت بلند وبرتر ہے بہر حال یہ ایک فرضی قضیہ ہے اس کا وقوع نہ ہوگا اس لئے اس میں  بحث کلام کو طول دینا اور مناقشہ کرنا درست نہیں  (اس کے وقوع نہ ہونے پر علماء کا اتفاق ہے) اس فرضی طور پر جواز کتاب وسنت سے ملتا ہے وقوعی طور پر نہیں ملتا لیکن قرآن کی دلیل، حافظ ابن حجرفتح الباری میں

الكتاب والسنة اما الكتاب فقال الحافظ بن حجرفى فتح البارى ان اهل السنة تمسكو بقوله تعالى لايسأل عمايفعل ويفعل الله مايشاءوامناالسنة فحديث ابن الديلمى الذى تقدم ذكره مع ماقاله فيه شراحه وقال بمضمونه المحدثون من اهل السنة كالمزرى والمهلب والحافظ ابن حجر وابن عبدالبر وانتى بمضمونه بعض اجلاءعلماءالصحابةابى بن كعب وحذيفة وابن مسعودوزيدبن ثابت وعمران بن حصين رضى الله عنه  حيث سئلواعن القدرناحابوا بمضمونه من انه سبحانه وتعالى لوعذب اهل سمواته واهل ارضه لعذبهم وهوغيرظالم لهم ولورحمهم لكانت رحمته خيرا لهم من اعمالهم وثبت عن النبى صلى الله عليه وعليه وسلم مسندا ولقدم ان الحافظ بن حجر قال فيه ان فيه حجة على المرجئة والمجبرة ونقله الامام ابن تيمية فى منهاج السنة وتلميذه بن القيم فى

فرماتے ہیں اہل سنت نے اللہ تعالی کے قول اور فعل کے متعلق کوئی باز پر س نہ ہوگی وہ جوچاہتا ہے کرتا ہے  (الایتہ) لیکن سنت کی دلیل، پس وہ حدیث ابن دیلمی کی ہے جس کا ذکر شارحین کی تشریح کے سمیت گزر چکا ہے اور اس کے مضمون کے مطابق محدثون نے فرمایا تھا جیسے کہ مازری مہلب حافظ ابن حجر ابن عبدالبراور  اسی کے مضمون کے مطابق صحابہ میں سے بعض جلیل القدر علماءنے فتوی دیا تھا،  ابى بن كعب، حذيفة،

ابن مسعود، زيد بن ثابت، عمران بن حصين (رضوان الله علیہم اجمعین) جب کہ ان سے سوال قدر کے متعلق کیا گیا، پس انہوں نے اسی مضمون کے ساتھ جواب دیا کہ بیشک اگر اللہ تعالی زمین وآسمان والوں کو عذاب دے تو وہ ان کو عذاب دے گا اس حال میں کہ وہ ظالم نہ ہوگا ان کے لئے اور اگر ان پر رحمت کرے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے ان کے لئے بہتر ہوگی اور یہ حدیث رسول کریم ﷺسے مرفوع ثابت ہوچکی ہے اور یہ بھی گزر چکا ہے کہ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کے متعلق فرمایا تھابیشک اس میں دلیل مخالف ہے مرجئہ اور مجرہ فرقہ پر اور اس حدیث کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے منہاج السنتہ اور ان کے شاگرد حافظ ابن قیم نے مفتاح دارالسہادۃ اور التبسیان فی اقسام اللہ فی القرآن میں نقل کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے اسے حافظ ابن قیم سےپسند کرتے

مفتاح دارالسعادة وفى التبيان فى اقسام الله فى القران ونقله الحافظ بن حجر مرتضيا له عن ابن القيم كما تقدم فلو كان غير قابل للاحتجاج لما قال فيه ماقال وحينئدفنسبة وقوع الظلم فى ذلك الى البارى سبحانه وتعالى مما تقشعر منه جلود الذين يخشون ربهم ومما يليق نسبة الى البارى تعالى فالتسليم لذلك واتفويض فيه الى الله عزوجل هو للائق بالسنى الذى يدعى انه من اهل السنة فانه سبحانه مالك الامركله القادر القاهر فوق عباده كل العالمين تحت قهره وتصرفه يفعل فيهم مايشاءلارادلماقضاهواراده وارتضاه لايسأل عما يفعل و يفعل مايشاء وقال العلامة ابن رجب فى شرحه على الاربعين الحديث للنووى عندايراده حديث ياعبادى انى حرمت الظلم على نفسى وجعلته فيكم محرماالحديث يعنى انه سبحانه وتعالى منع نفسه عن الظلم لعباده كما قال وماانا بظلام للعبيدوقال تعالى وماالله يريدظلم للعاملين وقال

ہوئے نقل کیا ہےپس اگر یہ حدیث دلیل کے قابل نہ ہوتی تویہ لوگ اس کے متعلق نہ کہتے جوانہوں نے کہا ہے اور اب ظلم کی نسبت اس کی طرف معاملہ میں اس سے اپنے پروردگارسے ڈرنے والے بندوں کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کی نسبت باری تعالی کی طرف حرام ہے پس اسے تسلیم کرلینا اور اس مسئلہ میں اللہ کی طر سونپ دینا ہی لائق ہے ایک سنی کے لئے جس کا یہ دعوی ہے کہ وہ اہل سنت سے ہے کیونکہ اللہ تعالی ہر ایک امر کا مالک اپنے بندوں پر غالب وقادرہے ساراجہان اس کے غلبہ وتصرت کے تحت ہے  ان مین وہ جو چاہے کرے اس کے فیصلے ارادے اور پسندیدہ کام کو کوئی رد کرنیوالا نہیں اس سے اس کے کام کے متعلق سوال نہ ہوگا وہ جو چاہے کرتا ہے، اور علامہ ابن رجب حدیث کی کتاب اربعین نوویؒ کی شرح میں حدیث، اے میرے بندوں بیشک میں نے ظلم کو اپنے نفس پر حرام کیا ہے اور اسے تم پر حرام ٹھہرا،  (حدیث) وارد کرنے کے موقع پر فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر ظلم کرنے سے اپنے نفس کو روک لیا ہے جیسے ارشاد باری ہے اور نہیں ہوں میں بندوں پر ظلم کرنے والا  اور فرمایا اللہ تعالی نے، اور اللہ تعالی جہانوں پر ظلم کرنے کا ارادہ نہیں کرتا، اور فرمایا اللہ تعالی نے، بیشک اللہ تعالی رائی برابر بھی ظلم نہیں کرتا، اور فرمایا اللہ تعالی نے، اور جو بھی مومن ہو کر نیک کام کرے گا پس نہیں

تعالى ان الله لايظلم مثقال ذرة وقال تعالى ومن يعمل من الصالحات وهو مومن فلايخاف ظلماولاهضمافامهضم ان ينقص من حسناته والظلم ان يعاقب بذنوب غيره ومثل هذا كثير القران وهو مما يدل على ان الله قادر على الظلم ولكن لايفعله جوداوكرما واحسانا الى عباده وقدفسر كثير من اهل العلم الظلم بانه وضع الاشياء فى غيرموضعها وامامن فسره بالتصرف ملك الغير بغير اذنه وقدنقل نحوه عن اياس بن معاوية فانهم يقولون ان الظلم مستحيل عليه سبحانه وتعالى غير متصور فى حقه لان كل مايفعله فهو تصرف فى ملكه وبنحوذلك اجاب ابوالاسودالدولى لعمران بن حصين حين سأله عن القدر واخرج ابوداودوابن ماجة من حديث ابى سنان عن وهب بن خالد الحمصى عن اين الديلمى انه سمع ابى بن كعب رضى الله عنه منكه يقول ان الله لو عذب اهل سموته واهل ارضه لعذبهم وهو غير ظالم لهم ولورحمهم لكانت رحمته خيرا لهم

ڈرے گا وہ ظلم و نقصان سے پس ہضم کی تعریف یہ ہے اسکی نیکیاں کم کردی جائیں اور ظلم یہ ہے کہ غیر کے گناہ کے جرام میں اسے سزادی جائے اور ایسی آیات قرآن میں بہت ہیں اور وہ آیات دلائل سے ہیں جو کہ دلالت کرتے ہیں کہ بیشک اللہ ظلم پر قادر ہے لیکن یہ فعل وہ کرم سخاوت اور اپنے بندوں پر احسان کرتے ہوئے نہیں کرے گا اور تحقیق اکثر اہل علم نے ظلم کی تعریف کی ہے، چیز کا اس کے محل کے بغیر کسی دوسرے محل پر کرکھنا اور لیکن وہ انسان جس نے اس کی تعریف یہ کی ہے کہ غیر کے ملک میں اس کے اذن کے بغیر تصرف کرنا یہ تعریف الیاس بن معاویہ لوگوں سے منقول ہ ے پس وہ لوگ کہتے ہیں کہ بیشک ظلم اللہ پر محال ہے اسکے حق میں اس کاتصور ہی نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ جو بھی کریگا پس وہ اپنے ملک میں تصرف ہوگا  اور ابوالاسوودوی نے بھی عمران بن حصین کو بھی اسی طرح کا جواب دیا تھا جب کہ اس نے اس سے تقدیر کے متعلق دریافت کیا تھا اور امام ابوداوداورابن ماجہ حدیث لائے ہیں ابی سنان راوی ہیں وہب بن خالد حمصی سے وہ ابن دیلمی سے کہ  اس نے ابی بن کعب سے سنا وہ فرماتے تھے کہ بیشک اگر اللہ تعالی اپنے زمین وآسمان والوں کو عذاب تو وہ ان کو عذاب دے گا حالانکہ وہ ظالم نہ ہوگااور ان پر رحمت کرے تو اس کی رحمت ان کے لئے ان کے اعمال سے اجرو

من اعمالهم وانه اتى ابن مسعود نساله فقال له مثل ذلك ثم اتى زيد بن ثابت فحدثه عن النبى صلى الله عليه وعليه وسلم بمثل ذلك وفى هذا الحدث وهب بن خالد ليس بذاك المشهور بالعلم وقديحمل على انه لواراد تعذيبهم لقدر عليهم مايريد تعذبهم به فيكون غير ظالم حينئذ لكوته خلق افعالهم وفيها الظلم ولايقتضى وصفه سبحانه وتعالى بالظلم كمالايوصف سائرالنتائج التى يفعلها عباده وهى خلقه وتقديره فانه لايوصف بانعال عباده فان افعال عباده من مخلوقاته ومفعولايته وهو لايوصف بشى منها وانما يوصف بماقام به من صفاته وانعاله انتهى كلام ابن رجب رحمه الله تعالى بلفظه ولكن قوله فى اسناد حديث بن الديلمى وهب بن خالد الحمصى وليس بالمشهوربالعلم فقال الحافظ بن حجر فى التقريب وهب بن خالد الحميرى ابو خالدثقة من المالعة وقال فى الخلاصة وثقة ابن معين وابن ابى حاتم واخرج له ابو

افضل ہوگا اور ابن الديلمى نے ابن مسعود سے جاکر پوچھا انہوں نے ویسے ہی کہا پھر وہ زید بن ثابت کے پاس گیا تو انہوں نے اس طرح رسول کریم ﷺکی حدیث بیان کی اور اس حدیث میں وہب بن خالد راوی علم میں قدرے سے مشہور نہیں ہے اور اسے اس پر حمل کیا جائے گا اگر وہ ان کی تعذیب کا ارادہ کرے تو وہ اپنے ارادہ تعذیب پر قادر ہے پس وہ ظالم نہ ہوگا اس وقت واسطے اس کے بندوں کے افعال کا خالق ہونے کے لئے اور ان کے افعال میں سے ایک ظلم بھی ہے اورتمام کاموں کا خالق ہونا یہ اس کا تقاضا نہیں کرتا کہ ظلم اس کی صفت ہے، جیسے اور دوسر ےکا م جن کو اس کے بندے کرتے ہیں اور وہ کام اللہ کی قدرت میں ہیں اور اس کی مخلوق ہیں اس کی صفت نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالی صرف اپنے افعال سے متصف ہے اپنے بندوں کے افعال سے متصف نہیں ہے کیونکہ بندوں کے افعال تواس کے مخلوق ومفعول  ہیں اور وہ تو صرف ان صفات و افعال کے ساتھ موصوف ہے جن کے ساتھ وہ قائم ہے ابن رجب کا کلام انہی کے الفاظ میں ختم ہوا اور لیکن  ابن رجب کا ابن الديلمى والی حدیث، حدیث کے راوی وهب بن خالد حمصى کے متعلق کہنا کہ وہ علم کے ساتھ مشہور نہیں  (اس نظرمیں ہے )  حافظ بن حجرتقریب میں فرماتے ہیں،  وهب بن خالدحمیری ابوخالد ثقہ ہے ساتوں طبقہ کا انسان ہے اور (خلاصہ)  میں فرماتے ہیں، اسے ابن حبان اور ابن ابی حاتم نے

داودوالترمذى وابن ماجه وثقه ابوداودوسعيدبن سنان الكوفى البرجمى بضم الجيم بينهاراء ساكنة ابو سنان الكوفى الاصغر نزيل قذوين وثقة ابن معين وابن ابى حاتم كذافى الخلاصة وقداجاب ابوالاسود الديلمى حين سأل عمران بن حصين عن القدر كما فى صحيح مسلم- فقال ا عمران بن حصين ارايت مايكدح الناس اليوم ويعملون ابشى قضى عليهم ومضى فيهم من قدر سبق اوفيما يستقبلون مما اتاهم به نبيهم وثبتت عليهم الحجة فقال بل شى قضى عليهم و فيهم فقال له عمران بن حصين افلا يكون ظلما فقال ابو الاسود ففزعت من ذلك نزعا شديدا فقلت كل شى خلق الله وملك يده لايسأل عما يفعل وهم يسألون قال ابو الاسود فقال لى عمران بن حصين يرحمك الله لم اردبما سألتك الاحرزعقلك ثم ذكر عمران بن حصين الحديث فاقرار عمران بن حصين ابا الاسودعلى

ثقہ بتایا ہے اور اس حدیث کوامام ابوداود، ترمذى اورابن ماجہ لا ئے ہیں اور ابوداود نے اسے ثقہ بتایا ہے اور سعيدبن سنان کوفی برجمی (جواس روائیت ہے) جیم کے ضمہ کے ساتھ اور ضمہ باءکے ساتھ باءاور جیم کے مابین راءساکنہ ہے یہ ابوسنان کوفی اصغزقزددین میں کوچ کرآیا تھا اسے ابن معین اور ابن ابی حاتم نے ثقہ بتایا ہے خلاصہ میں بھی اسطرح ہے اور ابوالاسوددوی نے عمران بن حصين کو جواب دیا تھا جب کہ اس سے دریافت کیا تھا جیسے کہ صیح مسلم شریف میں ہے عمران بن حصين نے کہا کہ آج کل لوگ کاموں میں کوشش کرتے  ہیں اوردوسرے کام کرتے ہیں ان کے متعلق خبر دو اور حکم جاری ہوچکا  ہے یا یہ وہ کام ہیں جو یہ کریں گے جوان کے نبی علیہ الصلوۃ والسلام ان کے پاس لائے اور ا ن  پر دلیل ثابت ہوگئی پس ابوالاسودوی نے جواب دیا بلکہ یہ ان کاموں سے ہیں جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور جن کے متعلق گزر چکا ہے،  عمران بن حصين نے کہا کیا یہ ظلم نہ ہوجائیگا ابوالا سوددوی کہتا ہے کہ میں اس بات سے سخت گھبرا گیا پس اسلئیے میں نے کہا ہر چیز اس کو مخلوق اور اس کا ملک ہے اس کے سوال سے نہ کیا جائیگا ان لوگوں کے کاموں سے سوال ہوگا ابوالا سود کہتا ہے مجھے عمران نے کہا میں نے تو صرف اپنے سوال سے تیری عقل کو آزمانے کا ارادہ کیا تھا پھر عمران بن حصين کا اقرار کرنا جب کہ اس نے وہ سنی جو اس کی سمجھ میں  آگئی کہ ہرچیز اللہ کی مخلوق اور اس کا

مافهم بقوله كل شى خلق الله وملك يده لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ فهذاالحديث ايضا مما يقوى حديث ابن الديلمى على فرض ضعفه والافقدتبين لك مما ذكرنا من حال رجال اسناده انه حديث قابل للاحتجاج به كما قاله الحافظ بن حجر كما نقدم وفى الحديث ردعلى المرجئة والقدرية وذكره ابن القيم كما تقدم فى مفتاح داراسعادة وفى التبيان فى اقسام الله عزوجل فى القران وعلى فرض ضعفه فالحديث الواردنى القدر يزيده قوة لقومه صلى الله عليه وعليه وسلم وان تومن بالقدر خيره وشره المروى فى مسلم وغيره المروى فى مسلم وغيره والايات القرانية كفوله تعالى لا لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ و يَفْعَلُ الله مَا يَشَاءُ كما اجاب ابوالاسودالدئلى لعمران بن حصين وقوله تعالى ان الله على كل شى قدير فكل ماذكر مما يقوى حديث بن الدئلى وقدتقدم انه صرح بمضمونه المزرى والمهلب وابن عبدالبرو الحافظ بن حجر دعاء عمران بن حصين

ملک ہے نہیں سوال  ہوگا اس کے کام سے لیکن لوگوں سے ان کے اعمال کا سوال کیا جائیگا، پس یہ حدیث بھی ان دلائل سے ہیں جو ابن الديلمى کی حدیث کو تقویت دیتے ہوئے اس کے رجال کے ضعف کو تسلیم کرتے ہوئے ورنہ جو ہم نے اس حدیث کے رجال کے متعلق بیان کیا ہے اس سے آپ کے لئے ظاہر ہوچکا ہے کہ یہ حدیث قابل حجت ہے جیسے کہ ابن حجر نے کہا ہے جیسے مذکور ہوچکا ہے کہ اس حدیث میں رد ہے المرجئہ اورقدريہ کا اور اسے ابن قیم نے بھی ذکر کہا ہے جیسے کہ مفتاح دارالسعادۃ اور التبیان فی اقسام اللہ میں گزرچکا ہے اور اس حدیث کے ضعف کو تسلیم کرنے پر بھی پس وہ حدیث جو تقدیر کے متعلق مراد ہے اسے قوت زیادہ کرتی ہے فرمان رسول ﷺاور یہ کہ اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے، مسلم شریف میں آتی ہے اور دوسری احادیث اور آیات قرآنیہ بھی شاہد ہیں جیسے کہ اللہ تعالی کا قول، اس  کے کام سے سوال نہیں کیا جائیگا وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جیسے کہ ابوالاسوودوی نے عمران بن حصین کو جواب دیا اور اللہ تعالی کا فرمان بیشک اللہ ہر ایک چیز پر قادر ہے پس مذکورہ دلائل میں سے ہر ایک ابن الديلمى والی حدیث کو تقویت پہنچاتا ہے اور یہ گزر چکا ہے کہ اسی حدیث کے مضمون کے ساتھ تصریح فرمائی ہے مازری مہلب ابن عبدالبر اور

لابى الاسود بقوله رحمك الله حيث عرف صحة جوابه فلوكان جواب ابى الاسود على عمران بن حصين لمادعاله والحصل ان حديث ابن الديلمى المروى فى سنن ابى داود ومسندالامام احمد وسنن ابن ماجه حديث قابل للاحتجاج به فان اقل درجاته حديث حسن لغيره  وهو مما يحتج به كما هو مقررفى علم مصطلح الحديث وقدنظم معناه الامام احمد بن رسلان شارح ابى داود فى سبع مجلدات وتلميذه الحافظ بن حجر رحمه الله تعالى بقوله-

قال شارح هذه المنظومة وهو العلامة المحقق عبدالروف المنارى اى وله سبحانه وتعالى عقاب من اطاعه من عباده امومنين بفعل المامورات ورفض المنهيات كما له ان يثيب من عصاه وان يولى عليه اى يوتيه

حافظ ابن حجرؒنے اور عمران بن حصین کا ابوالاسوودوی کے لئے دعا کرنا جب کہ اس نے اس سے صیح جواب پایا پس اگر ابوالاسودکا جواب عمران بن حصین کے خلاف ہوتا تو وہ اس کے لئے دعا نہ کرتے اور حاصل کلام یہ ہے کہ ابن الديلمى کی حدیث جو سنن ابی داود، مسندامام احمداورسنن ابن ماجہ میں آتی ہے وہ قابل حجت حدیث ہے پس کم ازکم اس کا درجہ حسن لغیرہ کا ہے اور وہ قابل حجت ہے جیسے کہ یہ قاعدہ علم اصطلاح حدیث میں ثابت ہے ابی داود کے شارح  احمد بن رسلان اور ان کے شاگرد حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث کے معنی کو تقریبا سات کتابوں میں ان اشعار کے ساتھ نظم بنایا ہے

له  عقاب من اطاعه       يثيب من عصاه ويولى نعما

كذاله ان يولم الاطفالا     ووصفه بالظالم استحالا

۱:۔ اسے اپنے مطیع کو سزا دینے کا حق حاصل ہے جیسے کہ وہ اپنے عاصی کو ثواب اور نعمتوں کا والی بنا سکتا ہے

۲:۔ اسی طرح اس کا حق ہے کہ بچوں کو دردپہنچائے اور اسے ظالم کے ساتھ موصوف کرنا محال ہے،

اس نظم کے شارح فرماتے ہیں اور وہ شارح علامہ محقق عبدالروف مناوی ہیں فرماتے ہیں یعنی اللہ سبحانہ تعالے کے لئے ہے کہ اپنے بندوں میں سے مومن اور مطیع کو عذاب دے مامور کاموں  کے کرنے سے اور منہی اشیاءسے رکنے سے اس نے اطاعت کی ہو جیسے کہ اسے حق ہے کہ اپنے عاصی

نعما كثيرة عظيمة لانه ملكه يتصرف فيه كيف يشاء لكن لا يقع منه ذلك لاخباره سبحانه وتعالى باثاية المطيع وتعذيب العاصى وقول المعتزلة الغرمز من التكليف التعرض للثواب من الله عزوجل بدليل قوله تعالى ومن يطع الله ورسوله يدخله تجرى من تحتها الانهاروالاضراربدون استحقاق ولامنفعة ظلم رد بانه لايعقل استحقاق النعيم من الدائم بجردكلمة ولاالعذاب الشديدبجرد شرب حدعة من خمر فالثواب انما هوفضل الله عزوجل وقدوعد المطيع بالثواب فهو يفى به غير وجوب عليه لان الخلف فى الوعيدلايعدنقصابل كرما يتمدح به كمادل عليه توله وكذاله ان يولم الاطفالااى والدواب من غير جرم سابق ولا ثواب لاحق ومعنى كونه انه جائز عقلا خلانا للمعتزلة حيث لم يجوزوه الابعوض جرم

کوثواب دے اوراسے نعمتوں کا والی بنائے یعنی اسے بے بہا نعمتیں دے کیونکہ وہ اس کا ملک ہے وہ اس میں کیسے چاہے تصرف کرے لیکن یہ کام اللہ سے واقع نہ ہوگا کیونکہ اس نے مطیع کو ثواب دینے اور عاصی کو عقاب دینے کی خبر دی ہے اور معتزلہ کا یہ قول کہ بندوں کو تکلیف دینی کاموں کی اس سے غرض اللہ تعالی کی طرف ثواب کے لئے پیش کرنا ہے اللہ تعالی کے اس قول کیوجہ دلیل اور جوبھی اللہ ورسول ﷺکی اطاعت کرے گا خدا تعالی اسے ان باغات میں داخل کریں گے جن کے تحت نہریں جاری ہیں اور تکلیف دینی بغیر مستحق اور نفع کے تو ظلم ہے، مردود ہے کیونکہ خالی ایک کلمہ شہادت کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ نعیم میں رہنا غیر معقول ہے اور اسطرح مجرد ایک گھونٹ شراب کا پینے کی وجہ سے عذاب شدید معقول ہے پس ثواب دینا محض اللہ کا فضل وکرم ہے اور تحقیق اس نے مطیع کو وعدہ دیا ہے پس وہ اپنے وعدہ کو پورا کرئیگا اس پر واجب نہیں ہے اور ڈاٹٹ میں وعدہ خلافی کرنا یہ تو کوئی نقص نہیں ہے بل اس کے ساتھ وہ ممدوح ہے جیسے کہ اس پر شاعر کا یہ قول : اوراس طرح  سےاپنے  بچوں کو دردپہنچانے کا حق حاصل ہےاور چار پاوں کو سوائے کی سابق جرم اور نہ ثواب لاحق کے بغیر اور اس کے ہونیکا معنی یہ ہے کہ عقلا یہ جائز ہے معتزلہ کے خلاف ہے جبکہ انہوں نے اسے جرم کے عوض کے بغیر جائز نہیں رکھا۔

ومن ثم اريبواان يقتص من بعض الحيوان  لبعض وحسبك فى الردعليهم مايشاهدمن انواع البلايابالاطفال والحيوان من الالام والذبح والعقروغيرهاولميتقدم منها جرم وقولهم انه يحشرهاويجاذيهاامافى الموقف اوفى الجنة بان يدخلهافى صورة حسنة يلتذاهلها برويتها اوجنة تخصها على اختلاف بينهم فى ذلك ردبان ذلك لايوجبه العقل وان جوزوه ولم يردبه السمع حتى يصلح مستنداللقطع بوقوعه فلايجوزالجزم به وما وردمن الاقتصاص من القرناء للجماءلايمنعه العقل لكن لايوجبه لانه خبراحادوهوغيرمفيدللقطع لان القطع هوالمعتبرفى العقائد- ولما كان ربما يتوهم من تعذيب المطيع وايلام من لاذنب له انه ظلم صريح باستحالته عليه سبحانه وتعالى فقال ووصفه بالظالم استحالاسمعاوعقلااماالسمع فممالايحصى نحو قوله تعالى ان الله

اور اسی وجہ سےانہوں نے بعض حیوان کا بدلہ بعض سے لے کر دینا واجب کیا ہے اور ان کی تردید کے لئے تیرے لئے یہی چیز کافی ہے کہ جنکا مشاہدہ کیا جاتا ہے بچوں اور حیوانات کو قسماقسم کی مصیبتوں سے درد ذبح کرنا اور کونچیں کاٹنا اور دوسری مصائب، اور حالانکہ ان سے کوئی پہلے جرم صادر نہیں ہوا اور معتزلہ کا یہ قول کہ اللہ تعالی ان کو اٹھائے گا اور ان کے کام کا بدلہ دے گا یا تو خدا کے سامنے کھڑے ہونے کیوقت یا جنت میں ان  کو اچھی صورت میں جنت میں داخل کرنے کے ساتھ جن کو دیکھ کر ان کے ملک خوشی اور لذت محسوس کریں گے یا ان کے لئے کوئی خاص جنت ہوگی یہ مسئلہ انہی کے آپس کے اختلاف کے لحاظ پر ہے اور اس کی تردید اس طرح کی گئی ہے کہ اس نے عقل جائز نہیں رکھتی۔ اگرچہ انہوں نے اسے جائز رکھا ہے اور پھر اس کوسنا بھی نہیں گیا تاکہ اس کے یقینی وقوع کے لئے دلیل ثابت ہوپس اس لئے اس کے ساتھ پختگی کرنی جائز نہیں اور جو احادیث بعض حیوانوں کے بدلہ سینگ کے بارے میں وارد ہوئی ہیں انہیں عقل منع نہیں کرتی لیکن اسے واجب بھی نہیں ٹھہراتی کیونکہ وہ خبراحادہیں اور خبراحادیقین کے لئے مفید نہیں ہے کیونکہ عقائد میں یقین ہی معتبرہ ہے، اور جب کہ بعض اوقات اللہ تعالی کے مطیع کو عقاب اور بے گناہ کو تکلیف دینے سے ظلم معلوم ہوتا ہے اس لئے اس نے ظلم کا اللہ کے ساتھ بحال ہونا کہہ دیا پس اس نے کہا کہ اللہ کی صفت ظالم محال ہے، کتاب سنت سے سننے اور عقل

لايظلم مثقال ذرة ان الله لايظلم الناس شيئا وماربك بظلام للعبيد ياعبادى انى حرمت الظلم على واما عقلا فلان الظلم ارتكاب منهى- ولايتصور

الله عزوجل لانه تعالى مالك الامور كلها يفعل مايشاء فلاظلم فى التعذيب ولاايلام فرضا ولانه وضح الشى فى غيرمحله وذلك مستحيل على المحيط بكل شىءعلماومنه عرف انه سبحانه وتعالى اوجدالاشيامرتبةترتيبابديعا لايتحول عن ذلك الترتيب لعدم التحويل والتبديل العلم والتقديرلاانه لاقدرة له على التحويل والتبديل والا لزم خروج بعض الممكنات عن حين قدرته وذلك عجز تعالى الله عن ذلك فثبت استحالة وصفه سبحانه وتعالى بالظلم وان انعاله واقعة على وفق الحكمة انتهى كلام العلامة عبدالروف المنادى فى شرحه على منظومة بن رسلان فى العقائد والفقه- وقال ابن ابى شريف الحنفى فىشرحه المسمى بالمسايرة على المسامرة لابن الهمام فى علم العقائد واعكم

کےلحاظ سے سننا تو بیشمار ہے جیسے کہ اللہ تعالی کایہ قول بیشک اللہ تعالی ایک رائی کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا بیشک اللہ تعالی لوگو ں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتااور تیرا پروردگار اپنے بندوں کے لئے ظالم نہیں ہے، اے میرے بندوں میں نے ظلم کو اپنے نفس پر حرام کر لیا ہے (حدیث) اور لیکن عقلی لحاظ سے کیونکہ ظلم منہی کام کا ارتکاب ہے اور

الله عزوجل سے اسکا تصور بھی نہیں ہوسکتا کیوں کہ اللہ تعالی تمام امور کا مالک ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے پس عذاب اور دردفرضی طور پر تسلیم کرلینے میں کوئی ظلم نہیں اور اس لئے کہ ظلم چیز کو اپنے محل کے غیر میں رکھنے کو کہتے ہیں اور یہ کام اس ذات کے لئے محال ہے جس نے ہر چیز کو علم کے لحا ظ سے گھرا ہوا ہے اور اس سے معلوم ہوگیا کہ بیشک اللہ تعالی نے اشیاءکو بڑی عمدہ ترکیب میں مرتب فرمایا ہے وہ اس ترتیب کو تبدیل نہ کرے گا اورنہ ہی پھرے گا کیوں کہ اس کے علم وقدرت میں تبدیل وتحویل غیر موجود ہے ورنہ بعض ممکنا ت کا اس کی قدرت کے احاطہ سے خروج لازم آئیگا اور یہ عاجزی ہے اللہ اس سے بلند وبرتر ہے پس ثابت ہوگیا کہ اللہ کی صفت ظلم لانا محال ہے اور اس کے افعال حکمت کے موافق واقع ہوتے ہیں علامہ عبدالروف مناوی کا کلام ابن رسلان کے فقہ وعقائد والی نظلم کی شرح والی ختم ہوئی، اور ابن ابی شریف حنفی اپنی مسایرہ نامی کتاب جوکہ علامہ ابن الھمام کی کتاب مسامرہ عقائد کے علم میں شرح ہے اس میں فرماتے ہیں اور جانور کے جب احفاف نے محال سمجھاکہ اللہ تعالی تکلیف

ان الحنفية لمااستحالوعلى الله عزوجل تكليف مالايطاق فهم اى الحنفية لتعذيب المطيع الذى استغرق عمره فى الطاعة حال كونه مخالفا لهوى نفسه فى رضا مولاه وسببه امنع اى فالحنفية لتعذيب المطيع المومن المذكوراى انه اولى بالمنع من تكليف مالايطاق فهم اى الحنفية مخالفون للاشاعرة فى ذلك القائلين بان له سبحانه وتعالى على ما مرتقريرة قال الله تعالى لايسال عما يفعل ثم منع الحنفية ذلك بمعنى انه لا يجب عليه تركه كما تقول المعتزلة بل بمعنى انه سبحانه وتعالى يتعالى عن ذلك لانه غير لائق به فهومن باب التنريهات اذالتسوية المسى والمحسن امرحسب الذين اجترحوالسيات ان تجعلهم كالذين امنواوعملواالصلحت سواء محياهم ومماتهم فجعله تعالى اى جعل حكميهم بانهم كالذين امنواوعملواالصلحت فى استواءحياتهم فى البهجة والكرامه حكما سيأاىقبيحا وهذاالذى ذكره المصنف فى التجويزاى تجويزالوقوع

مالايطاق دےپس اس لئے وہ احناف اشاعرہ کے مخالف ہیں جو کہ اس کے قائل ہیں کہ اللہ تعالی مطیع کوعقاب اور عاصی کو ثواب دے سکتا ہے اور یہ اس کا ظلم نہ ہوگا کیوں کہ اللہ تعالی سے ظلم کا صدورمحال ہے جیسے کہ ان کی تقریر  ہوچکی ہے مثلا اللہ تعالی کا قول نہیں سوال کیا جائیگا اس کے کام سے پھر احناف نے اس معنی کو منع کیا ہے کہ اللہ پر اس کا ترک واجب ہے جیسے کہ معتزلہ نے کہا ہے، بلکہ یہ کام اسے لائق نہیں پس یہ تنزدیھات کے قبیل سے ہے کیونکہ برے اورخود اللہ تعالی نے بھی اس کی تصریح فرمائی ہے کہ یہ قبیح ہے جہاں کے اللہ نے فرمایا ہے کیا خیا ل کرتے ہیں وہ لوگ جنھوں نے برے اعمال کئے کہ ہم ان کو ایمان والوں اور نیک کام کرنے والو ں کی طرح کردیں کہ ان کا مرنا اور جینا برابر ہوجائے جو یہ فیصلہ کرتے ہیں وہ بہت برا ہے پس اللہ تعالی نے ان کے حکم کہ مومنوں اور نیک اعمال والوں کے ساتھ بھجت اور بزرگی میں برابر ہوجائیں، کو برا حکم ٹھہرایا ہےیعنی قبیح حکم اور یہ جو مصنف مسامرہ (ابن ھمام) نے اللہ کا محسن کو عذاب دینے کو جواز کا ذکر کیا ہے یا تو غفلی طور پر ہے، اور نہ جائز کرنا ذکر فرمایا ہے اور یا پھر وقوع اس کا یعنی اس کا وقوع اللہ تعالی سے پس اس کا نہ ہونا یقینی ہے اتفاقا، فرق صرف اتنا ہے کہ اشاعرہ کے ہاں تو اس کا وقوع اللہ تعالی کے وعدہ کے خلاف ہے کیوں کہ اللہ تعالی اپنی

اى وقوع ذلك منه فمقطوع بعدمه منه سبحانه وتعالى وفاقا غيرانه عندالاشاعرة للوعدبخلافه فانه سبحانه وتعالى وعدفى الكتب المعتزلة وعلى السن رسله باثابة المطيح اى ووعده حق لاخلف فيه وعند الحنفية لذلك الوعد والقبح خلافه اى خلاف الموعودمن الاثابة وقدتقدم ان محل الاتفاق فى الحسن والقبح العقليين اى ادراك العقل قبح الفعل اى صفة النقص وحسنه بمعنى صفة بمعنى صفة الكمال وكثيرامايذهل اكابرالاشاعرة عن ذلك النزاع فى مسالتى التحسين والتقبيح لكثرة مافى النفسهم انه لاحكم للعقل بقبح ولاحسن فذهب لذلك عن خاطرهم محل الاتفاق وهو الحسن بمعنى صفة الكمال والقبح بمعنى النقص انتهى كلام ابن ابى شريف فى المسايره مع شرحه الممى بالمسايرة –

لكن قول الحنفية لانه خلاف الموعوديعنى لانه وعد سبحانه وتعالى اهل طاعته بالثواب واهل المعاصى بالعقاب فوعده تعالى صدق لاخلف فيه فهذاالقول من الحنفية صحيح من ان وعده

منزل کتابوں اور رسولوں کی زبانوں سے وعدہ فرمایا کہ وہ مطیع کوثواب دے گا اور اللہ کا وعدہ  حق ہےاس میں خلاف نہیں ہے اور حناف کے ہاں وعدہ خلافی کے لئے وقوع معدوم ہے اور اللہ کے برابری کو قبح سمجھنے کے لئے کیونکہ وعدہ تو ثواب کا دیا گیا ہے اور تحقیق گزر چکا ہے کہ عقلی حسن وقبح  کا محل اتفاق، یعنی عقل کا فعل کے نقص کوپالینا یعنی اس کے نقص کو پالینا مراد ہے اور ا س فعل کے حسن کو پالینا اس مراد اس کی صفت کمال کو پالینا ہے اور اکثر دفعہ بڑے بڑے اشاعرہ تحسین وتقبیح کے جھگڑے میں غفلت سے کام لیا ہے کیونکہ ان کے نفوس میں عام طور پر یہ چیز ہے کہ عقل کو اشیاء کے حسن وقبیح میں کوئی حکم نہیں پس اس وجہ سے ان کے دلوں سے محل اتفاق نکل گیا اور وہ ہے جن صفت کمال کے معنی میں ہے اور قبح نقص کے معنی علامہ ابن ابی شریف کا کلام علامہ ابن ھمام کی کتاب مسامرہ کی شرح مساہرہ میں ختم ہوگیا، لیکن حنفیہ کا یہ کہنا کہ ظلم کا وقوع معدوم ہے کیونکہ یہ موعود کے خلاف ہے یعنی اللہ تعالی نے مطیع کے ثواب اور عاصی کے عقاب کا وعدہ فرمایا ہے پس اللہ کا وعدہ سچا ہے اس میں خلاف نہیں ہے پس یہ احناف کا قول بالکل صیح کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے

تعالى صدق لاخلف فيه لكن ليس تمام ذلك بواجب عليه تعالى بل بمحض الفضل والكرم لابمعنى الوجوب كماتقوله المعتزلة لانه لايجب عليه لاحد شى فلوعذب جميع عباده الطائغين وانعم على العاصين فغدل  منه ولايوصف بالظلم بذلك لان الجميع ملك يده وتحت قهره بفعل فيهم مايشاءلايسال عما يفعل ولكنه قداخبرانه لا يفعل ذلك فضلا منه واحسانا الى عباده المومنين لاان ذلك واجب عليه سبحانه وتعالى كما تقوله المعتزلة اذلايجب لاحدعليه شى فالنجاة من العذاب والفوز بالجنة انماهورحمة الله عزوجل لابالاعمال واماقوله فذهب عن خاطرالاشاعرة محل الاتفاق وهوالحسن والقبح بمعنى صفة بمعنى صفة الكمال و صفة النقص فالجواب ان الاشاعرة لايميلون الى هذه القاعدة وكذاالمحققون من الحنفية وانما يميل اليها من الحنفية من وافق رايه راى المعتزلة قال العلامة العينى فى شرحه على البخارى فى باب قول الله عزوجل ان رحمة الله قريب من المحسنين حيث ذكر

اس میں خلاف نہیں،  بلکہ محض اس کے فضل وکرم کے ساتھ ہےنہ کہ وجواب کے معنی کے لئے جیسے کہ معتزلہ کا کہنا ہے کیونکہ اس پر کسی کے لئے کوئی شئ واجب نہیں ہے پس اگر وہ اپنے تمام مطیع وفرمان برداربندوں کو عذاب کر ےاور عاصیوں پر انعام کرے پس یہ اس کا عدل ہوگا اور وہ ظلم کے ساتھ موصوف نہ ہوگا اس وجہ سے کیونکہ ہر ایک چیز اس کے دست قدرت کا ملک اور اس کے تسلط میں ہے ان میں جو چاہے کرے لیکن اس نے خود ضروری ہے کہ وہ ایسے کرے گا نہیں اپنے مومن بندوں پر فضل اور احسان کرتے ہوئے نہ یہ کہ اس پر واجب ہے جیسے کہ معتزلہ کا کہنا ہے کیونکہ اس پر کسی کے لئے کوئی شئ واجب نہیں ہے پس عذاب سے نجاۃ اور جنت سے کامیابی پانا صرف اللہ کے فضل کیوجہ سے ہے نہ کہ اعمال کیوجہ اور لیکن ابن ابی شریف کا کہنا، کہ اشاعرہ کے دل سے محل اتفاق چلاگیا ہے یعنی حسن وقبح صفت کمال اور نقص کے ساتھ پس اس کا جواب یہ ہے کہ اشاعرہ اس قاعدے کی طرف مائل ہی نہیں ہوتے، اور اسطرح احناف سے محقق علماءبھی نہیں مائل ہوتے، اور حنفیہ سے تو صرف وہی لوگ اس قاعدے کی طرف مائل  ہوتے ہیں جو معتزلہ کہ موافق ہوتے ہیں علامہ عینی اپنی بخاری شریف کی شرح میں فرماتے ہیں اللہ کے قول إِنَّ رَ‌حْمَتَ اللَّـهِ قَرِ‌يبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَوالےباب میں جہاں کے امام بخاری نے یہ حدیث ذکر کی ہے

البخارى حديث واماالنارفان الله ينشئى لها من يشاءالى يخلق لها ويوجرلها

وقال القابسى المعروف فى هذا الحديث ان الله ينشئى للجنة واما النارفيضع فيها قدمه قال ولااعلم نى شئى من الاحاديث ينشئى للنارخلقا كما فى مسلم وقيل هذا وهم من الرادى اذتعذيب غيرالواصى مخالب لكرم الله عزوجل بخلاف الانعام على المطيع قال الكرمانى ولا محذورفى تعذيب الله عزوجل من لا ذنب له اذالقاعدة القابلة بالحسن والقبح المقليين باطلة فلوعذب الله المطيع لكان عدلاوالانشاء للجنة لاينامى الايشاء للناروالله يفعل مايشاء فلاحاجة الى الحمل على الوهم انتهى كلام العينى بلفظه-

وقال العلامة المحقق على القارى فى شرح المشكوة كما تقدم فى الحديث ارشاد عظيم لاذالةماطلب منه لانه يهدم قاعدة الحسن والقبح العقليتين انتهى- ويمثل ذلك ذكر ابوالحسن السندى فى حاشيته على سنن ابن ماجة كما تقدم فى شرحه حديث ابن الديلمى السابق صريح ايضاء الله اعلم وحديث

اورلیکن آگ پس اللہ تعالی اس کے لئے جن کو چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے یعنی اس کے لئے ان کو موجود کردیتا ہے (حدیث) فرماتے ہیں، کہ کہا قابسی نے کہ مشہورتو اس حدیث میں یہی ہے کہ بیشک اللہ تعالی پیدا کرے گا جنت کے لئے اور لیکن آگ اس میں اللہ تعالی اپنا قدم مبارک رکھیں گے وہ فرماتے ہیں میں نہیں جانتا کہ آگ کے لئے مخلوق کو پیدا کیاگیا ہوجیسے کہ مسلم شریف میں ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ راوی کا وہم ہے کیونکہ مطیع کو عذاب دینا اللہ عزوجل کے کرم کے منا فی ہے بخلاف انعام کرنے کے مطیع پر کرمانی کہتا ہے اللہ تعالی کے بیگناہ کو عذاب دینے میں کوئی ڈر نہیں کیونکہ حسن وقبح عقلی کو قبول کرینوالاباطل ہے پس اگر اللہ تعالی مطیع کو عذاب دے تو انصاف ہوگا اور جنت کے لئے پیدا کرنا آگ کے لئے پید اکرنے کے مخالف نہیں ہے اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے پس اسے راوی کے وہم پر حمل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں علامہ کا کلام انہی کے الفاظ میں ختم ہو ااور علامہ محقق ملاعلی قاری مشکوۃ کی شرح میں فرماتے ہیں، جیسے گزر چکا ہے کہ حدیث میں اس کے مطلوب کے لئے بڑی راہنمائی ہے کیونکہ یہ عقلی حسن وقبح کے قاعدہ کو منہدم کردیتا ہے  (ختم ہوا کلام) اور اس طرح علامہ ابوالحسن سندھی نے ابن ماجہ کے حاشیہ پر فرمایا ہےجیسے ددیلمی کی حدیث گزشتہ کی تشریح بھی صریح گزرچکا ہے اور اللہ زیادہ

ابن الديلمى السابق مريح فى انه لايجب لاحدمن العبادعلى الله شئى وكذلك الحديث الواردفى القدروفيه وان تومن بالقدرخيره وشره من الله ايضا فقدانتى بمضمون حديث ابن الديلمى ابى بن كعب حذيفة و

عبدالله بن مسعود و عمران بن حصين وصرح برفعه الى النبى صلى الله عليه وسلم زيد بن ثابت رضى الله عنه ولم نقف ان احدامن الصحابة خالفهم فى ذلك وقد قال الحافظ بن حجر قى فتح البارى كتاب الاعتصام فيتبع فى النوازل الكتاب ثم السنة فاذالم يوجدفماقاله الصحابة رضى الله عنهم اذهم بكتاب الله اعلم ونزل بلسانهم وقدوجدبحمدالله فى هذه المسالة ما قاله بعض الصحابة فلوكان لهم  فى ذلك مخالف لنقل والاصل عدمه فما افتى به المذكورون من الصحابة واعتقدوه وارتضوه لانفسهم هو للائق بالاعتقادوعدم الالتفات الى ماسواه والايات القرانية والاحاديث النبوية

عالم ہے اور ابن الديلمى کی سابقہ حدیث اس معاملہ میں صریح ہے کہ بیشک بندوں میں سے کسی ایک کے لئے اللہ پر حق واجب نہیں ہے اور اس طرح تقدیر والی حدیث ہے اور اس حدیث میں بھی ہے کہ توبری اور بھلی تقدیر پر ایمان لائے اور ابن الديلمى کی حدیث کے مضمون کے ساتھ  ابى بن كعب۔  حذيفہ عبدالله بن مسعوداورعمران بن حصين نے بھی فتوی دیا ہے اور حضرت  زيد بن ثابتؓ نے اس کے مرفوع ہونے کے ساتھ تصریح فرمائی  ہے اور پتہ نہیں چلا کہ ان کی صحابہؓ سے کسی نے مخالفت کی ہو اور تحقیق الحافظ بن حجر بھی فتح البارى كتاب الاعتصام میں فرماتے ہیں کہ پس اتباع کرے انسان  کتاب اللہ کی پھر سنت رسول اللہ ﷺکی پس جب یہ دونوں معدوم ہوں پس صحابہ کے اقوال  (رضوان الله علیہم اجمعین) کیوں کے وہ    کتاب اللہ کوزیادہ جانتے ہیں اور انہی کی زبان میں اترا ہے، اور الحمداللہ اس مسئلہ میں صحابہ کے اقوال پائے گئے ہیں، پس اگر ان کا کوئی اس معاملہ میں مخالف ہوتا تو ضرور منقول ہوتا، اور اصل معدوم ہی ہے پس جو مذکور صحابہ ؓنے فتوی دیا ہے اور جس کے معتقد ہیں اور اپنے لئے جس کو پسند کیا ہے وہ اعتقاد کے لائق ہے اور اس کے علاوہ کسی چیز کی طرف التفات نہ کرنا اور قرآنی آیات اور احادیث نبویؐ صریح ہیں کہ اللہ عزوجل کی مشیت اپنے تمام ارادوں میں ہے

المصرحة بان المشية لله عزوجل فى جمع مايريدتويدحديث ابن الديلمى وتقوية على فرض عدم صلاحية للاحتجاج والافقدتقدم انه قابل للاحتجاج به والله عزوجل اعلم-

واما قول بعضهم ان اهل السنة  فرقتان فغيرخائف ان اهل السنة هم المتمسكون بما صح فى كتاب الله عزوجل وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم وماجاءعن الصحابة رضى الله عنهم ولاالتفات الى ماخالف ذلك- وان حل قدره فانه ليس لهم فى ذلك الامفاهيم فهوهاليست بحجة فى مقابلة النص الصريح فى القران والحديث بان المشية لله عزوجل فى جمع مايريده فالواجب على من يزعم انه من اهل السنة العمل بماصح فى كتاب الله وسنة رسول صلى الله عليه وسلم والقيام بما يجب لله عزوجل وانه يفعل مايشاء لانه مالك الامرعلى الاطلاق بيده الملك لامانع لمااعطى ولامعطى لمامنع ولا

ابن الديلمى کی حدیث کی تائید کرتی ہے اور اس کو تقویت پہنچاتی  ہیں اگر بالفرض اس حدیث کو قابل احتجاج تسلیم کریں ورنہ گزر چکا ہے کہ یہ قابل احتجاج ہے اور اللہ عزوجل زیادہ عالم ہے، اور لیکن بعض کا قول کے اہل سنت کے دو فرقے ہیں پس یہ چیز ڈرانے والی نہیں ہےبیشک اہل سنت ہی صیح کتاب اللہ اور حدیث رسولﷺاور اقوال صحابہؓ کومضبوط پکڑتے ہیں اور جو اس کے مخالف ہیں اس کی طر ف التفات نہیں ہے اگرچہ اس کی قدرت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو کیونکہ ان کے لئے چند مفاہیم کے علاوہ کچھ نہیں ہے انہوں نے انہیں سمجھاہے وہ نص صریح کے مقابلہ میں دلیل نہیں ہے جو قرآن وحدیث میں ہے کہ بیشک اللہ کی مشیت اس کے ہرارادہ والے کا میں ہے پس ہر وہ انسان جو گمان کرتا ہے کہ وہ اہل سنت سے ہے اس پر واجب ہے عمل کرنا کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے صیح ہو اورعمل کرنا ا س  پر جسے اللہ تعالی واجب کرے اور بیشک اللہ تعالی جو چاہے کرتا ہے کیونکہ وہ مطلق طور پر تمام امور کا مالک ہے اس کی عطا کو کوئی روکنے والا نہیں اور اس کی منع کردہ کوکوئی دے نہیں سکتا اور کسی کے بندہ لئے اس پر کوشئ واجب نہیں ہے بلکہ وہی کام کرنیوالا، مختارکل، اور جوارادہ کرے ا س پر کام کرنیوالا اور جواس کےخلاف کہتا ہے اس کی طرف کوئی التفاف نہیں ہے اور نہ ہی

شئى يجب عليه لاحد من عباده بل هوالفاعل المختارالفعال لمايريدوعدم الالتفات الى من يقول بخلاف ذلك ولاالى من يقول بقاعدة الحسن والقبح العقليين فانها كما تقدم قاعدة باطلة لادليل عليها من الكتاب والسنة وقدغرق فى بحرها من قال بها وارتضاها فانها ليست من دلائل الشرع بل الدليل ماوردبه السمع من الكتاب والسنة فاياك ايها الاخ الصادق والخوض فى هذه لامسألة عليك بكف لسانك وقلبك فيها فانها ليست من المسائل الضرورية التى عليها المعول وعليك بالتمسك لظاهر الكتاب والسنة من الدلالة على ان المشية لله عزوجل فى جميع مايريد لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ مايشاء دعواكل قول بعدقول الهنا- فما امن فى دينه بمخاطرواسال الله ان يوفقنا لما يحبه ويرضاه وان يسئلك بالجميع طريق النجاة والحمدلله رب العالمين وحسبناالله ونعم الوكيل ولاقوة الابالله العلى العظيم و صلى الله علي خيرخلقه سيدنامحمدخاتم الانبياء والمرسلين وعلى اله صحبه اجمعين- والتابعين لهم باحسان الى يوم الدين امين-

اس کی طر ف التفات  ہےجوعقلی حسن وقبح کوتسلیم کرتا ہے کیونکہ یہ قاعدہ جیسے مذکورہ باطل ہے کتاب وسنت سے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جس نے اس قاعدہ کا اعتقاد رکھا وہ اس کے سمندر میں غرق ہوگیا اور جس نے اسے پسند فرمایا کیونکہ یہ دلائل شرعیہ سے نہیں ہے بلکہ دلیل وہی ہے جو کتاب وسنت سے سنی گئی ہوپس اےسچے بھائی اس سے بچتے رہنااوراس میں داخل ہونے سے بچنااورزبان وقلم کو اس میں کلام کرنے اورلکھنے سے پکڑے رکھنا کیونکہ یہ کوئی مسائل ضروریہ سے نہیں ہے جن پر اعتبار ہوسکےاور ظاہرکتاب وسنت جس پر دلالت کرتے ہیں اسے لازم پکڑو، کہ بیشک اللہ کی مشیت اس کے ہر اس کام میں ہے جس کا ارادہ کرے اس کے کام سے سوال نہ ہوگا اور جو چاہے کرے

شعر:۱۔ ہمارے معبود کے قول کے سوا ہر قول کو چھوڑ دو پس اللہ کے دین میں خطرے کی جگہ میں رہ کر کوئی ایمان نہیں لایا اور میں اللہ سے سوال کرتا ہوں کہ ہمیں اپنی محبوب وپسندیدہ توفیق دے اور تمام کو طریق النجاۃ پر چلائے اور سب تعریفیں پروردگار جہان کے لئے ہیں اور ہمیں کافی ہے اور بڑا اچھا کار ساز ہے اللہ بڑے اور بلند کے بغیر طاقت نہیں ہے اور اللہ تعالی مخلوق سے بہتر خاتم الانبیاء والمرسل محمد ﷺان کے تما صحابہؓ وال اوراحسان کے ساتھ قیامت تک ان کے تابعداروں پر رحمت کرے اللہ قبول کر

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 146-193

محدث فتویٰ

تبصرے