سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(58) غیروں سے مدد مانگنا شرعا شرک اور کفر ہے یا نہیں؟

  • 6515
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1688

سوال

(58) غیروں سے مدد مانگنا شرعا شرک اور کفر ہے یا نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اللہ سبحانہ تعالے کو چھوڑ کرغیروں سے مدد مانگنا شرعا شرک  اور کفر ہے یا نہیں؟ اور جو شخص ایسا کرے وہ مسلمان ہے یا نہیں ۔ اور ایسے شخص پر  شرعا لعنت بھیجنا درست ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو امور خالق نے عادتا انسانوں کے بس میں دئے ہیں ان میں کسی سے مددچاہنا شرک یا کفر نہیں بلکہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ۔ میں داخل ہے ہاں جوامور قدرت  کے قبضہ خاص میں ہیں ان میں کس دوسرے کی رف توجہ کرنا یا مدد مانگنا شرک ہے مثلا اولاد کی خاطرخاوند یا بیوی کا طبی قانوں سے علاج کرنا جائز مگر اولاد کے پیدہونے میں کسی غیراللہ سے سوال کرناهب لى ولد اشرك ۔  کیونکہ ارشاد خداوندی ہے:۔ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ ایسا مشرک مسلمان ہے یا نہیں اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمان کے دومعنے ہیںعندالله وعندالقاضى، عنداللہ تو جو مشرک ہے وہ مسلم نہیں وہ جانے اور اسکاعالم الغیب خداجانے اسی طرح ارشاد ہے کلام پاک میں مَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُ‌هُم بِاللَّـهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِ‌كُونَ ہاں اگر وہ کلمہ اسلام لااله الاالله محمدرسول الله کی تصدیق  کرتا ہے توعندالقاضی مسلمان ہے مشرک پر لعنت کرنے کی بابت کوئی آیت یا حدیث میری نظر میں نہیں جس میں حکم ہوکہ مسلم مشرک پر لعنت کیا کرے اسی بنا پر حضرت ابوحنیفہ صاحب نے یزید پر لعنت کرنے سے انکار کیا  اہل حدیث امرتسر۹ رجب ۱۳۴۵ ھ

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 104

محدث فتویٰ

تبصرے