سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(16) یزید بن امیر معاویہ ؓ پر لعنت بھیجنا کیسا ہے؟

  • 6473
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4621

سوال

(16) یزید بن امیر معاویہ ؓ پر لعنت بھیجنا کیسا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ فلاں آدمی یزید بن امیر معاویہ ؓ پر لعنت بھیجتا ہے لیکن زید کہتا ہے کہ ان پر لعنت بھیجنا گناہ ہے اور کہتا ہے کہ ان کے لئے ؒ استعمال کرنا چاہئے کیا زید اپنے دعوے میں سچا ہے ؟ مدلل بیان فرمائیں ،اور  اللہ تعالی سے اجر پائیں السائل ،محمد عبداللہ ساکن لدھیکے،نچے ضلع لاہور،


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ زید کا موقف بلاشبہ درست اور صیح ہے اور وہ اپنے دعوے میں سچا ہے دراصل بات یہ ہے کہ یزید پر لعنت اس لئے روارکھی جارہی ہے ،کہ انہوں نے یا تو حضرت حسین ؓ کو شہید کیا تھا یا شہید کرنے کا حکم دیا تھا یا اس پر خوش ہوے تھے مگر ہمارے نزدیک یہ تینوں باتیں غلط ہیں کیونکہ یزید نے حضرت حسین ؓ کو قتل نہیں کیا تھا چنابنہ امام ابن صلاح اپنے فتوے میں لکھتے ہیں ،لم يصح عندنا انه آمر بقتله(صواعق محرقہ ص ۲۲۳ )کہ ہمارے نزدیک یہ بات صیح نہیں ہے کہ یزید نے حضر ت حسین ؓ کو شہید کرنے کا حکم دیا تھا دراصل حکم دینے والا عبداللہ بن زیادہ تھا جو ان دنوں عراق کا گورنر تھا ،

(۲)حضرت مجدد ملت امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں ، ان يزيد لم يامر بقتل الحسين باتفاق اهل المقل ولكن كتب الى ابن زياد ان يمنعه عن ولا ية العراق (منہاج السنتہ ص ۲۲۵ ج ۲ )

یعنی مورخین اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یزید نے حضرت حسین ؓکے قتل کا کرنے کا  حکم نہیں دیا تھا البتہ ابن زیاد کو یہ ضرور لکھا تھا کہ حضر ت حسین ؓ کو ولایت عراق سے باز رکھے،ان دونوں حوالوں سے معلوم ہوا کہ نہ تو یزید قاتل حسین ؓ ہے اور نہ اس نے قتل حسین ؓ کا حکم دیا تھا،رہی یہ بات کہ یزید نے قتل حسین ؓپر خوشی کا اظہار کیا تھا تو یہ بات بھی پہلی دونوں باتوں کی طرح بیچارے یزید پر بہتان ہے کیو نکہ تاریخ میں صیح طور پر ثابت ہے کہ یزید نے قتل حسین ؓپر بجائے خوشی کے غم وانددہ اور دکھ کا اظہار کیا تھا چنانچہ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں، ولما بلغ ذالك يزيداظهر التوجع على ذالك واظهر البكاءفى داره واكرم اهل بيته واجزهم (منہاج السنتہ ص ۲۲۶ ج ۲ ) یعنی جب حضرت حسینؓ شہید کا سر مبارک یزید کے پاس پہنچا تو اس نے اس حادثہ فاجعہ پر دکھ اور ہمدردی کا اظہار کیا اور اپنے گھر میں گریہ دبکا ء یا اور گستاخی کا کوئی کلمہ منہ سے نہیں نکالا اور قطعا کسی کو محبوس نہیں رکھا بلکہ اہل بیت کے اس لٹے پٹے مظلوم قافلے کی تعظیم وتکریم کی انہیں انعام واکرام سے نوازہ۔امام ابن حجر ہثیمی شافعی فرماتے ہیں، ان امرة بقتله وسروره لم يثبت صدوده من وجه صيحح بل كما حكى ذالك حكى عنه هندوكماقدمته (الصواعق الحرقہ ابن حجر مکی ص۲۲۳ ) یعنی حکم قتل اور شہادت حسینؓ پر یزید کا اظہار مسرت دونوں باتیں پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتیں،اس طرح قاضی ابن المعربی مالکی نے بھی جو چھٹی صدی کے مشہور فقیہ اور مورخ ہیں اپنی کتاب الغواصم من القواصم صفحہ ۲۲۸ و۲۳۴ میں بیچارے یزید کو بدنام کرنے والی کہانیوں کی بڑے زور سے تردید فرمائی ہے ان اصحاب علم وتحقیق کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ شہادت حسینؓ کی ذمہ داری یزید پر عائد نہیں ہوتی جب الزام ہی درست نہیں تو اس پر متفرح لعنت کسی طرح جائز ہوسکتی ہے اگر  الزام کو دومنٹ کے لئے درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر بھی لعنت جائز نہیں کیوں کہ قتل ناحق محض حلال گناہ کبیرہ ہے کفر نہیں بشرطیکہ قاتل قتل ناحق حلال نہ سمجہتا ہو اور کبیرہ گنا ہ کا مرتکب اہل سنت کے نزدیک کافر نہیں ہوتا ،چنانچہ ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں، ان الرضا بقتل الحسين ليس بكفر (شرح فقہ اکبر ص ۸۸ ) کہ قتل حسینؓ پر راضی ہونا کفر نہیں ہےبلکہ واقعہ یہ ہے کہ محقق علمائے صیح بخاری کی ایک حدیث کی وجہ سے یزید کو جنت کا مستحق قرار دیا ہے اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں ) اول جيش من امى يغزون مدينة قيضه مغفور لهم (صیح بخاری ص۴۱۰ ج۱ باب ما قيل فى قتال الروم۔یعنی آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی اولین فوج جو قیصر کے شہر قسطنطنیہ پر جہاد کرے گی اس کی مغفرت ہوچکی ہے امام ابن حجر شافعی ا س حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں، قال المهلب فى هذا االحديث منقبة لمعاوية لانه اول من غزالبحر ومنقبة لولده لانه اول من غزامدينة قيصر (فتح الباری شرح بخاری ص ۹۲ ج ۳ حاشیہ صیح بخاری ص ۲۱۰ ج ۱ اس حدیث سے حضرت معاویہ ؓ اور اس کے بیٹے یزید کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ بحری غزوہ کا آغاز کرنے والے حضرت معاویہؓ ہیں اور شہر قسطنطیہ پر غزوہ کرنے والے ان کے بیٹے یزیدہیں اور اس لشکر میں خود حضرت حسین ؓنے یزید کی ماتحتی میں شرکت کی تھی ،البدایہ و النہایہ ص ۱۵۱ ج ۸ ،بہر حال ہمارے نزدیک یزید کا ایمان محقق ہے اورمومن پرلعنت جائز نہیں چنانچہ ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں، لايخفى ان ايمان يزيد  محقق ولا يثبت كفره (شرح اکبر ص ۸۸ ) آخر میں امام غزالی کا فتوی بھی پڑھتے جائیے، ماصح قتله للحسين ولاامره ولا رضاه بذالك ومهما لم يصح ذلك عنه لم يجزان يظن ذالك فان اساة الظن بالمسلم حرام وفيات الاعيان ص۴۵۰ ج ۲ )کہ حضرت حسین ؓ کو یزید کا قتل کرنا ،قتل کا حکم دینا اور قتل پر راضی ہونا یہ تینوں باتیں صیح نہیں ہیں تو بدظنی کو روارکھا جائے کیونکہ کسی مسلمان کے متعلق بدگمانی حرام ہے ،موصوف نے ﴿رَ‌بَّنَا اغْفِرْ‌ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ﴾ کےتحت یزید کو رحمتہ اللہ علیہ کہنے کو درست لکھا ہے چنانچہ ام المومنین حضرت صدیقہ ؓ سے حدیث مروی ہے۔عن عائشةؓ قالت قال النبى صلي الله عليه وسلم لاتسبواالاموات فانهم قدافضوالى ماقدمو۔ (صیح بخاری ص ۱۸۷ جلد باب ماجاينهى من تبالاموات کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے مردوں کو گالیاں نہ دیا کرو کیونکہ وہ اپنے اعمال کی جزاء دستراتک پہنچ چکے ہیں مرقات میں ملا علی قاری فرماتے ہیں:۔ اى باللعن واشتم وان كانوا فجارااوكفاراالا اذاكان موته بالكفر قطعيا كفرعون وابى جهل وابى لهب ص۱۴۵ (مشکوۃ) یعنی کسی مردے کا نام لے کر گالی گلوچ دینے کی کوشش نہ کرو۔ ہاں اگرفرعون اور ابو جہل کی طرح کسی کی موت یقنی طور کفر پر واقع ہوئی ہو تو پھر اس کا نام لیکر لعن طعن جائز ہے ورنہ نہیں ،بہرحال یزید کو لعنتی اور برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ اہل حدیث کے علاوہ مذاہب اربعہ کے محققین کے نزدیک بھی ایک مسلمان تھا واللہ اعلم با لصواب) (اخبار اہلحدیث لاہور ۱۶ جولائی ۱۹۷۶ ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 46-48

محدث فتویٰ

تبصرے