سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(06) لووقوع جزاء وشرط کو مستلزم ہے یا نہیں؟

  • 6459
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1484

سوال

(06) لووقوع جزاء وشرط کو مستلزم ہے یا نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس  آیت میں تو شرطیہ ہے کیا لووقوع جزاو شرط کو مستلزم ہے یا نہیں اور یہ آیت قیاس اقترانی ہوسکتی ہے یا نہیں ۔اگر ہے تو آپؐ بصورت قیاس اقترانی و رمنطق اس آیت کو بیان فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس اعتراض کے تین جواب دیئے ہیں ۔

ایک یہ کہ  وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ کہنے کے وقت آپؐ کو بعض غیب کی باتوں کا علم تھا ۔مگر آپؐ نے بطور تواضع کے کلی طور پر علم غیب کی نفی کردی۔

دوم یہ کہ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ کہنے کے وقت اگرچہ آپؐ کو کسی غیب کی بات کا علم نہ تھا ۔پھر خدا نے آپؐ کو بعض باتوں کی خبر دی۔جیسےآیتہ فَلَا يُظْهِرُ سے ظاہر ہے

سوم یہ کہ آپ کا وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ کہنا اپنے طورپرنہیں ۔بلکہ کفار کے سوال کے جواب میں ہےاس وقت آپؐ کو کسی بات کی اطلاع نہ تھی۔ جب اس کے بعد خدا نے آپؐ کو بذریعہ وحی بعض باتوں کی خبر دی ۔تو یہ آپؐ کی نبوت کی دلیل بن گئی۔پہلے جواب کے اعتراض سے دو باتیں حاصل ہوئیں۔ایک یہ کہ آپؐ کو خدائی اختیارات نہ تھے ۔بلکہ جیسے اور انسانوں کی  قدرت ہے۔اس طرح کی قدرت آپؐ کی تھی۔(دوم)یہ کہ آپؐ کو تمام باتوں کا علم نہ تھا۔ورنہ اس قدرت کے ساتھ بہت سی بھلائی جمع کرلیتے اور برائی سے بچ جاتے۔دوسرے اعتراض کے تینوں جوابوں سے معلوم ہوا کہ آپؐ کو بذریعہ وحی بعض پوشیدہ باتوں کا علم حاصل ہے خواہ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ کہنے کے وقت ہواور بطور تواضع کے کلی پر نفی کردی۔ ہواور  خواہ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ کہنےکے بعد ہوا ہو۔اور بعد ہونے کی صورت میں خواہ کلام کفار کےسوال کا جواب ہو۔یا اپنے طورپر۔خلاصہ یہ کہ دونوں اعتراضوں کے جوابوں سے توحید کا پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں وہ یہ کہ نہ آپؐ کو خدائی اختیارات حاصل ہیں ۔نہ آپ ؐ کو علم غیب ہے ۔بجز ۔ اس کے کہ کوئی بات آپ ؐ کو خدا تعالی بذریعہ وحی معلوم کرادے۔غرض تفسیر جمل کی عبارت فریق مخالف کو مفید نہیں۔بلکہ انہی پر حجت ہے۔مگر وہ بے سمجھے بن سوچے پیش کررہے ہیں۔ اور عموما ان کی یہی حالت ہے خدا ان کو سمجھ دے آمین۔رہا شرط وجزاء کے وقوع کا مسئلہ کہ آیت قیاس اقترانی ہوسکتی ہے یا نہیں۔ سواب دونوں کی تفصیل سنیے

تفصیل اول

عموما یہ مشہور ہے کہ شرط و جزاء کا وقوع ضرور نہیں۔حالانکہ کے حقیقت کچھ اور ہے اور یہ کہ کلمات شرط کئی ہیں کسی میں وقوع ضروری  ہے۔ کسی میں وقوع ضروری نہیں مثلا اذا میں وقوع ضروری ہےان میں ضروری نہیں اہل عربیت کے نزدیک ان مشکوک کے لئے ہے اور چونکہ ان شرط میں اصل ہےاور مشہور ہے۔ اس لئے یہ بات مشہور ہوگی۔کہ شرط جزاء کا وقوع ضروری نہیں۔ حالانکہ ضروری بھی ہےاور نہیں بھی لو میں عدم وقوع ضروری ہے ۔نورالانوار میں ہے۔

وهوبمعنى الماضى بمعنى ان انتقاءالجازءفى الخارج فى الزمان الما ضى بانتفاءالشوط كما هو عنداهل العبيته ادان انتفاءالشرط فى  الما ضى لا جل انتفاءالجزاء كما هوعندارباب العقول ٍ(نورالانوار صیحت حروف شرط ص۱۴۰)

ترجمہ۔لو اہل عربیت کے نزدیک انتفاء جزاء کے لئے ہے بوجہ انتفاء کے اور ارباب معقول کے نزدیک انتفاء شرط کے لئے ہے۔ بوجہ انتفاء جزاء کے قرآن مجید میں دونوں طرح استعمال ہوا ہے۔ آیت کریمہ لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا ارباب معقول کے موافق ہے۔اس طرح آیت کریمہ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ (پ ۴ رکوع ۷ ) اہل عربیت کے موافق آئی ہے۔یعنی اگر تو سخت زبان سخت دل ہوتا ہے تو یہ لوگ تیرے اردگرد سے منتشر ہوجاتے۔اس طرح آیت کریمہ وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُ‌جُوا مِن دِيَارِ‌كُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ (پ۵ النساء: ٦٦ ) اہل عربیت کے موافق ہےیعنی اگر ہم ان پر لکھتے کہ اپنی جانوں کو قتل کردیا اپنے گھروں سے نکل جاو۔تو وہ یہ کام نہ کرتے مگر ان سے تھوڑے۔نوٹ۔لو اہل عربیت کے موافق عربی محاورات میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ اس لئے اہل عربیت نے اس معنی کو اختیار کیا ہےاور ارباب معقول کا مقصد چونکہ انتفاء لازم سے انتفاء ملزوم پر استدلال کرنا ہے ۔اس لئے ان کے نزدیک دوسرا معنی معتبر ہے۔

تفصیل دوم

آیت کریمہ کی ظاہر صورت تو قیاس استثنائی ہے۔اگر قیاس اقترانی بنانا چاہیںتو شکل ثانی کی صورت میں بن سکتا ہے۔ ہم قیاس استثنائی اور قیاس اقترانی دونوں کا ذکر کرتے ہیں ۔مگر پہلے تھوڑی سی تمہید سن لیں۔

تمہید قیاس اثتنائی میں اگر مقدمہ موضوعہ متصلہ ہو تو اس ملازمہ کلیہ شرط (1) ہےاور قیاس اقترانی کی شکل ثانی میں اختلاف مقدمتین فی الکیف اور کلیہ کبری شرط ہے پھر ملازمہ کی دو قسمیں ہیں۔عقلی اور عرفی عقلی جیسے طلوع شمس کو وجود النہار لازم ہے اور عرفی جیسے حاتم طائی کو سخاوت لازم ہے۔علم الغیب اور استکثار من الخیر کے درمیان بھی عرفی لزوم ہے۔ کیونکہ عموما دستور ہے کہ جب انسان جو خیر وشر کا علم ہوتا ہے تووہ خیر کو حاصل کرتا اور شر سے بچتا ہے خاص کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی ذات سے خبر دے رہے ہیں۔ اگر مجھے علم غیب ہوتا تو میں ایسا کرتا ۔تو علم غیب کی صورت میں اس کا  وقوع ضروری ہوگیا۔ ورنہ آپؐ کی کلام میں کذب لازم آئے گا۔اور کلمہ لو کا استعمال۔بے محل ہوجائے گا ۔جس سے خدا اور رسول دونوں پاک ہیں۔شاید کہا جائے کہ لو ان۔اذا مہملہ کا سور ہیں۔اور مہملہ جزیہ کی قوۃ میں ہوتا ہے تو پھر ملازمہ کلیہ کس طرح ہوا۔اس کا جواب یہ کہ لو مجازاان کے معنی میں بھی استعمال ہوتا  ہے چنانچہ اصول فقہ میں مسائل طلاق وغیرہ میں لکھا ہے(ملاحظہ ہو نورالانورا محبث حروف شرط ص ۱۴۰ ) اس وقت وہ مہملہ کا سور ہوگا۔ورنہ وہ اپنے معنی میں مہملہ کا سور نہیں بن سکتا۔قرآن مجید میں ہے لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا اس میں ملازمہ کلیہ ہے اگر ملازمہ کلیہ نہ ہو تو یہ توحید کی دلیل نہیں بن سکتی۔اس طرح آیت زیر بحث کو سمجھنا چاہیئے۔ خلاصہ یہ کہ لو کا اپنا معنی انتفاء لازم سے انتفاء ملزوم جوارباب معقول کے ہاں معتبر ہے ملازمہ کلیہ کو مستلزم ہے اس لئے اس حالت میں مہملہ کا سور  نہیں ہوگا۔

قیاس استثنائی۔ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْ‌تُ مِنَ الْخَيْرِ‌ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ولكنى لم استكثرمن الخير ومسنى السوء فلم اكن اعلم الغيب ۔

قیاس اقترانی۔انا لست مسكثر الخير ومسبنى السوء وكل عالم الغيب مستكثر لخير ولم يمسه السوء فانا لست عالم الغيب ۔

فتاوی روپڑی جلد اول ص ۲۲۰ ،۲۲۱

-----------------------------------------------------------

(1)ملازمہ  کلیہ سے مراد لزوم کلی ہے ۱۲۰

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 20-24

محدث فتویٰ

تبصرے