سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(620) کتاب الحج - افتتاحیہ -از حضرت مولانا سید سلمان صاحب ندوی

  • 6418
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-23
  • مشاہدات : 1868

سوال

(620) کتاب الحج - افتتاحیہ -از حضرت مولانا سید سلمان صاحب ندوی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کتاب الحج - افتتاحیہ -از حضرت مولانا سید سلمان صاحب ندوی


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

افتتاحیہ

از حضرت مولانا سید سلمان صاحب ندوی

حج اسلام کا چوتھا رکن ہے۔ اورہراستطاعت رکھنے والے مسلمان پر عمر میں ایک دفعہ فرض ہے۔  یہ دنیائے اسلام کی روحانی شہنشائی کا وہ دربار عام ہے۔ جس میں ہر سال وہ درباری شریک ہوتے ہیں۔ جن کو توفیق الٰہی زمین کے گوشے گوشے سے کھینچ کرعرفات کے میدان میں جمع کردیتی ہے۔ اسلام کا یہ دربار عام اخوت اسلامی کا پیغام ہے ۔ تمام اونچے نیچے گدا وشاہ امیر وغریب سبایک جگہ ایک لباس ایک حالت ایک کیف میں سربرہنہ ایک چادر میں لپٹے۔ لبيك الله هم لبيك پکارتے ہیں۔  یعنی آقا کی پکار پر بندوں کیطرف سے حاضری وحضوری کاشور برپا ہوتا ہے۔ یہ ا س اجتماع کا مظاہر ہ ہے۔ جو آدم علیہ اسلام سے لے کر محمدر سول ا للہﷺ تک تمام انبیاء علیھم السلام اپنے اپنے عہد میں  کرتے آئے ہیں۔ اس مقدس سرزمین میں ہرحامل نبوت نے والہانہ قدم رکھا ہے۔ اور وہیں حضور اکرم ﷺ کو اپنے زمانے میں انبیاء کی مثالی صورتیں چلتی پھرتی نظرآرہی ہیں۔ کس قدر خوش قسمت ہیں وہ انسان جن کو اپنی عمر میں کم از کم ایک دفعہ ان مقدس مقامات کی حاضری ومشاہدہ انبیاء کی زیارت کی شرف یابی نصیب ہوتی ہے۔  مسلمان جو روئے زمین پر پراگندہ اوردنیا کے براعظموں اور جزیروں میں منتشر ملکوں اورشہروں میں پھیلے اور پہاڑوں اور صحرائوں اور ریگستانوں میں بچھڑے ہوئے ہیں سال میں ایک د فعہ وہ دن آتا ہے۔ جب ہرگوشے سےان کے نمائندے دریائوں اور صحرائوں کو طے کر کے اس خشک اور بنجرسرزمین میں جس کو  صرف رحمت الٰہی کے چھینٹے سیراب کرتے ہیں۔ جمع ہوتے ہیں  اور دیکھنے والے کو امت محمدی کی موجودہ حالت اور کیفیت ایک نظر میں معلوم ہوتی ہے۔

وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ﴿٢٧ لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ﴿٢٨سورة الحج

’’اوراے ابراہیمؑ لوگوں  میں حج کی پکار پکار دے ۔ لوگ تیرے پاس پیادہ آئیں گے۔ اور  (مشقت سفرسے)  دبلی پتلی سواریوں پر جو ہردورددراز سے آئیں گی۔ تاکہ وہ اپنے فائدے کے مقاموں میں حاضر ہوں اور چند مقرہ ایام میں خدا کا نام لیں۔‘‘

جلوہ طور

عشق کے بازار میں جب یہ صدائے عام دی گئی اس وقت سے  لے کرآج تک سالانہ لبیک کی جوابی آوازیں برابر دنیا کے کانوں میں آتی رہی ہیں۔ اب یہ دور ہمارے زمانے تک پہونچا ہے۔  اور اب ہم پر فرض ہے۔ کہ اس ربانی پکار کی آواز کوسنیں۔ اور لبيك الله هم لبيك لبیک کہتے ہوئے۔  ہر دور دراز راستے سے اجتماعی وملی وروحانی منافع کے مقامات میں حاضری دیں اور چند مقررہ دنوں میں  فاران کی چوٹیوں پرچڑھ کرطور کا جلوہ دیکھیں۔ خاتم نبوت ﷺ کی آخرین امت کو جو قیامت کے خزانہ رحمت  کی حامل ونگہبان بنائی گئی ہے۔  یہ حکم ملا ہے۔ ۗ

 وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلً۔﴿٩٧سورة آل عمران

’’اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ خانہ کعبہ کا حج فرض کرتا ہے۔ جس کو وہاں تک جانے کی استطاعت ہو۔‘‘ اس حکم نے ملت حنیفی کی اس آخری امت پر جس کا نام مسلمان ہے حج کو قیامت تک کےلئے فرض کردیا۔  ہر مسلمان پر جو صحیح وتندرست ہے۔  اور جس کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ اپنی غیر حاضری میں اہل وعیال کے گزارے کا سامان کرکے سفرحج کے مصارف اٹھا سکتا ہے۔ عمر میں ایک دفعہ اس فرض کا ادا کرنا ضروری ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے دعا کی تھی۔ کہ خداوند جو تیری راہ میں چل کر اس فرض کو ادا کریں۔ ان کے گناہ تیرے دربار سے معاف ہوں۔

وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿١٢٨ (بقرہ)

’’اور (اے خدا)  ہم کو ہمارے حج کے دستور اور قاعدے دکھا اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع ہو بے شک تو ہی رحمت کے ساتھ بندوں پررجوع ہونے والا اور ان پررحم فرمانے والا ہے۔‘‘

حضرت ابراہیم ؑکی دوسری دعائوں کے ساتھ یہ دعا بھی قبول ہوئی۔  محمد رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔

"عن ابي هريره قال سمعت النبي صلي الله عليه وسلم يقول من حج فلم يرفث ولم  يفسق رجع كيوم ولدته امه" (بخاری مسلم)

’’ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس نے حج کیا اور اس میں گناہ کا مرتکب نہیں ہوا۔  وہ اس طرح گناہوں سے پا ک ہوکر لوٹا جیسا وہ اس دن تھا۔ جب اس کی ماں نے اس کو جنا۔‘‘

دینی اوردنیاوی فوائد

جس طرح آگ کی بھٹی دھاتوں کی میل کچیل کو مٹا کر ان کو نکھار دیتی ہے۔  اسی طرح حج کی بھٹی گناہوں کے میل کچیل کو جلا کر مسلمان کو پاک کردیتی ہے۔ اور اس کو یہ پے بہ پے سفر  وچست وچالاک تجربہ کار بناکر تجارت اور کام کا شائق کرکے بابرکت بنا دیتا ہے۔ جس سے اس کی محتاجی دورہوجاتی ہے۔

"عن عبد الله قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم تابعوا الحج والعمرة فانهم ينفيان الفقر والذنوب كما ينفي الكبير خبث الحديد والذهب والفضة وليس للحجة المبر ورة ثواب الا الجنة"  (ترمذی)

 ’’عبد اللہ سے روایت ہے کہ ر سول اللہﷺ نے فرمایا کہ حج اورعمرہ یکے بعد دیگرے کیا کرو۔ کہ یہ دونوں محتاجی اور گناہوں کو ایسا صاف کرتے ہیں۔  جیسے بھٹی لوہے سونے اور چاندی کے میل کو اور نیکی سے بھرے ہوے حج کا ثواب جنت ہی ہے۔‘‘

عرفات کے محشر میں جب لاکھوں بندگان خدا کھلے  سر گرد غبامیں اٹے۔ چادریں لپیٹے چلچلاتی دھوپ میں کھڑے ہاتھ پھیلائے حسرت وندامت کے آنسو بہاتے ہوئے بارگاہ بے نیاز میں توبہ استغفارکرتے ہیں۔ تواللہ تعالیٰ کے دریائے رحمت میں وہ وجوش وخروش ہوتا ہے۔ کہ گناہوں کا خس وخاشاک اس کے سیلاب میں بہہ جاتا ہے۔

"قالت عائشة ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال صامن يوم اكثر من يعتق الله فيه عبد امن النار من يوم عرفة وانه ليدنو ا ثم يباهي بهم الملائكة فيقول ما زاد هولاء"  (مسلم)

’’حضرت عائشہ رضی للہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا عرفہ کے دن سے بڑھ کر کوئی دوسرادن نہیں جس میں اللہ بندے کو دوزخ سے آزاد کرتا ہو۔ وہ اس دن نزدیک آتا ہے۔  پھر فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں  پر فخر کرتا ہے۔  اور فرماتا ہے کہ میری خوشنودی کے سوا اور یہ لوگ کیاچاہتے ہیں۔‘‘

اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پرکھڑی کی گئی ہے۔  ان میں سے ایک حج بھی ہے۔

"عن ابن عمر قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم بني الاسلام علي خمس شهادة ان لا اله الا الله وان محمد رسول الله واقام الصلوة وايتاء الزكوة والحج وصوم رمضان"  (بخاری)

’’ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا۔ کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے۔ اس کی گواہی کے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ار محمد اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔  اور نماز درست کرنا اور زکواۃ دینا اورحج کرنا اوررمضان کے روزے رکھنا۔‘‘

دردناک وعید

بیت اللہ دین محمدی کی سلطنت کا پایہ تخت ہے۔ یہی وہ جغرافیائی مرکز ہے۔  جو تمام عالم کے مسلمانوں کو ان کے انتشار پراگندگی اور پھیلائو کے باوجود سال میں ایک دفعہ اپنے دامن میں سمیٹ کر وحدت عمومی کے نقطہ پرجمع کردیتا ہے۔ اسی لئے اس بیت اللہ کا حج کفر وایمان کے درمیان حد فاصل ہے۔ جس کو اس درگاہ سے رو گردانی ہو وہ دین محمدی کے دائرے سے باہر ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

 وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ بقرہ ﴿٩٧

’’اور ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ خانہ کعبہ کا حج فرض کرتاہے۔ جو وہاں تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ اور جوکفر  (انکار)  کرے تو اللہ دنیا جہاں سے بے نیاز ہے۔‘‘

استطاعت کے باوجود حج کے ادا کرنے سے روگرداں ہونے کو اللہ تعالیٰ نے ''کفر ''فرمایا ہے۔ اور وعید فرمائی ہے کہ اس  پتھر اور چونے سے بنے ہوئے گھر میں جا کر حج کے مراسم ادا کرنے سے کچھ اس کی ذات اقدس میں برتری نہیں ہوتی ہے۔ مگر جو کچھ ہے وہ تمہارے لئے ہے۔ چنانچہ اس آیت پا ک کی تشریح رسول اللہ  ﷺ کی زبان مبارک سے سن کر حضرت علی فرماتے ہیں۔

"عن قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من ملك اد وراحلته تبلغه الي بيت الله ولم يحج فلا عليه ان يموت يهوديا اونصرانيا"  (ترمذی)

’’علی سے روایت ہے کہ فرمایا خداکے رسولﷺ نے جو زاد سفر اور اس سواری کا مالک ہو جو اس کو خانہ کعبہ تک پہنچادے۔ اورحج نہ کرے تو اس پر کچھ نہیں۔ کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر‘‘ یعنی اس ابراہیمی مرکز عبادت کا تعلق ہی ایک ایسی چیز ہے۔  جو مسلمان کو یہودی وعیسائی سے علیحدہ وممتاز کرتاہے۔ اب آج ان احکام کو سامنے رکھ کر ان صاحب استطاعت مسلمانوں کو غور کرنا چاہیے۔ جو ہنوز اس فرض سے سبکدوش نہیں ہوئے کہ آیا وہ مسلمان رہ کر مرنا چاہتے ہیں۔ یا یہودی وعیسائی ہوکر جو آغا ز اسلام کے اس قبلہ کو ویران اور دین محمدیﷺ کے اس مرکز کو بےنشان کریں۔  مسلمانوں اٹھو اور اس فرض کوجوآدم علیہ السلام سے لے کر ابراہیم ؑ اور ابراہیمؑ سے لے کر محمد رسول اللہﷺ سے لے کر آج تک ادا ہوتا رہا ہے۔ اس کوادا کریں اور ان مشاہدات کی زیارت اور ادائے مناسک سے دیدہ دل کو پُر نور ومسرور کریں۔ جو انبیاء ؑ کی یادگاریں اور شعائر الٰہی کی تعظیمں ہیں اور قبول واستجابت کے مکان ومحل میں چلیں کہ بیت اللہ وصفا مروہ میزاب ومعشر حرام عرفات ومزدلفہ  میں کھڑے ہوکر اپنی مغفرت کی دعا کریں۔ اور قوم وملت کی فلاح کی تدبیریں سوچیں۔ اور ان پہاڑیوں کودیکھیں جہاں خدا کے رسولﷺ نے محبت کی قربانی کی اس گھر میں دوگانہ ادا کریں۔ جس کے معمار ومزدور دو مقدس رسول ؑ تھے۔ جہاں محمد رسول للہﷺ نے زندگی پائی۔ انہوں نے ظہور کیا۔ قرآن نازل ہوا۔ رسول گویا ہوئے فرشتے اترے۔ جبرئیل پیغام لائے وغیرہ۔ زندگی کا اعتبار نہیں۔  مال ودولت کا بھروسہ نہیں جودم ہے غنیمت ہے۔ جوموقع ہے آج ہے کل اس کے سوچنے کی مہلت نہیں۔  اس سے پہلے کے آخر ت کاسفر درپیش ہو۔ اس فریضے کے سفر سےسبکدوشی ہوجائے۔ لبيك لبيك لاشريك لك لبيك الحمد لك والشكر لك

 

فتاویٰ  ثنائیہ

 

جلد 01 ص 765-770

محدث فتویٰ

تبصرے