سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(619) مال تجارت میں زکواۃ کا کیا طریقہ ہے؟

  • 6417
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 1132

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مال تجارت میں زکواۃ کا کیا طریقہ ہے۔ نفع پر ہے یا راس المال پر۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعی حساب آجکل تخمینا پچاس روہے کا ہے۔ مال تجارت میں بھی اصل مال میں فی سینکڑہ دو روپیہ آٹھ آنہ کی زکواۃ ہے۔ 

تشریح

کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مال تجارت میں زکواۃ فرض ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا

جواب۔ مال تجارت میں زکواۃ فرض ہے۔ بدلیل اس آیت کے۔ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ﴿٢٦٧سورة البقرة واضح ہو کہ کسب میں دستکاری اور بیع وشریٰ داخل ہے۔ بدلیل روایت احمد بن حنبل کے رافع بن خدیج سے

"قال قيل  يا رسول الله صلي الله عليه وسلم اي الكسب اصيب قال عمل الرجل بيده وكل بيع مبرور"(رواه احمد كذا في المشكوة)

بنا بر اس کے امام بخاری نے ایک باب منعقد کیا ہے۔  زکواۃ کسب او ر تجارت میں یعنی ان دونوں صورتوں میں زکواۃ واجب ہوتی ہے۔ یعنی جو مال کسب ودستکاری اور بیع وشریٰ سے بقدر نصاب کے حاصل ہو۔ اس میں زکواۃ واجب ہوگی۔ اس لئے کہ رسول خدا ﷺ نے کسب مطلق میں کسب تجارت کوشامل کیا اور آیۃ۔ أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ﴿٢٦٧ سورة البقرة سے فرضیت زکواۃ کی اظہر من الشمس ہے اجماعا ً تو مکسوبہ تجارت میں بھی زکواۃ بلاشبہ واجب ہوگی۔ اسی واسطے اس پر بھی اجماع منعقد ہوا۔  منکر اور مخالف اس کا مذاق قرآن مجید اور محاورہ لسان العرب سے محفوظ وماہرنہ ہوا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ﴿٢٦٧سورة البقرة

اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی والد ماجد شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ازالۃ الخفاء میں فرماتے ہیں۔

"الشافعي عن ابن عمر وابن حماس ان اباه  قال مررت بعمر بن الخطاب وعلي اذمة احملها فقال عمر الاتوري زكوة ياحماس فقلت يا امير المومنين ما لي غير هذاالذي علي ظهري واهبة في القرظ قال ذلك مال فضع فوضعتها بين يديه فحسبها فوجد ها قد وجبت فيها الزكوة فاخذ منها الزكوة انتهي ما في ازالة الخفاء"

یہ روایت حضرت عمررضی اللہ عنہ کی اگرچہ لفظاً موقوف ہے۔ مگربااعتبار حکم کے مرفوع ہے ۔ کیونکہ جس امر میں رائے کو دخل نہیں ا س کو صحابی اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتا۔ جب تک حضرت رسول مقبول ﷺ سے نہ سنا ہو۔ جیسا کہ اہل حدیث اورفقہ پر مخفی نہیں ہے اور اس آیت کریمہ ۔ وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ﴿٢٤ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ﴿٢٥ ۔ سے بھی مال  تجارت میں فرضیت زکواۃ ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ فی اموالھم میں مال تجارت بلاریب شامل ہے۔ بدلیل اس آیت کے ۔

لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ  ﴿٢٩سورة النساء

چنانچہ تفسیروں میں مذکورہے۔ لہذا تفسیرعزیزی میں پہلی آیت کا اس طرح پر ترجمہ کیا ہے۔ وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ یعنی وکسانیکہ درجمع انواع مالہائے ایشاں از نقد ومحصول زراعت ومال تجارت وبردہ حق معلوم یعنی حقے است مقرر کردہ شدہ ومعین نمود وہ کہآن زکواۃ استوصدقہ فطر انتھیٰ مختصرا۔ اور ماہرین شریعت پر واضح ہے کہ صلواۃ حق بدن ہے۔  اور زکواۃ حق مال ہے۔ اور مال تجارت جنس مال میں بلاریب شامل ہے۔ اسی واسطے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعین زکواۃ سے جہاد کیا جیسا کہ صحاح ستہ سے معلوم ہوتا ہے او اکتساب تین وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ یا مواشی سائمہ یا زراعت یا تجارت سے لہذا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حجۃ للہ لبالغہ میں فرماتے ہیں۔

"الاموال النامية ثلثة اصناف الماشية المتناسلة السائنمة والزروع وجني الثمرات في كل سنة وهي اعظم انواع الزكوة قدر الحول لها ولا نها تجمع مختلفة الطبائع وهي مظنة النماء وهي مدة صالحة لمثل هذه التقديرات انتهي كلامة"

اورسابق معلوم ہوچکا کہ بیع کسب میں داخل ہے بدلیل روایت امام احمد کے رافع بن خدیج سے اور بیع عبارت ہے دوران مال تجارت سے تو نص قرآنی سے زکواۃ مال تجارت میں بھی فرض ہوئی کیونکہ صیغہ انفقوا کا آیۃ أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ  میں واسطے وجوب فرضی کے ہے۔ علی الاطلاق تو فرضیت زکواۃ مال تجارت میں قرآن مجید سے ثابت ہوئی۔ باقی رہی حدیث ابو دائود کی جو دربارہ زکواۃ مال تجارت کے وارد ہے۔ اوروہ حدیث یہ ہے۔

"عن سمرة بن جندب قال كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يا مرنا ان نخرج الصدقة من الذي نعده للبيع"(رواہ ابودائود۔ واسنادہ لین کذافی بلوغ المرام)

سو یہ حدیث دلیل مستقل فرضیت زکواۃ مال تجارت پر نہیں ہے۔ بلکہ وہ دلالت کرتی ہے نص آیت۔  انفقوا من طيبات ما كسبتم  اور  سند اجماع  پر اور یہ حدیث سند اجماع کے واسطے کافی ہے۔ اگرچہ سند اس کی لین وضعیف ہے اور فی نفسہ قوی نہیں۔ کہ موجب اسکات ہو۔ البتہ اجماع سے اس میں قوت آگئی۔ چنانچہ تفصیل اور تشریح اس کی بحث اجماع میں مذکور ہے۔ کما لا یخفی علی الماھر باقوال العلماء من المتقدمین والمتاخرین واللہ اعلم  بالصواب فاعتبروھ یا اولی الابصار حررہ سید محمد نزیر حسین عفی عنہ 3 ماہ ربیع الثانی 1298ہجری)  (فتاویٰ نزیریہ جلد اول ص 503)

دیگر1۔

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ااس مسئلہ میں کہ جس کے پاس مکان رہنے کا نہیں ہے یا کپڑا پہننے کو نہیں ہے۔ یاکبھی کبھی اس کے پاس روز مرہ کا کھانا رہتا ہو یا جس کے پاس یہ سب چیزیں موجود ہوں مگرقرض اس کے زمہ زیادہ ہے۔ تو ان سب صورتوں میں زکواۃ لینے کے قابل ہے یا نہیں 2۔  وقت چاند دیکھنے کے کوئی شخص اگر انگلی سے بتائے تو آیا اس میں گناہ ہے یا نہیں۔ اور وہ مکروہ بھی ہے یا نہیں؟

جواب۔ 1

1۔ ان سب صورتوں میں اس کو زکواۃ لینا درست ہے۔ 2۔ اس میں کچھ گناہ نہیں۔ اور مکروہ بھی نہیں ہے۔ واللہ اعلم  بالصواب ) حررہ سید شریف حسین۔  (بحوالہ مذکور)  سید محمد نزیر حسین۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 761

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ