السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن حکیم میں مذکور ہے کہ موصوفہ آٹھ آدمیوں کو مال زکوۃ دیویں ۔ اب سوال یہ ہے کہ موصوفہ لوگوں کا موحد ہوناشرط ہے یا نہیں۔ اور کیا ہم اپنے مشرک اور بدعتی اور رشتہ داروں اور ٖغریبوں کو مال زکواۃ سے کچھ دے سکتے ہیں یا نہیں۔ اور دور رہتےہوں۔ تو منی آرڈر کرسکتے ہیں یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صدقات خیرات صفت ر بوبیت کے ماتحت ہیں۔ جس کا اثر عاملین پر پہنچتا ہے۔ اس لئے اس میں ایمان کی شرط نہیں۔ جیسی رب العالمین میں نہیں۔ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ﴿١٢٦﴾سورة البقرة
زکواۃ کا مال کفار ومشرکین کودینا جائز نہیں ہے۔ حدیث معاذ رضی اللہ عنہ میں ہے۔
فاخبرهم ان الله قد افترض عليهم صدقة توخذ من اغنيائهم وترد الي فقرائهم الحديث (رواه الشيخان)
اس حدیث کے تحت میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں۔
"ان الزكوة لاتدفع الي الكافر لعود الضمير في فقراءهم الي المسلمين"
ہاں صدقہ تطوع کفار ومشرکین کودینا جائز ہے۔ الیٰ آخرہ۔
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کورسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا۔
"فاخبرهم ان الله قد افترض عليهم صدقة توخذ من اغنيائهم وترد الي فقرائهم الحديث رواه الشيخان قال الحافظ ان الزكوة لاتدفع الي الكافر الخ كما مر انفا انتهي"
ہاں نفلی صدقہ دیاجاسکتا ہے۔ (ابو سعید شرف الدین دہلوی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب