السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
غلہ کی زکواۃ جس کو عشر کہتے ہیں۔نکالنی واجب ہے یا نہیں؟ اگرواجب ہے تو نہری زمین سے کتنا حصہ کس طرح آنا چاہیے۔؟مولوی ثناء اللہ صاحب نے اخبار اہل حدیث مورخہ 9 ربیع الثانی 1330ہجری مطابق 29 مارچ 1912 میں یہ مسئلہ بایں مضمون لکھا ہے کہ غلہ کی زکواۃ واجب ہے۔ مگر چونکہ سرکاری مالگزاری بھی ضروری ہے۔اس لئے میری ناقص رائے میں بقایا میں سے چالیسواں حصہ ادا کرنا کافی ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ مسئلہ باعث شہرت محتاج بیان نہیں ہے۔ مگر شاید مولوی ثناء اللہ صاحب کی تحریر سے شبہ پیدا ہوا ہے۔ وہی موجب سوال ہے۔ حدیث نبوی ﷺ میں تو صاف صاف یہ حکم ہے۔ کہ جو بارش خواہ زمین کی شادابی سے پیداوار ہو اس میں دسواں حصہ اور جس میں پانی پہنچنے کی پیداوار ہو اس میں نصف العشر یعنی بیسواں ہے۔دو ہی صورت رسول للہﷺ نے فرمائی ہیں۔ مولوی ثناء اللہ صاحب کا یہ اپنا خیال ہے کہ سرکاری مالگزاری کے سبب سے کم ہوناچاہیے۔اور چالیسواں حصہ کافی ہے۔ یہ ان کی زہنی بات ہے نہ کہ شریعت کا حکم شریعت میں دو ہی صورت ہے۔جو پہلے مذکور ہوئی ہے اور حدیث میں وارد ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی زمین کی پیداوار میں سے عشر دیتے تھے۔اورچالیسواں حصے کا ذکر بالکل نہیں ہے۔
"عن يحيي ثنا ابن المبارك عن يونس قال سالت الزهري عن زكواة الارض التي عليها المجزية فقال لمتزل المسلمون علي محمد رسول الله صلي الله عليه وسلم وبعده يعاملون علي الارض ويستكرونها ويودون الزكوة مما خرج منها فتري هذه الارض علي نحو ذلك"
اگر کسی کو مرسل ہونے کا خیال ہو تو کم ااز کم اتنا تو ضرور ثابت ہے۔کہ مدینہ کا دستور یہی تھا۔کہ کرایہ والی زمین میں عشر دیا جاتا تھا۔ اور نصوص کا عموم اس کے ساتھ یہ روایت پھر کیا حل سخن ہے۔علاوہ چالیسواں حصہ اپنی طرف سے نکالنے کا کیا حق کسی کو ہے؟
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب