السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خراجی زمین میں جو آسمانی پانی سے پیدا ہو اور جو نہر تالاب آسمانی پانی سے مل پیدا ہو تو عشر ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اس حساب سے۔(سائل مذکور)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ جو چیز بھی زمین سے پیدا ہوئی ہو اس میں سے زکواۃ دینی چاہیے۔عشر اور نصف عشر کا حساب الگ ہے۔ ہندوستان میں بارانی ذمینوں پر بھی سرکاری لگان ہے جو واجب الادا ہے۔اس لئے بارانی زمینوں کی پیداوار سے نصف عشرادا کردے تو جائز ہے۔عشر دیا کرے توبہت ہی اچھا ہے۔(اہل حدیث جلد نمبر 40 ص32)
یہ صحیح نہیں اس لئے کہ عہد نبوی ﷺ اورعہد خلافت راشدہ میں زمین کا محصول یا معاملہ تھا۔اور اس محصول کے باعث پیداوار پر نصف عشرثابت نہیں۔ یہ تقسیم عشر یا نصف عشر کی زمین چاہی یانضح پرہے۔ محصول پر نہیں۔
"عن ابي جعفر قال ما بالمدينة اهل بيت هجرة الا يزرعون علي الثالث والربع وزارع علي وسعد بن مالك وعبد الله بن مسعود وعمر بن عبد العزيز والقاسم وعروة وال ابي بكر ة وال عمرو وال علي وابن سيرين وقال عبد الرحمان بن الاسود كنت اشارك عبد الرحمان ابن يزيد في الزرع وعامل عمر الناس علي ان جاء عمر بالبزر من عنده فله الشطرو ان جاوا باليبزر فلهم كزا"(رواه البخاري مشكواة ص 157 ص 158)
یہ ثلث ربع وغیرہ کی تقسیم مالک زمین کا محصول ہی تو تھا جواج کل کے محصول سے زائد تھ اور اس پر نصف عشر ثابت نہیں۔رہا بارانی اور نہریں زمین تو اس کے بارہ میں بھی تصریح موجود ہے۔
"عن سالم بن عبد الله عن ابيه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم فيما سفت السماء والا نهار والعيون اوكان بعد العشروفيما سقي بالسوانحااوالنضح نصف العشر (اخرجہ ابو دائود واخِرجہ ابو دائود عن جابر بسند اخر ج1 ص 232) پس ثابت ہوا کہ بارانی اور نہری اور عیونی زمین میں عشر سے نصف عشر جائز نہیں۔اور محصول کابھی نصف عشر میں اعتبار نہیں یہ غلط فہمی سے کتاب وسنت پر زیادتی ہے۔جو جائز نہیں۔13 المجتھد قد دخطی ویصیب"
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴿٢٨٦﴾سورة البقرة
جناب نے پرچہ مورخہ 27 جمادی الثانی میں بجواب استفسار یہ راز ارقام فرمایا ہے۔آجکل جو سرکار انگریزی کے ماتحت ہم لوگ رہتے ہیں۔ ہماری سب زمینیں خراجی ہیں۔سرکار کی طرف سے مالگزاری جو مقرر ہے۔ دینی ضروری ہے۔اس لئے یہ سوال عام طور پر ہوتاہے۔کہ آجکل کی زمینوں میں مسلمانوں پر عشر ہے یا کیا ہے۔ میری ناقص تحقیق اس میں یہ ہے کہ ایسی اراضی پر رابع عشر ہے۔ یعنی چالیسواں حصہ واجب ہے۔ کیونکہ حدیث شریف میں آبپاشی کے اخراجات پر لہاظ کرکے عشر سے نصف عشر آیا ہے۔تو سرکاری مالگزاری بھی تو زمین ہی پر خرچ ہے۔آبپاشی نہ کرے تو کچھ نہ کچھ تو پیداوار بارانی ہوسکتی ہے۔مگرسرکاری مالگزاری نہ دے تو جوت بھی نہیں سکتا۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ سرکاری مالگزاری کو اخراجات آبپاشی سے زیادہ دخل ہے پس جب اس کا لہاظ ہے تو اس کا کیوں نہیں ہوگا۔
جانب من ایسا کیوں نہ کیاجاوے۔ کہ زمین دار اس امر کالہاظ کرے کہ سرکار انگریزی کو مالگزاری ادا کرکے اس امر کا خیال کرے کہ سرکار نے جس قدر کہ مالگزاری مجھ سے لی ہے آیا وہ مالگزاری زمین بارانی کی پیداوار کے حشر کے برابر ہوجاتی ہے۔یا نہیں۔اگر عشر کے برابر ہوجاتی ہے۔تو اب عشر ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اوراگر عشر سے کم مقرر کردیا ہے۔ تو بعد ادائے مالگزاری اتنا حصہ نکال دیوے کہ عشر پورا ہوجاوے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب