سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(550) زکواۃ کا روپیہ اسلامیہ سکول کودے سکتے ہیں؟

  • 6348
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1841

سوال

(550) زکواۃ کا روپیہ اسلامیہ سکول کودے سکتے ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زکواۃ کا روپیہ اسلامیہ سکول کودے سکتے ہیں۔ اور اسلامی سکول کی مالی حالت اچھی نہیں ہے۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زکواۃ کے مصارف قرآن مجید میں آٹھ مذکور ہیں جن میں ایک فی سبیل اللہ بھی ہے۔ جمہور علماء اس لفظ کا معنی جہاد کرتے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک ہر نیک کام فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ آجکل ہندوستان میں جہاد جاری نہیں ہے۔ جمہور کے قول کے مطابق مصارف ذکواۃ اس ملک میں سات رہ جاتے ہیں۔ دوسرے مذہب کے مطابق آٹھ بحال ہیں۔ پس دوسرے قول کے مطابق مزکورہ مصارف کے علاوہ زکواۃ ہر نیک کام میں لگ سکتی ہے۔

تنقید از مولانا عبد الرحمٰن صاحب مصنف تحفۃ الاحوذیؒ

مال زکواۃ سے مدرسین کو تنخواہ دینا یا سامان مدرسہ فراہم کرناجائز نہیں ہے۔ ہاں مال زکواۃ سے غریب طلبہ کو دیناجائز ہے۔ اس واسطے کے اللہ نے قرآن مجید میں مال ذکواۃ کے آٹھ مصارف بیان فرمائے ہیں۔ ان آٹھ مصارف میں غریب طلبہ داخل ہیں۔ اور مدرسہ کی تنخواہ اور سامان مدرسہ ان آٹھ مصارف سے خارج ہیں اور جس ملک میں بوجہ عدم تعلیم وتلقین کے احکام وارکان اسلام کے جاری نہ ہوں۔ وہاں مدرسہ اسلامیہ ہونا بہت ضروری ہے۔ وہاں کے مسلمانوں کو چاہیے کہ علاوہ مال ذکواۃ کے تھوڑی تھوڑی اعانت کر کے حسب حیثیت ایک مدرسہ قائم کریں۔ بڑا نہیں تو چھوٹا ہی سہی۔ اور یہ عذرکے وہاں ک مسلمان صرف زکواۃ سے مدرسہ کی مدد کر سکتے ہیں۔ ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ وہاں کے مسلمان جیسے اپنی دنیاوی ضرورتوں میں خوامخواہ علاوہ زکواۃ کے اپنے مال کوخرچ کرتے ہیں۔ ان کو کچھ معذور ی نہیں ہے۔ اسی طرح وہاں ایک مدرسہ اسلامیہ قائم ہونا ایک دینی ضرورت ہے۔ اور شدید ضرورت ہے۔  تو اس میں بھی علاوہ ذکواۃ کے تھوڑا تھوڑا بقدر حیثیت ان کو خرچ کرناچاہیے۔ اور اس میں بھی ان کو معذور نہیں بننا چاہیے۔ واللہ اعلم (کتبہ محمد عبد الرحمٰن المبارک فوری ۔ ( (مہر ) سید نزیر حسین ) فتاویٰ نزیریہ جلد اول ص 497)

از علامہ شکیب ارسلان ؒ

 اس میں شک نہیں کہ مال زکواۃ کاتبلیغ اسلام کے سلسلے میں خرچ کرنا اہل کفر پر یا ایسے مسلمانوں پر جو دین السلام سے بجز اس کے نام کے کسی قسم کی واقفیت نہ رکھتے ہو خرچ کرنا نہایت عمدہ اور پاکیزہ ہے۔ اور شرعا یہ اس قدر واضح ہے۔ کہ زبان و قلم کو اس کے اظہار وبیان میں کسی قسم کاتامل اور تردد نہیں ہوستکا۔ الیٰ آخرہ۔ (بحولہ اخبار توحید امرتسر (2 رمضان 1347 ہجری)

کیا مساجد دینی مدارس تبلیغ اسلام پر زکواۃ صرف کی جاسکتی ہے؟

از قلم مولانافضل اللہ صاحب مدراسی ناظم جامعہ دارالسلام عمر آباد

آپ حضرات کومعلوم ہے کہ دینی ضروریات روز بروز بڑھتی جاتی ہیں۔ اور ان میں سے اکثر کے لئے آمدنیوں کی قلت ہوتی ہے۔ اورشرعا ً آجکل زکواۃ کے سوا کوئی ایسی مد نظر نہیں آتی جس کے۔ ۔ ۔ ترک پر وعید شدید شرعی سنائی جاسنائی جائے۔ اور اس زکواۃ میں حضرات فقہاء کرام نے تملیک کی شرط لگائی ہے۔ جس کی وجہ سے مساجد ۔ مدارس ۔ دینی تبلیغ واشاعت اسلام اور تصنیف وتالیف کتب دینیہ کے بہت سے کام رک جاتے ہیں۔ یا جیسے چلنے کی ضرورت ہے۔ ویسے چلنے نہیں پاتے۔ کیونکہ ان پر مال ذکواۃ فطرہ اور چرم قربانی نہیں کئے جاسکتے۔ اس لئے کہ امور مذکورہ میں تملیک نہیں ہوسکتی۔ اور ان امور مذکورہ میں تملیک جاری کرنا ہو تو حیلہ کی تلاش کرنی پڑتی ہے۔ جس کا ثبوت آیات واحادیث اور اقوال سلف سے نہیں ملتا ہے۔ پس امور مذکورہ کا اجراء یا صدقات غیر واجب سے کیا جائے۔ جن کے نہ دینے سے مسلمان وعید ک مستحق نہیں ہوسکتے۔ یا آیات واحادیث کے عموم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے۔ ان مذکورہ کو مصارف ۔ ۔ ۔ زکواۃ میں داخل کیا جائے۔ مسئلہ بالا کے متعلق ایک عرصہ درازسے بلکہ زمانہ طالب علمی سے خلجان رہا اور حضرات شیوخ کرام کے افادات سے کچھ کچھ منزل مقصود کانشان نظر آرہا تھا۔ بالاخر دو چار سال کے عرصہ میں بعض معزز محترم خیر خواہ حضرات اس مسئلے کو چھیڑتے رہے جس پر فاضل محقق عالی جناب مولانا محمد عبدالوہاب صدر مدرس جامع دارالسلام عمر آباد نے آیت فی سبیل اللہ کی تعمیم اور چند  احادیث سے استدلال فرما کر امور مزکورہ کو مصارف زکواۃ میں شامل فرمایا۔ مولانا نے ممدوح کی تحریر سے خاکسار کے خیالات میں اسید وجرات پیداہوئی۔ جس کے بعدک خاکسار بغرض استفادہ اپنے ناچیز بیشتر خیالات کوحضرات رہنما یان دین کی خدمات میں پیش کرتا ہے۔ جن کے متعلق امیدکہ آں حضرات اپنے اپنے تنقیدانہ وتحقیقانہ افادات سے ممنون فرمایئں گے۔ انما شفاء العي السوال

جمیع حضرات علماء کرام پریہ بخوبی روشن ہے کہ امت محمدیہ کے پا س مصارف زکواۃ کی دلیل آیت عظیمہ زیل ہے۔

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٦٠سورة التوبة

’’صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں۔ اور محتاجوں کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو صدقات پر کام کرتے ہیں۔ اور ان لوگوں کے لئے جن کی تالیف قلوب کی جائے۔ اور غلاموں کے آذاد کرنے اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کی مدد میں خرچ کیے جایئں۔ خداوند پاک کی جانب سے یہ حکم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘

إِنَّمَاالصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ کا معنے

1۔للفقراء کا لام جمیع سلف صالحین کے نزدیک تملیک کے لئے ہے یا نہ ؟تفاسیر شروح حدیث کے دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے  کہ اس طرف بھی آئمہ کرام کی ایک جماعت گئی ہے۔کہ لام اس آیت میں تملیک کے لئے نہیں ہے۔چنانچہ حافظ  ابن حجر نے شرح بخاری میں یہ رقم فرمایا ۔"ان اللام في قوله للفقراء لبيان امصرف لا للتمليك'' لام''فقراء کے شروع میں مصرف بیان کے لئے ہے۔تملیک کے لئے نہیں اور علامہ سیوطی نے ''اتقان'' کی کتاب الادویات میں لام کے متعدد معنی جو پندرہ سے زیادہ ہوں گے بیان کئے ہیں۔ان میں سے صرف ''لام''تعلیل کے متعلق حقیقی یا مجازی ہونے کا اختلاف اہل لسان سے ذکر کیا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ باقی معنی حقیقی ہیں۔اصول فقہ کی کتاب حصول المامول من علم الاصول مطبوعہ مصر میں ''لام'' کے بائس معنی زکر  کیے ہیں۔ جن میں  سے ہر ایک کی مثال قرآن پا ک سے دی گئی ہے۔ اورکتب نحو میں عموماً اور شرح جامی میں خصوصاً یوں مرقوم ہے۔اللام للاختاص بملكية او بغير ملكية ''لام''کے آنے اور بعد  کے چار مصرفوں میں ''فی''کے آنے کا فرق یوں بیان فرمایا ہے۔کہ پہلے چار مصرف والوں کو اپنے حاصل کردہ مال ذکواۃ میں مالکانہ تصرف کا اختیار ہے۔ اور پچھلے چار مصرف والوں کے اپنے حسب منشاء تصرف کا اختیار نہیں۔پس''لام'' سے تملیک کی شرط اجتہادی مھتمل چیز ہوئی نہ کہ قطعی اور منصوص۔

2۔وفی سبیل اللہ معنی ۔فی سبیل اللہ کے معنی میں تعین اور اس تعین پراجماع ہوا ہے۔یا نہیں؟اگ تعین اور اس پراجماع ہوچکا ہے۔تو کتب فقہ سے یہ پتہ چلتا ہے۔ کہ شافعیہ کے نزدیک اغنیاء مجاہدین کومال ذکواۃ سے دے سکتے ہیں۔اور یہ امر حنفیہ کے  نزدیک ناجائز ہے۔ااور امام ابو یوسف نادار مجاہدین کو ہی مال ذکواۃ دینے کی اجازت دیتے ہیں۔اور امام محمد نادار حاجیوں کو بھی مال ذکواۃ سے دے کر حج کرانے کی جازت اس لفظ ''فی سبیل اللہ ''سے نکالتے ہیں۔اتنے مختلف اقوال کے بعد اگر وئی یہ کہے کہ ان اقوال و مذاہب کے سوا نیا قوہل گویا اجماع مرکب کے خلاف ہے اس لئے وہ  نیا قول ناجائز قرار دیا جائے۔تو عرض یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس مقام میں اجماع کا ذکر فرمایا ہے۔وہ اصولی اصطلاح اجماع نہیں ہوتا۔کیونکہ اجماع امت کالفظ  اس مقام میں سے کسی نے زکر کیا ہو یکھنے میں نہیں آیا بلکہ اجماع الجمہور لکھا ہے۔اجماع اور جمہور کی اضافت خود اصولی اصطلاحی اجماع ہونے سے انکار کرتی ہے۔ علاوہ بریں اما قفال نے بعض آئمہ  سے عام مصارف خیر جیسے کہ امور مذکورہ اوقاف وغیرہ کو فی سبیل اللہ کے معنی میں نقل فرمایا ہے جس کو اامام رازی ۔علامہ۔بیضاوی اور صاحب خاذن نے اپنی اپنی تفسیروں میں بیان فرمایا ہے۔اور سب کے الفاظ قریب قریب حسب زیل ہیں۔

"وقال بعضهم ان اللفظ فلا يجوز قصره علي الغزاة فقط ولهذا اجازه بعض الفقاء صرف سهم في سبيل الله الي جميع وجوه الخير من تكفين الموتي وبناء الجسور والحصون وعمارة المساجد وغير ذلك وقال لان قوله تعالي وفي سبيل الله عام في الكل فلا يختص بصنف دون غيره"

اور کیا بعض علماء نے کہ لفظ عام ہے۔۔۔اس کو صرف مخصوص کرنا جائز نہیں۔اس لئے بعض فقہاء کرام نے فی سبیل للہ کا حصہ سب نیک کام مثلا تکفین ۔موتی۔پلوں اور قلعوں اور مساجد وغیرہ کے بنانے میں خرچ کرنے کو جائز رکھا۔اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان فی سبیل اللہ سب نیک کاموں کو شامل ہے۔صرف ایک جماعت کے ساتھ خاص کرنا نہیں چاہیے۔اور شرح وقایہ کے حاشیہ عمدۃ الرعایہ میں مولانا عبد الئی لکھنوی نے مصارف ذکواۃ کے مقام میں فقہ کی کتاب 'بدائع سے نقل فرمایا ہے۔وذكر في البدائع انه يشمل جميع القرب''فی سبیل اللہ کا لفظ تمام نیک مصرفوں میں شامل ہے۔امام بخاری نے اپنی جامع صحیح بخاری  کے باب العرض فی الذکواۃ میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے  ابن جمیل خلد بن ولید اور حضرت عبااسرضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے منع ذکواۃ کی ترجیہ والی حدیث نقل فرماتے ہیں۔ار سی روایت کو باب ولغارمين في سبيل الله'' میں مکرر لائے ہیں۔امام بخاری کا مدعا امام ابن حجر ؒ نے فتح  الباری میں یوں ذکر فرمایا ہے۔

امام بخاریؒ کا ستدلال

"واستدل البخاري بقصة خالد علي مشروعية تحجيس الحيوان والسلاح وان ابوقف بقاءتحت يد محتبسه وعلي جواز اخراج العروض في الزكاة"

 امام بخاری نے حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قصہ سے جانوروں اور ہتھیاروں کے وقف کرنے اور وقف کی ہوئی چیزوں کا واقف کی نگرانی میں رہنے اور زکواۃ میں نقد کے عوض متاع سے دینے پر استدلال کیاہے۔(بہر طور مال ذکواۃ وقف میں دیا گیا)

پس شرح بخاری سے معلوم ہوا کہ امام بخاری نے خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے واقعہ وقف کو زکواۃ میں شمار فرمایا۔اور ایت فی سبیل اللہ میں تملیک کو غیر ضروری سمجھا۔ جو حضرات کرام کے خلاف ہے۔اور وقف منقول کو بھی سمجھا اور یہ امر فقہائے کوفہ کے مخالف ہے اور زکواۃ میں نقد کے عوض متاع دینا ثابت کیا جو فقہائے حنفیہ کے موافق ہے۔

الحاصل امام بخاری کے استدلال کے جواب میں کونسی آیت یا حدیث صریح حضرات مانعین پیش فرما سکتے ہیں۔؟رہے مانعین  کے احتمالات کی بہ نسبت واضح ترین اور اقرب الی الدلیل ہو تو امام بخاری کے استدلالات کا قطعی اور تسلی بخش جواب کیا ہوگا۔؟

مذکورہ بالا معروضہ پیش کرنے کےبعد مجوزین کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے۔کہ آیت مصارف میں سے سات حصےخاص خاص افراد یا جماعتوں پر خرچ کئے جایئں۔ اور ایک حصہ عام مصارف کے خیر کے لئے رکھ  دیا جائے۔تاکہ آٹھویں مصرف میں سہولت کے ساتھ امور مذکورہ ادا کیے جایئں۔ ورنہ تبرعات تطوعات اختیاری امور ہیں۔جن پ جبر و اکراہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ کرنے والوں پر وعید بھی نہیں ہوتی۔اور بنا مساجد ومدارس دینی اور مصارف تبلیغ وغیرہ خدانخواستہ بالکل متروک کئے جایئں گے۔چونکہ زمانہ موجودہ میں یہ مسئلہ مہمات مسائل میں سے ہے۔ لہذا بفرض استفادہ یہ امر بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بوقت شدت حاجت فقہائے کرام نے بھی اپنے امام کے خلاف دوسرے امام کے فتوے پرعمل کرنے کی اجازت دی ہے۔چنانچہ اجرت  تعلیم قرآن کی نسبت صاحب ہدایہ نے فرمایا ہے۔ کہ اجرت علی تعلیم القرآن جائز نہیں۔مگر متاخرین بوجہ ضرورت اجازت دی ہے۔تاکہ  تعلیم قرآن معدوم نہ ہو اور اس طرح مفقود الزوج کے نکاح کا مسئلہ معروف بین  لعلماء ہے۔

شاہ ولی اللہ ؒ صاحب کی رائے۔

 انہیں امور کو مد نظر رکھ رک حضرت  شیخ الاسلام شاہ ولی اللہ صاحبد ہولوی نے حجۃ اللہ بالغہ میں گویا امام بخاری کا مسلک ااختیار فرماتے ہوئے یوں ارشاد  فرمایا ہے۔

"وعن ابي الاس حملنا النبي صلي الله عليه وسلم علي ابل الصدقة الحج وفي انضيح واما خالد تظلمون خالدا وقد احتبس ادراعه واعتده في سبيل الله"

"وفيه شيا جوازان بعطي مكان ئيئ  شيا اذا كان انفع للفقراء وان الحبس تجذي عن الصدقة وعلي هذا فالحصر في قوله تعالي انما الصدقات اضاني بالنسبة الي ما طلبه المنافقون في صرفها فيما يشتهون علي ما يقضية سياق الاية والسر في ذلك ان الحاجات غير محصورة و وليس في بيت المال في بلاد الخالصة للمسلمين غير الزكوة كثير مال في فلا بد من توسعة لنكفي نوائب المدينة والله اعلم"

’’ابو آلاس سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ہم کو صدقہ (ذکواۃ)اونٹوں پر حج کے لئے سوار کرایا۔ اور صحیح بخاری میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم خالد پر ظلم کرتے ہو جو اس سے زکوۃ طلب کرتے ہو۔ حالانکہ اس نے بکتر اور ہتھیار اللہ کی راہ میں وقف کئے ہیں۔‘‘

’’اس حدیث سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں۔ایک تو ایک چیز کے عوض دوسری چیز زکوۃ میں دے سکتے ہیں۔جب کہ دوسری چیز فقراء کے لئے زیادہ نافع ہو اور یہ کہ وقف صدقہ ذکواۃ کے بدلے کافی ہے۔میں یہ کہتا ہوں (یعنی شاہ  صاحب فرماتے ہیں)کہ اس صورت میں حصر فرمان خداوندی انما الصدقات کے جملہ میں اضافی ہے۔ منافقوں کے مطلب کے مقابلہ میں کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کی خواہشوں کے مطابق ذکواہ کی رقم بے جا صرف کی جائے۔ جیسا کہ آیت روانی کا مقتضاء ہے اور ذکواۃ کے مصرف میں واقف کو داخل کرنے میں راز یہ ہے کہ ضروریات بے شمار ہیں۔ اور مسلمانوں کے خالص شہروں  میں زکواۃ کے سوا کوئی معتدبہ نہیں ہوتی۔لہذا ضرور ہوا کہ کسی مصرف ذکواۃ میں وسعت ہوجو کافی حاجات ہوجیسا کہ آیت کے نزول کے موقعہ پر مدینہ مسلمانوں کا خالص شہر تھا۔‘‘

نوٹ

مضمون ہذا کے جواب میں مولانا محمد اسماعیل مدراسی نے ایک طویل مدلل مضمون لکھا ۔جو اخبار توحید کی کئی اشاعتوں میں شائع ہوا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آیت شریف للفقراء میں لام محض تملیک کےلئے ہے۔ااور مساجد اور دینی مدارس پر ذکواۃ صرف کرنا جائز نہیں۔افسوس کے مضمون معلومات کے لہاظ سے قیتی ہے۔ مگر عدم گنجائش کیوجہ سے رہ گیا اس  بحث پر بطور محاکمہ حضرت مقبول رب العالمین مصنف رحمۃ اللعالمین قاضی سلیمان صاحب جج پٹیالہ کا قیمتی مضمون درج زیل ہے۔

مذید تشریح (از قلم جناب حضرت مولانا قاضی سلمان صاحب سلمان منصور پوری (پٹیالہ)

لام کے فوائد اور تملیک کی عدم ضرورت

1۔آیت للفقراء الایۃ کا لام تخصیص کے لئے ہے۔صاحب کشاف کے الفاظ اس پر دال ہیں۔"وانها مختصة بها لا تتجاوزها الي غيرها۔"احمد آفندی نے اپنی مشہور کتاب غنیۃ الطالب وغنیۃ الراٖغب مین لام تخصیص کا زکر کیا ہے۔اور مثال میں "الجنة للمومنین وھذا الحصیر للمسجد والمنبر للخطیب" کا زکرکیا ہے۔وہ لام استحقاق کا بھی ذکر کرتے ہیں۔مثال میں الحمد للہ اور العزۃ للہ پیش کرتے ہیں۔لام تملیک کا بھی انہوں نے زکر کیا ہے۔اور لہ ما فی السموات والارض کو مثال کے طور پر  پیش کیا ہے۔بعد ازاں فاضل  مذکور یہ بھی لکھتا ہے کہ  "بعضهم يستغني بذكر الاختصاص عن ذكر المعنين الاخرين ويمثل له بالا مثلة الذكرة" لہذا جن علما ء نے لام کو تملیک کےلئے متعین نہیں کیا ان کا مسلک صحیح ہے۔حصول المامول نے بھی غالبا اسی لئے تخصیص کو ملک وعدم ملک ہردور پر حاوی کیا۔اورحافظ ابن حجر کوبھی لام کو بیان مصرف قرار دینے میں پورے تفقہ سے کام لیا ہے۔یہ کہناکہ جمیع سلف نے لام کو اس تملیک کےلئے ہی قرار دیا  ہے داخل غلو ہے۔ ہاں صاحب کشاف ن آیت صدقہ کے لاماور فی کا فرق جتلائے ہوئے لکھا ہے ۔

"فان قلت لم علل عن الام الي في في الاربعة الاخيرة قلنا لايذان بانهم ارسخ في استحقاق التصديق عليهم لمن مبق ذكره لان في للوعا ء فنبه علي انهم احقا ء بان توضع فيهم الصدقات الخ"

فی سبیل  اللہ کے متعلق اجماع کی حقیقت

2۔فی سبیل اللہ کے بارے میں تعین کی گزارش ہے کہ 1۔الف۔امام شافعی فرماتے ہیں۔

ويعطي من سهم سبيل الله جل وعز من غرامن جيران الصدقة فقيرا كان او غنيا ولايعطي منه غيرهم الا ان يحتاج الي الدفع عنهم فبخطاه من رفع عنهم المشركين (کتاب الام الجز الثانی ص 62)

امام شافعی کی تفسیر کے مطابق غاذی غنی وفقیر کو فی سبیل اللہ میں سے دیاجاسکتا ہے۔ نیز حملہ اور مدافعت ہر دو صورتوں میں دیا جاسکتا ہے۔

(ب )۔رسائل الرکان میں بحر العلوم لکھنوی (ابو العیاش عبد العلی محمد )   نے لفظ فی سبیل اللہ جملہ امور خیر کےلئے عام مان کر پھر اس سے مرادی معنی میں خاص ٹھرایا ہے۔ اور وجہ  تخصیص اجمالا بتلائی ہے۔اور  اجماع ادعائی کی صورت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے صرف ٖغزاۃ کےلئے اور امام محمد نے صرف حجاج کےلئے بتایا ہے (اجماع کہاں رہا)پھر فقراء کو شرط بتلایا۔پھر بعض کے نزدیک اس شرط کا نہ ہونا ظاہر کیا جب ہم یہ خیال کریں کہ عند لابعض کاعطف شرط عند ناہی ہے تو واضح ہوجاتا ہے  کہ یہ عدم شرط کا مذہب بھی خود علماء حنفیہ کے اندر ہے۔شافعی کا ارشاد وہ اجتہاد مذید براں ہے۔امام مالک اس بارے میں بجانب شافعی ہیں۔اب یہ بھی غور طلب ہے کہ بحر العلوم نے صرف اجماع کوتحریر کیاہے۔مگر خازن نے اجماع الجمہور لکھا ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اجماع جمہور بمعنی اجماع امت نہیں۔

زکواۃ کار خیر میں خرچ کی جاسکتی ہے۔

صاحب خان نے بالاتفاق بیضاوی لکھا ہے ۔

"اجاز بعض الفقهاء صرف سهم سبيل اله الي جميع وجوه الخير من تكفين الموتي وبناء الجسور والحصون وعمارة المساجد وغير ذلك"

اور "کنز الرقائق" میں ہے۔

"لا الي ذمي وينا ء مسجد وتكفين مت وقضاء دين وشراء عتق يعتق الخ"

ہردور میں تضاد ہے۔ اور نتیجہ صاف ہے کہ اجماع موجود نہیں۔

لفظ سبیل اللہ کی  خصوصیت اور وسعت

میرا خیال ہے کہ لفظ سبیل اللہ کا مفہوم متعین کرنے  کے لئے موارد قرآنیہ پر بھی تدبر کیا جائے. وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴿١٥٤(بقرہ)

وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـه﴿٢٤٤ (بقرہ)

لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴿٢٧٣(بقرہ)

وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ﴿٧٤ (نساء)

وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ﴿٢٠(مذمل)

ودیگر آیات ہم معنی میں سبیل للہ سے مراد غزالینا بالکل صحیح ہے۔قتل وقتال۔وہن۔وحصور۔وجہاد کے الفاظ بطور قرینہ صحہ ان میں موجود ہیں۔اب آیات زیل پر بھی  تدبر ضروی ہے۔

وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ﴿٣ (انفال۔توبہ۔ابراہیم۔)

لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ﴿٦(لقمان)

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـه ﴿١٦٧(نساء)

حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ﴿٨٩(نساء) وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ﴿٢٢(نور)

ہرسہ آیات میں سبیل اللہ سے مراد دین حقہ ااور اسلام اورسہ آیات مابعد میں سبیل اللہ سے مراد ہجرت لینا اور غزا مراد لینا زیادہ انسب ہوگا۔(ھ)اگر سبیل اللہ اور سبیل لرب ہم معنی ہیں۔توآیہ   فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيل ﴿١٩(مزمل وانسان) کو بھی زیر نظر رکھناچاہیے۔لفظ سبیل ضمائر کے ساتھ بھی مستعمل ہوا ہے۔اور جہاں جہاں ضمیر کا مرجع اللہ ہے۔ان سب کو بھی شامل تدبیر کر لینا چاہیے۔لفظ سبیل کی وسعت معنی کا خیال آیات زیل کے شمول سے بھی ہوجاتاہے۔

 إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا﴿٣٢ (اسرائیل)

فَمَا جَعَلَ اللَّـهُ لَكُمْ ﴿٩٠(نساء)

إِذًا لَّابْتَغَوْا إِلَىٰ ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا﴿٤٢ (اسرائیل)

اس طرق سے صرف یہ اطمینان مقصود ہے کہ آیت مصرف صدقہ میں بھی لفظ سبیل اللہ کو سیع معنی میں لیا گیا جب کہ مفسرین نے تحریر فرمایا ہے۔اور جب کہ فقہاء نے بھی لفظ کا معنی عموم میں ہونا تسلیم فرمایا۔

حج بھی سبیل اللہ میں داخل ہے۔

(و)سنن ابی دائود کی حدیث عن معقل میں نبی کریم ﷺ کے الفاظ مبارکہ یہ ہیں۔ فان الحج من سبيل الله  یہاں تخصیص غزا (بقول ابو حنیفہ وشافعی) تخصیص حج بقول محمد اٹھا جاتی ہے۔ اور حرم من ا س لفظ کے وسیع المعنی ہونے پر دال ہے۔

شاہ ولی اللہ صاحب کا خیال

حکیم الامت شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں۔

"فالحصر في  قوله انما الصدقات اضافي بالسبية ما طلباء المنافقون في صرفها في مايشتهون علي ما يقضيه سياق الاية والسر في ذلكان الحاجات غير محصورة وليس في بيت المام في البلاد الخالصة للمسلمين غير الزكواة كثير مال فلا بد تمن توسعة لتكفي نوائب المدينة والله اعلم"(ص239حجۃ اللہ البالغۃ)

امر مطلوب نوائب (ضروریات) تمدن کی کفایت ہی) اور وہ غیر محصور ہیں۔اور یہی امر وسعت معنی کا متقضی ہے۔یعنی نوائب المدینہ کا ترجمہ حاجات تمدن سمجھا ہے۔ بایں اعتبار کے تقیم حصص وغیرہ کی ضمن  میں بھی متعدد روایات میں نوائب الناس یا نوائگب المسلین کے الفاظ مستعمل ہوئے ہیں۔

امام ابن القیم اور مصالح اسلام

امام ابن قیم  فرماتے ہیں۔

"وكان رسول الله صلي الله عليه وسلم يصرف سهم الله وسهمه في مصالح الاسلام (زاد المیعاد جلد 164)

ظاہر ہے کہ عبارت بالا میں سہم اللہ  سے مراد وہ سہام ہیں۔جن کا زکر آیت غنیمت(سورۃ  توبہ) و ایت (سورۃ حشر) میں ہوا ہے۔  لہذا آیت صدقہ کا لفظ فی سبیل اللہ کو بھی اگر تحت مراد سہم اللہ قرار دیا جائے تو اس کا تعلق بھی مصالح السلام سے واضح ہوجاتا ہے۔

امام ابن  قیم کے دو اصول

(ی) امام ابن القہم نے زاد المعیاد میں اگرچہ فی  سبیل اللہ  کے معنی الغزوہ فی سبیل اللہ لکھے ہیں۔ مگر انھوں نے اصناف ثما نیہ کو دو اصول پر منقسم کیا ہے۔1۔شدت احتیاط فقراء مساکین ورقاب والبن السبیل اس میں داخل ہیں۔

2۔منفعت عامل معولفۃ القلوب غارمون غزاہ اس میں داخل ہیں۔اسن کا آخری فقرہ قابل توجہ ہے۔

"فان لم يكن للاخذ محتاجا ولا فليه منفلعة للمسلمين فللاسهم له في الزكواة"

امام بخاری کی حدیث باب عرض ذکواۃ میں نبی کریمﷺ کا ارشاد ہوا۔

"وما خالد فقد احتبس ادراعه واعتده في سبيل الله"

ان کے معنی پر ضرور مستعمل ہے۔ جو علامہ ابن حجر عینی ابن رشید نے بیان فرمائے ہیں۔ وہ میرے نزدیک الفاظ مبارک وسعت معنی فی سبیل للہ بھی بیان کرتے ہیں۔ اور نفی تملیک بھی اگرچہ فی سبیل اللہ کے الفاظ فی کے  تحت میں ہیں۔اور لام ک تحت ہیں۔

استدلال بخاری کے خلاف کا پتہ نہیں

(ل)آج تک کوئی روایت ایسی نہیں گزری جواستدلال بخاری کی ناقض ہو جناب کا تحریر فرمانا کہ  بوقت شدت حاجت حضرات فقہاء کرام نے  بھی اپنے مذہب کے خلاف دوسرے امام ک فتوے پر عمل کی اجازت دی ہے۔بالکل درست ہے۔اوراجرت علی تعلیم القرآن ونکاح مفقودہ الزوج کی نظائر بحوالہ ہدایہ بھی درت ہیں۔ مزید برآں میں جناب کی توجہ قاضی ثناء اللہ صاحب کی تفسیر مظہری پردلانا چاہتا ہوں تفسیر سورہ انفال ص 35 پر قاضٰ صاضن نے جن کو بیقی وقت کہا گیا ہے تحریر کیا ہے۔

"فقال ابوحنيفة سهم ذوي الفربي ايضا سقط بموت رسول الله صلي الله عليه وسلم"

چند سطور کے بعد لکھا ہے

"وهو قول ابي حنيفة وابي يوسف ومحمد "

بعدازاں ان وجوہات کا اندراج کیا ہے۔ جو صاحب ہدایہ اور طحاوی نے مذہب بالا کی تایئد میں لکھے ہیں۔بایں ہمہ اپنی تحقیقات اور دلائل کولکھ کر تحریر فرمایا ہے۔

"وبهذا ثبت ان سهم ذوي القربي لم يسقط"

غور کیجئے کہ اسف علامہ نے قوت دلائل کی وجہ سے امام صاحبین  کے مذہب پر جمود نہیں کیا۔اورصاحب ہدایہ اورطحاوی کے دلائل کی تصنیف میں بھی تامل نہیں کیا۔حالانکہ ان کی تمام ت تفسیر فقہ حنفیہ کی تایئد پر مشتمل   ہے۔

(ن) لیکن میں یہ عرض کروں گا کہ جب امام القاضی ابو یوسف نے فی سبیل  کے معنی فی اصلاح طرق المسلمین  تحریر فرمادیے تو اندریں صورت خود مذہب حنفیہ کے اندر سند اور دلیل ملک گئی ہے۔ اور اس تفسیری عبارت (اصلاح طرق المسلمین) نے زمانہ حال کے ضروریات کے اہتمام اور  انصرام کےلئے سبیل الرشاد کو کھول دیاہے۔

(س) علمائے ہند کے لئے یہ امر بھی قابل ٖغور ہے کہ جب اس ملک میں بزمانہ حال ٖغزاۃ فی سبیل اللہ کی جماعت موجود ہی نہیں تو کیا ان کا سہم ساقط نہ ہوجائےگا۔ اور کیا اس سہم کادیگر امور مرضیات الٰہی میں  صرف کرنا صحیح نہ ہوگا۔جب کہ امام ہمام اورصاحبین نے آیات غنیمت میں وفی میں سقوط سہام رسول وزوی القربیٰ کے بعد ان کا مصرف دیگر اہل سہام کو قرار دیا ہے۔ اور آیات صدقات میں بھی مولفۃ القلوب کے متعلق بھی مسلک اختیار کیا ہے۔

(ع) میں اس طول کلامی کی معافی کا طالب ہوں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ میں آنجناب سے ہی متفق ہوں۔ واسلام(توحید امرتسر 20ر جب 1347ہجری)

نوٹ

 یہ مضمون حضرت قاضی صاحب مرحوم نے مولانا فضل اللہ صاحب کے خط کے جواب میں تحریر فرمایا تھا۔ اسی لئے طرز تحریر مخاطبانہ ہے۔(اخبار مذکور)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 702-720

محدث فتویٰ

تبصرے