السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یہاں بہت مدت سے یہ دستور ہے۔ کہ ماہ رمضان لمبارک کی ستایئسویں شب کو چندہ کر کے کچھ روشنی زیادہ کی جاتی ہے۔ اور جس قدر مستورات اور مرد جمع ہوتے ہیں۔ سب کو بعد نماز تراویح چائے پلائی جاتی ہے۔ اس کے بعد وعظ ہوتا ہے۔ وعظ کے بعد شیرینی اور کحجور اور اجوائن سب کو تقسیم ہوتی ہے۔ تو کیا یہ فعل سنت ہے یا بدعت؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
از قلم مقبول رب العالمین حضرت محمد سلیمان صاحب پٹیالوی مصنف رحمۃ اللعالمین
علم الاقتصاد یا تمدن یا پولٹیکل اکانومی کا سب سے مشکل مسئلہ یہ ہے کہ افراد رقوم میں بہ لہاظ دولت کیونکہ ایک تناسب قائم کیا جائے۔
حکیم سولون کے عہدے سے لے کر آج تک کوئی انسانی دماغ اس عقیدہ کی گرد کشائی نہیں کرسکا۔ یورپ میں نہلسٹ جن کا مقصد یہ ہے کہ جملہ املاک وامتیاذات پر افراد قوم کا مساوی حق تصرف ویکساں حق مالیکت ہو نیشنلسٹ جن کا مقصد یہ ہے کہ اراضی سکنی وزرعی کا ملیکت و پیداار کو شخصی قبضہ سے نکال لیا جائے۔ سوشلسٹ جن کا مقصد یہ ہے کہ اسباب معیشت پر سے شخصی ملکیت کو اٹھادیا جائے۔ اور جمہور کو ملک میں کردیا جائے۔ فرقے اسی لیے پیدا ہوگئے ہیں کہ اس مسئلہ کا حل کرسکیں۔
املاک پر سے حق ملکیت مالکان کا اٹھا دیا جانا اس قدر عملا محال ہے۔ کہ دنیا میں کبھی بھی اس کا رواج نہ ہوگا۔ اسی لئے قرآن مجید نے اس بارہ میں پہلے سے فیصلہ کردیا ہے۔
وَاللَّـهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ﴿٧١﴾سورة النحل
’’رزق میں اللہ نے ایک دوسرے پر برتری دی ہے۔ اور جن کو یہ برتری ملی ہے۔ وہ اپنا حصہ ان لوگوں کو جن کے وہ مالک ہوچکے ہیں۔ (اس لئے ) واپس نہ کریں گے۔ کہ سب آپس میں برابرہوجاویں۔‘‘ اسلام نے جو دنیا کو برترین متمدن قوم بنانا چاہتا ہے۔ اس مسئلہ پر توجہ کی ہے۔ اور اسے ہمیشہ کے لئے طے کردیا۔ اور اسی کا نام فرضیت ذکواۃ ہے۔
2۔ ذکواۃ 2 ہجری میں مسلمانوں پر فرض ہوئی۔ نبی ﷺ کا نیک اور رحیم دل پہلے ہی سے مسکینوں کا ہمدرد غریبوں پر رحم کرنے والا۔ درد مندوں کا غمگسار تھا۔ اور اسلام میں شروع ہی سے مساکین اور غرباء کی دستگیری پر مسلمانوں کو خصوصیت سے توجہ دلائی جاتی تھی۔ اور انکی ہمدردی کو غرباء کا رفیق بنایا جاتا تھا۔ اور مسلمان اس پاک تعلیم کی بدولت غرباء ومساکین کے لئے بہت کچھ کیا بھی کر تے تھے۔ تاہم ایسا کوئی قاعدہ مقرر نہ تھا۔ جس پر بطور''آیئن وضابطہ'' کے عمل کیاجاتا ہو۔ اس لئے دولت مند جوکچھ بھی کرتے تھے۔ اپنی فیاضی اور نیک دلی سے کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے زکواۃ کوفرض اور اسلام کا ایک رکن کلمہ شہادت اور نماز کے بعد قرار دیا۔ زکواۃ در حقیقت اس صفت ہمدردی اور رحم کے استعمال کا نام ہے۔ جو انسان کے دل میں اپنے ابنائے جنس کے ساتھ قدرتاً وفطرتاً موجود ہے۔ زکواۃ ادا کرنے سے اداد کرنے والے کو یہ فائدہ بھی پہنچتا ہے۔ کہ مال کی محبت اخلاق انسانی کو مغلوب نہیں کرسکتی۔ اور بخل امساک کے عیوب سے انسان پاک رہتا ہے۔ اور یہ فائدہ بھی کہ غریب اور مساکین کو وہ اپنی قوم کا جزو سمجھتا رہتا ہے۔ اور اس لئے بے حد دولت کا جمع ہونا بھی ا س میں تکبر اور غرو ر پیدا نہیں ہونے دیتا۔ اور یہ فائدہ بھی ہے کہ غرباء کے گروہ کثیر کو اس کے ساتھ ایک انس ومحبت او را س کی دولت وثروت کے ساتھ ہمدردی وخیر خواہی پیدا ہوجاتی ہے۔ کیونکہ وہ اس کے مال میں اپنا ایک حصہ موجود قائم سمجھتے ہیں۔ گویادولت مند مسلما ن کی دولت ایک ایسی کمپنی کی دولت کی مثال پیدا کرلیتی ہے۔ جس میں ادنیٰ اور اعلیٰ حصے کے حصے دار شامل ہوتے ہیں۔
قوم کا یہ فائدہ ہے کہ بھیک مانگنے کی رسم قوم سے بالکل مفقود ہوجاتی ہے۔ اسلام نے مساکین کا حق امراء کی دولت میں بنام ذکواۃ اموال نامیہ یعنی ترقی کرنےوالے مالوں میں مقرر کیا ہے۔ جن میں سے ادا کرنا کبھی ناگوار نہیں گزرتا۔ اموال نامہ میں تجارت زراعت اور مویشی (بھیڑ۔ بکری۔ اور اونٹ۔ گائے) نقدیت ۔ معاون او ردفائن شمار ہوتے ہیں۔ اب یہ دکھلانا ضروی ہے۔ جو نقد جنس ذکواۃ سے حاصل ہو۔ اس کے مستحق کون کون لوگ ہیں۔ قرآن مجید میں ہے
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ﴿٦٠﴾ سورة التوبة
’’زکواۃ اور صدقات کا مال 1۔ فقیروں۔ 2۔ مسکینوں کے لئے ہے۔ فقیروں او مسکینوں کا فرق کتب فقہ میں دیکھو 3۔ تحصیل داران زکواۃ کےلئے جن کی تنخواہیں ادا ہوں گی۔ 4۔ اور ان کے لئے جن کی دل افزائی اسلام میں منظور ہو یعنی نو مسلم لوگ 5۔ اور غلاموں کو آزادی دلانے کےلئے 6۔ اور ایسے قرضہ داروں کا قرضہ چکانے کےلئے جو قرض نہ اتار سکتے ہوں۔ 7۔ اور اللہ کے رستے میں (یعنی دیگر نیک کاموں کےلئے) اس کی تفصیل بھی کتب فقہ میں دیکھئے۔ 8۔ اور مسافروں کے لئے ہے۔‘‘
جن آٹھ مدات پر زکواۃ تقسیم کی گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ زکواۃ کی فرضیت سے ملک اور قوم اور افراد کی نوعی وشخصی ضروریات کو کیسی خوبی سے پورا کردیا گیا ہے۔ (رحمۃ اللعالمین)
نہلمسٹ کا مقصد یہ ہے کہ جملہ املاک وامتیازات پر افراد کا مساوی حق تصرف ویکساں حق ملکیت ہو۔ سوشیالسٹ کا مقصد یہ ہے۔ کہ اسباب معیشت پر سے شخصی ملکیت کواٹھادیاجائے۔ اور جمہور کی ملیکت میں کردیاجائے۔ نیشنلسٹ کا مقصد یہ ہے کہ اراضی سکنی وزرعی کی ملکیت و پیداوار کوشخصی قبضہ سے نکال لیا جائے۔
میں کہتا ہوں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ۔ خالقیت۔ رازقیت۔ الوہیت۔ وحدانیت۔ وارسال رسل ؑ وغیرہ صفات کے قائل نہیں۔ جو انکو قرآن مجید یا احادیث نبویہ سے قائل کیاجائے۔ لہذا ان پر برہان عقلی پیش کیا جاسکتا ہے۔ وہ یہ کہ ان سب اقوال کا خلاصہ ہے کہ کسی شخص کا کسی امر ملکیت اراضی و اسباب معیشت وغیرہ کل شے میں شخصی حق تصرف نہیں۔ صرف جمہور یا حکومت کا حق ہے۔ جس کو جتنا چاہہے دے باقی سب پر در تصرف بند ہے۔ سو یہ قول بالکل خلاف عقل ہے۔ کہ اولا تو یہ مساوات اس امر پر موقوف ہے۔ کے تمام افراد قوم عقل ہمت خلق قوت کسب انتظام نفسانی خواہش وغیرہ امور نظام صالح میں یکساں ہوں اور تجربہ شاہد عدل ہے کہ یہ مساوات قطعا ثابت نہیں ان میں بے حد اختلاف ہے۔ ااگر اختلاف نہ ہو تو پھر حکومت کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ حکومت ہی بیکار ہے۔ اور یہ امر بھی بدہی ہے لہذا مساوات ناممکن ہے۔ دوم جب امزجہ میں اختلاف شدید ہے۔ تو فساد فی الارض لازم ہے۔ پھر اگر جمہوریا حکومت نے جبراً ان کے حق مساوات کو سلب کیا ثابت ہوا کہ ان کا یہ قانون باطل ہے۔ اس لئے کہ اگر تمام افراد قوم امور بالا مذکورہ میں یکساں ہوتے ۔ تو واقعی ملیکت املاک وحق تصرف تمام اشیاء میں مساوات کے مستحق ہوتے ۔ واز لیس فلیس۔ سوم اگر تمام افراد قوم کی رضا مندی سے صحیح طور سے جمہور کا انتخاب یعنی ارباب حکومت کا ہوتب تو واقعی حکومت کا ان پر حکم بجا ہے۔ مگر جب ثابت ہوچکا کے سب کے مزاجوں میں امور مذکورہ بالا میں اختلاف شدید ہے۔ تو رضا مندی سے سب کا اتفاق نا ممکن ہے۔ اور جبر سے ان کا قانون مذکورہ ٹوٹ جاتا ہے۔
بات وہ منہ سے کہی ہے کہ بنائے نہ بنے بوجھ وہ سر پر لیا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
چہارم املاک و اسباب معیشت میں ہرشخص کا سامان ضروری لباس مرکب مکان رہائش حتیٰ کے ملک منافعہ بصیغہ یعنی تصرف زوجہ پر بھی ایک قسم کی ملکیت ہے پھر کیا ہر شخص کو افراد قوم سے اختیار ہے کہ جب چاہے اشیاء مذکورہ میں سے جس شخص کا ان پر قبضہ ہے۔ وہ بھی اس پر قابض ہوجائے۔ اور اپنے تصرف میں لائے۔ حتیٰ کہ اس کی زوجہ کو بھی اس لئے کہ ہر شخص کا ہر شے میں حق تصرف مساوی ہے۔ ترجیح کی کوئی وجہ نہیں پھر اگر حکومت روکے تو ان کے حق تصرف کو سلب کرناظلم ہے۔ اورقانون بھی ٹوٹتا ہے اور اگر نہ روکے تو فسا د فی الارض لازم آتا ہے۔ اسی فساد فی الارض کی اصلاح اور نظام صالح کے لیے اللہ تعالیٰ دنیا میں انبیاء علیم السلام کو مبعوث کرتا رہتا ہے۔ ا گر انسانی عقل ہی نظام صالح کے لئے کافی ہوتی تو پھر ارسال انبیاء ؑ کی ضرورت نہ ہوتی واز لیس فلیس۔
پنجم۔ اگر کوئی شخص اشیاء مذکورہ بالامیں سے جو ارباب حکومت کےتصرف میں ہیں۔ ان میں بلااجازت ان پر قبضہ کرے۔ تو کیا ارباب حکومت اس کو روا رکھیں گے۔ اورگوارا کریں گے ہرگز نہیں۔ اگر نہیں تو کیوں اس لئےہر شخص افرادقوم میں سے ہر شے پر خواہ کسی کی ہو۔ ارباب حکومت ہوں یا کوئی اور یکساں ہرشے میں حق تصرف مساوی ہے۔ کسی کی تخصیص نہیں ورنہ ترجیح بلا مرجح ہے جو باطل ہے۔ ششم جب ثابت ہوچکا کہ تکام افراد کے مزاجوں اور اور خواہشوں میں اختلاف شدید ہے۔ اور رضا مندی سے قوانین مذکورہ پر صحہح انتخاب نا ممکن ہے۔ تو پھر جمہور کی حکومت ہی خلاف عقل وصریح ثلم ہے۔ کہ بلاوجہ وجہیہ سب پر حکومت کریں۔ جب کہ ان کو کسی پر فوقیت کی کوئی وجہ نہیں۔ تو یہ مساوات نہ ہوئی۔ صریح ظلم اور بے انصافی اور مساوات کا ابطال ہوا۔
ہفتم اگر بالفرض ان قوانین مذکورہ پر عمل کیاجائے تو پھر ہر شخص کی محرمات ابدیہ کے علاوہ اس کی زوجہ پر بھی ہرشخص کا حق تصرف ثابت ہوگا۔ تو پھر حلال وحرام حرام زاہد اور حلال زہادہ میں کیا فرق ہوگا،کچھ بھی نہ ہوگا کسی کی نسل صحیح نہ ہوگی۔ حرام زادگی کے علاوہ دیوثی کا بازار بھی گرم ہوگا۔ اخلاق حسنہ کانام ونشان نہ ہوگا۔ بدمعاشی سے فساد فی الارض کا دور دورہ ہوگا۔ پھرایسے ہی بدمعاشوں پر قیامت قائم ہوگی۔ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ جب اللہ کی ہستی اور خالقیت وغیرہ شرائع کے قائل نہیں تو بتایئے۔ آپ کی ماں بیوی بہن بیٹی میں کیا فرق ہے۔ کے بعض سے رفع حاجت یا خواہش نفسانی جائز اور بعض سے ناجائز اس پر کونسا برہاں عقلی ہے۔ بینوا ان کنتم صادقین۔
ہشتم۔ جب یہ لوگ وہیں اللہ تعالیٰ کی الوہیت۔ خالقیت۔ رازقیت۔ قیامت وغیرہ کے قائل ہی نہیں۔ تو پھر ان میں خدا ترسی یا رغبت ثواب یا خوف عذاب نہ ہوگا۔ اور خواہش نفسانیہ اور شہوت کا زور ہوگا۔ تو وہ بلاخوف بدکاری بدمعاشی کریں گے۔ چنانچہ ارباب حکومت ہی سب سے زائد حصہ اس میں لیں گے۔ تو پھر مساوات کہاں رہے گی۔ اور ابھی تجربہ کرکے دیکھ لیجئے۔ جہاں اس کا چرچا ہے وہاں رعایا کو حکومت نے قید کررکھا ہے۔ املاک جبراً سلب کر لیے ہیں۔ زرا کسی نے انکار کیا مار مار کے بھس بھر دیا۔ سخت سے سخت سزا قید وغیرہ دی۔ ا ن کی ساری آذادی سلب کر رکھی ہے۔ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں اور وہ بے چارے بے بس ہیں۔
نہم۔ اول تو یہ لوگ حلال وحرام جائز و ناجائز کو جانتے ہی نہیں نہ یہ جانتے ہیں کہ انصاف وعدل کیا ہے۔ اور بے انصافی اور ظلم کیاہے۔ اس لئے کہ ان امور کو سوائے اللہ کے کوئی نہیں جان سکتا۔ کہ آپس میں ایک دوسرے کے کیا کیا حقوق ہیں۔ کیا کیا مراتب ہیں عدل کیا ہے۔ ظلم کیا ہے۔ عدل اور ظلم کا علم مراقبہ حقوق پر موقوف ہے۔ اور یہ اللہ ہی جانتا ہے جو خالق کل ہے۔ ایسے ہی مساوات کا علم بھی اسی کوہے۔ اس لئے کہ یہ حقوق ومراتب ان کے علم پر موقوف ہیں۔ اور یہ اسی وحدہ لاشریک لہ کو ہے۔ اسی لئے اس نے انبیاء ؑ کو بھیج کر ان پر کتب ناز ل کر کے سب امور کہ تفصیل بتادی۔ جو قرآن مجید میں ہے اور احادیث نبویہ میں پس مساوات عقلی بھی اور شرعی بھی یہ کہ ہر زی حق کو جس جس کو اللہ نے جو جو حقوق عطا کیے ہیں۔ وہ ان کو دیئے جایئں یہ ہے انصاف اور مساوات ۔
دھم۔ یہ لوگ جن قوانین پر چلانا چاہتے ہیں۔ کیا یہ تاریخ سے ثابت کرسکتے ہیں۔ جہاں کہیں بھی شبہ ہوگا وہیں صریح جبر واستبدادوظلم ثابت ہوگا۔ اور پس یہ قوانین کی ہیں۔ وسواس الشیاطین ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس کا علاج بتایا ہے۔ پڑھو۔
وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ ﴿٩٧﴾ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ ﴿٩٨﴾
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ﴿١﴾ مَلِكِ النَّاسِ ﴿٢﴾ إِلَـٰهِ النَّاسِ ﴿٣﴾ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ﴿٤﴾ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ﴿٥﴾ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ﴿٦﴾
تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ..........﴿١٩٦﴾سورة البقرة
وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٢١٣﴾سورة البقرة
روٹی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے اسلام نے بڑے اہم پروگرام بنائے ہیں جب سوسایئٹی غیر منظم ہو۔ تو خیرات پر زوردیا ہے۔ اورساتھ ہی زکواۃ کے زریعے دولت کی بہتر تقسیم کی صورت پیدا کی ہے۔ یہاں تک زور دیا ہے کہ قرب وجوار کے ننگوں اور بھوکوں کو کھانا کپڑا دینے کو اللہ نے خوداللہ کو کپڑا دینے کے مترادف قراردیا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ پوچھے گا'' میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہیں دیا تھا۔ اس پر لوگ کہیں گے اے اللہ تو بھوک سے بے نیاز ہے۔ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ تو بھوکا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرمائےگا کہ میرے بندے بھوکے تھے تو گویا میں ہی بھوکا تھا۔ ان کو تم نے کھانا نہیں دیا گویا مجھے نہیں دیا۔
اس روٹی کے مسئلے پر زور دینے کے لئئے الخلق عیا ل اللہ (خلق اللہ کا خاندان ہے) کا فلسفہ پیش کیاگیا۔ یہاں ایک اور اصولی بات کی طرف اشارہ ضروی ہے۔ قرآن کی ایک آیت ہے
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا﴿٦﴾ سورة هود
(زمین پر چلنے والا زی حیات ایسا نہیں جس کے رزق کی زمہ داری اللہ پر نہ ہو۔ ) اس کا مطلب عام طور پر یہ لیاجاتا ہے۔ کہ رزق کی فکرفضول ہے۔ کیونکہ اس کی زمہ داری اللہ نے لے لی ہے۔ اس آیت کارائج الوقت مطلب تو ظاہرا غلط ہے۔ کیونکہ 1943 ء کے قحط میں 45 لاکھ آدمی بھوک سے مرگئے۔ ان میں مسلم مشرک نیک وبد عورت اور بچے سب ہی تھے۔ اور یوں بھی دنیا کے ہر گوشے میں آج کل کھانا نہ ملنے سے لوگ مرا ہی کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ جو آیت کا مطلب لیا گیا وہ غلط تھا۔ اصل یہ ہے کہ اللہ پر رزق کی زمہ داری ضرور ہے۔ مگر یہ زمہ داری خلافت الہییہ کے زریعے پوری ہوتی ہے۔ اللہ نے انسان کو زمین ر خلیفۃ اللہ بنایا ہے
إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ﴿٣٠﴾سورة البقرة (ہم نے زمین پر اپنا نائب بنایا)
پس زمین پر انسان کو خلافت الٰہیہ قائم کرنی چاہیے۔ اس خلافت الٰہیہ پر رزق کی زمہ داری آجاتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ زمہ داری انسان پر بحیثیت مجموعی عائد ہوتی ہے۔ انسان کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ قوانین الٰہی کے مطابق اپنا نظام درست کرلے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو بنی نوع انسان میں روٹی کا سوال حل ہوجائےگا۔ اور ہر انسان کے رزق کی زمہ راری قانون کے مطابق پوری ہوتی رہے گی۔ لیکن اگر انسان نے بغاوت کی اور اللہ کے قوانین کے خلاف نطام طاغوتی بنانا شروع کردیا۔ تو یہ زمہ داری پوری کرنے والی مشنری ٹؤٹ جاتی ہے۔ اور بھوک کی مصیبت عذاب بن کر نازل ہونے لگتی ہے۔ سوسائٹی کو سزا ملتی ہے۔ جن قوانین الٰہیہ پر چلنا رزق عام حصول کے لئے خلافت الٰہیہ کے اصول پر ضروری تھا ان کےتوڑنے سے قحط واقع ہوتاہے۔ اور لوگ مرتے ہیں۔ قحط عموما بلکہ ہمیشہ انسان کا بنایا ہوا ہوتا ہے۔ جوقحط برسات کی کمی کے باعث پڑتا ہے۔ اسکی ز مہ داری بھی حضرت انسان پر ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ آبپاشی کے دوسرے زرائع یا نقل وحمل کے وسائل نہیں استعمال کرتا تصور یہ ہے کہ انسان اپنی قسمت کا خود مالک ہے۔ اللہ نے خلافت الٰہیہ کے قوانین بنادیئے ہیں۔ ان پر عمل کرنے کے بعد کوئی بھوکا نہیں رہ سکتا۔ جب معاشرہ غیر منظم ہو یعنی روٹی کامسئلہ الجھا ہوا ہو۔ تو فوری امداد۔ کے لئے قرآن نے بھی اور حدیث نے بھی بھوکوں کو کھانا کھلانے کی اہمیت نماز سے زیادہ رکھی ہے۔ قرآن کی مشہور آیت
لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ﴿١٧٧﴾ سورة البقرة
’’ترجمہ۔ ایمان یہ نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو۔ بلکہ ایمان تو یہ ہے کہ آدمی اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخر ملائکہ اور کتب اور نبیوں پر اور اپنا مال اللہ کی محبت میں زوی القربیٰ والیتمیٰ والمساکین مسافروں سائلوں اور غلام کو آذاد کرنے کے لئے دے۔ اور نماز قائم کرے۔ اورزکواۃ دے۔‘‘ الخ۔ اس آیت میں نماز سے پہلے بھی عزیز واقارب اور مساکین وغیرہ کو دینے حکم دیا گیا ہے۔ اور نماز روزہ زکواۃ سے بھی پہلے ان چیزوں کو ایمان بتایا گیا ہے۔
حدیث میں لفظ ''سہو'' کی تشریح ایمان ہی سے کی گئی ہے۔ اس ایت میں ایمان کی تشریح میں نماز کو غربامساکین کی امداد سے بعد کا درجہ دیا گیا ہے۔ اور زکواۃ کو بھی بعد میں رکھا گیا ہے۔ اس آیت کی بنیاد پر ابو زرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہنگامہ بپا کیا تھا۔ بعض صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی رائے تھی کہ جس شخص نے اپنے مال کی زکواۃ دے دی اور کچھ دے یا نہ دے اس پر گناہ نہیں ہوگا۔ لیکن ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کاحوالہ دیکھ کرکہتے تھے کہ نہیں زکواۃ سے پہلے اسے زوی القربیٰ مساکین وغیرہ کے مر حلوں سے گزرنا ہوگا۔ اگر اس نے اس کے دینے میں کمی کی تو اس کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
حضرت ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا استدلال صحیح تھا۔ یہ کھلی حقیقت ہے۔ دوسرے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا استدلال احادیث پر مبنی تھا۔ جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ زکواۃ دینے کے بعد سارا مال پاک ہوجاتا ہے۔ اوراسے جمع کیا جائے تو وہ کنز نہیں کہلائے گا۔ اور کے لئے کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ استدلال صرف اسی حالت میں صحیح ہوسکتا ہے۔ جب کہ زوی القربی مساکین اوردوسرے گروہ احیتاج کی مصیبت میں نہ مبتلا ہوں۔ اگر یہ لوگ محتا ج ہیں تو صرف زکواۃ کافی نہیں۔ بلکہ انسان کو اس سے بھی زیادہ دینا پڑے گا۔ اور ایسا بھی ایک وقت آسکتا ہے۔ کہ اسٹیٹ یا جماعت انسان کاسب کچھ چھین لے۔ صرف فوری خرچ کے لئے چھوڑ دے۔ قرآن مجید کی آیت بالکل واضح ہے
وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ﴿٢١٩﴾سورة البقرة
’’اے رسولﷺ وہ تجھ سے پوچھتے ہیں۔ کہ کیا دیدیں۔ ان سے کہہ دو کہ جتنا فوری ضروریات سے زیادہ ہو وہ سب دے ڈالو گے‘‘
اس آیت میں روٹی کامسئلہ حل کرنے کے لئےاور اس اصول کو قائم کرنے کے لئے کہ تمام ملکیت کی مالک در اصل قوم ہے۔ ایک انتہائی علاج تجویز کیا گیا ہے۔ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ سے یکے بعد دیگرے سوالات کیے تھے۔ کہ یا رسول اللہﷺ جس کے پاس فلاں فلاں چیز ہو وہ بھی دے دے۔ آپ ہر مرتبہ یہی جواب دیتے رہے کہ ہاں وہ بھی دے دے۔ آخر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم سمجھ گئے کہ ہمارا مالکانہ حق صرف ہماری فوری ضروریات پوری کرنے والی چیزوں پر ہے۔ باقی سب اللہ کے لئے ہے۔ اسلام روٹی کے مسئلے کو حل کرنے کےلئے ہر انتہائی اقدام کا حکم دیتا ہے۔ اگرکوئی اسٹیٹ روٹی کے مسئلے کو حل نہیں کر سکتی۔ وہ اسلامی اسیٹیٹ کہلانے کی مستحق نہیں ہے۔ کیوکہ خلافت الٰہیہ کا پہلا حق دنیا میں رزق کی زمہ داری کو پورا کرنا ہے۔ رسول اللہﷺ کے زمانے میں اس مسئلہ کوحل کرنے کےلئے صرف اصول طے پائے تھے اتنا موقع نہیں ملا کہ تفصیلات طے پاجایئں۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بعض تفصیلات کی تعین ہوئی۔ لیکن تفصیلات ہر دور میں اصول کے تحت بدلا کرتی ہیں۔ آج کے حالات میں یہ تفصیلات اور ہوں گی۔ یہ کام ارباب حل وعقد کا ہے۔ کہ خلافت الٰہیہ کے مقصد کی تکمیل کےلئے جدوجہد کریں پروگرام بنایئں۔ اور ان پروگراموں پرعمل کرنے کےلئے عوام و خاص کو تیار کریں۔ روٹی کا مسئلہ اسلامی زندگی میں بنیادی مسئلہ ہے۔ اور جو لوگ اسے اللہ پر چھوڑ کر پہلو تہی کرناچاہتے ہیں۔ وہ خلافت الٰہیہ کی مشینری کاکوئی تصور نہیں رکھے۔ (ملخص) (از قلم مولوی حافظ علی بہادر صاحب بمبئی اپیام اسلام )
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب