سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(520) کیا ہم 28 روز ے کر کے عید کرلیں؟

  • 6318
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1234

سوال

(520) کیا ہم 28 روز ے کر کے عید کرلیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر رمضان شریف 29 دن کا ہو۔ اور ایک پہلا روزہ ہم نے بوجہ چاند نہ دیکھائی دینے کے کھا لیا اور ہمارے 28 ہی ہوئے تو کیا ہم 28 روز ے کر کے عید کرلیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس صورت میں عید کر کے ایک روزہ قضا کرنا ہوگا۔ کیونکہ مہینہ 28 روز کا نہیں ہوتا۔

تشریح

بابت رویت ہلال اور اختلاف مطالعہ ۔ از مولانا محمد یحییٰ الاعظمی عالم فاضل پروفیسر عربی کالج رائے ورگ۔

علم ہیت کے اصول پرزیر نظر مسئلے کو مختصر زکر کروں گا۔ ضمناً اختلاف رویت رویت ہلال قبل الزوال و بعد الزوال تشکلات قمریہ کسوف وخسوف وغیرہ بھی مذکور ہوں گے بطور مقدمہ اولا ً یہ سمجھ لیجئے کہ سورج ایک آگ کا گولہ ہے۔ اوراس کی روشنی ذاتی ہے۔ کسی دوسرے ستارہ سے مستفاد نہیں۔ اور ہر حال میں پورا پورا روشن رہتا ہے۔ اور اپنے ارد گرد ضیا پاشی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورج کا طلوع وغروب ہمارے اعتبار سے ہے۔ ورنہ ذاتی طور پر اسے طلوع وغروب لاحق نہیں۔ بخلاف چاند کے کہ اس کی روشنی ذاتی نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو محض ایک صاف شفاف جسم اور نیل گوں رنگ کا گولہ ہے۔ اور سورج کی روشنی اس پر پڑنے کی وجہ سے چمک اٹھتا ہے۔ سورج اوپر اور چاند نیچے ہے۔ سورج کی روشنی سے ہمیشہ چاند کا نصف حصہ جو سورج کی طرف ہوتا ہے۔ روشن رہتا ہے ۔ اور پچھلا نصف حصہ ہمیشہ تاریک اور بے نور رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چاند سورج کی نزدیکی اور اس سے دوری کی بناء پر گھٹتا بڑھتا دیکھائی دیتا ہے۔ ثانیا یہ کہ سورج فلک الافلاک کی حرکت سے 24 گھنٹے میں ایک چکر پورا کرلیتاہے۔ لیکن اپنی ذاتی حرکت سے تقریبا 365 صحیح ا بٹہ چار رو ز میں ایک دور پورا کرتا ہے۔ (اسی کو ہم شمسی سال کہتے ہیں۔ ) بناء علیہ اوسطاً 59 دقیقہ 8 ثانیہ 20 ثالثہ روزانہ مغرب سے مغرب کی جانب علی توالی البروج حرکت کرتا ہے۔ اور چاند اپنی ذاتی حرکت سے بعد منہائی مائل وغیرہ 27 صحیح ایک بٹہ 3 یوم میں 27 (عند اہل ہند یا 28 (عند اہل مغرب وفارس) منزلیں طے کرکے اپنا ایک دور پورا کرلیتا ہے۔ اور اوسطا 13 درجے 10 دقیقہ 35 ثانیہ دو ثالثہ روزانہ مغرب سے مشرق کی جانب حرکت کرتا ہے۔ اب اگر سورج کی روزانہ حرکت چاند کی روزانہ حرکت سے تفریق کردی جائے۔ تو باقی ماندہ مقدار حرکت چاند روزانہ سورج سے چاند کے فصل اور دوری کی مقدار ہوگی بنا بریں اجتماع حقیقی سے 14 یوم 18 گھنتے 22 منٹ بعد 180 درجے سورج سے دور اور 29 یوم 12 گھنٹے 44 منٹ بعد پھر اجتماع حقیقی ہوجائےگا۔ اور زمانہ محاق کی مدت وسطا 47 گھنٹے 16 منٹ ہے۔ ثالثا یہ کہ رویت ہلال کا حساب نہایت ہی دقیق ہے۔ کیونکہ اس کادارومدار قوس رویہ کی تحدید پر ہے۔ اور یہ سخت دشوار ہے۔ اس لئے کے جرم قمر کا اوج و حفیض کی وجہ سے مرکز عالم سے قریب ہوتے رہنا اور پھر دور ہوتے رہنا اس کی حرکت کا بطور اور سرعت میں مختلف ہوتے رہنا اور اس کا خط استواء سے عرض میں کم وبیش ہوتے رہنا۔ خود شہروں کے عرض کا کم وبیش ہوناسورج سے مختلف دوری پر بھی بے موقع ہلا ل بنتے رہنا۔ وغیرہ وٖغیرہ امور قوس الرویہ کی تحدید میں دشواری پیدا کرتے ہیں۔ اور اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ مختلف حالات میں ایک ایک شہر کے لئے سینکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں کروڑوں قوس الرویہ کا امکان ہے۔ بنا بریں متقدمین علماء فن نے قوس الرویہ القمر کی بحث ہی کو حذف کردیا ہے۔ ہاں متاخرین نے اس پر بحث کی ہے۔

"والمتا خرون ذكروا فيه كلا ما مختلفها اكثره لا طائل تحته لعدم انضباط واما لا مر الا وسط الذي يعمل به اصحاب الرويات وهو انه اذا كان البعدين النيرين في الا قليم ارابع اثني عشرة درجة من دور الفلك فانه يري"

 (نہایۃ الادراک ص 234) اور متاخرین علمائے فن نے قوس الرویۃ کے بارہ میں مختلف باتیں لکھی ہیں۔ جن میں کثر ضابطہ کے تحت نہ آسکنے کی وجہ سے بے فائدہ ہیں۔ البتہ اوسط قوس الرویہ جس پر ذائچہ بنانے والوں کاعمل ہے۔ یہ ہے کہ جب اقلیم رابع میں چاند اور سورج میں 22 درجہ کی دوری ہوجائے تو ہلال نظر آ جائےگا۔ بنا بریں ہم نے بھی اوسط قوس الرویۃ 12 درجے کو اخیتار کیا ہے۔ ورنہ مختلف صورتوں میں اس سے بھی کم وبیش قوس الرویہ ہوا کرتی ہے۔ اوریہی قوس اختلاف مطالع کی مقدار ہے۔ رابع یہ کہ بوقت طلوع الشمس ونصف النہار وغروب شمس ونصف الیل اور ان کے مابین غرض 34 گھنٹے یومیہ کا ہر منٹ ہر سیکنڈ اس کا متحمل ہے۔ کہ اس وقت چاند قوس الرویہ پر پہنچ کر ہلال بن جائے۔ اور یہ صرف احتمال ہی نہیں ہے۔ بلکہ ایسا ہی نفس الامر میں واقع ہواکرتا ہے۔ اور چاند سے سورج کے ہٹ کر قوس الرویہ پہنچ کر ہلال بن جانے کے لمحات مختلف مہینے سا ل صدی میں مختلف ہواکرتے ہیں جس کو اہل تقویم چاند اورسورج کی رفتار منطبط کے ماتحت حساب لگاکر ہر ماہ ایک متعین شہر کےلئے اس لمحے کی تعین کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے عمدہ تقویم وہ ہے۔ جو نائکل المنک کے نام سے سال بسال رصدگاہ لندن سے شائع ہوا کرتی ہے۔ نیز یہ تقویم سیاروں کی حرکات یومیہ اور دیگر معلومات کا خزانہ ہے۔

اچھا اب آپ رویت ہلال کے وقت سے چاند کی کیفیت ملاحطہ فرمایئے۔ کس قدر باریک اور سورج کے قریب ہوتا ہے۔ پھر دوسرے دن شام کو دیکھئے تو آپ کو قدرے بڑا اور مشرق کی جانب دور نظر آئے گا۔ پھر تیسرے دن اور بڑا اور زیادہ جانب مشرق دور ہی پر معلوم ہوگا۔ بات یہ ہے کہ چاند سورج سے جتنا دور ہوتا جاتا ہے۔ اتنا ہی اس کا روشن حصہ ہماری طرف رخ کرتا جاتا ہے۔ اسی طرح دیکھتے رہیے۔ یہاں تک کہ چودھویں شب اورتیرہویں شب اور پندرہویں شب کو چاندسورج کے مقابل جانب مشرق 180 درجہ یعنی نصف دور فلک کی دوری پر ہوتا ہے۔ اگرسورج مغربی افق میں اپنا سر چھپا رہا ہے تو چاند افق شرقی سے اپنی نورانی شعاعیں ہم پر پھینگ رہا ہے۔ گویا آمنے سامنے برابر کی جوڑ ہے۔ اسی استقبال کی حالت میں ہم چاند کوبدر یا ماہ کامل اور اس تاریخ کوپور نماشی کہتے ہیں۔ اس وقت چاند کا نصف روشن حصہ پورے کا پورے سامنے ہوتا ہے۔ واضح ہو کہ اسی استقبال کے زمانے میں اگر چاند زمین اور سورج ایک خط مستقیم پر واقع ہوجایئں تو چاند گرہن ہوجائے گا۔ اس کے بعد پھر وہ یوما فیوماً سورج کے قریب ہونے لگتا ہے۔ او ر ہم کوگھٹا ہوا دیکھائی دیتا ہے۔ اس میں بھی وہی بات ہے مگر برعکس کیونکہ چاندکے سورج کے قریب ہوتے رہنے سے اس کا روشن حصہ ہمارے سامنے سے رخ پھیرتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اٹحایئسویں یا انتیسویں شب کو سورج سے 12 درجہ قریب پہنچ کر دوشب اور کبھی ایک شب یا تین شب کےلئے ہماری نظروں سے یکسر غائب ہوجاتاہے۔ اس اجتماع کو ہم محاق یا اوس کہتے ہیں۔ اس حالت میں چاند کا نصف روشن حصہ سورج کی طرف ہوتا ہے۔ اور نصف پچھلا تاریک حصہ ہمارے سامنے واضح ہوکر اسی اجتماع میں اگر چاند اورسورج میں عرضاً بھی اتنا قریب ہوجائے کہ ہماری نگاہ بخط مستقیم چاند سے گزرتی ہوئی سورج پر پڑجائے تو سورج گرہن ہوجائے گا۔ یاد رکھئے اس زمانہ محاق میں جس کی مدت اوسطاً47 گھنٹے 16 منٹ ہے۔ ایک خاص لمحہ ایسا گزرتا ہے۔ جس میں چاند اورسورج کا ایک خظ طولی پر دوسرے لفظوں میں ایک خط نصف النہار پر واقع ہوجانا ضروری ہے۔ اور وہساعت ہے جبکہ ابتدائے محاق سے 43 گھنٹے 38 منٹ گزر جایئں۔ بس اب یہیں سے رویت ہلال کا حساب شروع کیجئے۔ فرض کیجئے کہ جب افق شہر اعظم گڑھ سے جو 83 درجہ 13 دقیقہ طول البلد پر واقع ہے۔ 6 بجے آفتاب غروب ہوا۔ اور6 بج کر 22 منٹ سے چند سیکنڈ پہلے چاند سورج میں اجتماع حقیقی ہوگیا۔ اورایک خط طولی پر دونوں واقع ہوگئے۔ پھر رات بھر اوردن بھر حرکت رہے یہاں تک کے 23 گھنٹے 38 منٹ بعد یعنی 6 بجے سے چند سیکنڈ پہلے چاند سورج سے 12 درجے دوری پر مشرق میں پہونچ کو قوس الرویہ کے لباس سے آراستہ ہوگیا۔ بس یہی ولین ساعت ہے کہ چاند ہلال بن کر فلگ اول پر تابا ں ہوجاتاہے۔ اور دنیا بھر کے انسانوں کی نگاہیں اس کے دیکھنے کی متمنی ہوتی ہیں۔ اگر ابر گرد وغبار کہر اور دیگر اسباب رویت سے مانع نہ ہوں تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے۔ کہ ہم کو یہ ننھا منا سا ہلال چکمتا ہوا نہ دیکھائی دے۔ خیال فرمایئے یہ تو اعظم گڑھ کا مفلع قمر ہے اب اعظم گڑھ کے مغرب کراچی مکہ معظمہ۔ قاہرہ۔ ٹیونس۔ اورجزائر کناریا جزائر خالدات میں بسنے والے انسان سب کے سب بشرط رفع موانع اپنے اپنے مطلع سے بلاشبہ ہلال دیکھیں گے۔ فرق یہ ہے کہ ہم اعظم گڑھ میں غروب کے وقت اگر 6 بجے ہلال دیکھتے ہیں تو کراچی میں 78 بج کر پانچ منٹ مکہ میں 8 بج کر 52 منٹ قاہرہ میں 9 بج کر ستایئں منٹ تیونس افریقہ میں دس بج کر باون منٹاور مغربی افریقہ میں 12 بج کر 45 منٹ پر اعظم گڑھ میں نصف شب گزر چکی ہے۔ بوقت غروب آفتاب ہلال نظرآئے گا۔ لیکن نسبتاً مغربی شہر والے اپنے مشرق والوں سے ہلال بڑا اورسورج سے دوررکھیں گے اب چونکہ ہلال فلک پر موجود ہے۔ اس لئے مذکورہ بالا شہروں کے باشندے اگراپنی نگاہ کی تیزی سے دن ہی دن میں چاند دیکھ لیں تو کچھ عجب نہیں مگر یہ ان ک لئے سخت دشوار ہے۔

اچھا اب زرا ور آگے بڑھو۔ تو اپ کو نیو یارک (امریکہ ) میں چار بج کر 29 منٹ اور واشنگٹن امریکہ میں 7 بج کر 33 منٹ پر اعظم گڑھ میں طلوع شمس ہوچکا ہے۔ بوقت غروب آفتاب ہلال نظر آئے گا۔ مگر ان کا ہلال جزائر کنار یاوالوں سے بڑا اور سورج سے اور بھی دوری ہوگا۔ یہ لوگ اگر دن کو ہلال دیکھ لیں۔ مگر پھر بھی بعید نہیں مگر پھر بھی دشوار ہے۔ اب یہاں سے یہ مسئلہ بھی حل کرلیجئے کہ روئت ہلال قبل نصف النہار اور بعد نصف النہار بھی ممکن ہے۔ کیونکہ ان اوقات میں ہلال فلک پر موجود ہے۔ اور اس کا آنے والی شب کا ہلال ہونا بھی ظاہر ہے۔ اچھا امریکہ سے گزرتے ہوئے اب زرااور آگےبڑیئے تو ٹوکیو (جاپان) میں دو بج کر تیرہ منٹ اعظم گڑھ میں دوپہر کا وقت ہے اور آگے بڑیئے۔ تو ہانک کانگ میں تین بج کر 57 منٹ اور آگے بڑھیئے تو شہر برما میں 5 بج کر 5 منٹ پر اعظم گڑھ میں غروب کو 5 5 منٹ باقی ہیں۔ ) غروب آفتاب ہوگا۔ اس وقت وہاں ہلال نظر آئے گا۔ اور ان لوگوں کا ہلال علی الترتیب کافی بڑا اور کافی فاصلہ پر ہوگا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو دن میں بہت آسانی سے ہلال دیکھ سکتے ہیں۔ خصوصا برما کے باشندے کیونکہ ان کا ہلال سب سے بڑا اورسورج سے کافی دوری ہو ہوگا۔ لیکن اس ہلال کا بھی آنے والی شب کا ہلال ہونا ظاہر ہے۔ مگر غروب کے وقت جب اہل برما ہلال دیکھتے ہیں۔ تو کوئی کہتا ہے۔ یہ تو کل کا ہے۔ اور کوئی خیال کرتاہے۔ یہ تو پرسوں کا ہے۔ قربان جایئے نبی امی ﷺ پر   وہ فرماتے ہیں۔ نہیں نہیں تم کو دھوکا ہو رہا ہے۔ یہ  تو آج ہی کا ہلا ل ہے۔

''ابو البختری تابعی سے مروی ہے۔ کہا ہم لوگ عمرہ کے لئے چلے۔ جب مقام بطن نخلہ میں پہنچے تو ہلال دیکھا ۔ بعض لوگوں نے کہا یہ تو پرسوں کا ہلال ہے۔ اور بعض نے کہا کہ کل کا ہلال ہے۔ پھر ہم ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملے۔ اور واقعہ بیان کیا۔ انھوں نے کہا یہ تو بتائو تم لوگوں نے کس رات ہلال دیکھا ہے۔ ہم لوگوں نے عرض کیا فلاں رات یعنی 30 کوہم نے ہلال دیکھا پھر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے رویت ہلال کی مدت مقرر فرمائی۔ ہلال کے چھوٹے بڑے ہونے کا اعتبار نہیں فرمایا لہذا یہ ہلال جس رات تم لوگوں نے دیکھا اسی کامانا جائے گا۔

حاصل کلا م یہ کہ جب افق اعظم گڑھ پر وقت مقررہ میں ہلال کا وجود ہوچکا تو اب اس کے آگے مغرب میں جہاں تک بھی چلے جایئے۔ کوئی ملک اوربستی اور شہر ایسی نہ ہوگی جس کے افق پر ہلال کا وجود نہ ہو۔ یہ اور بات ہے کہ عارضی موانع سے وہاں کے باشندے نہ دیکھ سکیں۔ اسی کو اختلاف رویت کہتے ہیں۔ اب اگر ہلال کا صحیح ثبوت مل جائے۔ تو حکم شرع نافظ کیا جائے گا۔ ورنہ نہیںاس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ یہاں سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اہل مشرق کی رویت سارے کے سارے مغرب والون کے حق میں ہلال کا قطعی ثبوت بہم پہنچاتی ہے۔ اس لئے اگر مشرق سے ثبوت ہلال کی صحیح سند مل جائے۔ تو بلاشبہ شرعی احکام نافظ ہوں گے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ہلال کاچھوٹا بڑا ہونا کوئی چیز نہیں 29 کا ہویا تیس کا۔

اب ہم اختلاف مطالع کی بحث سمجھناچاہتے ہیں۔ بس پھر وہیں سے حساب شروع کیجئئے۔ جبکہ افق گڑھ پر چھ بجنے سے چند سیکنڈ پہلے چاند سورج سے 13 درجے دور قوس الرویۃ پر پہنچ کر ہلالی شکل میں نمو دار ہوا۔ ا ب زرااعظم گڑھ سے مشرق کو چلیئے۔ مگر 12 درجے سے زیادہ نہیں۔ جیسے پٹنہ ۔ بھاگلپور۔ ڈھاکہ۔ سلہٹ منی پور (آسام) جب اعظم گڑھ میں ظہور ہلال ہوا تو وہ ہلال ان سب شہروں کے باشندوں کے افق کے اوپر ہے۔ علی الترتیب ان لوگوںکا ہلال ان کے افق سے قریب اور قریب تر ہونے کی وجہ سے ان کو نہ دیکھائی دے گا۔ منی پور ان سب شہروں میں سب سےدور اور اعظم گڑھ سے 10 درجے 45 دقیقے فاصلے پر ہے۔ ان کا ہلال تو بس افق کے اتنے قریب ہوگا۔ کہ صرف 5 منٹ باقی رہ کرافق سے غروب ہوجائے گا۔ اب ان شہروں کے باشندوں کو اگر ہلال کا صحیح ثبوت بہم پہنچ جائے تو احکام شرعی عائد ہوں گے۔ اور یہ حکم ہماری تقریبی 12 درجے قوس الرویہ کی بنا پر اعظم گڑھ سے 12 درجے مشرق تکعائد ہوگا اور بس۔ اچھا اب 12 درجے مشرق سے بڑھ کر تیرہویں درجے پر کھڑے ہوجایئے۔ اب چونکہ اعظم گڑھ سے ہلال افق سے 12 درجے بلند ہے۔ اور آپ اعظم گڑھ سے 12درجے مشرق کو ہٹ کرتیرہویں درجے پر قدم رکھ چکے ہیں۔ اس لئے چاند قوس الرویہ پر پہنچنے کے ساتھ ہی آپ کے افق سے نیچے ہوگا۔ مثال میں شہر برما جو 97 درجے طول البلد پر اور اعظم گڑھ سے 13 درجے 47 دقیقہ مشرق کو ہے۔ لے لیجئے جب افق اعظم گڑھ سے ظہور ہلال ہوا تو برما کے افق سے ایک درجہ 47 دقیقے نیچے پہنچ چکا ہے۔ اب باشندگان برما کے لئے رویت ہلال کسی بھی آلے اوررصد سے ممکن نہیں۔ بس یہی اختلاف مطالع ہے۔ اعظم گڑھ کے مطلع پر ہلا ل ہے۔ اور اہل برما کا مطلع ہلال سے خالی ہے اب جتنا بھی مشرق ہانگ کانگ ۔ ٹوکیو۔ واشنگٹن۔ میں چلے جائیے رویت ہلال کسی کے لئے ممکن نہہیں ہے۔ کیونکہ ان ک مطالع ہلال سے خالی ہیں۔ یہاں سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اہل مغرب کی رویت کا تمام مشرقوالوں کے حق میں ہلال ثابت کردینا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف صرف 62 درجے مشرق تک یہ حکم قطعی طور سے لگایا جاسکتاہے۔ اور اس کے بعد نہیں۔ یہ بھی معلوم ہواک ہ اختلاف مطالع کی تحقیق کے لئے اوسطا 12 درجہ کا فصل ضروری ہے۔ جس کا 833 میل ہوتا ہے۔

حکم

فقہاء حنفیہ ۔ مالکیہ ۔ اور حنابلہ کے نزدیک راحج اور مفتی بہ قول یہ ہے کہ یہ شرعی احکام میں اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ جس مقام سے سب سے اول ہلال دیکھاگیا ہے۔ (جیسے اعظم گڑھ ہماری مثال ہیں۔ ) وہاں سے تمام مشرق کے باشندوں کے حق میں چاہے۔ وہ کتنی ہی دور کیوں نہیں ہلال کا حکم ثابت ہوگا۔ (جیسے ہانگ کانگ۔ ٹوکیو۔ واشنگٹن۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ان مشرق والو ں کو مغرب والوں کی رویت کاثبوت یقینی اورشرعی طور پر مل جائے۔ در مختا ر میں ہے۔

"فيلزم اهل المشرق بروية اهل المغرب اذا ثبت عند هم روية اولئك بطريق موجب"

مغرب والوںکی رویت سے مشرق والوں پر احکام شرعی لازم ہوجاتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ مغرب والوں کی رویت کا ثبوت مشرق والوں کو باقاعدہ مل جائے۔ اب یہاں سے ایک غلطی صحیح کرلیجئے۔ صاحب در المختار نے اختلاف مطالع کی ایک مثال اس طرح بیان کی ہے۔

"حتي لوروي فيالشرق ليلة الجمعة وفي لمغرب ليلة السبت وجب اهل المغرب العمل بما راه اهل المشرق"

اگر جمعہ کی رات کومشرق میں ہلال دیکھاگیا۔ اور مٖغرب میں شنیہ کی رات کو تو مٖغرب والوں پر مشرق والوںکی رویت کے مطابق عمل کرنا لازم ہوگا۔ ہم تو یہ کہنے کی جرات نہ کریں گے۔ کہ یہ شارح کی غلطی ہے۔ خصوصا جب کہ متن سامنے موجود ہے۔ مگر یہ تو کہنے میں باق نہیں کرناسخ کا سہو قلم سے عبارت یوں ہونی چاہیے۔

 "حتي الوري في المغبرب ليلة الجمعة وفي المشرق ليلة السبت وجب علي اهل المشرق العمل بما راهاهل المغرب"

اگر مغرب میں جمعہ کی رات کو ہلال دیکھا گیا۔ اور مشرق میں شنبہ کی رات کو تو مشرق والوں پر مغرب والوں کی رویت کے مطابق عمل کرنا لازم ہوگا۔

فقہائے شافعیہ کے نزدیک راحج اور معتمد قول یہ ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار کای جائے گا۔ جن کے مطالع پر ہلال ہے۔ خودان کی رویت یا شرعی ثبوت کے بعد ان پر احکام شرع کا نفاذ ہوگا۔ اور جن کےمطالع ہلال سے خالی ہیں۔ ان کے حق میں ہلال کا وجود معتبر نہ ہوگا۔ چاہے صحیح ثبوت ہی کیوںنہ مل جائے۔ بلکہ مطلع کااعتبار کیا جائے گا۔ اور مطلع ہلال سے خالی ہے۔ علمائے اہل حدیث کاعمل بھی اسی پر ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 667-675

محدث فتویٰ

تبصرے