سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(519) رویت ہلال بزریعہ تار کے آوے بمبئی وغیرہ سے اس کو معتبر جان کرعمل کرنا

  • 6317
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1023

سوال

(519) رویت ہلال بزریعہ تار کے آوے بمبئی وغیرہ سے اس کو معتبر جان کرعمل کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ما قولكم رحمكم الله تعالیٰ اندریں صورت کہ جو خبر رویت ہلال بزریعہ تار کے آوے بمبئی وغیرہ سے اس کو معتبر جان کرعمل کرنا جائز ہے یا نہیں ۔ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو خبر رویت ہلال کی بزریعہ تار کے آوے وہ لائق قبول نہیں ہے۔ بیان اس کا یہ ہے کہ اگر وہ خبر رویت ہلال فطر ہے تو وجہ عدم مقبولیت اس کی یہ ہے کہ وہ خبر محض خبر نہیں ہے بلکہ شہادت ہے۔ اور شہادت میں لفظ شہداء اور مجلس قاضی اور نصاب شہادت ضرور ہے کا ہو مصرح فی کتاب الفقہ اور خبر تار میں ان سب امور کا تحقیق غیر مسلم ہے۔ ومن یدعیٰ علیہ البیان اور اگر خبر رویت ہلال صیام ہے۔ پس اگر چہ یہ خبر خبر محض ہے شہادت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اس خبر کی تبلیغ میں واسطہ کفار ہوتے ہیں۔ اور خبر کافر کی دیانات میں معتبر نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے معتبر نہ ہوگی۔ در مختار میں مرقوم ہے۔

"خبر الكافر مقبول بالاجماع في المعلملات لا في الديانات انتهي"

اور اگر بالفرض جملہ کارکنان محکمہ تار مسلمین وعدول ہو ں تو بھی یہ خبر معتبر نہ ہوگی کیونکہ یہ خبر الغائب للغائب ہے۔ اور خبر خبر الغائب للغائب میں ضرور ہے۔ کہ کوئ امر ایسا ہو جو دلالت کرے۔ اس بات پر کہ یہ خبر اس شخص کی ہے۔ کہ جس کو ہم مخبر جانتے ہیں۔ مثلا جب کوئی کنایۃ خبر دے۔ تو ضرور ہے کہ مکتوب لہ کاتب کے خط کو پہنچاتا ہو۔ تدریب الراوی میں مرقوم ہے۔

"الخامس يصح السماع ممن هو وراء حجاب اذا عرف صوته ان حدث بلفظ اوعرف حضوره بسمع اي مكان يسمع منه ان قري عليه و يكفي في المعروفة بذلك خبر ثقه من اهل الخيرة بالشيخ انتهي"

 اور بھی اس میں مرقوم ہے۔

"ثم يكفي في الرواية بالكتاب معرفة اي المكتوب له خط الكاتب وان لمم تقم البينة عليه انتهي"

 اور مانجن فیہ میں تحقق کس امر کا مانند معرفت صوت ،معرفت خط کے مسلم نہیں ہے۔ ومن یدعی فعلیہ البیان پس خبر تار غیر معتبر ٹھری (کتبہ محمد بشیر عفی عنہ)  (سید محمد نزیر حسین دہلوی۔ فتاویٰ نزیریہ جلد اول ص 511)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 666

محدث فتویٰ

تبصرے