السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص آیت
﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ﴾--سورة الجن٢٦-27
سے استقلال کرتاہے کہ انبیاء کوعلم غیب ہے اور وہ یہ بھی کہتاہے کہ رسول حاضروناظرہے اوردلیل دیتاہے ۔آیت
﴿ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ ﴾--سورة البقرة143
نیزرسولا شاهداعلیکم سے رسول شاہد،
شہیدہیں۔شہودبمعنی حضور اورشہادت بمعنی حضور اورشہادت بمعنی رؤیت ہیں۔اس کایہ کہناکس حدتک درست ہے ۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس شخص نے لاتقربوالصلوۃ پرعمل کیاہے ۔وانتم سکاری چھوڑدیاہے۔آیت لایظهرسے پہلے یہ الفاظ ہیں۔
﴿ قُلْ إِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَّا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا ﴾--سورةالجن25
ترجمہ:۔اے محمد! کہہ دیجئے کہ مجھے معلوم نہیں کہ جس کا وعده تم سے کیا جاتا ہے وه قریب ہے یا میرا رب اس کے لیے دور کی مدت مقرر کرے گا۔‘‘
ان الفاظ کوآیت لایظهر سے ملاکریہ مطلب ہواکہ رسول کوکسی بات کاعلم ہے اورکسی بات کاپتہ نہیں۔پس جتناخدانے وحی کردیااتناہی علم ہے اس سے زیادہ نہیں۔اوریہ سب مسلمانوں کاعقیدہ ہے۔اس میں کسی کااختلاف نہیں۔
مجیب نےمسئلہ حاضرناظرمیں لاتقربوالصلوۃ والا طریقہ اختیارکیاہے ۔شروع سے الفاظ چھوڑدیئے ہیں پورےالفاظ یوں ہیں۔
﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ﴾--سورةالبقرة143
ترجمہ :۔’’اس طرح ہم نےتمہیں بہترامت بنایاتاکہ تم لوگوں پرشہادت دواوررسول تم پرشہادت دے۔‘‘
مگرشہادت کے معنی حاضرکے ہوں تو لازم آتاہے کہ ساری امت حاضرناظرہو۔جس میں ہم بھی شامل ہیں بلکہ لازم آتاہے کہ ہم حاضرناظرہونے میں رسول سے بڑھ جائیں ۔کیونکہ رسول تو صرف ایک اپنی امت پرحاضرناظرہے ہم ساری امتوں پرحاضرناظرہوں ۔اصل میں یہ لوگ قرآن مجیدکامطلب بیان نہیں کرتے بلکہ اس سے کھیلتے ہیں۔احادیث اور ان کے مطابق معتبرتفاسیرمیں اس آیت کامطلب صاف لکھاہے۔ کہ پہلی امتوں اور ان کے پیغمبروں میں نزاع ہوگی ۔پیغمبرکہیں گے:ہم نے پیغام پہنچائے ،امتیں انکارکریں گی ۔پیغمبروں سے گواہ طلب کئے جائیں گے وہ اس امت کوپیش کریں گے یہ امت گواہی دے گی کہ واقعی پیغمبروں نے پیغام پہنچائے ۔خدا ان سے سوال کرے گا۔کہ تم کس طرح گواہی دیتے ہوتم توبہت بعدپیداہوئے یہ کہیں گے:کہ خدایا ہم نے تیرا کلام پڑھا اس میں ایساہی لکھاپایا۔ اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت ہوگی۔ کہ یااللہ !یہ جوکچھ کہتے ہیں :ٹھیک ہےواقعی تیرے کلام میں ایساہی لکھاہواہے ۔دیکھئے مطلب صاف ہے ۔حاضرناظرہونے کواس سے کوئی تعلق نہیں۔بلکہ حاضرناظرہونے کی تردیدہے۔ ورنہ خدا کی طرف سے اعتراض کیوں ہوتا۔ کہ کس طرح گواہی دیتے ہوتم بہت بعد پیدا ہوئے۔ اس آیت کایہی مطلب مولوی احمدرضاخان بریلوی کے مترجم قرآن مجیدکے حاشیہ پرلکھاہے پھرخداجانے بریلوی عقیدہ کے مولوی کیوں خواہ مخواہ عام لوگوں کودھوکہ دیتےہیں ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب