سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(494) بیسویں رمضان کی صبح اعتکاف میں بیٹھنا کیسا ہے؟

  • 6292
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1604

سوال

(494) بیسویں رمضان کی صبح اعتکاف میں بیٹھنا کیسا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید بیسویں رمضان کو صبح کی نماز پڑھ کراعتکاف میں بیٹھ گیاآیا اس کا یہ فعل سنت کے مطابق ہے۔ (عبدالحمید از قلعہ میاں سنگھ ضلع گوجرانوالہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اکیسویں شب مغرب کے بعد اعتکاف بیٹھ جاناچاہیے۔ یہی سنت ہے۔ (اہل حدیث 9شوال 1365ہجری)

شرفیہ

حدیث صحیح میں نماز صبح کے بعد ہے۔

"كان النبي صلي الله عليه وسلم اذا ارادان يعتكف صلي الفجر ثي دخل معتكفه متفق عليه كذافي بلوغ المرام"

یہ ہوگا کہ بیسویں کی صبح کی نماز کے بعد اعتکاف میں بیٹھ جائے۔ تاویل لغو ہے۔

 (ابو سعید شرف الدین)

تشریح۔ از قلم حضرت مولانا محمد یونس صاحب مدرس مدرسہ میاں صاحب مرحوم دہلی۔

پہلے روزہ کی نیت کرنا ضروری ہے۔ فرض روزے کی نسبت رسول خدا ﷺ کا ارشاد ہے۔ کہ جس نے فجر سے پہلے اس کی نیت نہ کی۔ اس کا روزہ نہیں ہوتا۔ (ترمذی شریف) نیت کہتے ہیں دل کے ارادے کو زبان سے کوئی مروجہ لفظ بصوم غد وغیرہ کہنے کی کوئی دلیل قرآن وحدیث سے ثاتب نہیں۔ روزہ رکھنے کےلئے سحری کھانا باعث برکت اور ثواب عظیم کا موجب ہے۔ مومن کے لئے بہترین سحری کھجور ہے یعنی کھجور ضرور کھانی چاہیے۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ جابجا مساجد میں سحری کی اذان کا اہمتام کیا جائے۔ جو اذان فجر سے کچھ وقت پہلے ہو۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کی سحری اور  نماز پڑھنے کا درمیانی وقفہ پچاس آیات پڑھنے کے برابر ہوتا تھا۔ اگرسحری کھاتے ہوئے صبح کی اذان ہوجائے۔ تواپنے لقمہ اور حاجت کوجلدی پورا کرلینا چاہیے (مشکواۃ۔ ترمذی) روزہ کی حالت میں غیبت ۔ چغلی۔ جھوٹ سے بچو۔ فحش بے حیائی۔ بدگوئی سے احتیاط کرو۔ جوشخص جھوٹے قول عمل اورعقیدہ کو نہیں چھوڑتا۔ اللہ کو اس کے روزے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی روزہ دار سے لڑنے جھگڑنے لگے۔ تو روزہ دار کوچاہیے کہ اس کوکوئی جواب نہ دے۔ بلکہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ احتلام ہوجانے سے خود بخود قے آجانے سے مسواک کرنے سے سرمہ تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹنا۔ (ترمذی شریف) سورج غروب ہوتے ہی افطار ی کا وقت ہوجاتا ہے۔  روزہ تر کھجوروں سے اگر تر کھجوریں نہ ملیں۔ تو خشک سے ورنہ پانی سے افطار کرنا سنت ہے۔ حدیثوں میں روزہ کھولتے وقت یہ دعا پڑھنی آئی ہے۔

"اللهم لك صمت وعلي رزقك افطرت "(مشکواۃ المصابیح)

اس دعا میں چند الفاظ وبك امنت وغیرہ لوگوں نے بڑھا رکھے ہیں۔ حالانکہ وہ بے ثبوت ہیں۔ ایک مسلمان کو نبی کریم ﷺ کے سکھلائے ہوئے اور بتائے ہوئے الفاظ بس کافی ہیں۔ دین میں ایجاد اور زیادتی کا نام ہی تو بدعت ہے۔ اور غلو ہے۔ خدا ہرمسلمان کو ان دونوں چیزوں سے محفوظ رکھے۔ آمین ۔ روزہ کھولنے کے بعد یہ دع بھی سنت رسولﷺ ہے۔ "ذهب الظما ء وابتلت العروق وثبت الاجر ان شا ء الله" (ابو دائود شریف) جو شخص کسی روزے دار کو کھانا کھلائے تو روزہ دار کہے۔ "افطر عند كم الصائمون واكل طعامكم الا برار وصلت عليكم الملا ئكة" (ابن ماجہ) نبی کریم ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں رات کو گیارہ رکعتیں نفل یعنی وتر مع تراویح پڑھا کرتے تھے۔ یہی سنت اور زیادہ اجر فضلیت کا موجب ہے۔ اس کے علاوہ زیاہ رکعتیں مقرر کرلینا ہمیشہ بیس رکعت پڑھنا۔ اور سنت سمجھنا خلاف ہے۔ یہ کسی حدیث نبوی ﷺ سے بہ سند صحیح کہیں ثابت نہیں۔

رمضان شریف کے آخری عشرے کی طاق راتوں (21۔ 23۔ 25۔ 27۔ 29) میں سے ایک شب قدر ہوتی ہے۔ اس میں با کثرت تلاوت قرآن زکر الہٰی تسبیح تہلیل اور خدا کی عبادت نہایت زوق وشوق سے کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔ شب قدر میں گناہ گاروں کی گریہ زاری توبہ استغار عبادت کی رغبت دیکھنے کےلئے مسلمانوں سے ملاقات اور مصافحہ کرنے کےلئے جبرئیل علیہ السلام معہ فرشتوں کے زمین پر آتے ہیں۔ مزاروں۔ خانقاہوں۔ یا جس گھر میں نشے کی چیز ہو نشہ باز شخص ہو۔ باجے اور تصویریں ہوں۔ وہاں فرشتے نہیں جاتے۔ شرابی ماں باپ کا نا فرمان مسلمانوں سے بغض و بیر رکھنے والا اس رات میں بھی بخشش سے محروم رہتا ہے۔ اس رات میں یہ دعا پڑھنی سنت ہے۔ "اللهم انك عفو تحب العفو فاعف عني" (مشکواۃ) اعتکاف کرنا نہایت ثواب کی بات ہے۔ مردوں اور عورتوں دونو ں کےلئے اعتکاف کرنا جائز ہے۔ اکیسیویں شب مسجد میں رہ کر نماز صبح کے بعد اعتکاف کی جگہ داخل ہوناچاہیے۔ اور مسجد کے گوشہ میں خلوت اختیار کر کے زکر الہیٰ تسبیح تہلیل تلاوت قرآن احادیث کا مطالعہ وغیرہ عبادات صبح وشام ہر وقت کرتے رہیں۔ پاخانہ پیشاب یا کسی اور ضرورت شدید کے بغیر مسجد سے باہر نہ نکلیں۔ اعتکاف عید الفطر کے چاند ہونے تک کریں۔ (بخاری ۔ ابن ماجہ)

صدقۃ الفطر روزوں کی طہارت ہے۔ ہر مسلمان مرد وعورت چھوٹے بڑے امیر غریب آذادوں غلام لونڈی پر کھجور کشمش پنیر گہیوں جو کاایک صاع (جو بحساب انگریزی تقریباً پونے تین سیر ہوتا ہے۔ واجب وفرض ہے۔ یہ نماز عید سے پہلے ادا کرناچاہیے۔ نماز کے بعد دینے سے صدقۃ الفطر ادا نہ ہوگا۔ فطرہ میں غلہ دینا افضل صورت ہے۔ قیمت بھی جائز ہے۔ اور گہیوں کا آدھا صاع بھی درست ہے۔ (بلوغ المرام)

 لوگوں میں رمضان کے آخری جمعہ کو رسم الوداع مروج ہے۔ اور وہ اس دن روزہ چھوڑ کر حلیم وغیرہ کھانے کے لئے گائوں سے شہروں میں آتے ہیں۔ حالانکہ خدا تعالیٰ اور رسول ﷺنے کہیں ایسا حکم نہیں فرمایا مسافر ومریض و حائضہ کو ایام سفر میں مرض اور حیض میں روزہ معاف ہے مگر دوسرے دنوں میں قضا واجب ہے۔ حاملہ مرضعہ دائم المریض بوجہ تکلیف روزہ نہ رکھ سکے۔ تو ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلاوے۔ میت کے فوت شدہ روزے اس کے وارث رکھ لیں۔ یا ہر روزے کے عوض مسکینوں کوکھانا کھلاوے۔ صدقۃ الفطر ذکواۃ کی طرح نظام کے ما تحت بیت المال میں جمع ہوناچاہیے۔ جہاں بیت المال قائم نہیں ہے۔ وہاں اس کا عمل میں آنا ضروری ہے۔ تاکہ وقتا فوقتا دینی امور کی انجام دہی اور قوم کے غرباء فقراء اہل حوائج پر امام اس بیت المال کو خرچ کرتا رہے۔ در اصل اسلام کا اہم مقصد زکواۃ اور صدقات نکالنے سے یہی ہے۔ کہ وہ ایک جگہ جمع ہوں۔ اور پھر قوم کی مفلسی اور ناداری پر خرچ کر کے قوم کو بحال کیا جاوے۔ زمانہ خیر میں زکواۃ اور صدقہ فطر ک ی ادایئگی کے لئے امام وقت اور بیت المال کا قیام نہایت ضروری سمجھا گیا تھا۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 649

محدث فتویٰ

تبصرے