سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(489) روزہ کی حکمت

  • 6287
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1796

سوال

(489) روزہ کی حکمت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

روزہ کی حکمت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روزہ کی حکمت

 (از مولوی عبد الرحمٰن صاحب مدرس مدرسہ کوٹ ر ادھا کشن ضلع لاہور)

الحمد للہ! جملہ اہل اسلام کو ماہ رمضان مبارک ہو خاکسار جیسا ہیچدان ماہ رمضان کی فضیلت کو لکھے تو کیا لکھے جب کہ اس بابرکت ماہ میں ازروئے آیۃ کریمہ

 شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ﴿١٨٥سورة البقرة

فرقان حمید جیسی کتاب مبین کا نزول ہو۔ گویا اس پاک مہینے میں خداوند عالم نے اپنے فضل وکرمسے اپنے بندوں پر اپنی برکات کبیرہ اور انعامات کثیرہ کے باب کو واکیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مبارک مہینے میں اللہ تعالیٰ کی جس قدر برکتیں اس کے بندوں پرنازل ہوتی ہیں۔ اتنی کسی اور مہینے میں نازل نہیں ہوتیں۔ صوفیائے کرام نے ماہ رمضان کو تنویر القلب کے لئے مفید لکھا ہے۔ کہ اس میں کثرت سے مکاشفات ہوتے ہیں۔ اور نماز تذکیہ نفس کرتی ہے۔

الحمد للہ! اسلام نے ماہ رمضان کے اس عالم گیر فیض کومد نظر رکھتے ہوئے اسی ماہ میں روزوں کا انضباط کیا۔ جب کہ روزہ تمام عملیات کے ثوابات سے زیادہ ثواب رکھتاہے۔ اور بلحاظ اپنی نوعیت کے جملہ عبادات الہٰیہ سے بے نظیر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ روزہ تزکیہ نفس کے حق میں اکسیر اور عذاب دوزخ سے نجات دلانے کے لئے ڈھال کا حکم رکھتا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کا ارشادہے۔ الصیام جنۃ یعنی ماہ رمضان ماہ رمضان کے روزے انسان کے لئے عذاب دوزخ سے بچانے کےلئے توڈھال ہیں تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ انسان روزہ رکھنے سے تمام قسم کے گناہوں سے خلاصی پا لیتا ہے۔ اگر روزہ کے حقیقی معنوں پر غور کیا جائے۔ تو یہ حقیقت بخوبی زہن نشین ہوجائے گی۔ کہ روزہ انسان کو کس طرح تمام گناہوں سے پا ک وصاف کردیتا ہے۔ روزہ کو عربی زبان میں صوم کہتے ہیں اور صو م کے معنے عربی لغت میں رکنے خاموش رہنے اور بلند ہونے کے ہیں۔ وجہ یہ کہ صائم کو حالت صوم میں اکل وشرب اور جماع وغیرہ سے رکنا پڑتا ہے ۔ اور گلہ وغیبت داہیات وخرافات سے اور دیگر ہر قسم کے لاطائل امورات سے اجتناب کرنا لازمی امر ہوتا ہے۔ ورنہ اس کا روزہ خدا کے ہاں کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ بلندی کے معنی اس لئے کہ روزہ خدا کی بارگاہ میں تمام عبادتوں سے زیادہ بلند درجہ رکھتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ روزہ دار کو روزہ کی مذکورہ بالا پابندیاں واقعی ایک زاہد وپارسا بنادیتی ہے۔ اور یہ روزہ کا ایک بڑا بھاری معجزہ ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں خود اللہ تعالیٰ نے روزہ کی علت غائی یوں بیان فرمائی۔ ۔ ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٨٣سورة البقرة

 ’’یعنی حکم ہوا تم پر روزہ کا جیسے کہ حکم تھا تم سے پہلی قوموں پر (پھر فرمایا) روزہ رکھنے کا امر اس لئے نازل ہوا کہ تم پرہیز گار بن جائو۔‘‘

اللہ اکبر خداوند کریم کا یہ کتنا بڑا احسان ہے۔ کہ اس نے اپنے بندوں کو محض متقی بنانے کی خاطر روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ القصد روزہ ہمارے لئے بیشمار فوائد رکھتا ہے۔ جن کی تفصیل کے لئے ایک دفتر کی ضرورت ہے۔ لہذا ہم نہایت اختصار سے اس کی خوبیاں وحکمتیں زیل میں لکھ کر دشمنان اسلام کو یہ دکھاتے ہیں۔ کہ ہمارا اسلامی روزہ کتنی بڑی حکمت پر مبنی ہے۔

1۔ انسانی فطرت اس بات کو چاہتی ہے۔ کہ نفس ہمیشہ عقل کے ماتحت رہے چونکہ روزہ میں کسی نفس کی کسی خواہش کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔ بلکہ اس کی ہر تمنا کو دبانا روزہ دار کا فرض اولین ہوتاہے۔ لہذا نفس امارہ عقل کی ماتحتی میں بخوشی کام کرنے لگ جاتاہے۔

2۔ انسان احسان فراموش واقع ہوا ہے۔ ہم دن رات اللہ کی نعمتیں کھاتے پیتے ہیں۔ لیکن شکر گزاری کا نام تک نہیں لیتے۔ اور یہ امر مسلمہ ہے۔ کہ اگر کسی کی کوئی محبوب مرغوب چیز کچھ عرصہ تک گم رہے تو اس کو اس کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ یہی حال روزہ دار کا ہے۔ سارا دن کھانا پینا متروک ہونے کی وجہ سے اس کوشام کے وقت قدر معلوم ہوتی ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حقیقی شکر گزار رہتا ہے۔

3۔ چونکہ انسان کو روزہ میں بھوکا پیاسا رہنا پڑتا ہے۔ اس لئے اس میں مساکین و فقراء کے ساتھ حقیقی مروت وہمدردی کرنے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ جن امرا نے کبھی بھوک پیاس دیکھی ہی نہیں۔ وہ غربا ء کے احوال سے کب آشنا ہوسکتے ہیں۔ بقول ھافظ ع

کجا دانند حال دا سبکسار ان ساحل ہا۔

4۔ عشق ومحبت کے اس تقاضے کو ایک عاشق بخوبی جانتا ہے۔ کہ جب یاد معشوق اس کو بیقرار کردیتی ہے۔ تو وہ کھانے پینے کو ترک کردیتا ہے۔ دنیا کی دلکش سے دلکش چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ مگر عاشق کا دل کسی کو بھی نہیں چاہتا۔ یہی حال روزہ میں روزہ دار کا ہے۔ اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کی محبت اور جبروت وعظمت حضرت انسان کو اکل وشرب کا صحیح تارک بنادیتی ہے۔ کیا اس سے زیادہ کوئی اور عشق ومحبت ہوسکتی ہے۔ جب کہ حضرت انسان محض اللہ تعالیٰ کےلئے ماہ رمضان کے آنے پر معا ان نعمائے الہیٰ کو ترک کردیتا ہے۔ جن کو وہ اس سے پہلے دن رات کھانے پینے کا عادی تھا۔

5۔ علم النفس کے ما ہرین اس مسئلے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ کہ قدرت نے انسان میں قوا اس ترتیب سے رکھے ہیں کہ ایک قوت کی مددسے دوسری قوت تربیت پاتی ہے۔ اگراس قدراصول وقانون پرروزہ کی حقیت کو دیکھا جائے تو روزہ میں سوبات کی ایک بات جو نظرآتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب حالت روزہ میں حکم اللہ کے مطابق حلال چیزوں کو چھوڑ دینے کی طاقت ترقی پالیتی ہے۔ پھر اس کی مدد سے حرام اشیاء کو ترک کرنے کی قوت خود بخود ہی تربیت پاجاتی ہے۔ کیونکہ یہ تو غیر ممکن ہے۔ جو شخص خوف الہیٰ سے حالت روزہ میں حلال اشیاء کوترک کردینا اپنافرض سمجھتاہے۔ وہ حرام چیزوں اوردیگر ہر قسم کے امور ممنوعہ کو نہ چھوڑے۔

6۔ چونکہ روح اور جسم میں ایک خاص تعلق ہے۔ اس لئے اطباء نے جہاں جسم کو سال میں ایک دفعہ مسہل دیا جانا ضروری کیا ہے۔ ہاں طبیب حقیقی نے بھی روح کےلئے سال کےبعد ایک بار وزہ کا مسہل فرض کیا تاکہ مواد فاسدہ اور غلیظ خلطیں جمع ہو کر جسم وروح کو خراب نہ کریں۔

7۔ مخالفین اسلام اکثر اوقات یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ مسلمان روزہ رکھ کر یونہی بھوکے پیاسے مرا کرتے ہیں بھلا اس میں کیا فائدہ ہے سو عرض ہے کہ بھوکا وپیاسا رہنا حضرت انسان کے لئے زحمت نہیں بلکہ رحمت ہے حکماء سے جا کر پوچھ لیجئے گا کہ انسان کو کئی ایک بیماریاں ایسی لاحق ہوتی ہیں جن کا علاج صرف بھوک پیاس ہی ہوتا ہے ۔ اور بس

8۔ جس طرح جسمانی صحت کےلئے اطباء نے بھوک پیاس کو مفید خیال کیا ہے۔ ایسا ہی زاہدوں اورعابدوں نے بھو ک کو تزکیہ نفس وصفائی قلب کےلئے اکسیر ثابت کیا ہے۔ چنانچہ آپﷺ کے ارشادات ہیں۔

 (الف) "الجوع سید العمل" ’’یعنی بھوک تمام عملوں کی سردار ہے۔‘‘

 (ب) "الجوع مخ العبادۃ" ’’یعنی بھوک تمام عبادتوںکامغز ہے۔‘‘

 (ج) "الجوع طعام الانبیاء" ’’یعنی بھوک نبیوں کی خوراک ہے۔‘‘

 (د) "طهرواقلوبكمبالجوع لتنظروا الي عظمة الله تعالي" ’’یعنی تم اپنے دلوں بھوک سے صاف کرو۔ تاکہ تم اللہ کی عظمت جبروت کودیکھ سکو‘‘(1)۔ الغر ض بھوک وپیاس تذکیہ نفس کےلئے ایک کامل زریعہ ہے۔ جس کا نبیوں کے علاوہ رشیوں اور مینوں نے بھی اعتراف کیاہے۔ (12 جون 25ء)

-------------------------------------------

1۔ راقم مضمون نے ان روایات کو بغیر حوالہ ہی نقل کیا ہے۔ وللہ اعلم (محمد دائود راز)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

 

جلد 01 ص 643

محدث فتویٰ

تبصرے