سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(473) خطبہ جمعہ کا اپنی زبان میں ترجمہ کرنا

  • 6270
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1295

سوال

(473) خطبہ جمعہ کا اپنی زبان میں ترجمہ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرح متین اس امر میں کہ خطبہ جمعہ وغیرہ میں واسطے سمجھانے عربی نہ جاننے والوں کے خطبہ عربی کا اردو یا پنجابی یا فارسی میں حسب حاجت ترجمہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اقول باللہ احول ماہران شریعت پر مخفی نہیں کہ خطبہ لغت عربیہ میں وعظ نصیحت کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ عبارات کتب لغت سے ظاہر ہے۔

الخطيب وامخاطبة ووالتخاطب المراجعة في الكلام ومنه الخطبة والخطبة لكن الخطبة تختص بالموعظة والخطبة للطلب المراة انتهي ما في مفردات القرلن الامام راغب بن الحسين مختصرا خطبة بالضم

کلام کے در ستائش خدا ونعمت نبی ﷺ "وموعظت خلق باشد ونثر مسبح انتھیٰ"

"ما في منتهي الارب الوعظ والموعظة هو مقترن بتخويف وقال الخليل وهو التذكير بالخير فيما يرق به الفلب قال الله عزوجل يعظكم لعلكم تذكرون وقال قد جاءتكم موعظة من ربكم الي اخر ما في مفردات القران"

پس یہ ثابت ہوئی کہ خطبہ وعظ کوکہتے ہیں۔ اور غرض وغایت درس ووعظ قرآن مجید حدیث شریف سے یہ ہے کہ سامعین وعظ سن کر اس سے پند پزیر وعبرت گیرہوں اور مطلب ومعنی آیت وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ﴿٦٤سورة النحل

ومعنی آیۃ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ﴿١سورة ابراهيم

کے اسی پر دال ہیں۔ کے سامعین غیر عربی کوبدون سمجھانے معنی اور واقف کرانے اس کے عبارت درس ووعظ سے کچھ حاصل نہیں اسی لہاظ سے خدائے تعالیٰ نے فرمایا

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ﴿٤ سورة ابراهيم

وبیان مستلزم تفہیم وتفہیم کوہے۔ اور بغیر قصد تفہیم وتفہیم کے درس ووعظ معریٰ عن المقصود ہوگا۔

پس ان تفاسیر سےصاف ظاہر وواضح ہوا۔ کہ بدون سمجھنے معنے کے تذکرہ اتاظ متعذر ودشوار ہے بنا براس کے ترجمہ وعظ ودرس وخطبہ کا غیر عربی داں کے نام ناکام وغرض ناتمام ہوگا۔ کیونکہ درس وعظ خطبہ واسطے تفہیم کے وتفہم سامعین کے موضوع و مقرر ہوتا کہ سامع سمجھ بوجھ کر متنبہ ہوجاوے۔ اور براہ راست آجاوے اس نظر سے آپﷺ نے خطبہ حج و جمعہ وغیر ہ میں فرمایا۔ "فليبلغ الشاهد الغائب" اور بے سمجھ کیا پہنچاوے گا۔ قاضی بیضاوی نے لیبین لھم کے تہت تصریحا لکھ دیا۔ "فيتفقهوء ثم ينقلوه يترجموه لغيرهم" محض اس لئے کہ جب تک واعظ وخظیب کا وعظ وبیان سامعین کے مرکزخاطر نہ ہوگا۔ محض لغو بیگار ہوگا۔ کیونکہ جو غرض شارع کی اس خطبہ وعظ سے تھی وہ فوت ہوگئی۔ "كما لا يخفي علي التامل المتفطن" اگر کوئی کہے کہ نماز میں بھی قاری کو چاہیے کہ مقتدی کے واسطے ترجمہ قرات کا کرے۔ تاکہ وہ اس کے معنی سمجھ بوجھ لے۔ تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔ کیونکہ قرآن کا پڑھنا امام اور مقتدی دونوں پر نماز میں واجب ہے۔ حسب ارشاد خداوندی کریم کے ۔

۔ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ۚ٢٠سورة المزمل

 پس امر وجوبی صیغہ فاقروا سے واضح ہو کہ ہر نمازی کو خواہ امام ہو یا مقتدی نظم قرآن کو خاص عربی منظوم کا نام ہے۔ جو بنقل وتواتر ہم تک پہنچا۔ پڑھنا ضرور ولابد ہے۔ اور زبان فارسی وغیرہ میں ترجمہ اس کا نماز میں کرے۔ تو منقول خاص متواتر باقی نہ رہے گا کیونکہ اس پر اطلاق قرآن کا نہ ہوگا۔ تو خلاف مامور کا لازم ہوگا۔ پس اسی سبب سے ترجمہ قرآن کا نماز میں پڑھنا ممنوع و محظور ہوگا۔ "كما لا يخفي علي ماهري الشريعة" علاوہ ازیں نماز زکر ہے۔ اورخطبہ تذکیرزکر اورتزکیر کا حکم ایک کب ہوسکتاہے۔ احناف کرام نے بھی خطبے کو بزبان ععربی منحصر نہ رکھا۔ امام ابو حنیفہ اور صاحبین اس پر متفق ہیں۔ اور بعض حنفیہ نے لکھاہے۔ کہ صاحبین نے وقت عجزوجائز رکھا نہ بلاعجز لیکن قول امام صاحب کا معتمدہے۔

 (سید محمد نزیر حسین۔ سید محمد عبدلسلام۔ سید محمد ابو الحسن۔ عبد التواب)

چونکہ خطبہ میں شارع کی طرفسے کوئی تعین کلمات کی نہیں ہوئی۔ بلکہ فقط حمد وثناء بما ہواہلہ اور تزکیر بالقران او امر بالمعروف وارد ہوا ہے۔ اور تزکیر عواماہل ہند کو بغیر ترجمے کے ممکن نہیں اس لئے بوجب دلائل فتوے۔ بالا خطبہ میں ترجمہ قرآن کا کرنا اور وعظ کہنا اور امر بالمعروف کرنا زبان ہندی میں جائز ہے۔ فقط حررہ محمد تغمدہ اللہ الصمد بالرحمۃ والفضل الموید (ابو محمد عبدالوہاب )

مقصود شارع کا شریعت خطبہ سے صرف پندو موعظت ہی ہے۔ پس جب خطبہ اس مقصود سے خالی ہوگا۔ تو وہ حقیقت میں خطبہ ہی نہیں۔ یوں ہی برائے نام بطور رسم سمجھا جائے گا۔ بے شک خطبے میں واعظ جس زبان میں حاجت پوری کرسکتے ہیں کریں۔ جولوگ خطبے میں وعظ بزبان عجمی کرنے سے باوجود دواعی شدیدہ کے منع کرتے ہیں۔ وہ مقصود خطبہ سمجھنے سے بے خبر ہیں۔ فقط حررہ محمد ابراہیم۔ بن مولوی احمد ساکن۔ جزیرہ  حبشان۔ جواب بہت ہی صحیح ہے۔ عبد الرحمان بن عبدالکریم ۔

جواب۔ خطبہ جمعہ کا ہو۔ خواہ کسی اور محل کا مقصود صرف وعظ وتزکیر ہے۔ پس اگر یہ وعظ تزکیر صرف عربی عبارات سے ہوسکے اور او ر اس کو اکثر مخاطبین وحاضرین مجلس سمجھیں۔ تو عربی پر اکتفاکرنا اولی ہے۔ اوراگر اکثر مخاطب عربی نہ سمجھیں۔ تو اس کا ترجمہ ہندی میں اور دوسری زبانوں میں جو مخاطب سمجھیں۔ ضروری ہے۔ صحیح مسلم میں جابر بن سمرہرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔

"كانت لرسول الله صلي الله عليه وسلم خطبتان يقراء القران ويذكر الناس"

نووی نے شرح مسلم میں کہا ہے۔

"فيه دليل الشافيعي انه يشترط للخطبة الوعظ والقراءة"

جو لوگ ہندیوں میں عربی نہ سمجھتے ہوں۔ صرف عربی خطبہ کو اکتفا کرنے کو واجب ج انتے ہیں۔ اور ترجمہ کرنے کو ناجائز کہتے ہیں۔ وہ خطبہ کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اور مقصود شرع سے بے خبر ہیں۔ اس باب میں ایک مفصل اشاعت السنۃ شائع ہوگا۔ اس لئے اس مقام میں زیادہ تفصیل نہیں ہوئی۔ (اابو سعید محمد حسین)

ان الحمم الا لله اگر کوئی شخص اس طور پر خطبہ پڑھے۔ کہ اس میں عبارات عربی مثل آیات قرآنی اور احادیث اور ادعیہ ماثورہ کچھ نہیں ہوں تو یہ صورت جائز نہیں ہے۔ اور اگر ایسا نہیں کرے۔ بلکہ عبارات عربیہ کو بھی پڑھے۔ اور اس کے بعد اس کا ترجمہ کردے۔ تاکہ عوامالناس کواس سے فائدہ پہنچے۔ یہ صورت جواز کی ہے صحیح مسلم میں ہے۔

"كانت لرسول الله صلي الله عليه وسلم خطبتان يقراء القران ويذكر الناس"

جب تک ترجمہ نہیں کیا جائے گا۔ تو عوام کیسے سمجھ سکتے ہیں۔ اور تذکیر کا اختصاص بھی آپﷺ کے ساتھ اس مقام میں کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے۔

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴿٢١سورة الأحزاب

کافی ووافی ہے۔ واللہ ااعلم بلصواب حررہ محمد المدعو بشمس الحق العظیم آبادی (ابو طیب محمد شمس الحق۔ محمد اشرف عفی عنہ۔ ابو عبد اللہ محمدادریس۔ فتاویٰ نزیریہ ج1 ص 371)

شرفیہ

خطبہ جمعہ کا مقصد حاضرین نمازیوں کی زبان میں ان کو اللہ اور رسولﷺ کی باتیں قرآن پاک اور احادیث صحیحہ سے سناناہے۔ جس پر یہ حدیث دال ہے۔

"عن جابر بن سمره كانت لرسول الله صلي الله عليه وسلم خطبتان يجلس بينهما يقراء القران ويذكر الناس "(رواہ مسلم مشکواۃ ج1 ص123)

اور یہ بدہیی امر ہے۔ اور یہی بدہیی امرہے کہ تزکیر بلا تفہیم سامعین نہیں ہوسکتی۔ اس لئے جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہیں۔ عربی سے ان کی تفہیم کا حق ادا کرنا نا ممکن ہے۔ جب تک آیات قرآنی کا مطلب خود ان کی زبان میں نہ ان کوسمجھایاجائے۔ لہذا ایسا خطبہ جس کو سامعین سمجھ ہی نہ سکیں۔ فضول ہے۔ اور خلاف شرع کیونکہ شارع علیہ السلام کا جو مقصد عظیم ہے۔ وہ فوت ہوجاتاہے۔ لہذاایسی زبان میں سمجھنا لازم ہے۔ اور خلاف اس کا باطل (ابو سعید شرف الدین دہلوی)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 624

محدث فتویٰ

تبصرے