السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لوگ کہتے ہیں کہ نماز وتر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے۔ بعض مولوی دو رکعت نفل پڑھنے کو کہتے ہیں۔ تو نفل پڑھنے کا کیا ثبوت ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ نفل صرف رسول اللہ ﷺ کے ہی لئے مخصوص تھے تو پڑھنا چاہیے یانہیں؟ اور صرف آپ کےلئے خاص ہونے کی دلیل ہے۔ مدلل جواب دے کر شکوک دور کریں۔ (عبد القیوم بنارس)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث میں آیا ہے۔ کہ رات کی آخری نماز وتروں کو کیاکرو۔ ایک حدیث میں آیا ہے۔ کہ آپﷺ نے بعد وتروں کے نفل پڑھی۔ اسی لئے اختلاف پیدا ہوا۔ میرے ناقص فہم میں وتروں کے بعد نفل پڑھنے جائز ہیں۔ اور جس حدیث میں آخر وتر کرنے کا ارشاد ہے۔ اس میں وتر سے مراد نماز تہجد ہے۔ یہ معمولی وتر نہیں جیسا حدیث شریف میں آیا ہے۔ "یا اھل القرآن اوتروا" ’’یعنی تہجد پڑھا کرو۔‘‘ پس معنی حدیث کے یہ ہیں۔ کہ آخر رات کو تہجد پڑھا کرو۔ اس تہجد میں وتر ساتھ پڑھتے جایئں تو بعد وتروں کے نفل پڑھ سکتا ہے۔ کیونکہ وہ نفل بھی تہجد میں داخل ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب