السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آیات قرآنی سے تعویذگلے میں ڈالنا یا بازو پرباندھناجائزہے یانہیں ؟ جوازیا عدم جواز پرقرآن وحدیث سے کیادلائل ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مشکوۃ ٰ میں ہے :
«عن عمروبن شعیب عن ابیه عن جدہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال اذافزع احدکم فی النوم فلیقل اعوذبکلمات اللہ التامات من غضبه وعقابه وشرعبادہ ومن ہمزات الشیاطین وان یحضرون فانهالن تضرہ وکان عبداللہ بن عمرویعلمهامن بلغ من ولدہ ومن لم یبلغ منہم کتبهافی صک ثم علقهافی عنقه رواہ ابوداؤدوالترمذي وهذالفظه» (مشکوة باب الاستعاذة ص 217)
’’عمروبن شعیب اپنے باپ وہ اپنے دادے (عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ )سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جواپنی نیندمیں گھبرائے وہ یہ کلمات پڑھے’’ اعوذالخ ‘‘یعنی میں خدا کے پورے کلمات کے ساتھ پناہ پکڑتاہوں ۔اس کے غضب سے اس کے عذاب سے اس کے بندوں کے شرسے اورشیاطین کے وسوسوں سے اور اس سے کہ میرے پاس حاضرہوں ۔‘‘ پس وہ خواب اس کوبالکل نقصان نہیں دے گی۔ اورعبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ کی اولادسے جوبالغ ہوجاتا،عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ اس کویہ کلمات سکھادیتے اورجونابالغ ہوتا کاغذپرلکھ کر اس کےگلے میں ڈال دیتے ۔اس کوابوداؤداورترمذی نے روایت کیا۔‘‘
عموماً جواز کے لیے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے مگراس پراعتراض ہوتاہے کہ یہ صحابی کافعل ہے اورصحابہ رضی اللہ عنہما دوسری طرف بھی ہیں تو پھرفیصلہ کیاہوا؟
نواب صدیق حسن خاں مرحوم نے ’’دین خالص‘‘میں پہلے یہ حدیث ذکرکی ہے :
«عن ابن مسعودرضی اللہ عنه قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ان الوقی والتمائم والتولة شرک رواہ احمدوابوداؤد۔»
’’ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادم ،تعویذ،عمل جب یہ شرک ہے ۔‘‘
اس کے بعداس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
«اقول ان العلماء من الصحابة والتابعین فمن بعدهم اختلفوافی جواز تعلیق التماءم التی من القرآن واسماء اللہ تعالیٰ وصفاته فقالت طائفة یجرز ذلک وهوقول ابن عمروبن العاص وهوظاہرماروی عن عائشة وبه قال ابوجعفر الباقرواحمدفی روایة وحملوا الحدیث علی التمائم التی فیهاشرک وقالت طائفة لایجوز ذلک وبه قال ابن مسعودرضی اللہ عنه وابن عباس رضی اللہ عنه وهوظاهرقول حذیفة وعقبة بن عامروابن عکیم وبه قال جماعة من التابعین منهم اصحاب ابن مسعود و احمدفی روایة واختارهاکثیرمن اصحابه وجزم بہ المتاخرون واحتجرابهذاالحدیث ومافی معناه» (دین خالص حصہ اول ص 344)
صحابہ ،تابعین اور ان کےبعدعلماء میں قرآن مجیداوراسماء اورصفات الہیٰ کے تعویذوں کے متعلق اختلاف ہے ۔ایک جماعت جواز کی قائل ہے ان سے عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول سے بھی ظاہرہوتاہے اور ابوجعفرباقررحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ اور امام احمدرحمہ اللہ سے بھی ایک روایت اسی کے موافق ہے اورحدیث مذکورکوشرکیہ تعویذوں پرمحمول کرتے ہیں۔اور ایک جماعت عدم جواز کی قائل ہے اورعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مذہب ہے اورحذیفہ رضی اللہ عنہ اورعقبہ بن عامررضی اللہ عنہ اور ابن عکیم رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی یہی ظاہرہوتاہے اور ایک جماعت تابعین رحمہ اللہ سے بھی اسی کی قائل ہے ان سے اصحاب ابن مسعودرضی اللہ عنہ ہیں۔ اورایک روایت امام احمدرحمہ اللہ سے بھی اسی کے موافق ہے امام احمدرحمہ اللہ کے بہت سے اصحاب نے اسی کواختیارکیاہے اورمتاخرین کابھی یہی مذہب ہے اور دلیل اس کی حدیث مذکورہ اور اس کے ہم معنی دیگر روائتیں پیش کرتے ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہواکہ مسئلہ مختلف فیہاہے اور دونوں طرف صحابہ رضی اللہ عنہما ہیں تو اب فیصلہ کسی اوردلیل سے ہوناچاہیے صرف کسی صحابی رضی اللہ عنہ کاقول وفعل پیش کردینا کافی نہیں ۔پس اب سنیئے :
حدیث مذکورمیں تین چیزیں ذکرہوئی ہیں ۔رقیہ ،تمیمہ ،تولہ ۔ یعنی دم ،تعویذاورعمل حب ۔حدیث میں ان تینوں پرشرک کاحکم لگایاگیاہے ۔اب دیکھنایہ ہے کہ نفس ان تینوں کاشرک ہے یاان کی کئی قسمیں ہیں جیسے بعض شرک ہیں بعض غیرشرک ہیں ۔کچھ شک نہیں کہ نفس دم یعنی ذات دم کی یا ذات تعویذ یا ذات عمل حب کی شرک نہیں۔ بلکہ ان کی بعض قسمیں شرک ہیں اوراس کی تائیداس حدیث سے بھی ہوتی ہے جومشکوۃ میں ہے :
«عن عوف بن مالک الاشجعی قال کنانرقی فی الجاهلیة فقلنایارسول اللہ کیف تری فی ذلک فقال اعرضوارقاکم لابأس بالرقیٰ مالم یکن فیه شرک» (مشکوة کتاب الطب ص 388)
’’عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم جاہلیت میں دم کیاکرتے تھے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم نے اس کی بابت دریافت کیا توفرمایا: اپنے دم مجھ پرپیش کرو۔جب دم میں شرک نہ ہوتوکوئی حرج نہیں۔‘‘
اس کی ہم معنی اوربھی کئی احادیث ہیں جومشکوۃ وغیرہ میں موجودہیں ۔اور یہ صرف جاہلیت کے دموں کے متعلق ہیں اورجودم قرآن وحدیث کے ہیں وہ ان کے علاو ہ ہیں ۔ ان سے معلوم ہواکہ نفس دم مرادنہیں۔ بلکہ اس کی بعض قسمیں (کلمات شرکیہ)مرادہیں ۔اور جب اس کی بعض قسمیں مراد ہوئیں تو باقی دو میں بھی بعض مراد ہوں گی۔ کیونکہ جیسے دم کی بعض قسمیں شرکیہ ہیں بعض غیرشرکیہ اسی طرح باقی دوکا حال ہے۔ پس تفریق کی کوئی وجہ نہیں ۔اسی لیے جوجواز کے قائل ہیں ،انہوں نے حدیث مذکورہ کوشرکیہ تعویذوں پرمحمول کیاہے جیسے نواب صاحب رحمہ اللہ کی عبارت مذکورہ میں اس کی تصریح ہے ۔
اورتمیمہ اورتولہ کی تفسیربھی اسی کی مؤید ہے چنانچہ نیل الاوطارجلد8کتاب الطب باب ماجاء فی الوقی والتمام ص 444میں ہے ۔
«التمائم جمع تمیمة وہی حرزات کانت العرب تعلقها علی اولادهم یمنعون بهاالعین في زعمهم فابطله الاسلام»
’’یعنی تمیمہ منکے ہیں جونظرسےبچاؤکےلیے عرب اپنے اعتقادکی بناء پراپنی اولادکےگلے میں باندھتے تھے۔پس اسلام نے اس کوباطل کردیا۔‘‘
اورتولہ کی تفسیرمیں لکھاہے :۔
«قال الخیل التولة شبیہ بالسحر»
’’یعنی خلیل رحمہ اللہ کہتے ہیں تولہ جادوکے مشابہ ہے ۔‘‘
اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ فتح الباری جزء 23باب الرقی بالقرآن الخ ص 418میں لکھتے ہیں :
«والتولة شئی کانت امرأة تجلب به محبة زوجها وهو نوع من السحر»
’’یعنی تولہ ایک شئے ہے جس کے ذریعے اپنے خاوندکی محبت کھینچ لیتی ہے اور وہ ایک قسم جادوہے ۔‘‘
نیل الاوطارمیں خلیل رحمہ اللہ کےقول کے بعدیہ بھی لکھا ہے :۔
«وقدجاء تفسیرہ عن ابن مسعودکمااخرجه الحاکم وابن حبان وصححاہ انه دخل علی امرأة وفی عنقها شئی معقودفجذبه فقطعه ثم قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول ان لرقی والتمائم والتولة شرک قالوایااباعبداللہ هذاالتماءم والرقی قدعرفناہافماالتولة قال شئی یصنعه النساء یتحببن الی ازواجهن یعنی من السحرقیل هوخیط یقرأفیه من السحراوقرطاس یکتب فیه شئی منه یتحبب بہ النساء الی قلوب الرجال اوالرجال الی قلوب النساء فاماماتحبب به المرأۃ الی زوجهامن کلام مباح کمایسمی الغنج وکماتلبسه للزینة اوتطعمه من عتمارمباح اکله اواجزاء حیوان ماکول ممایعتقدانه سبب الی محبة زوجهالمااودع اللہ تعالی ٰ فیه من الخصیصة بتقدیراللہ لاانه یفعل ذلک بذاته قال ابن رسلان فالظاهران هذاجائز لااعوف الئن مایمنعه فی الشرع انتهیٰ۔»
’’اورتولہ کی تفسیرخودعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے آئی ہے جس کوحاکم رحمہ اللہ اورابن حبان رحمہ اللہ نے روایت کیاہے اورصحیح بھی کہاہے۔ وہ یہ کہ انہوں نے اپنی بیوی کے گلے میں کچھ بندھا ہوا دیکھ کراس کوتوڑ دیا اورکہامیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنافرماتے تھے رقیٰ اورتمائم اورتولہ شرک ہے۔ لوگوں نے کہا اے ابوعبدالرحمن !رقی ٰ اورتمائم کوتوہم جانتے ہیں تولہ کیاشئے ہے ؟کہا:ایک شئے ہے جوعورتیں خاوندوں کی محبت کے لیے بناتی ہیں یعنی جادوکی قسم ہے ۔کہاگیا وہ ایک تاگہ ہے جس پرجادوسے کچھ پڑھاجاتاہے یاکاغذہے جس میں جادوسے کچھ لکھاجاتاہے جس کے ذریعے عورتیں مردوں کومحبوب بناتی ہیں یا مردعورتوں کومحبوب ہوجاتے ہیں۔ بہرحال کلام مباح سے عمل حب نزاکت اور زینت کی طرح یا کوئی مباح جڑی بوٹی کھلاکر یا حلال جانورکے اجزاء کھلاکرجن کے متعلق اعتقاد ہوکہ ان میں تقدیرالہیٰ کے ساتھ نہ ذاتی طور پر محبت پیدا کرنے کی خاصیت ہے اس قسم کے عمل حب کی بابت ابن سلمان نے کہاہے: کہ ظاہریہی ہے کہ یہ جائزہے ۔شریعت میں اس کے منع کی کوئی دلیل میں نہیں جانتا۔‘‘
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ صرف شرک والی صورتیں منع ہیں باقی جائز ہیں۔ ہاں پرہیز افضل ہے جس کی دو وجہیں ہیں ۔ایک یہ کہ اختلافی بات میں اختلاف سے نکل جانابہترہے روجانی علاج میں زیادہ تر ان باتوں پرعملدرآمدچاہیے جن پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورعام طورپرسلف رحمہ اللہ کاعمل ہو یا احادیث میں ان کی ترغیب ہو۔کیونکہ روحانیات کاتعلق اعتقادسے زیادہ ہے اوراعتقادعموماً عمل سے ظاہرہوتاہے ۔
نواب صاحب رحمہ اللہ نے بھی جائز قراردیتے ہوئے آخریہی فیصلہ کیاہے کہ پرہیز افضل ہے ۔چنانچہ عبارت مذکورہ بالا (جس میں سلف کااختلاف ذکرکیاہے )کے بعد لکھتے ہیں :
« قال بعض العلماء وهذا(ای عدم الجواز)هوالصحیح لوجوہ ثلثة تظهرللمتامل الاول عموم النهی ولامخصص الثانی سدالذریعة فانه یغض الی تعلیق من لیس کذلک الثالث انه اذاعلق فلابدان یمتهنه بجمله معه فی حال قضاء الحاجة والا ستنجاء ونحوذلک قال وتامل هذہ الاحادیث وماکان علیه السلف یتبین لک بذلک غربة الاسلام خصوصاً ان عرفت عظیم ماوقع فیه الکثیربعدالقرون المفضلة من تعظیم القبورواتحاذهاالمساجدوالاقبال الیهابالقلب والوجه وصرف الدعوات والرغبات والرهبات وانواع العبادات التي هی حق اللہ تعالی الیهامن دونه کماقال تعالی ولاتدع من دون اللہ مالاینفعک ولایضرک فان فعلت فانک اذامن الظالمین وان یمسسک اللہ بضرفلاکاشف له الاهووان یروک بخیرفلارادلفضله ونظائرہافی القرآن اکثرمن ان یحصرانتهیٰ۔قلت غربة الاسلام شئی وخکم المسئلة شئی احروالوجه الثالث المتقدم لمنع التعلیق ضعیف جدالانه لامانع من نزع التمائم عندقضا ء الحاجة ونحوہالساعة ثم یعلقهاوالراجح فی الباب ان ترک التعلیق افضل فی کل حال بالنسبة الی التعلیق الذی جوزہ بعض اهل العلم بناء علی ان یکون بماثبت لابمالم یثبت لان التقویٰ له مراتب وکذاالاخلاص وفوق کل رتبة فی الدین رتبة اخری والمحصلون لهااقل ولهذاوردفی الحدیث في حق السبعین الفایدخلون الجنة بغیرحساب انهم هم الذین لایرقون ولایسترقون مع ان الرقی جائزة وردت بهاالاخباروالاثارواللہ اعلم بالصواب والمتفقی من یترک مالیس به ...خرفاً ممافیه باس» ۔(فضل ردشرک الرقی والتمائم صفحه 344۔345)
’’بعض علماء نے کہاہے کہ عد م جواز ہی صحیح ہے جس کی تین وجہیں ہیں ایک یہ کہ حدیث مذکورعام ہے اورمخصص کوئی نہیں ۔ دوم سدباب کیونکہ تعویذکی اجازت دی جائے۔ تو لوگ آہستہ آہستہ مشتبہ یاشرکیہ الفاظ والے تعویذ بھی استعما ل کرنے لگ جائیں گے ۔سوم پاخانہ پیشاب کے وقت تعویذ ساتھ لے جانے سے کلام الہیٰ اوراسماء الہیٰ کی توہین ہوگی۔ اور ان بعض علماء نے کہاہے کہ ان احادیث میں اور روش سلف میں غورکرتاکہ تیرے لیے غربت اسلام واضح ہوجائے خاص کرجبکہ تودیکھے کہ خیرقرون کے بعدلوگ کس قدرخرابیوں میں واقع ہوگئے۔ قبروں کی تعظیم ،ان کو مسجدیں بنانا دل وجان سے ان کی طرف آمدورفت۔ قبروالوں کوپکارنا،ان سے امیدوخوف رکھنا،کئی طرح کی عبادت کرنا جو خاص خداکاحق ہے۔ قرآن مجیدمیں ہے :
’’ایسی شئے کونہ پکارو جو نہ کچھ نفع دے سکے نہ نقصان۔ اگرتو ایساکرے گا توظالم ہوجائے گا۔اورخدا اگرتجھے ضررپہنچائے توکوئی اسے کھولنے والا نہیں اور اگرتیرے ساتھ خیرکا ارادہ کرتے توکوئی اسے کے فضل کو ردکرنے والا نہیں ۔‘‘
اس قسم کی آیتیں بہت ہیں ۔میں (نواب صدیق حسن )کہتا ہوں کہ غربت اسلام علیحدہ شئے ہے اورمسئلہ علیحدہ شئے ہے۔اورتیسری وجہ بالکل کمزور ہے کیونکہ تھوڑی دیرکے لیے پاخانہ پیشاب کے وقت تعویذکھولاجاسکتاہے اورافضل ترک تعویذہے۔ وہ تعویذجس کوبعض علماء نے بوجہ ثبوت کے جائز قراردیاہے نہ کہ وہ تعویذجس کاکوئی ثبوت نہیں۔ اورجوثابت ہے اس کا ترک اس لیے افضل ہے کہ تقوی اوراخلاص کے کئی مراتب ہیں اور دین میں ہرمرتبہ کے اوپردوسرامرتبہ ہے اور اس کے حاصل کرنے والے بہت کم ہیں ۔ اسی واسطے ستر ہزار آدمی جوبغیرحساب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔ان کےمتعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ وہی ہیں جونہ دم کرتے ہیں نہ کرواتے ہیں حالانکہ دم جائز ہے۔ چنانچہ اخبارآثارمیں آیاہے اورمتقی وہ ہے جواس شئے کی وجہ سے جس میں ڈرہے اس شئے کوبھی چھوڑدے جس میں ڈرنہیں ۔‘‘
نواب صاحب مرحوم نے اس عبارت میں بعض علماء کی پہلی وجہ کی طرف اس لیے توجہ نہیں کی کہ وہ ظاہرالبطلان ہے۔کیونکہ دم ،تمیمہ ، تولہ کی ذات شرک نہیں بلکہ بعض قسمیں شرک ہیں۔ چنانچہ اوپر بیان ہوچکاہے توحدیث عموم پرکیسے محمول ہوسکتی ہے ۔دوسری وجہ کونواب صاحب رحمہ اللہ نے یہ کہہ کر ردکردیاہے کہ غربت اسلام علیحدہ شئے ہے اورمسئلہ علیحدہ شئے ہے گویاسدباب سے بعض علماء کا مطلب یہ تھاکہ جیسے قبروں کا معاملہ برائی کی طرف ترقی کرکے غربت اسلام کا باعث ہوگیا اسی طرح قرآن وحدیث کے الفاظ کے ساتھ تعویذکرتے کرتے کہیں غیرمشروع الفاظ کےساتھ بھی تعویذوں کاراستہ نہ کھل جائے جوغربت اسلام کا ذریعہ بن جائے ۔ نواب صاحب رحمہ اللہ نے اس کاجواب دیاکہ اس طرح کی غربت اسلام اصل مسئلہ میں مخل نہیں ۔مثلاً قبروں میں خرافات ہونے سے مسنون طریق پران کی زیارت منع نہیں ہوسکتی ۔ ٹھیک اسی طرح تعویذکا معاملہ ہے ۔تیسری وجہ پرنواب صاحب نے بہت کمزور ہونے کاحکم لگایاہے ۔ اورواقعی وہ بہت کمزورہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی پہنتے تھے ۔پیشاب کے لیے جانے کے وقت اتاردیتے تھے پھرمڑھانے کی صورت میں شایدیہ بے ادبی بھی نہ رہے ۔بہرصورت جواز میں کوئی شبہ نہیں۔مگر ان الفاظ کے ساتھ جوقرآن وحدیث سے ثابت ہوں یا ان کے ہم معنی ہوں ۔مشتبہ نہ ہوں لیکن باوجودجواز کے نواب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ترک فضل ہے ۔کیونکہ حرام سے بچ کرجائز پراکتفاکرنا اگرچہ تقوی ہے مگرتقوی اوراخلاص اسی پرختم نہیں بلکہ اس کے بہت سے مراتب ہیں اور ہرمرتبہ کے اوپر ایک اورمرتبہ ہے جس کوکم لوگ پہنچتے ہیں ۔اسی لیے 70ہزارآدمی جوبغیرحساب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔ ان کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ وہ ہیں جونہ دم کرتے ہیں نہ کراتے ہیں حالانکہ دم کے جواز میں احادیث اورآثارسلف بہت آئے ہیں ۔تواگرتقوی کی حدصرف جواز تک ہوتی توپھرترک دم کے ساتھ ان سترہزارکی تعریف کیوں ہوتی ہے ۔اس سے معلوم ہواکہ اصل تقوی جائز پراکتفاکرنے میں نہیں بلکہ جائز کوبھی چھوڑکراحتیاط والی صورت اختیارکرنے میں ہے ۔پس افضل ترک ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب