سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(365) اگرعیدین کے روز جمعہ پڑھا جائے تو..الخ

  • 6153
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 822

سوال

(365) اگرعیدین کے روز جمعہ پڑھا جائے تو..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگرعیدین کے روز جمعہ پڑھا جائے تو جمعہ کی نماز درجہ معانی میں ہے یا جمعہ کی نماز عیدین کی نماز کے بعد پڑھنا ہوگا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث واقعی ہے لیکن حنفیہ کہتے ہیں۔ کہ یہ حکم دیہاتیوں کے لئے ہے۔ شہریوں کے لئے جمعہ فرض ہے۔ محدثین کے کہتے ہیں جمعہ کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ پڑھناجائز ہے میر ا بھی یہی مسلک ہے۔

شرفیہ

یہ بعض محدثین کا مسلک ہے۔ مگر دلائل میں کلام ہے بعض دلائل یہ ہیں۔

"اجتمع عيد ان علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم في يوم واحد فصلي العيد اول النهار فقال يا ايها الناس ان هذا يوم قد اجتمع لكم فيه عيد ان فمن احب ان يشهد معنا الجمعة فليفعل ومن احب ان ينصرف فليقعل"  (رواہ ابو دائود۔ وانسائی۔ وابن ماجہ۔ واحمد ۔ ،والحاکم)

حاشیہ پر قول عثمان پر لکھا ہے۔ مقید باحل العولی یعنی اذن اہل عوالی کودیا تھا۔ نہ سب کو او ر قول عمر پر بدر کی تصحیح لکھی ہے۔ مگر حاکم کی روایت کو ابن منذر نے تو کہا ہے کہ لا یثبت فیہ را ومجہول زید بن ارقم کی روایت میں ایاس  بن ابی رملہ ہے جومجہول ہے۔ اس لئے ابن منذر نے اس کے بارے میں لایثبت کہا ہے۔ اور عطا والی روایت میں اسباط بن نصیر کو کثیر الخطا یغرب لکھا ہے۔ (تقریب التہذیب) نیز اسی میں سلمان بن مہران اعمش مدلس ہے۔ اور روایت عن سے ہے۔ اور عنعنہ مدلس کا م مقبول نہیں۔ کما فی الصول الحدیث اورعطا کی روایت ابن جریج سے بھی آئی ہے۔ اور ابن جریج بھی مدلس ہے۔ اورروایت عن سے ہے لہذا غیر مقبول ہے۔ ''کان یدلس ویرسل'' تقریب التہذیب) اور ابو ہریرہ والی روایت میں بقیہ بن ولید کثیر التدلیس من الضعفاء ہے اور مغیرہ الضبی بھی مدلس ہے۔ اور روایت بھی عن سے ہے۔ تحدیث نہیں نیل الاوطار میں عطا والی روایت کے بارے میں رجالہ رجال الصھیح لکھا ہے۔ مگر اعمش اور جریج کی تدلیس اور معنعنہ کا جواب کچھ نہیں دیا۔ لہذا اعتراض بحال رہا۔ اور  فعل ابن زبیر اور قول ابن عباس والی  روایت کو نیل میں رجالہ رجال الصحیح لکھا ہے۔ مگر تقریب میں اس کو بخاری کی معلق روایات میں سے لکھا ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے۔ صدوق رمي بالقدرو وربما وهم ن السادسة انتهي لفظ ربما وهم  سے کثیر الوہم ثابت ہونا ہے۔ وللمتقليل قليل  اور یہ مقام بھی اسی قسم کا ہے۔ اس لئے کہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے وقت صدیا  صحابہ رضوان اللہ عنہم  اجمعین موجود تھے۔ پھر جب ابن زبیر نے جمعہ نہ پڑھا باہر نکلے اور لوگوں نے تنہا تنہا اپنی اپنی نماز پڑھی۔ کما فی روایۃ ابی دائود اور کسی نے بھی ان کو مکان پر جا کر مطلع نہ کیا۔ اور نہ آنے کی وجہ دریافت کی اور انھوں نے بھی عید کی نماز پڑھ کر لوگوں کو اس امر پر مطلع نہ کیا۔ اور پھر عصر کے وقت بھی ان سے دریافت نہ کیا۔ حتی کہ جب عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  طائف سے واپس آئے۔ تب دریافت کرنے سے انہوں نے ''اصاب السنۃ'' کہا گویا سب کے سب  صحابہ رضوان اللہ عنہم  اجمعین اور تابعین صدہا بلکہ ہزاروں کی تعداد سب ہی بے خبر تھے۔ صرف  ابن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہی اتنے بڑے واقعے سے باخبر تھے۔ وھذا من العجائب اس لئے ا س مسئلہ  میں محدثین کا اختلاف ہے۔ امام شافعی و جماعۃ من المحدثین اس کے خلاف ہیں۔

اور وہ جو فتاویٰ ہیں کہ حنفیہ کہتے ہیں۔ یہ حکم دیہاتیوں کے لئے ہے۔ الخ میں کہتا ہوں یہ حنفیہ ہی نہیں کہتے امام شافع اورایک جماعت محدثین بھی یہی کہتے ہیں۔ اور خود بخاری میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے یہ امر مصرح ہے۔

میں کہتا ہوں اس سے واضح ہوگیا کہ  چونکہ یہ دن عید الاضحیٰ کا تھا اور اہل عوالی چار چار پانچ پانچ میل سے آتھ آٹھ میل تک مدینہ منورہ آتے تھے۔ اور جمعہ کی نماز بوقت ظہر مدینہ میں پرھ کر آٹھ آٹھ میل تک جا کر قربانی کرنا اور پھر بطریق مسنون قربانی کے گوشت سے کھانا کھانا بہت ہی تکلیف دہ تھا اس  لئے    حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے  اجازت دی کہ تم لوگ جائو۔ جا کر قربانی کر کے نماز پڑھنا جیسے جمعہ کی نماز بھی بارہا وہاں پڑھا کرتے ہوں۔ پڑھنا اور پنچ وقت جماعت بھی تو ہمیشہ وہیں کرتے تھے۔

صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے۔ کہ ہم لوگ عوالی مدینہ سے مدینہ منورہ میں رسول للہ ﷺ کے پاس باری با ری جایا کرتے تھے۔ جمعہ ہو یا ویسے ہی اخبار وحی کے معلوم کرنے کے لئے روزانہ نہیں جایاکرتے تے۔

پس ثابت ہوا کہ چونکہ اہل عوالی سب ہی ہر جمعہ کو نہیں آیا کرتے تھے۔ بعض آتے اور بعض اپنی اپنی بستیوں میں پنچ وقتی نماز اور جمعہ پڑھتے تھے۔ بس انہیں کو آپ نے حکم دیا تھا۔ کہ جائو قربانی میں بہت تاخیر ہوجائے گی تم اپنے گھروں میں  اپنی بستیوں میں جمعہ پڑھنا اور ہم یہاں پڑھیں گے۔ اور روایات مذکورہ بالا مرفوعہ اگر صحیح تسلیم کی  جائیں  تو ان کا مطلب بھی یہی ہوگا۔ پس اسقاط جمعہ غلط اور فرضیت پہلے ہی اولہ قطعیہ سے ثابت ہے پھر وہ ایسےمشکوک و بے ثبوت دلائل سے کیسے ساقط ہوسکتا ہے۔ ہرگز نہیں  (ابوسعید محمدشرف الدین دہلوی کان اللہ لہ)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

 

جلد 01 ص 561

محدث فتویٰ

تبصرے