سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(353) فاتحہ خلف الامام کا حکم

  • 6141
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1255

سوال

(353) فاتحہ خلف الامام کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے متعلق آپ کی تحقیق ازروئے قرآن وحدیث کیا ہے کیا فاتحہ کے بغیر نمااز ہوجاتی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میں سورہ فاتحہ کوامام کے پیچھے پڑھنے کو ضروری جانتا ہوں۔ ازروئے قرآن وحدیث میری تحقیق ہے ہ فاتحہ کے بغیر منفرد ہویا مقتدی کسی کی نماز نہیں ہوتی۔

الجواب۔ قرات فاتحہ خلف الامام فرض ہے۔ اور  حدیث قرات کی اعلیٰ درجہ کی صحیح و ثابت ہے۔ اور حدیث عدم قرات کی ضعیف وغیر صحیح ہے۔ بلوغ المرام میں ہے۔

 "عن عبادة بن الصامت قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لا صلوة لمن لم يقرا با م القران متفق عليه وفي روايه لا بن حبان والدار قطني لا تجزي صلوة لا يقرا فيها بفا تحة الكتاب"

’’یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی۔ اس  کی نماز نہیں اور ابن حبان اور دارقطنی کی روایت میں ہے۔ کہ جس  نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نماز کافی نہیں۔~~ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے عام طور پر فرمادیا۔ کہ جو شخص مقتدی ہو یا اامام یا منفرد نماز میں سورہ فاتحہ نہ  پڑھے۔ اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘ پس ثابت ہوا کے ہر نمازی کےلئے سورہ  فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔ اور یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ اس وجہ سے اعلیٰ درجے کی صحیح ہے۔ اور مقتدیوں کو خاص طور پر بھی سورہ فاتحہ امام کے پیچھے پڑھنے کو فرمادیا ہے۔ چنانچہ ابو دائوداور ترمذی وغیرہما میں عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے  روایت ہے۔ کہ کچھ مت پڑھو۔ مگرسورۃ  فاتحہ پڑھو۔ اس واسطے کے جس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی۔ اس کی نماز نہیں۔ یہ حدیث بھی صحیح ہے۔ بہت سے محدثین نے اس کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے۔ اورجتنی حدیثیں قرات فاتحہ خلف الامام کی ممانعت کی پیش کی جاتی ہیں۔ ان میں سے جو حدیثیں صحیح ہیں ان  سےممانعت ثابت نہیں ہوتی ہے۔ اور  جن سےممانعت ثابت  ہوتی ہے۔ وہ یا تو بالکل بےاصل ہیں۔ یا ضعیف ناقابل احتجاج علمائے حنفیہ میں سے صاحب تعلیق الممجد نے اس کی تصریح کردی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔

"لم يروفي حديث مرفوع صحيح النهي عن قراءة الفاتحة خلف ا للامام وكل ما ذكر وه مرفوعا فيه اما لا اصل له واما لا يصح" (تعلیق الممجد ص101)  یعنی کسی حدیث مرفوع صحیح میں قرات فاتحہ خلف الا،مام کی   ممانعت نہیں وارد ہوئی ہے۔ اور ممانعت کے بارے میں علمائے حنفیہ جتنی مرفوع حدیثیں بیان کرتے ہیں۔ یا تو  وہ بے اصل ہیں۔ یا صحیح نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوفہ والوں سے ایک قوم کے سواباقی تمام لوگ قرات فاتحہ خلف الامام کے قائل وفاعل ہیں عبد اللہ بن مبارک جو بہت بڑے محدث اور فقیہ ہیں فرماتے ہیں۔

"انا اقاخلف الامام والناس يقرون الا قوم من الكوفين"  (جامع ترمذی ص 59)

یعنی میں امام کے پیچھے قرات کرتا ہوں۔ اور تمام لوگ امام کے پیچھے قرات کرتے ہیں۔ مگر کوفہ والوں سے ایک قوم اور حنفیہ میں سے  بعض لوگوں نے ہر نماز میں  (سری ہو خواہ جہری)  قرات فاتحہ خلاف الامام کو مستحسن بتایا اور بعض لوگوں نے صرف سری میں علامہ عینی شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں۔

"بعض اصحابنا يستحسنون ذالك علي سبيل الا حتياط في جميع الصلوت وبعضهم في السرية فقط وفقهاء الحجاز والشام انته"

واللہ اعلم کتبہ محمد عبد الرحمٰن المبارک فوری عفی  اللہ عنہ  (سید محمد نزیر حسین  (فتاویٰ نزیریہ ص 279)

-----------------------------------------------

1۔ تفصیلی مباحث کے لئے حضرت مولنا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب تحقیق الکلام کامطالعہ فرمایئے۔ منہ راز

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 555

محدث فتویٰ

تبصرے