السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یہ جو زمانہ کے نام نہاد اہل حدیث ہیں۔ یہ لوگ یقینا بدعتی ہیں۔ نماز میں اپنے امام کے پیچھے جواب آیات دیتے ہیں۔ حالانکہ حدیث میں قاری بدون نماز قاری ہی کو جواب دیتا ہے۔
(من قراء منكم) جو یہ جواب امام کے پیچھے دیتے ہیں۔ یہ کہیں ثابت ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ ایسی بدعات کے خود مرتکب ہیں۔ ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث میں آیا ہے: آپﷺ نے نماز میں سورہ رحمٰن پڑھی۔ تو فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو خاموش پا کر فرمایا کہ تم سے اچھا جواب تو جنوں نے دیا ہے۔ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے عرض کرنے پر فرمایا کہ انہوں نے کہاتھا۔ "لا بشئ من نعمتك نكذب ربنا فلك الحمد" گویا یہ تعلیم تھی صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کو کہ تم بھی اس طرح سوال قرآنی کا جواب دیا کرو۔ اسی واسطے شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی نے لکھا ہے کہ قرآنی سوال سورہ التیین وغیرہ کا جوب دينا جائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب