السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مولانا سلمكم الله وعافا!!! رمضان شیریف میں ہم آٹھ رکعت تراویح معہ وتروں کے گیارہ رکعت پڑھتے ہیں۔ بعض لوگ ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ تمہارا یہ فعل خلاف سنت ہے۔ آپ مہربانی فرما کر اس کا ثبوت تحریر فرمایئں۔ تا کہ میں حسب ضرورت اس کو شائع کردوں۔ (شیخ فضل الدین خزانچی۔ انجمن اہل حدیث امرتسر)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں شک نہیں کہ آپﷺ کے زمانہ مبارک میں نماز تراویح باجماعت کا انتظام نہ تھا بلکہ خلافت اولیٰ کے عہد میں بھی نہ تھا لوگ متفرق طور پر پڑھتے تھے۔ تعداد رکعات معہ وتروں کے گیار ہ تھی۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ ''کہ آپ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ مگر اس پر ساری امت کا اتفاق ہے۔ کہ جماعتی انتظام خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا۔ اس ک متعلق کتاب موطا امام مالک اور قیام الیل مروزی ہیں۔ میں جو الفاظ مروی ہیں وہ درج زیل ہیں۔
عن مالك عن محمد بن يوسف عن السائب بن يزيد ............
"انه قال امر عمر بن الحطاب ابي بن كعب وتميم الداري انيقوما للناس باحدي عشر ركعة" (موطا وقيام الليل للمروزي)
’’حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابن ابی کعب اور تمیم داری کو (نماز تراویح کا امام بنا کر) حکم فرمایا تھا کہ لوگوں کو گیارہ رکعتیں پڑھایا کریں۔‘‘
ان دونوں کتابوں کے الفاظ متفق ہیں۔ کہ باجماعت نماز تراویح کی رکعات کی تعداد آٹھ تھی باقی وتر تھے اس سو ا حدیث کی کسی کتاب سے ثابت نہیں ہوتا کہ کسی خلیفہ کے زمانہ میں مذکور تعاد جماعتی صورت میں آٹھ سے بڑھ کر بیس یا چالیس تک پہنچ گئی ہو اسی لئے گروہ حنفیہ کے بہت بڑے عالم شیخ ابن ہمام نے فتح القدیر شرح ہدایہ میں لکھا ہے۔
فتحسل من هذا كله ان قيام رمضان سنة احدي عشر ركعة بالوتر في جماعة فعله عليه الصلوة والسلام(فتح القدیر جلد اول ص 198 مطبوعہ نولکشور لکھنو)
پس یہ امر بالاتفاق ثابت ہے۔ کہ نمازتراویح کی رکعات بفعل نبوی ﷺ اور بحکم خلیفہ راشد آٹھ رکعت مع وتر گیارہ ہیں اگر کوئی اس سے زیادہ پڑھے تو وہ نفل ہوں گے جیسا کہ شیخ موصوف کی عبارت سے ثابت ہوتا ہے پس یہ ہے ہمارے عمل کی دلیل امید ہے کہ سائل کی تسلی کرنے کواتنا کافی ہوگا۔
اگر کسی صحیح روایت سے ثابت ہوجائے کہ خلافت راشدہ کے زمانہ میں نماز تراویح باجماعت آٹھ رکعت سے زیادہ پڑھی جاتی تھی تو ہمیں اس پر عمل کرنے سے انکار نہیں ہے۔ پس اختلاف کرنے والے اصحاب ہمارے پیش کردہ حوالہ جات کو سامنے رکھ کر مزید دریافت کریں گے۔ تو مذید عرض کیا جائے گا۔ واللہ علم (راقم خادم دین اللہ ۔ ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری یکم رمضان 13 62 ہجری مطابق ستمبر 1943ء) (9 رمضان المبارک اہل حدیث 1362ہجری)
مولانا ابو الوفا ثناء اللہ صاحب نے اخبار اہل حدیث 30 مئی ص 9 میں گیارہ رکعت تراویح کا حوالہ موطا امام مالک وقیام اللیل للمروزی سے پیش فرمایاتھا۔ اخگر صاحب امرتسری جو ایک مدت سے خواب خرگوش میں تھے یکا یک جھنجھلا کر اٹھے اور ''الفقیہ'' 28 جون میں سرسامی ہزیان میں بولنے لگے۔ کہ قیام اللیل مروزی کی تصنیف ہی ن ہی نہیں ہے۔ بلکہ مشہور مورخ مقریزی المتوفی 845 ہجری نے یہ کتاب 760ہجری میں لکھی ہے۔ اور ملتان کے مطبع میں چھپی ہے۔ حالانکہ یہ تینوں باتیں غلط ہیں۔
1۔ نہ تو قیام اللیل مقریزی کی تصنیف ہے۔
2۔ نہ 760 میں لکھی گئی ۔
3۔ نہ ملتان کے مطبع میں طبع ہوئی بلکہ قیام اللیل حقیقت میں اامام محمد بن نصر مروزی کی ہی تالیف ہے۔ مروزی نے اپنی وفات سے آٹھ سال پہلے اس کو 287 ہجری میں تصنیف کیا۔ چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں۔
"وذلك في شهر ربيع الاخر لنصف منه من سنة سمع وثمانين وما تين وفيها بلغت وابو منصور وسعيد بن رجب من اوله الي اخره ...الخ ص" 144
یعنی یہ کتاب ربیع الاخر کے نصف میں 287ہجری میں اختتام کو پہنچی۔ اور ابو منصور و سعید بج رجب نے مجھے ا پنے شیخ (امام مروزی ) پر 23 ربیع الاخر پنچ شنبہ 287ھ کو یہ کتاب پڑھی۔
2۔ مقریزی نے 807ہجری میں اس کتاب کو مختصر کیا۔ نہ کہ 760 میں تالیف کیا۔ مقریزی خود لکھتے ہیں۔
"تم هذا المختصر في نصف يوم النخميس ثمان بقين من جمادي الاخره سنة سبع وثماني ماته ص" 144
یعنی یہ مختصر نصف یوم پنجشبہ 8 جمادی الاخر 807 ہجری میں تمام ہوا'' اس مختصر میں احادیث مرفوعہ جو مکرر تھیں ان کو حذف کردیا۔ اور آثار صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین و تابعین وغیرہ جو اصل کتاب میں بالا سناد مروی تھے۔ ان کی صرف سندوں کو نہیں نقل کیا۔ یہی مختصر شدہ نسخہ آج ہندوستان و مصر وغیرہ میں شائع و زائع ہے پس یہ مقریزی کی تصنیف نہیں ہے۔ بلکہ مقریزی کا مختصر کیا ہوا ہے۔ وہ بھی آٹھ سو سات ہجری میں نہ سات سو ساٹھ میں۔ 3۔ نسخہ مروجہ ملتان کے کسی مطبع میں نہیں طبع ہوا ہے۔ بلکہ رفاہ عام پریس لاہور میں چھپا ہے۔ آگے اس کی تشبیہ جو مسند ابی احنیفہ سے دی گئی ہے۔ وہ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ امام ابو حنیفہ نے مسند میں کوئی کتاب لکھی ہی نہ تھی۔ جس کا ساتویں صدی میں اختصار کیا گیا ہو۔ ومن یدعیٰ علیہ البیان پھر اخگر کی یہ چراغ پائی کہ چودہویں صدی سے پہلے نہ تھی۔ کیسی عجیب ہے۔ ؟ جبکہ خود لکھتا ہے کہ مقریزی نے اس کو لکھا اور مقریزی کا سن وفات بھی 845 ہجری خود ہی لکھاہ ے۔ نویں صدی میں اس کا وجود مان کر چودہویں صدی سے پیشتر اس کے وجود کا انکار کرنا میں نہیں سمجھتا کہ اسے پیر ی کے حافظ پر محمول کروں۔ یا حافظ بنا شد کہدوں۔ یا تناقض فی البیان طرہ یہ کہ اوپر یوں کہا ہے کہ نہ صدیوں سے اس کا وجود کہیں پایا گیا۔
اب مجھ سے سنیے!اور اپنے قصور علم کا اعتراف کیجئے۔ تلاش ہے اس کتاب کا پتہ ہر صدی میں مل سکتا ہے۔ مقریزی کے زمانے میں (نوی صدی) میں اس کا وجود تو آپ کو بھی تسلیم ہے۔ اگر آپ انکارکریں گے تو میں مقریزی کے ہم عصر حافظابن حجرؒ وعلامہ عینی حنفی کو میں اپنی شہادت میں پیش کروںگا۔ کہ ان دونوں ہم زلف بھایئوں نے اپنی اپنی شرح بخاری میں مروزی کے اصل نسخہ قیام اللیل سے صدیا حوالہ جات باسناد نقل کیے ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ کی شہادت بھلاتم کب مانوگے۔ اپنے ہم مزہب عینی کی شرح بخاری جلد پنجم کا صفحہ 357 پڑھو۔ پھر تم کو اس کتاب کے وجود میں مطلق شک نہ رہے گا۔ یہ تو نویں صدی ہجری کی شہادتیں ہیں۔ اس سے اوپر آٹھویں صدی کی شہادت سنو۔ حافظ ابن قیم حنبلی المتوفی 751 ہجری اپنی کتاب الصلواۃ میں مروزی کی صلواہ اللیل سےایک حدیث نقل کرتے ہیں۔
"حيث قال قال محمد بن نصر المروزي في كتابه في الصلوة الخ"
اس سے اوپر چلو اور ساتویں صدی کی شہادت سنو۔ حافظ نواوی المتوفی 676 نے اپنی کتاب تہذیب الاسماء والصفات مطبوعہ لندن ص 122 میں بحوالہ شیخ ابی اسحاق مصنف طبقات الفقہاء محمد بن نصر مروزی کا کتاب مزکور تالیف کرنا نقل کیاہے۔ اسی طرح تلاش کرنے سے اوپر کی صدیوں میں کتاب مذکور کا ثبوت مل سکتا ہے۔ لیکن امام مروزی کے ہم عصر امام محمد بن جریر طبری کی شہادت بھی موجود ہے۔ پس اخگرکا یہ لکھنا صدیوں سے اس کتاب کا وجود نہیں پایا گیا۔ کتنا غلط اور سفید جھوٹ ہے۔ میرا ارادہ اس مضمون میں اس سے زیادہ لکھنے کا نہ تھا لیکن لگے ہاتھوں ان دونوں حدیثوں پر بھی ایک سرسری نظر ڈالنا مناسب معلوم ہوا۔ جن پر دہلی کے علامہ اخگر امرتسری نے جرح کی حدیث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آٹھ رکعت والی پر حاشیہ کتاب سے جرح نقل کر دی ہے۔ کہ اس کا پہلا راوی محمد بن حمید ضعیف ہے (مولوی عبد التواب ملتانی کے حاشیہ نے جو اس کتاب پر ہے۔ درحقیقت اہل ھدیث کو بہت نقصان پہنچایا۔ کہ بلا تحقیق ثقہ راویوں کو مجروح لکھدیا۔ عفا اللہ عنہ علماہ ذہبی نے اس روایت کو جعفر بن حمید سے روایت کای ہے نہ محمد بن حمید سے۔ دیکھو میزان الاعتدال جلد دوم ص 280 پس محمد کے ضعف سے کچھ حرج نہیں۔ جب کہ اس کا بھائی جعفر بھی اس کو یعقوب سے روایت کرتا ہے۔ دوسری جرح عیسیٰ بن جاریہ پر فیہ لین کی ایسی کوئی قادح جرح نہیں ہے۔ جبکہ زہبی جیسے متشدد اس حدیث کو عیسیٰ بن جاریہ ہی کے ترجمے میں نقل کر کے اس کی سند کو حسن کہتے ہیں۔ دیکھو میزان الاعتدال ص 280 ج2 علاوہ ازیں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو علامہ عینی حنفی نے بھی بحوالہ صحیح ابن خذیمہ وصحیح ابن حبان اپنی شرح بخاری میں نقل کیا ہے اور کوئی جرح نہیں کی ہے۔ دیکھو ص 597 ج3 بلکہ مولوی عبد الئی حنفی لکھنوی نے اس کو تعلیق الممجدمیں اصح تسلیم کیا ہے۔ دیکھو حاشیہ موطا امام احمد ص 138 لہذا روایت جابر اصح ہے۔ اوراس میں اور صحاح کی حدیث میں کوئی تعارض نہیں صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی اصطلاح میں رات کی پوری نماز کو وتر بھی کہا گیا ہے۔ اور قیام اللیل وصلواۃ رمضان وغیر ہ بھی جیسا کہ عنقریب میں اپنے دوسرے مضمون میں تفصیل کے ساتھ لکھوں گا۔ ان شاء اللہ دوسری حدیث جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اثر سائب یزید سے مروی ہے اس پر آپ کی کود ساختہ جرح یہ ہے کہ مروزی کو سائب بن یزید سے لقاء نہیں ہے۔ یہ ویسی ہی جرح ہے۔ جیسے ایک دفعہ آپ نے لکھا تھا۔ کہ امام مسلم کو محمد بن سیرین سے لقاء نہیں ہے لہذا حدیث مسلم (پیش کردہ مولانا ثناء اللہ صاحب ) منقطع ہوگئی۔ ایسی ہی باتیں حضرت اخگر کی علمیت کا پردہ فاش کرتی ہیں۔
جناب والا! امام مروزی نے کب کہا کہ میں نے سائب سے سنا ہے۔ مروزی نے تو اس اثر کو بالسناد سائب تک پہنچایاہے۔ جس کو مقریزی نے اس طرح حذف کردیا ہے۔ جیسے سائب کے دوارے اثر بیس والے سے پوری سند مخدوف ہے جو کو عینی نے شرح بخاری میںمروزی سے سائب تکبالاسناد نقل کیا ہے ۔ سنئے۔ !مروزی نے اس اثر مذکور کو ابن اسھاق سے انھوں نے محمد بن یوسف سے انہوں نے سائب سے روایت کیا ہے ۔ "فافدفع الا يرادو حصل المراد" (عاجز محمد ابو الاقاسم بنارسی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب