السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رکعت رکوع میں مل جانے سے مل جائے گی۔ یا نہیں۔ کیونکہ رکوع میں حضرت ابو بکرہرضی اللہ تعا لیٰ عنہ صف کے بارہ رکوع کی صورت بنا کر نماز کے باہر صف سے مل گئے۔ تو اس حرص پر اللہ کے رسول ﷺ نے دعا فرمائی۔ کہ اللہ تمہاری حرص کو زیادہ کرے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس روایت مدرک رکوع کا مدرک رکعت ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ نہ عبارۃ النص سے نہ اشارۃ النص سے اور نہ دلالۃ النص سے اور نہ اقتضاء النص سے صرف صحابی کی نیک نیتی کے لئے دعا ہے۔ ج3 نمبر22
ابو بکرہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی حدیث سے استدلال غلظ ہے۔ اس لئے کہ اول تو اس کو اس فعل سے منع کردیا۔ کہ تم آئندہ ایسا نہ کرنا۔ پھر جو ایسا کرے۔ وہ رسول اللہﷺ کا نافرمان ہے۔ دوم اسی حدیث میں ہے۔ کہ حضورﷺ نے اس کو حکم دیا۔ کہ جو فرض یارکن تم سے رہ گیا ہے اس کوپورا کرو۔ فرمایا۔
"زادك الله حرصا ولا تعد صل ما ادركت واق ما سبق اخرجه البخاري في جز القراءة خلب الامام ص "47
نوٹ۔ اس کی پوری پوری تحقیق کےلئے حضرت مولانا ظفر عالم میرٹھی کا قابل قدر رسالہ رکوع کی رکعت ملاحظہ فرمایئے۔ ''محمد دائود راز)
دیگر! راحج یہ ہے کہ مدرک رکوع کی رکعت نہیں۔ کیونکہ جن اصھاب کے نزدیک فاتحہ خلف الامام فرض ہے۔ ان کے نزدیک دو رکن فوت ہوتے ہیں۔ 1۔ فاتحہ 2۔ قیام۔ اور جن علماء کے نزدیک قراءت فاتحہ فرض نہیں۔ ان کے نزدیک ایک رکن قیام فوت ہوا ایک رکن کا فوت ہونا بھی موجب عدم تمام ہے۔ اس کے علاہ مدرک رکعت سمجھنے کی کوئی دلیل نہیں۔ جن میں سے ان دو یا ایک رکن سے بے اعتنائی کی جائے۔ واللہ اعلم۔ 26 مئی 1933ء)
آپ سے مسئلہ رکوع کا دریافت کیا گیا تھا۔ کہ جب کوئی آدمی رکوع میں ایام کے ساتھ شامل ہوجائے۔ اس کی رکعت ہوجاتی ہے یا نہیں؟ مسئلہ قرآن مجید یا حدیث سے ثابت کر کے جواب تحریر فرمایئں بلکہ اپنے اہل حدیث میں شائع کردیں۔ آپ نے اخبار اہل حدیث مورخہ 26۔ 5۔ 33ء کے ص13 پر سوال درج کر کے جواب تحریر فرمایا جو تسلی بخش نہیں ہے۔ آپ نے اس مسئلہ کے متعلق قرآن مجید یا حدیث کا تو زکر تک نہیں کیا صرف قیاس سے ہی کام لیا ہے۔ جو قرآن مجید یا حدیث کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ اب گزارش ہے کہ آپ اس مسئلہ کو قرآن مجید یا حدیث سے ثابت کر کے اخبار میں دوبارہ شائع کردیں۔ اور ایک پرچہ میرے نام بھی روانہ کرادیں تاکہ تسلی ہوجائے۔ مولوی صاحب نہایت ادب سے گزارش کرتا ہوں۔ جب تک میں شک میں رہوں گا اور جو گنا ہ مجھ پر عائد ہوگا۔ اس کے زمہ دار آپ ہوں گے۔ (تاج الدین راجپوت سکنہ حافظ آباد)
جواب۔ اسی جواب کو بصورت دیگر لکھا جاتا ہے۔
چونکہ بحکم ۔ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ ﴿٢٣٨﴾سورة البقرة
قیام فرض ہے۔ اور "بحکم لا صلوة الا بفاتحة الكتاب" (الحديث) قرات فاتحہ ضروری ہے۔ اور رکوع کی حالت میں دونوں چیزیں میسر نہیں ہوتیں۔ قائل کے پا س کوئی آیت یا حدیث ایسی ہو۔ جس سے استثناء جائز ہوسکے۔ تو ہم بخوشی اس کو سننے کو تیار ہیں۔ (26 مئی 1933)
سوال۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مدرک رکوع کی رکعت ہوئی ہے یا نہیں۔ استدلال مستدل ابو ہریرہ کی ان دو روایتوں سے ہے۔
"من فاتته قراءة القران فقد فات خيرا كثيرا واذا جئتم الي الصلوة ونحن سجود فاسجدوه ولا تعدوها شيا ومن ادرك ركعة من الصلوة فقد ادرك الصلوة"
سو مستدل کا استدلال ان دونوں روایتوں سے صحیح ہے یا نہیں بینوا توجروا؟
الجواب۔ مدرک رکوع کی رکعت نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے
"قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لا صلوة لمن لم يقرء بفاتحة الكتاب" (متفق علیہ)
اور جزء القراۃ للامام البخاری میں ابو ہریرۃ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے مروی ہے۔
"ان ادركت القوم ركوعا لم تعتد بتلك الركعة"
’’یعنی اگر تم قوم کو رکوع میں پائو۔ تو اس رکعت کو شمار نہ کرو۔‘‘ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں۔
"هذا هو المعروف عن ابي هريرة موقوفا واما المرفوع فلا اصل له"
یعنی یہ روایت ابو ہریرہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے موقوفا معروف ہے لیکن یہ روایت مرفوعا بے اصل ہے۔ اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی دونوں روایت مذکورہ سے استدلال صحیح نہیں ہے اس لئے ان دونوں روایتوں میں رکعت ہونے نہ ہونے کا زکر نہیں ہے بلکہ مسکوت عنہ ہے۔ پس ان دونوں روایتوں کو ان روایات کی طرف پھیرنا چاہیے جن میں صراحتا مذکور ہے کہ وہ رکعت نہیں ہوتی ہے۔ علاوہ بریں حدیث میں من ادرک رکعۃ الخ میں رکعت سے رکوع مراد لینا جائز نہیں۔ کیونکہ یہ معنی مجازی ہے۔ اور لفظ کا معنی مجازی مراد لینا بلا قرینہ کے جائز نہیں اور اس حدیث میں کوئی قرینہ نہیں ہے۔ اور ساتھ اس کے یہ حدیث ضعیف بھی ہے۔ (کتبہ عبد الرحمٰن گورکھپوری عفا اللہ عنہ ۔ سید محمد نزیر حسین دہلوی۔ (فتاویٰ نزیریہ جلد اول ص286)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب