سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(297) بعد نماز فرض ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بدعت ہے؟

  • 6085
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 988

سوال

(297) بعد نماز فرض ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بدعت ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعد نماز فرض ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بدعت ہے؟اگ نہیں تو جو شخص بدعت خیال کرے۔ وہ کس درجے کا مسلمان ہے۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعد نماز فرض ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا سنت ہے نہ بدعت کیونکہ ایک دو ضعیف روایتوں میں ثبوت ملتا ہے۔  جس سے نہ سنت ثابت ہوتی ہے نہ بدعت کہہ سکتے ہیں جو اس کو بدعت کہتا ہے۔ اسے حضرت میاں صاحب دہلوی کا فتویٰ اس مسئلہ کے متعلق دیکھنا چاہیے تاکہ بدعت کہنے میں جلدی نہ کرے۔ 

شرفیہ

بات  یہ ہے کہ اس معاملہ میں افراط وتفریط ہورہی ہے۔ بعض مجوز ترک کو کبھی بھی جائز نہیں جانتے یہ بھی زیادتی ہے۔ اور فریق مانع کا یہ غلو ہے۔ کہ اس دعاسے کہ جوبحکم حدیث نبوی ﷺ بعد فرائض اٹھا کر پھیلا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے مطلب کی درخواست کی جاتی ہے۔ اس لئے کہ حضورﷺ نے بھی بعد فرائض برفع یدین دعا کی ہے۔ اورامت کو بھی ترغیب دی ہے۔  اور فرمایا ہے کہ یہ وقت قبولیت دعا کا ہے۔ پھر بھی یہ فرمایا کہ دعا کا یہ طریقہ ہے کہ ہاتھ اٹھا کردعا کی جائے۔  اس لئے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلا تا ہے۔  تو اللہ تعالیٰ کو اپنے دربارسے اپنے بندے کو خالی ہاتھ پھیرنے سے شرم آتی ہے۔ یعنی پھر قبول فرماتا ہے۔ تو ان مانعین کو اسے سے سخت نفرت ہوتی ہے اور اٹھ کر ایسے بھاگتے ہیں۔ جیسے کوئی ہائب سے۔ بھاگتا ہے گویا یہی سنت کے عامل ہیں۔ دوسرے نہیں کہتے کیا ہیں۔ بعض یہ کہتے ہیں یہ آپﷺ سے ثابت ہی نہیں نہ قولاًنہ فعلاً بعض کہتے ہیں اگر ہے تو اس پر دوام ثابت نہیں یا لزوم ثابت نہیں کوئی ان سے پوچھے جناب جو کام آپ کرتے ہیں کیا یہ فعل یا قول رسول اللہﷺ سے اسی طرح ثابت ہے۔ جیسے آپ سلام پھیرتے ہوئے جوتی سنبھال اٹھ بھاگتے ہیں۔ پھر کیا یہ اگر ہے تو اس پر  رسول اللہﷺ کا دوام ثابت ہے۔  یا آپ نے اس کولازم قرار دیا ہے اور اگر یہ آپ ثابت نہیں کرتے اورآپ نے ا س کو لازم کرلیا ہے تو پھر

''ایں گنا ہست کہ درشہر شما نیز کنند''سچ ہے۔

ہر یکے ناصح برائے دیگراں                    ناصح خودیافتم کم در جہاں

 میں کہتا ہوں اصل بات یہ ہے  کہ بحکم  

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي﴿٣١سورة آل عمران

جو سنت رسول اللہﷺ سےثابت ہوجائے اس میں یہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں کہ حضور ﷺ نے اس سنت پر بلکہ اپنے فعل پر دوام کیا  ہے یا قولا اس پر دوام کا حکم دیا ہے۔ پھر جب تک کہ اس کا نسخ یا کوئی اور خلاف وجہ ثابت نہ ہو اس پر بلا چون وچرا عمل جائز باعث ثواب ہے۔ ورنہ طرفین کا بہت سی سنتوں پرعمل کرنا مشکل ہوگا جن پر ان کا عمل ہے۔  اوردوام کی نص صریح باقی رہا استدلال دوام پر کان یفعل کذا سے تو یہ صحیح نہیں۔ یہ حکم اکثری ہے۔ کلی نہیں۔ بلکہ بعض مقام میں اکثری بھی نہیں۔ آپ مشکواۃ باب القراۃ فی الصلواۃ یا نیل الاوطار وغیرہ۔ بلکہ احادیث منقولہ دریں تحریرہی کو ملاحظہ کرکے تمام حدیثوں کے کان یفعل کذا کو آپس میں تطبیق دیجئے۔ تو آپ کومعلومہوگاکہ دوام نہیں ورنہ تناقص معلوم ہوگا۔ "وليس كذالك في نفس الامريل في فهمالفاهم" خلاصہ یہ کہ اگر مانعین کے دلائل ثابت بھی ہوں تو انسے ان کے عمل کا جواز ثابت  صرف ہوگا نہ کے دوام اور یہ نہیں کہ اس کے سوا جو اورحدیثوں سے ثابت ہے۔ وہ جائز نہ ہو بلکہ وہ راحج ہوگا۔ اس لئے کہ مجوز مثبت فعل یا قول رسول اللہﷺ ہے اور مانع عدم کا مدعی اور عدم سے وجود اولیٰ و افضل ہے جیسے بغرض تسلیم قول احناف رفی یدین فی الصلواۃ وعدم رفع کو مدعی  رفع یدین مثبت وجود ہے۔  اور اس کا خلاف عدم محض لہذا مثبت مقدم ہے۔ ما فی پر کما تقرر فی اصول الحدیث اور میں نے مانعین کے دلائل کولفظاگرسے اس لئے تعبیر  کیا ہے۔  کہ ان کے دلائل ترک دعا یا ترک دعا برفع الیدین پر نص نہیں۔ اس لئے کہ مسند عبد الرزاق کی روایت

"عن انس قال صليت وراء النبي صلي الله عليه وسلم فكان ساعة يسلم يقوم ثم صليت وراءبي بكر فكان اذا سلم وثلب فكانما يقزم عن رضفه انتهي ولم يذكر سنده بكمال ولا صحته اوسقمه"

پس بفرض صھت اس میں عدم دعا یا دعا برفع یدین کی نفی کی نص نہیں صرف مانعین کا استنباط ہے اس لئے کہ سلام پھیرنے کی ساعت میں اٹھنے سے دعایا رفع یدین کی نفی لازم نہیں دعا یا رفع یدین بدیں قلیل مدت میں بھی ہوسکتا ہے بلکہ ہوتا تھا کما سیاتی یہ قلت کثرت زکرمقابلہ میں ہے کہ آپ نے زکر کیا کبھی زائد امام شوکانی نے قعدہ  اولیٰ میں صلواۃ النبی ﷺ کی بحث میں یہی وجہ لکھی ہے۔ جو میں نے لکھی ہے۔ ج2 ص242 پس بعد فرض نماز جلدی اٹھنے سے دعا برفع یدین کی نفی ثابت نہیں۔ بوجہ مزکور پس ثابت ہوا کہ  مانعین کا استدلال صریح سنت سے نہیں۔  ہاں سنت سے انکار استنباط واجتہاد غلط ہے۔  جس پر اتنا ناز ہے کہ الٹا چور کوتوال کوڈانٹے۔ سچ ہے دعویٰ اتنا بڑا اور دلیل ایک بھی نہیں خلاصہ یہ کہ اگر کوئی صاحب صریح سنت سے ثابت کردیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے۔  کہ بعد ننماز فرض بعد سلام فورا بلادعا بلارفع الیدین اٹھنا لازم ہے۔ یا کوئی صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  سے ہی تصریح کردیں۔  کہ رسول اللہﷺ فرض نماز کے بعد فورا سلام پھیر کر بلا دعا بلا رفع الیدین اٹھ جایا کرتے تھے۔ کبھی بھی آپﷺبعد سلام زرا  دیر بھی نہیں بیٹھتے تھے۔  اور نہ ہی آپ نے بعدسلامدعا یا  زکر وہیں بیٹھ کر کیا یا ہاتھ نہیں اٹھائے۔  تو بے شک مانعین کااستدلال صحیح ہوگا۔ مگر صحیح حدیث سے ثابت کرنا ہوگا۔  ایسی ویسی بے ثبوت روایت سے نہیں۔ واز لیس فلیس او ر یہ نہ ہوا اور نہ ہی ان شاء اللہ ہوگا۔ تو پھرمجوزین کا عمل بالسنت ثابت ہوا اس پر عمل صحیح دگرہیچ رہا۔ اعتقاد لزوم ووجوب تو یہ سوا فرائض کسی سنت کا بھی صحیح نہیں عمل صحیح ہے اب مجوزین کے دلائل ملاحظہ ہوں۔  جن میں سے  حضورﷺ سے بعد نماز فرض ازکار و ادعیہ قلیلہ وکثیر ہ ثابت ہیں۔  اور فع یدین بالدعا بھی اور آپ نے  ترغیبب بھی اس امر پر فرمائی ہے۔  اورآپ کبھی کبھی بعد نماز فرض جلدی نہیں بھی اٹھتے تھے۔  خاصی دیر وہاں جلوس افروز ہوتے۔

"عن جابر بن سمرة قال كان رسول الله صلي الله عليه وسلم لا يقوم من مصلاه الذي يصلي فيه الصبح حتي تطلع الشمس فاذا طلعت الشمس قام الحديث بطوله" (صحيح مسلم مشكوة ج3 ص 406)

"عن ام سلمة قالت كان النبي صلي الله عليه وسلم اذا سلم قام النساء حين يقضي تسليمه وهو يمكث في  مكانه يسير اقبل ان يقوم الحديث" ( رواه احمد والبخاري نيل الاوطار ص265)

"وعن  يذيد ابن الاسود قال حججت مع رسول الله  صلي الله عليه وسلم حجته الوداع قال فصلي بنا رسو ل الله صلي الله عليه وسلم الصبح ثم انحرف جالسا فاستقبل بوجه وذكر قصة رجلين اللذين لم يصليا ونهض"  (رواه احمد وابودادد والنسائي والترمذي وقال حسن صحيح نيل الاوطار ج2 ص263 )

"وعن عائشة قالت كان رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا سلم لم يقعد الا مقدار ما يقول اللههم انت السلام ومنك السملام تباركت يا ذولجلال والاكرام"(رواہ احمد ۔ وترمذی۔  و ابن ماجہ نیل 262 ج2)

"عن ام سلمة ان النبي  صلي الله عليه وسلم كان يقول اذا صلي الصبح حين يسلم اللهم اني اسئلك علما نافعا ورزقا طيبا وعملا متقبلا" (رواہ احمد و ابن ماجہ۔ وابن شیبہ۔ نیل الاوطار ج2 ص 26)

خلاصہ یہ کہ بعد نماز فرائض ہاتھ اٹھا کردعا کرنا رسول اللہﷺ کے فعل اور قول دونوں سے ثابت ہے۔ اوردوام کی تلاش لغو ہے۔ ورنہ مانع کو بھی اپنے طریق یعنی سلام پھیرتے ہی اٹھ بھاگنے کا  پہلے ثبوت پھردوام کا ثبوت دینا ہوگا۔ نیز یہ کہ بعد فرائض آخر کیا صورت اختیا ر کی جائے اس کا ثبوت بذمہ مانع ہے۔ جب ساری باتیں ثابت ہوچکیں۔ تو اب  ''ہیت کذائیہ''کی پچ فٖضول اورصرف بہانہ بازی ہے۔ جو لغو ہے۔ سنت سے بعد از فرائض ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اوپر ثابت ہوچکا امام کے ساتھ دعا کرنا بھی سورہ فاتحہ کے بعد آمین بلند آواز سے کہنے پر اشارہ ہے۔  نیز جماعت میں قبولیت کی بھی امید زائد ہے۔ اور اس میں اتحاد ومحبت واتفاق کا زیادہ ہونا بھی ہے۔ صحیح بخاری کی طویل حدیث میں ہے کہ جب بہت لوگ مل کر اللہ تعالیٰ کا زکر اور دعا کرتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ ان کا ہر حال فرشتوں سے دریافت کرتا ہے کہ وہ کیا مانگتے ہیں۔ فرشتےکہتے ہیں وہ جنت مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم گواہ رہو میں نے ان کو بخش دیا۔ مشکواۃ ج1 ص197 یہ فائدہ جماعت میں مل کردعا مانگے کا ہے۔ خصوصا بعد فرائض خصوصا برفع یدین خصوصا جماعت کے ساتھ مل کر دعا کرنے میں اور اگرایسے ہی بے فائدہ حجت بازی سے یا مطالبہ دوام''یا ہیت کذایئہ''کے عذر سے ٹالیں گے۔  تو پھر جن سنتوں پر وہ عمل کرتے ہیں۔  ان پر بھی یہی اعتراض ہوگا۔  مثلا بعد   تکبیر تحریمہ دعائے ثناء تسبیحات رکوع وسجود الغرض ہرایک زکر دعا مع ہیت کزایئہ بالدوام ایسے ہیں۔  او پھر بہت سی سنتیں ہیں۔  جن پر عمل عموما اہل حدیث کا ہے۔  مگریہ ''ہیت کذایئہ'' دوام ولزوم کا ثبوت صریح نہیں۔ ولعل فيه كفاية لمن له دراية وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٢٥سورة يونس

 (ابو سعید شرف الدین دہلوی)

تشریح

از حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مبارکپوری احادیث سے صرف اس قدر ثابت ہوتا کہ فرض نماز کے بعد ہاتھاٹھا کر دعا کرنا سنت ہے  لیکن اس کا التزام یہاں تک کہ اس کے تارک پر انکار و ملامت کیا جائے بلاشبہ بدعت ہے۔ مطلق جواز وسنت کے ثبوتکے لئے تحفۃ الاحوزی دیکھئے اور التزام کے بدعت ہونے کےلئے الاعتصام للشاطبی پڑھیے میں بغیر التزام کئے ہوئے کبھی کبھی  ہاتھ اٹھا کر دعا کرلیا کرتا ہوں۔ فرائض کے بعد ہاتھ اٹھا کردعا کرنے کو مطلقا  بدعت کہہ دینا غلو اور زیادتی ہے۔  (مرسلہ مولانا عبد الروف جھندۓ نگری ) نقل فتویٰحضرت مولانا سید نزیر حسین)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 500

محدث فتویٰ

تبصرے