سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(293) نقل فتویٰ مولانا شاہ عبد لعزیز صاحب -قراءۃ فاتحہ خلف الامام

  • 6081
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1668

سوال

(293) نقل فتویٰ مولانا شاہ عبد لعزیز صاحب -قراءۃ فاتحہ خلف الامام

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نقل فتویٰ مولانا شاہ عبد لعزیز صاحب قدس سرہ - دوبارہ قراءۃ فاتحہ خلف الامام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 نالائق و ناکارہ خلائق محمد غلام اکبر خان سنی محمدی بھایئوں کی خدمت بابرکت میں عرض کرتا ہوں۔ کہ یہ ایک فتویٰ مولانا شاہ عبد لعزیز صاھب محدث دہلوی قدس سرہ۔کا ہے۔  کہ جسے علماء کلکتہ نے 1256؁ہجری میں  جناب مرزا کریم بیگ صاحب مرحوم کے اس مجموعہ سے جس میں انہوں نے تمام خاندان حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کے فتووں کو جمع کیا ہے۔ چھاپ کر عالم میں شائع کیا تھا اس عاجز نے اس فتوے کو واسطے فائدہ عام مومنین کے بخواہش چندا احباب دین باعانت محبی سراج دین و مشفقی میان انعام اللہ صاھب کے 1198؁ہجری میں طبع کرادیا۔ اللہ تعالیٰ عام مومنین کو اس سے فائدہ  بخشے۔ اور رسالہ مذکورہ مطبوعہ کلکتہ عاجز کے پاس موجود ہے۔ جن حضرات کو اس میں شک  واقع ہو۔وہ اس رسالہ کو زرا تکلیف فرما کر بچشم خود دیکھ جاویں۔

فتویٰ خاندان دہلوی بابت فاتحہ خلف الامام

حضرت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب کے فتوے کا اردو ترجمہ ہدیہ ناضرین کیا جاتا ہے۔ آپ کا اصل فتویٰ فارسی میں ہے۔(راز)

سوال۔ سورہ فاتحہ پڑھنی مقتدی کو امام کے پیچھے بہ لہاظ حدیث "لا صلواة الا بفاتحةالکتاب"۔اوربلحاظ آیت شریف ۔ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا

 کیا حکم ہوگا۔اور امام ابو حنیفہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ الحمد پڑھنا امام کے پیچھے منع ہے۔ اور امام شافعی کے نزدیک بدوں پڑھے نماز جائز نہیں۔کیا کرنا چاہیے اورکس کے فتوے پر عمل بہتر ہے۔؟

جواب۔ پڑھنا سورہ فاتحہ کا مقتدی کو امام کے پیچھے امام ابو حنیفہ کے نزدیک منع ہے۔اور امام  محمد کے نزدیک امام کے آہستہ پڑھنے میں (نماز سری میں) جائز بلکہ اولیٰ ہے۔ اورنزدیک امام شافعی کے بغیرسورۃ فاتحہ پڑھے نماز جائز نہیں۔ اور نزدیک فقیر کے بھی قول امام شافعی کا ترجیح رکھتا ہے۔ اور بہتر ہے کیونکہ بلحاظ حدیث صحیح لا صلواۃ الا بفاتحۃ الکتاب کے نماز باطل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اور قول امام ابو حنیفہ کا  جابجا وارد ہے۔ کہ جس جگہ حدیث حسیح وارد ہو۔ اور میری بات اس کے خلاف پڑے۔ تو میرے قول کو ترک کر کے حدیث پر عمل کرنا چاہیے۔ اور مطلب آیت کریمہ کا یہ ہے کہ جس وقت امام دوسری سورت ملادے تو مقتدی چپ رہے۔ اورسنے تاکہ سورہ فاتحہ کےلئے کہ ام  الکتاب ہے  اورمستثنیٰ ہے بعض احادیث صحیحہ کے مفہوم سے اورعلماء محققین  و محدثین ومسفسرین نے اس باب میں بہت گفتگو کی ہے۔ بالاخر تجویز یہ ہوئی کہ سورہ فاتحہ پیچھے امام کے مقتدی پڑھے۔ اس طور کے جس وقت امام لفظ الحمد پڑھے۔ مقتدی سنے اور  کہے الحمد للہ آخر سورہ تک اسی طورسے باآہستگی ملادے۔ اور جب امام آمین پر پہنچے تو سب مقتدی پکار کر آمین کہیں۔ اوراس باب میں صحیح بخاری میں بھی ایک حدیث وارد ہے۔ اب شان نزول موافق بیان اورتحقیقات شیخ کامل شاہ والی اللہ صاحب  محدث دہلوی کے معلوم کرناچاہیے۔ کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ کی مسجد میں نماز پرھتے تھے۔ اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  بھی آپ کے پیچھ نماز پڑھتے تھے۔ اور جس سورت کو آپ جہر سے پڑھتے۔ مقتدی بھی آہستہ سے اس کو پڑھتے۔ جب سورہ فاتحہ کوپڑھ کر

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىٰ ﴿٢﴾ شروع کیا تو صحابہ بھی بنظر اتباع پڑھنے لگے اسی اثناء میں یہ آیت نازل ہوئی۔تب رسول اللہﷺ نے فرمایا قراۃ امام قراۃ مقتدی کی ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے  کہ یہ آیت دوسری سورہ کے منع میں نازل ہوئی نہ کہ سورت فاتحہ کے لئے۔اورپھرسب صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  پیچھے رسول اللہ ﷺ کے سورہ فاتحہ ہمیشہ ادا کرتے رہے۔کبھی آپ نے منع نہ فرمایا پس لازم ہے۔ کہ سورہ فاتحہ کو مقتدی امام کے پیچھے پڑھا کریں۔ تابعداروں میں مفسرین اور محدثین کا داخل رہیں۔ اور سورہ فاتحہ کے چھوڑنے میں خلاف حدیث صحیح کے ہوگا۔اور کیا تعجب ہے کہ صحت اس حدیث کیامام ابوحنیفہ کو نہ پہنچی ہو۔اورجب کہ صدہا اور ہزار ہا علماء محققین مثل امام بخاری وصاھب مسلم وغیر ہ پر صحت اس کی ثابت ہوگئی۔تواس کے چھوڑنے میں مطعون ہوگا۔انتھیٰ

(مرسلہ مولوی عبد لعزیز قلعہ میاں سنگھ گجرانوالہ اہل حدیث امرتسر ص10 11 جمادی الثانی 1953ء)

قاریئن کرام! کو معلوم ہوگا کہ شاہ عبد العزیز و شاہ ولی اللہ صاحب کہاں تک حق بجانب ہیں۔ کیا ان کا یہ قول  قابل عمل نہیں۔؟ سلیم الطبع حضرات فورااس پر عمل پیرا ہوکر ثواب دارین کے مستحق ہوں گے۔ لیکن جو لوگ تقلید کے پیچھے اپنی قوت مدرکہ سلب کرچکےہیں۔اورہٹ درھرمی کا  مادہ جن کے رگ رگ میں پیوست ہے۔ وہ کسی حالت میں اس پر عمل کرنے کےلئے تیار نہ ہوں گے۔ اور ایسے لوگ میری تحریر سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ تو ان لوگوں کےلئے رکھا گیا جن کو حق کی تلاش منظور ہے۔حضرت مولانا عبد الئی صاھب لکھنوی عمدۃ الرعایہ میں فرماتے ہیں۔

"وروي عن محمد انه استحسن قراءة الغاتحة خلف الامام في السريه وروي مثله عن ابي حنيفة سرح به في الهداية والمجتبي شرح مختصر القدوري وغيرهما وهذا هو مختار كثير من مشا ئخنا"

یعنی امام محمد سے مروی ہے۔کہ انھوں نے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کو سری میں مستحسن بتایا ہے۔ اور اسی طرح امام ابو حنیفہ سے روایت کیاگیا ہے۔اور اسی کو ہمارے بہت سے مشائخ نے اخیتار کیا ہے۔

عبد اللہ ابن مبارک (شاگرد امام اعظم ) فرماتے ہیں۔ انا اقرءخلف الامام والناس يقرون الا قوم من الكوفين  میں اور لوگ امام کے پیچھ پڑھتے ہیں۔مگرکوفہ والوں سے ایک قوم (یہ اشارہ ہے امام اعظم صاھب کی طرف ) علامہ شعرانی لکھتے ہیں۔

"لابي حنيفة ومحمد قولان احدهما عدم وجوبها علي الماموم بل ولا تسن وهذا اقولهما القديم وادخله محمد في فصانيفه القديمة انتشرت النسخ الي الاطراف وثامنهما استحسانها علي سبيل الاحتياط وعدم كراهتما عند المخافة للحديث امرفوع لا تفعلواالابام القران وفي رواية  لا تقر وابشئ اذا جهرت الابام القران وقال عطا كانوا يرون علي الماموم القراة في ما يجهر فيه الامام في ما ليس فرجها من قولهما الاول الي الثاني احتياطا انتهي كذا في غيث لغمام حاشية امام الكلام"

’’خلاصہ  ترجمہ اس کا یہ ہے۔ کے امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے دو قو ل ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدی کو الحمد للہ پڑھنا  نہ واجب ہے۔ اور نہ سنت اور ان  دونوں امام کا یہ قول پرانا ہے۔ اورا مام محمد نے اپنی قدیم تصنیفات میں اس قول  کو درج کیا ہے اور انکے نسخ اطراف وجوانب میں پھیل گئے۔ اوردوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کو نماز میں الحمد پڑھنا مستحسن ہے۔ احتیاطا اس واسطے کہ حدیث میں مرفوع میں با آواز بلند قرات کروں۔ تو تم لوگ کچھ نہ پڑھو۔ مگرسورہ فاتحہ اور عطا نے کہا عطا کے متعلق امام اعظم ؒفرماتے ہیں۔ ما رايت فيمن لقيت افضل ن عطاء  یعنی عطارسے افضل میں نے کسی کونہی دیکھا۔(تخریج ذیلعی ج1 ص 248) کہ لوگ (صحابہ وتابعین )کہتے تھے کہ نماز سری وجہری دونوں میں مقتدی کو پڑھنا چاہیے۔پس امام ابو حنیفہ اور امام محمد نے احتیاطااپنے قول سے دوسرے قول کی طرف رجوع کیا۔ علامہ عینی شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں۔‘‘

"بعض ا صحابنا يستحسنون ذلك علي سبيل الا حتياط في جميع الصلوة وبعضهم في السرية فقط وعليها فقهاء الحجاز والشام كذا في غيث الغمام ص "106

یعنی ہمارے بعض فقہاء حنفیہ نے ہر نماز میں خواہ سری ہویاجہری امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کواحتیاطا مستحسن بتاتے ہیں۔ اور بعض فقہاء فقط سری میں مگہ اور مدینہ اور ملک شام کے فقہائ کا اسی پر عمل ہے۔ اورشیخ الاسلام مولانا عبد الرحیم صاحب فرماتے ہیں۔لوكان في فمي يوم القيمة جمرة احب الي من ان يقال لا صلوة لك اگر قیامت کے روز میرے منہ میں آگ ہو تو یہ بہتر ہے۔اس بات سے کہ کہا جائے کہ تیری نماز نہں ہوئی۔ مولانا موصوف کے اس کلام سے اشارہ ہے کہ اس گھڑی اورضعیف حدیث کی طرف کہ جو شخص امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھے گا تو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ بھری جائےگی۔ ملاجیون صاھب نور الانوار تفسیر احمدی میں لکھتے ہیں۔

فان رايت لطائفة الصوفية والمشا ئخين الحنفية تراهم يستحسنون قراءة الفاتحه للموتم كما استحسنه محمد ايضا احتياطا فيما روي عنه انتهي

’’اگر جماعت صوفیہ اور مشائخین کو دیکھو گے تو تمھیں معلوم ہوگا کہ یہ لوگ امام کے پیچھے الحمد  پڑھنے کو مستحسن بتاتے ہیں۔ جیسا کہ امام م حمد استحسان کے قائل تھے۔‘‘

اور مولانا شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو افضل بتا یا ہے۔دیکھو۔حجۃ اللہ بالغہ اور اپنے والد ماجد شاہ عبد الرحیم صاھب کے متعلق فرماتے ہیں۔

’’مخفی نماند کہ حضرت ایشاں در اکثر امور موافق مذہب حنفی عملمے کردندالا بعض چیز ہاکہ بحب حدیث یابا وجدان مذہب دیگر ترجیح مے یافتند ازاں جملہ آنست کہ در اقتداء سورہ فاتحہمی خواندندوددرجنازہ نیز‘‘

اورمولانا محمد اسماعیل شہید برادرز ازہشاہ عبدالعزیز تنویرالعینین میں فرماتے ہیں۔

"يظهر بعد التامل في االدلائل ان القراءة اولي من تركها افقد قولنا فيه علي قول محمد"

تامل کے  بعد دلائل میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ سورہ فاتحہ امام کے پیچھے پڑھنا بہتر ہے نہ پڑھنے سے پس اس مسئلہ میں ہمارا قول امام محمد ؒ کے قول کے موافق ہے۔ لباب الالباب حنفی شرح ہدایہ میں لکھتے ہیں۔

"انه لم يعتبر محمد خلاف من قال تفسد صلوة المقتدي بقراءة خلف الامام لانا ء بعيد عن قواعد الشرع انتهي زبدة الالباب"

’’یعنی امام محمد نے نہیں اعتبار کیا اس شخص کے خلاف کرنے کا جو کہتا ہے کہ امام کے پیچھے پرھنے سے مقتدی کی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔کیونکہ یہ بات قواعد شرع سے بعید ہے۔‘‘ تفسیر کبیر میں امام فخر الدین رازی نقل فرماتے ہیں۔

وافقنا ابوحنيفة في ا ن القراءة خلف ا لامام لا تبطل الصلوة انتهي

’’ہماری ابو حنیفہ نے کی اس بات میں کہ الحمد امام کے پیچھے پرھنے سے نماز باطل نہیں ہوتی۔‘‘

فتویٰ مذکور کی سند

کے متعلق مولوی محمد سعید صاحب بنارسی مرحوم تعلیم المبتدی میں لکھتے ہیں کہ یہ فتوےٰ میں نے مولوی محمد یعقوب صاھب مرحوم دیوبند ی کے مجموعہ قلمی میں جو انہوں نے اپنے والد ماجد مولانا مملوک علی صاحب مرحوم سے اور  انہوں نے مولانا عبدالئی صاھب مرحوم نواسہ شاہ عبد العزیز صاھب سے حاصل کیا تھا بچشم خود دیکھا تھا اور نیز علماء کلکتہ نے 1256ہجری میں بزمانہ شاہ محمد اسحاق صاحب دہلوی مجموعہ مرا کریم اللہ بیگ صاحب ومرزا رحمت اللہ بیگ صاحب مرحوم سے جو انہوں نے مولانا عبد الحئی صاحب مرحوم سے حاصل کیا تھا۔ نقل لے کر طبع کرایا تھا۔ اور نیز مولانا جلا ل الدین احمد صاھب مرحوم اپنے رسالہ زبڈۃ الالباب میں جو بزمانہ مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب مرحوم۔دہلوی۔1256ہجری میں طبع ہوا تھا۔ فتویٰ مذکور کی سند نقل فرماتے ہیں۔ انتھیٰ ۔نسیم الانصاری مئوائمی الہ آبادی ۔(یسائر علوم حاضرہ)موائمہ اعظم گڑھ اہل حدیث امرتسر ص9)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 492-498

محدث فتویٰ

تبصرے